متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن

اللہ تعالیٰ نے جو احکامات نازل فرمائے ہیں ، ان میں سے بعض کا تعلق یا تو انسان کے بدن سے ہے جیسے نماز اور روزہ وغیرہ ، بعض کا تعلق انسان کے مال سے ہے جیسے زکوٰة ، قربانی اور صدقات واجبہ وغیرہ جبکہ حج بیت اللہ ایسا خدائی حکم ہے جس کا تعلق انسان کے بدن اور مال دونوں سے ہے۔حج بہت عظیم الشان عبادت ہے ، احادیث مبارکہ میں اس کے فضائل و مناقب،آداب، شرائط، مناسک ، فرائض، واجبات ، سنن و مستحبات، ارکان اور طریقہ کار مذکور ہے۔
1: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ (دینِ اسلام میں)کون سا عمل زیادہ بہتر ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ (دل سے)اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔پھر پوچھا گیا کہ اس کے بعد کون سا عمل ( زیادہ بہتر ہے؟)تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا،پھر عرض کیا گیا کہ اس کے بعد کون سا عمل زیادہ بہتر ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس کے بعدحج مبرور۔(صحیح بخاری، باب فضل الحج المبرور، حدیث نمبر1519)
فائدہ: یہاں ایک بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ بعض احادیث میں افضل ترین عمل کبھی حج کو ، کبھی نماز،کبھی صدقہ ، کبھی جہاد کو اور کبھی والدین کی خدمت وغیرہ کو قرار دیا جاتا ہے۔ ایسی تمام احادیث کا تعلق وقت ، اشخاص اور حالات کے ساتھ ہے۔حالات کے مطابق جس عمل کی زیادہ ضرورت ہو وہی زیادہ نفع مند اور فضیلت والا بن جاتا ہے۔ بعض کم علم لوگ کبھی کسی ایک عمل کی فضیلت کو بیان کرتے کرتے دوسرے عمل کی اہمیت کم کر دیتے ہیں ،اگر شریعت کے مزاج اور منشاء کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے تو تمام الجھنیں دور اور جہالتیں کافور ہو جاتی ہیں۔
2: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ،میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ(کی رضا اور خوشنودی کو حاصل کرنے) کے لئے حج کرے اور دوران حج (احرام کی حالت میں )اپنی بیوی کے پاس نہ جائے یعنی ہمبستری وغیرہ نہ کرے اور دوران سفر اپنے ساتھیوں سے بیہودہ باتیں کلام یا لڑائی جھگڑا وغیرہ نہ کرے اور (کبیرہ) گناہوں سے بچتا رہے تو وہ حج کرنے کے بعد (گناہوں سے ایسا پاک و صاف ہو جاتا ہے)جیسا کہ وہ اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتے وقت پاک و صاف تھا۔(صحیح بخاری،باب فضل الحج المبرور،حدیث نمبر1521)
3: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حج کو آنے والے اور عمرہ ادا کرنے والے اللہ تعالی کے معزز مہمان ہیں؛ اگر وہ اللہ تعالی سے دعاء مانگیں تو اللہ تعالی ان کی دعاء قبول فرماتا ہے اور اگر وہ گناہوں کی مغفرت طلب کریں تو اللہ تعالی ان کے گناہوں کو بخش دے گا۔(سنن ابن ماجہ، باب فضل دعاء الحاج،حدیث نمبر2892)
4: حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حج کرنے والا حاجی اپنے قبیلے کے چار سو آدمیوں کی شفاعت کرے گا۔(مسند بزار ، باب الحاج یشفع، حدیث نمبر3196)
5: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا دیتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالیٰ حج کرنے والوں کی مغفرت فرمائے اور ان کی بھی مغفرت فرمائے جن کے لیے حاجی لوگ اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا مانگتے ہیں۔(شعب الایمان للبیہقی ، باب فضل الحج والعمرة ، حدیث نمبر3817)
اب چندایسی بنیادی باتیں ذکر کی جاتی ہیں جن کا خیال کرنا بہت ضروری ہے ورنہ حج کا مقصد حاصل نہیں ہوتا ۔
1:نیت کی درستگی: اس عظیم عبادت کی ادائیگی کے وقت خالص اللہ کی رضاء اور خوشنودی کی نیت کریں اور اس کو محض اللہ کا خاص فضل اور احسان سمجھیں۔ خودنمائی، ریاء کاری ، دکھلاوا ، لوگوں کی واہ واہ لوٹنے اور خود کو ”حاجی صاحب“ کہلانے کا جذبہ خود پسندی ترک کر کے دل میں صرف اللہ کی رضاء کا جذبہ پیدا کریں۔ البتہ یہاں ایک بات اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ بسا اوقات عبادات کی ادائیگی کے وقت خود بخود یہ خیال دل میں پیدا ہوتا ہے کہ لوگ مجھے اچھا سمجھیں ، میری عزت کریں ، میرا احترام کریں،معاشرے میں مجھے قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ اگر ایسے خیالات دل میں آ رہے ہوں تو عبادات کو ہرگز نہ چھوڑیں بلکہ برابر ادا کرتے رہیں۔ یہ کوئی پریشانی والی بات نہیں بلکہ نفس اور شیطان کا اللہ تعالیٰ کی عبادات سے دور کرنے کا ایک دھوکہ اور وسوسہ ہے، اسے دل میں جگہ نہ دیں۔ جونہی یہ خیال آنے لگے فوراً اپنی توجہ اللہ کے فضل و احسان اور اس کی طرف سے ملنے والی بے شمار نعمتوں کی طرف کریں اور اپنے آپ پر غور کریں اور خود کو سمجھائیں کہ یہ سب کچھ مجھ پر محض اللہ کا فضل اور احسان ہے اس ذات نے مجھ گناہ گار پر اپنا کرم فرمایا ، اس میں میرا ذاتی کوئی کمال نہیں۔ ان شاء اللہ خود نمائی ، ریاکاری اور دکھلاوے وغیرہ سے جان چھوٹ جائے گی۔
2: فریضہ حج کی ادائیگی میں تاخیر نہ کریں : حج فرض ہوجانے کے بعد اس کی ادائیگی میں تاخیر نہ کریں ، آئندہ پر نہ ٹالتے رہیں۔ ہمارے ہاں معاشرے میں یہ بات پھیلی ہوئی ہے کہ پہلے اولاد کی شادیوں سے فراغت مل جائے پھر حج کریں گے ، والدین اپنی اولاد کی شادی کو اپنے اوپر فرض کا درجہ دے کر حج میں تاخیر کرتے ہیں یہ بالکل غلط سوچ اور اسلامی احکامات اور تعلیمات سے دوری کا نتیجہ ہے۔ اس حوالے سے دوباتیں پیش نظر رہیں۔ ایک تو یہ کہ زندگی کا کچھ بھروسہ نہیں نامعلوم آئندہ سال زندہ بھی رہیں گے یا نہیں ؟ دوسرا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان میں طاقت کم ہوتی جاتی ہے ، بڑھاپا اور ضعف بڑھ جاتا ہے، مناسک حج کی ادائیگی کے لیے قوت ، ہمت اور چستی چاہیے۔ تاخیر کی صورت میں یہ چیزیں دھیرے دھیرے کمزور پڑ جاتی ہیں انسان میں تندرستی اور چستی کے بجائے سستی اور ضعف پیدا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے عبادات میں وہ لطف نہیں ملتا، جو جوانی کی عبادت میں ملتا ہے مکانات کی تعمیر اور اولاد کی شادی بیاہ وغیرہ جیسے عذر کی آڑ میں فریضہ حج میں تاخیر کرنا بہت نادانی کی بات ہے۔
3:گناہوں سے اجتناب: تمام عبادات بالخصوص فریضہ حج کی حقیقت پانے اور صحیح معنوں میں اس کا اجر و ثواب حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان گناہوں سے خود کو بچائے ، خصوصاً لڑائی جھگڑا ، گالم گلوچ ،عیب جوئی اور عیب گوئی ، غیبت و تہمت ، بہتان طرازی ، چغل خوری ،دھوکہ دہی ، چوری چکاری ، سیلفیاں لینا ، تصویر سازی ،بے پردگی ، بد نظری ،ممنوعات احرام اور مفسدات حج سے خود کو بچائے عموماً دیکھا جاتا ہے کہ حرم کعبہ اور مسجد نبوی شریف میں بیٹھ کر بہت سے دین دار بھی غیبت جیسے کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں۔اس سے بچنے کا سب سے آسان حل ذکر اللہ اور تلاوت قرآن کریم میں خود کو مشغول کرنا ہے ۔
4:بازاروں میں وقت برباد نہ کریں : حرمین شریفین بہت مقدس مقامات ہیں ، وہاں کی عبادات کا ثواب عام جگہوں سے کہیں زیادہ ہے۔ انسان کی زندگی میں قسمت سے ایسے مواقع نصیب ہوتے ہیں ، اس لیے ان اوقات کو ضائع ہونے سے بچائیں۔ بازاروں کی رونق بننے کے بجائے زیادہ وقت عبادات میں گزاریں ، طواف کی کثرت کریں ، بازار میں خرید و فروخت کوضرورت کی حد تک رکھیں ، کوشش کریں کہ ایک ہی بار اپنی ضروریات کی چیزیں خرید لیں ، بار بار بازار نہ جانا پڑے۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے