"تبصرہ برشہید کربلا ویزید ” پر اشکالات کا جائزہ

*عبدالعلیم اعظمی قاسمی*

محدث کبیر کی مایہ ناز علمی تحقیقی تصنیف "تبصرہ برشہید کربلا و یزید” شائع ہونے کے بعد اھل علم میں مشہور معروف ہوئی ، غیر جانبدارانہ طور پر دلائل کا جائزہ لینے والے محققین نے اس کو اس سلسلے میں حرف آخر اور قول فیصل کا درجہ دیا ، یہ کتاب مضبوط دلائل اور مستند ماخذ کا عظیم شاہکار ہے ، آج کل چند لوگ جو اپنے کو وقت کا سب سے بڑا مناظر اور محقق گردانتے ہیں ، جب وہ دلائل سے اس کتاب کا رد کرنے سے عاجز آجاتے ہیں تو اپنی تمام تر توانائیاں اس بات پر صرف کرتے ہیں کیسے اس کی نسبت محدث کبیر کا انکار کردیا جائے ۔ چند قیاسات پر دلائل کا تاج محل تعمیر کرکے اس کی نسبت کو غلط ثابت کرتے ہیں ۔

شوشل میڈیا یونیورسٹی کے ایک نام نہاد مناظر؛ بلکہ عہد حاضر کا اپنے آپ کو سب سے بڑا ترجمانِ دیوبند گرداننے والے ایک صاحب نے یہ عجیب و غریب دعوی کیا اور اس کی نسبت پر چند اشکالات کئے جو کہ محدث کبیر کی کتابوں اور ان کے علمی وارثین اور خانوادہ سے عدم واقفیت کی بناء پر ہے ۔

محقق صاحب تمہید میں لکھتے ہیں کہ

*ہمارا ارادہ یہ تھا کہ مئو کا سفر کریں اور حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادگان و دیگر علمی وارثین سے بلا واسطہ ملاقات کرکے اپنے تحفظات پیش کریں؛لیکن دو سال سے لاک ڈاؤن جیسے حالات کی بناء پر یہ سفر تاحال ممکن نہیں ہوسکا۔ لَعَلَّ اللّٰهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِكَ أَمْراً۔*

محقق صاحب اگر صاحب زادگان اور دیگر علمی وارثین کے ابھام کو دور کرکے سیدھے سیدھے ان حضرات کا نام ہی لکھ دیتے جو ان کے نزدیک مولانا کے علمی وارث اور صاحب زادگان ہیں تاکہ ان کی تحریروں کی روشنی میں اس کی نسبت کو ثابت کیا جاتا ، ایک طرف تو ان کے خانوادہ سے ملنے کا یہ دعوی ، دوسری طرف محقق صاحب محدث کبیر کے علمی وارث ، نواسہ ، محدث کبیر کے علمی و فنی کارناموں کو منظر عام پر لانے والے ڈاکٹر مسعود الاعظمی کو” محقق مقالات ابوالماثر اور صاحب سوانح ابو الماثر” لکھ کر ان کی تصدیق کا رد کرتے ہیں ، کیا نواسہ محدث کبیر نام نہاد مناظر کے نزدیک مولانا مرحوم کے خانوادہ اور ان کے علمی وارث نہیں ہیں ؟

ذیل میں ہم محقق صاحب کے تمام اشکالات کو چھوڑ کر محدث کبیر کے خانوادہ خصوصا مولانا رشید الاعظمی بن محدث کبیر کے قول اور ڈاکٹر مسعود اعظمی پر ان کے اعتماد و وثوق اور ان کے کاموں کی نگرانی کا ذکر کرتے ہیں کیونکہ کتاب کی نسبت کے درست ثابت ہونے کے بعد تمام اشکالات خود بخود اپنی موت آپ مرجائنگیں ۔

محدث کبیر علیہ الرحمہ کے بہت سارے مسودات آپ کی زندگی میں شائع نہیں ہوسکے؛ بلکہ کچھ تو اب بھی منتظر اشاعت ہیں ،ان مسودات کا تعارف ڈاکٹر اعظمی نے حیات ابوالمآثر جلد دوم میں کیا ہے ، محقق صاحب اس تعارف کو ملاحظہ فرمائیں اور اپنی رائے دیں کہ کیا محدث کبیر ان تمام مسودات کو بھی کمزور اور ناقابل اشاعت سمجھتے تھے ۔ محدث کبیر نے بابا خلیل کی کتاب "اصحاب رسول اور معاویہ کی صحابیت ” کے رد میں عظمت صحابہ لکھی تھی ، بابا خلیل نے اس کے بعد بھی اس موضوع پر متعدد کتابیں لکھی لیکن محدث کبیر کی زندگی میں عظمت صحابہ شائع نہیں ہوئی ، کیا یہاں بھی مناظر صاحب نعوذ باللہ کہنگیں کہ محدث کبیر امیر معاویہ کی صحابیت کے سلسلے میں اپنے موقف کو کمزور اور ناقابل اشاعت سمجھتے تھے ؟

مولانا رشید الاعظمی عظمت صحابہ کے شروع میں لکھتے ہیں کہ :

یہ کتاب غیر مطبوعہ تھی ،حضرت محدث کبیر کے کاغذات کے الٹ پھیر میں ایک دن اتفاقا اس کا مسودو ہاتھ آگیا، تو اسے پہلے الماثر میں قسطوں میں شائع کیا گیا، اور اب اسے کتابی شکل میں شائع کیا جارہا ہے ، الله تعالی ہم کو تمام صحابہ کے مقام ومرتبہ کو پانے کی توفیق مرحمت فرمائے ، اور ہمارے قلوب میں ان کی عظمت کانتی قائم فرمائے ، آمین۔(عظمت صحابہ )

جس مقالاتِ ابوالماثر میں ڈاکٹر مسعود الاعظمی نے یزید کے سلسلے میں مولانا کے پرانے موقف سے رجوع کا ذکر ہے اسی میں مولانا کے صاحب زادے مولانا رشید احمد الاعظمی کلمات تشکر و امتنان کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ :

جلد دوم میں وہ مضامین ہیں ، جو علمی وتحقیقی ہیں، اور بوقت ضرورت مختلف موضوعات پر ارقام فرمائے گئے ہیں، اور جلد سوم میں جومقالات شامل ہیں وہ تنقیدی ہیں، یا کتابوں کا تعارف اور ان پر مقدے ہیں ۔ تنقیدی مضامین کی اشاعت کا مقصد کسی عالم مصنف کی ذات کو مجروح کرنا یا ہدف تنقید بنانا نہیں ہے، بلکہ اس کا مقصد صرف خدمت علم دین و معرفت ہے۔

عزیزم ڈاکٹر مسعود احمد سلمہ اللہ نے ان مقالات کے جمع و ترتیب میں مطبوعہ مضامین اور جو مسودات کی شکل میں موجود ہیں ، ان سب کے موازنہ مقابلہ اور تصویب وتصحیح میں کافی محنت صرف کی ہے اور ضرورت پڑنے پر مراجع کو تلاش کر کے اہتمام کے ساتھ ان مقالات کے اقتباسات کا اصل مراجع سے پوری توجہ کے ساتھ مقابلہ کر کے اس کتاب کو صحیح ترین اور بہترین شکل میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی محنت ، عرق ریزی اور اس عظیم علمی خدمت کے لیے سعی جمیل پر بارگاہ رب العزت میں احقر دست بدعا ہے کہ اس کا ان کو بہتر سے بہتر بدلہ عطا فرمائے۔ (مقالات ابوالماثر جلد دوم ٫ص: 7)

جس حیات ابو الماثر میں ڈاکٹر مسعود الاعظمی نے "تبصرہ بر شہید کربلا و یزید ” کا تفصیلی تعارف کرایا ہے ، اسی کتاب کی تمہید میں مولانا رشید الاعظمی لکھتے ہیں کہ :

"احباب کے مشوروں سے طے کیا گیا کہ ایک بڑی لائبریری حضرت کے نام پر بنوائی جائے، چنانچہ اس کی تعمیر شروع کر دی گئی، جیسے ہی اس کی تعمیل ہوئی، اور منصوبہ بنا کہ حضرت کی کتابیں، ترتیب کے ساتھ اس میں منتقل کر دی جائیں، اسی وقت حضرت کے عزیز نواسے اور شاگرد مولوی مسعود احمد سلمہ جو مدرسه مرقاة العلوم اور دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں پی ایچ ڈی کر رہے تھے وہاں سے فارغ ہو کر گھر آگئے کتابوں کی منتقلی اور ترتیب و تہذیب کے کام میں بر خورداران عزیز مولوی ازہر اور مولوی انور کے ساتھ مولوی مسعوداحمد بھی شریک ہو گئے ، اس دوران انھیں کاغذات اور مسودات اور حضرت کی منتشر تحریرات اور بہت سے خطوط پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ انھوں نے کتب خانہ کے کام کے ساتھ ساتھ حضرت کا تذکرہ عربی زبان میں لکھنا شروع کر دیا، یہ کام انھوں نے اس خاموشی سے کیا کہ شاید ہی چند لوگوں کو اس کا علم ہوا ہو ، یہ تذکرہ لکھ کر انھوں نے بعض اصحاب نظر، جن کو عربی تحریر پر دسترس حاصل ہے، کے سامنے پیش کیا، جس نے پڑھا اس کی تحسین کی۔

