موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس

وفات مولانا مستقیم احسن اعظمى

(ولادت: 1939ء، وفات: 2023ء)

عبید اللہ شمیم قاسمی

آج صبح 20/جون 2023ء بروز منگل اچانک یہ اطلاع ملی کہ ملك كے مشہور عالم دين اور جمعيت علماء صوبہ مہاراشٹر کے صدر جناب مولانا مستقيم احسن اعظمى صاحب مقيم ممبئى كا فجر كى نماز سے كچھ پہلے انتقال ہوگيا، إنا لله وإنا إليه راجعون، إِنَّ لِلَّهِ مَا أَخَذَ، وَلَهُ مَا أَعْطَى، وَكُلٌّ عِنْدَهُ بِأَجَلٍ مُسَمًّى، فَلْتَصْبِرْ، وَلْتَحْتَسِبْ

ان کی وفات کی خبر ایک صاعقہ بن کر گری جس کی وجہ سے قلب مضطرب اور زبانیں گنگ ہوگئیں اور جمعيت علماء سے متعلقين ومنتسبين میں صف ماتم بچھ گئی۔

یہ دنیا چند روزہ ہے، اس کی ہر چیز فنا ہونے والی ہے، انسان جو اشرف المخلوقات ہے وہ بھی اس دنیا میں اپنی حیات مستعار کے چند روز گذار کر رب کریم کی بارگاہ میں واپس چلا جاتا ہے، چنانچہ ارشاد ربانی ہے: ﴿كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ثُمَّ إِلَيْنَا تُرْجَعُونَ﴾ [العنكبوت: 57]۔

مولانا مستقیم احسن صاحب كافى دنوں سے صاحب فراش چل رہے تھے اس حادثہ کا وقوع کسی بھی وقت ممکن تھا، لیکن پھر بھی انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ ایسی شخصیت جس کا فیض جارى ہو اس کی زندگی اور طویل ہو۔ مگر جب موت کا وقت آجاتا ہے تو اس میں کسی طرح کا تقدم وتاخر نہیں ہوسکتا، ارشاد باری تعالی ہے: ﴿إِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَلَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ﴾ [يونس: 49] ۔

موت زندوں اور مردوں کے درمیان ایسی دیوار کھڑی کردیتی ہے، جس سے ان کے مابین زندگی میں موجود سارے روابط ٹوٹ جاتے ہیں، موت وحیات کا یہ فلسفہ اسی لیے ہے تاکہ نیکو کاروں کو ان کا اجر دیا جائے،اور نیک وبد میں فرق کیا جائے، ارشاد باری تعالی ہے: ﴿الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا﴾ (الملک: ۲)۔

بخاری شریف کی روایت ہے، حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرماتے ہوئے سنا: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ العَاصِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ اللَّهَ لاَ يَقْبِضُ العِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ العِبَادِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ العِلْمَ بِقَبْضِ العُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا» (صحیح البخاری، باب کیف یقبض العلم، حدیث نمبر:١٠٠) اللہ تعالی علم کو واپس نہیں لے گا کہ لوگوں کے ہاتھ سے قبض کرے بلکہ علماء کو وفات دے کر علم کو واپس لے گا، اس حدیث کا ظہور آج کل کثرت وشدت سے ہورہا ہے، اس کی مثال ماضی قریب میں نہیں ملتی، ادھر چند ماہ میں علمائے حق جس تیزی سے اٹھتے جارہے ہیں اسے دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اگر چل چلاؤ کایہ سلسلہ اسی طرح اگر جاری رہا تو علمی مجلسیں سونی ہوجائیں گی۔

مولانا مستقیم احسن صاحب كے نام سے ہمارے كان بچپن سے آشنا تھے، آپ اصلا شيخوپور ضلع اعظم گڑھ كے رہنے والے تھے، آپ كى سسرال بمہور ضلع اعظم گڑھ تھى جہاں بہت سے نامور علماء پيدا ہوئے، مولانا داود اكبر صاحب اصلاحى مولانا كے خسر تھے، مولانا داود اكبر صاحب اصلاحى موضع بمہور ميں 1915ء كى حدود ميں پيدا ہوئے، ان كے والد ماجد حافظ محمد حسن صاحب ايک جيد حافظ تھے اور قرآن كريم كى تلاوت سے انهيں اس درجہ شغف تها كہ راستہ چلتے بهى بآواز بلند تلاوت كرتےجاتےتھے، حافظ محمد حسن صاحب مرحوم كا آبائى وطن آنوک ضلع اعظم گڑھ تھا، وه ہمارى خاندان ہى سے تعلق ركھتےتھے، ہمارے والد صاحب مرحوم كے دادا عبد الحق صاحب مرحوم كے چار بهائى تھے، حافظ محمد حسن صاحب انہيں ميں ايک كےلڑكےتھے مگر اپنى نانيہال ميں رہنے لگےتھے جو بعد ميں ان كا اور ان كى اولاد كا وطن ہوگيا۔

مولانا مستقیم احسن صاحب كى پيدائش 1939ء ميں شيخو پور ميں ہوئى، صاحب طرز اديب اور مشہور صاحب قلم مولانا ضياء الحق صاحب خيرآبادى (عرف حاجى بابو) اپنى كتاب "كتابوں كى سير” جس ميں سو كتابوں كا تعارف پيش كيا ہے مولانا مستقيم احسن اعظمى صاحب مرحوم كى كتاب "متاع نقد ونظر” كا تعارف كراتے ہوئے مولانا مرحوم كے جو حالات لكھے ہيں اس كو يہاں نقل كيا جا ر ہا ہے۔

"مولانا مستقیم احسن اعظمی( و:1939ء) شیخوپور اعظم گڑھ کے رہنے والے ایک صاحب نظر عالم وفاضل ہیں ، تقریباً پچپن سال سے ممبئی میں مستقل قیام پذیر ہیں، اپنی سرگرم قومی وسماجی ا وررفاہی خدمات کی وجہ سے ممبئی میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ پچھلے بارہ سال سے جمعیۃ علماء ہند مہاراشٹر کے منصب صدارت پر فائز ہیں۔

ابتدائی تعلیم مدرسہ شیخ الاسلام شیخوپور میں ہوئی جو اس وقت ابھی بالکل ابتدائی حالت میں ایک معمولی مکتب تھا ۔ اس کے بعد جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارکپور میں فارسی اور عربی متوسطات تک تعلیم حاصل کرکے مدرسۃ الاصلاح چلے گئے ، وہاں دوسال پڑھنے کے بعد دارالعلوم دیوبند گئے جہاں شعبان 1381(1962ء) میں مولانا سید فخرا لدین احمد علیہ الرحمہ سے بخاری شریف پڑھ کر سند فضیلت حاصل کی ۔ اس کے بعدندوہ میں تخصص فی الادب میں داخلہ لیا ، مگر اس کی تکمیل نہ ہوسکی ، اور جامعۃ الرشاد اعظم گڑھ میں درس وتدریس سے منسلک ہوگئے ، اس وقت برصغیر کے عظیم تصنیفی مرکز دارالمصنفین اعظم گڑھ سے بھی گہرا تعلق قائم ہوگیا جو اب تک باقی ہے، اس کی وجہ سے تحریری صلاحیتوں میں دن بدن نکھار آتا گیا ۔ اس زمانہ میں ان کے کئی مضامین مولانا قاضی اطہر مبارکپوری نے اپنے رسالہ ’’البلاغ‘‘ میں شائع کئے ۔ شعر وشاعری سے بھی لگاؤ تھا ،باقاعدہ فخر مشرق شفیق جونپوری کےحلقۂ تلمذ میں داخل ہوگئے ، لیکن یہ سلسلہ زیادہ دنوں برقرار نہ رہ سکا۔ شفیق جونپوری کی وفات کے بعد ان پر شائع ہونےوالے ایک مجموعۂ مضامین میں مجھے مولانا کامضمون دیکھنایاد ہے جو اس مجموعہ میں شامل نہیں ہے۔

ممبئی جانے کے بعد وہاں کی مصروف اور ہنگامہ خیز زندگی میں قلم وقرطاس سے وہ تعلق باقی نہیں رہا ، پھر بھی لکھنے پڑھنے کا جو فطری ذوق تھا اس کی وجہ سے گاہے بگاہے کسی پروگرام کی وجہ سے یا کسی تقاضے پر مولانا کچھ نہ کچھ لکھتے رہے ، اس میں سے جو کچھ محفوظ رہا وہ ان کے لائق وفائق صاحبزادے مولانا محمد عارف عمری کی ترتیب اور ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی کی توجہ وعنایت سے ’’ متاع نقد ونظر ‘‘ کی صورت میں منظر عام پر آگیا "۔(كتابوں كى سير، صفحہ 288).

مولانا مستقیم احسن اعظمى صاحب كى خدمات كا دائره كافى وسيع تھا، جمعيت علماء ہند كے اسٹيج سے وه ہميشہ قوم وملت كى خدمت انجام ديتے تھے اور ان كى آواز كافى مضبوط تھى ان كا متعدد حلقوں ميں اثر ورسوخ تھا، انہوں نے دارالعلوم ديوبند اور اپنى مادر علمى سے ہميشہ اپنا رشتہ مضبوط واستوار ركھا، مولانا كو ميں نے كئى جلسوں ميں ديكھا مگر كبھى ملاقات كى توفيق نہيں ہوئى، البتہ آپ كے صاحبزادے مولانا ڈاكٹر عارف عمرى صاحب سے تعلقات تھے اور ملاقات پر والد صاحب كى خيريت بھى معلوم ہوجاتى تھى مگر ان سے بھى ملاقات كو كافى عرصہ ہوگيا۔

ہر شخص کے لیے موت کا وقت مقرر ہے، آج صبح فجر كى نماز كے قريب آپ كا حادثۂ وفات پيش آيا، اس طرح آپ كى خدمات جو نصف صدی سے زائد عرصہ پر محيط تھيں، وه روشن ستاره ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا، اللہ تعالی آپ كى خدمات كو قبول فرمائے اور آپ كے درجات بلند فرمائے۔ پسماندگان كو صبر جميل عطا فرمائے اور امت مسلمہ كو آپ كا بدل عطا فرمائے۔ آمین

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے