نہایت افسوس وغم کے ساتھ یہ خبر دی جاتی ھے کہ فخر مہاراشٹرا جناب حضرت مولانا مستقیم احسن اعظمی صاحب صدر جمعیۃ علماء مہاراشٹرا (مولانا ارشد مدنی صاحب) آج بتاریخ یکم ذی الحجہ 1444ھ 20 جون 2023ء بروز منگل علی الصبح اس دار فانی سے کوچ کرگئے ۔ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ ۔ اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے درجات بلند فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل کی توفیق نصیب فرمائے ۔ آمین ثم آمین یاربّ العالمین
مولانا مستقیم احسن اعظمی( و:1939ء) شیخوپور اعظم گڑھ کے رہنے والے ایک صاحب نظر عالم وفاضل ہیں ، تقریباً پچپن سال سے ممبئی میں مستقل قیام پذیر ہیں، اپنی سرگرم قومی وسماجی ا وررفاہی خدمات کی وجہ سے ممبئی میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ پچھلے بارہ سال سے جمعیۃ علماء ہند مہاراشٹر کے منصب صدارت پر فائز ہیں۔
ابتدائی تعلیم مدرسہ شیخ الاسلام شیخوپور میں ہوئی جو اس وقت ابھی بالکل ابتدائی حالت میں ایک معمولی مکتب تھا ۔ اس کے بعد جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارکپور میں فارسی اور عربی متوسطات تک تعلیم حاصل کرکے مدرسۃ الاصلاح چلے گئے ، وہاں دوسال پڑھنے کے بعد دارالعلوم دیوبند گئے جہاں شعبان 1381(1962ء) میں مولانا سید فخرا لدین احمد علیہ الرحمہ سے بخاری شریف پڑھ کر سند فضیلت حاصل کی ۔ اس کے بعدندوہ میں تخصص فی الادب میں داخلہ لیا ، مگر اس کی تکمیل نہ ہوسکی ، اور جامعۃ الرشاد اعظم گڑھ میں درس وتدریس سے منسلک ہوگئے ، اس وقت برصغیر کے عظیم تصنیفی مرکز دارالمصنفین اعظم گڑھ سے بھی گہرا تعلق قائم ہوگیا جو اب تک باقی ہے، اس کی وجہ سے تحریری صلاحیتوں میں دن بدن نکھار آتا گیا ۔ اس زمانہ میں ان کے کئی مضامین مولانا قاضی اطہر مبارکپوری نے اپنے رسالہ ’’البلاغ‘‘ میں شائع کئے ۔ شعر وشاعری سے بھی لگاؤ تھا ،باقاعدہ فخر مشرق شفیق جونپوری کےحلقۂ تلمذ میں داخل ہوگئے ، لیکن یہ سلسلہ زیادہ دنوں برقرار نہ رہ سکا۔ شفیق جونپوری کی وفات کے بعد ان پر شائع ہونےوالے ایک مجموعۂ مضامین میں مجھے مولانا کامضمون دیکھنایاد ہے جو اس مجموعہ میں شامل نہیں ہے۔
ممبئی جانے کے بعد وہاں کی مصروف اور ہنگامہ خیز زندگی میں قلم وقرطاس سے وہ تعلق باقی نہیں رہا ، پھر بھی لکھنے پڑھنے کا جو فطری ذوق تھا اس کی وجہ سے گاہے بگاہے کسی پروگرام کی وجہ سے یا کسی تقاضے پر مولانا کچھ نہ کچھ لکھتے رہے ، اس میں سے جو کچھ محفوظ رہا وہ ان کے لائق وفائق صاحبزادے مولانا محمد عارف عمری کی ترتیب اور ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی کی توجہ وعنایت سے ’’ متاع نقد ونظر ‘‘ کی صورت میں تین جلدوں پر مشتمل نوع بنوع عنوانات لئے کتاب کی شکل میں منظر عام پر آگیا ، جو حلقہ اہل علم میں بہت مقبول ہوا
(منقول )