پھر جس خاموشی سے انھوں نے عربی زبان میں تذکرہ لکھا، اسکی خاموشی سے اردو میں سوانح کا کام شروع کر دیا، چونکہ حضرت کی تمام تحریریں، خطوط اور مختلف یادداشتیں نگاه سے گذر چکی تھیں، ماشاء الله ذھن بہت اخاذ پایا ہے ، حضرت کی شاگردی کے ساتھ نسبی قرابت بھی ہے، اس لئے مناسبت پوری موجود ہے ،ذہانت و زکاوت سے بہرہ وافر پایا ہے اللہ کی طرف سے یہ سعادت ان کے لئے مقدر تھی، ضرورت کے تمام معلومات مہیا ہوتے گئے ،اور ان کا قلم رواں دواں رہا۔” (حیات ابو الماثر جلد اول صفحہ 58)

بلکہ مولانا رشید الاعظمی ہی کی نگرانی سوانح کا کام مکمل ہوا مولانا سید اسعد مدنی لکھتے ہیں کہ :

” یہ ہم سب پر قرض تھا کہ حضرت کے حالات وسوانح کی اشاعت کا اہتمام کیا جاتا ۔ بہت زیادہ قابل مبارک باد ہیں برادر محترم مولانا رشید احمد صاحب – خلف اکبر حضرت اقدس نوراللہ مرقدہ – کہ انھوں نے اس پرتوجہ کی ، اور اپنی نگرانی میں یہ بیش قیمت دستاویز مرتب کروائی اور اس کی اشاعت کا انتظام وانصرام کیا، اور بہت ہی سعادت و خوش بختی ہے عزیزم مولوی مسعوداحمد سلمہ کہ انھوں نے اپنے عظیم المرتبت نانا کے احوال و وقائع مرتب کیے۔ الله تعالی اسے اپنے فضل و کرم سے قبول فرمائے اور تمام ملت اسلامیہ کے لیے نافع اور رہنما بنائے ۔ آمین :”

مولانا رشید الاعظمی ہی کی زیر سرپرستی اور ڈاکٹر مسعود الاعظمی کی زیر ادارات الماثر کا محدث کبیر نمبر نکلا ،اسی طرح الجمعیۃ کا محدث کبیر نمبر شائع ہوا جس میں ڈاکٹر علاوالدین ندوی کا تبصرہ برشہید کربلا و یزید پر مضمون ہے ، اسی طرح آپ نے حیات ابو الماثر پر تبصرہ کرتے ہوئے ، محدث کبیر کے موقف کو معتدل اور تبصر بر شہید کربلا ویزید کی اشاعت کا مطالبہ کیا ، یہ تبصرہ الماثر کے خصوصی نمبر میں بھی شامل ہے ۔ الجمیعۃ کے خصوصی نمبر میں مولانا رشید الاعظمی اپنے مضمون کے آخر میں لکھتے ہیں کہ :

والد صاحب نے الحمد للہ بہت بڑا علمی تحقیقی سرمایہ یادگار چھوڑا ہے، آپ کی تصانیف و تالیفات میں بہت سی ایسی ہیں جو طبع ہوکر علمج حلقوں میں داد و تحسین وصول کر چکی ہیں *لیکن جتنی طبع ہو چکی ہیں ان سے زیادہ آپ کی تحقیقات وہ ہیں، جو زیور طباعت سے آراست نہیں ہو سکی ہیں،* نیز کچھ ایسی تحریر میں بھی تھیں جو حوادث زمانہ کا شکار ہوگئی ہیں ۔ خواہر زادہ عزیز ڈاکٹر مسعود احمد سلمہ نے اس جلد میں آپ کی مطبوعہ اور غیر مطبوعہ تحریروں میں سے جو محفوظ ہیں، ان کا تعارف اور تلخیص کرنے کی ایک سعی بلیغ اور سعود و مبارک کوشش کی ہے، یہ کام نہایت محنت طلب اور ہفت خوان طے کرنے کی طرح تھا، جو خدا کی توفیق اور اس کے فضل و کرم سے پورا ہوا ہے۔ خدا وند کریم عزیز موصوف کو ان کی اس غیر معمولی محنت و کاوش اور عرق ریزی کا اجر جزیل عطا فرمائے ، اور کتاب کو مقبول خاص و عام بنائے، آمین۔ صفحہ 30

نیز محدث کبیر کی کتاب” تبصرہ بر شہید کربلا و یزید ” جس ادارہ دارالثقافۃ الاسلامیہ مئو سے شائع ہوئی ہے اسی ادارہ سے خطبات ابو الماثر اور مقالات ابوالماثر بھی شائع ہوئی ہے جس کے شروع میں محدث کبیر کے فرزند مولانا رشید الاعظمی کے کلمات تشکر ہیں ۔

ان تمام تفصیلات سے یہ بات عیاں ہوگئی ہے کہ تبصرہ برشہید کربلا و یزید محدث کبیر ہی کی کتاب ہے ، اس پر ان کے خانوادہ اور علمی وارثین کی تصدیق موجود ہے ، محقق صاحب کو تصویر کا دوسرا رخ بھی ذکر کرنا چاھئے اگر یہ کتاب محدث کبیر کی نہیں ہے تو ابھی تک ان کے خانوادہ نے اس کی تردید کیوں نہیں کی ؟ جن کو محقق صاحب علمی وارثین مانتے ہیں وہ خاموش کیوں ہیں ؟ یا ان تک یہ کتاب پہنچی ہی نہیں ہے ؟

*محقق صاحب کے سامنے تین باتیں ہیں یا تو وہ اس کو تسلیم کرلیں* ۔

*یا جس طرح انہوں نےمحدث کبیر کے نواسہ پر اعتماد نہیں کیا ہے ، ان کے فرزند پر بھی اعتماد نہ کریں* ۔

یا *جو لوگ محقق صاحب کے نزدیک محدث کبیر کے علمی واراث اور ان کے خانوادہ کے ہیں ان کا تردیدی قول دکھائیں* ؟

اب محقق صاحب کے طالب علمانہ اشکالات کی طرف آتے ہیں ، مذکورہ کتاب 1960 کیوں نہیں چھپی تھی ، جب کہ اس وقت اس کی ضرورت تھی ،،،،،،،،،،،،، ماقبل کی تفصیلات سے یہ بات واضح ہوگئی ہے،نیز ان کے مسودات کے سلسلے میں فرزند کا قول بھی گذر چکا ہے ۔ عظمت صحابہ بھی جب لکھی گئی تھی اس وقت چھپنا اہم ضرورت تھی لیکن چھپی نہیں کیا محقق صاحب اس کے بارے میں بھی وہی دعوی کرنگیں ؟

جانبین میں شدت کا اختلاف تھا ،،،،،، محقق صاحب کو شدت کااحساس اس لئے ہوا کہ وہ فسق یزید کو عقائد سے جوڑتے ہیں اور عدم فسق کے قائلین کو دیوبندیت سے بھی خارج کردیتے ہیں ، محدث کبیر کا نظریہ اس سلسلے میں واضح تھا وہ فسق کے مسئلہ کو عقائد سے نہیں جوڑتے تھے ، اس لئے یہ کوئی شدید اختلاف نہیں تھا ۔ اور ضروری نہیں ہے کہ جس سے اختلاف کیا جائے اس سے بتایا بھی جائے کہ آپ کے فلاں نظریہ سے ہم نے اختلاف کیا ہے ۔

فسق یزید سے رجوع کرنے کے بعد اپنے جدید موقف کو اھل علم کے سامنے کیوں نہیں پیش کیا ؟ ،،،،،،،،،،،،،، محدث کبیر کے جس مضمون کا مناظر صاحب نے تذکرہ کیا ایک تو وہ امیر معاویہ رض کے دفاع میں تھا جس میں ضمنا فسق یزید کا مسئلہ آگیا تھا ، دوسرے وہ 1930 میں ماہنامہ” النجم ” میں شائع ہوا تھا ، اس وقت آپ کی عمر محض تیس سال تھی اور اہل علم کے درمیان آپ اتنے مشہور معروف بھی نہیں ہوئے تھے ، محقق صاحب کے کلام سے ایسا لگتا ہے کہ محدث کبیر نے اپنی کسی کتاب میں واضح طور پر فسق یزید کو خاص طور سے بیان کیا ہو ؛ بلکہ ایک رسالہ میں بیان کیا ہے ،جس کی وجہ سے ممکن ہو کہ محدث کبیر کے مشہور و معروف ہونے کے بعد اہل علم کے درمیان وہ موقف نہ آیا ہو ، اسی لئے آپ نے پرانے موقف کو ذکر کرنے کو ضروری نہیں سمجھا ہوں ۔

انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے

شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے