(ولادت:1954ء-وفات: 2023ء)
عبيد الله شميم قاسمى
اس دنيا ميں ابتدائے آفرينش سے آمد ورفت كا سلسلہ جارى ہے، جو شخص بھى اس دنيا ميں آيا اس كو موت آنى ہے، موت سے كسى كو مفر نہيں اور مرنے كے بعد اپنے پروردگار كے پاس واپس جانا ہے، ارشاد بارى تعالى ہے : ﴿كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ثُمَّ إِلَيْنَا تُرْجَعُونَ﴾ [العنكبوت: 57].
اسى آمد ورفت كے درميان ايک مبہم اور مجہول وقت متعين ہوتا ہے الله اسے جانتا ہے، اس وقت كو كام ميں لانا ہے، خوش نصيب ہے وه بنده جو اسے كارآمد بنائے اور محروم ہے وه غلام جو اسے ضائع كردے۔ حضرات انبياء عليہم السلام اس دنيا ميں تشريف لائے تاكہ وه الله كے بندوں كو يہ بتلائيں اور سكھلائيں كہ يہ وقت كيونكر كار آمد بناياجا سكتا ہے، انهوں نے سكھلايا اور سيكھنے والوں نے سيكھا اور پھر اس وقت كو اسى طرح برتا جيسا سكھلايا تھا۔ يہ لوگ جب پيدا ہوئے تھے تو كوئى نہيں جانتا تھا مگر اس دنيا سے رخصت ہوئے تو ان كے متعلقين كے ساتھ زمين وآسمان بھى ان پر رو پڑا۔
ليكن اس دنيا ميں رہتے ہوئے بعض شخصيات اپنے كارناموں كى وجہ سے ايسى ہوتى ہيں كہ ان كى محبت لوگوں كے دلوں ميں پيدا ہو جاتى ہے اور ان كے انتقال پر ہزاروں كلو ميٹر دور ہونے كے باوجود انہيں بھى اسى طرح كا رنج وغم ہوتا ہے جيسے خاندان كا كوئى عزيز انتقال كيا ہو۔
گذشتہ 16/ جون2023ء مطابق 16/ ذي قعده 1444ھ بروز جمعہ اچانك ايک ايسا حادثہ پيش آيا جس نے قلب كو مضطرب اور آنكھوں كو اشک بار كرديا، دارالعلوم وقف ديوبند كے موقر استاذ حضرت مولانا محمد اسلام صاحب قاسمى ہزاروں قلوب كو سوگوار چھوڑ كر راہئ عالم بقاء ہوگئے۔ إنا لله وإنا إليه راجعون
حضرت مولانا اسلام صاحب قاسمى گذشتہ دو تين سال سے بيمار چل رہے تھے، مختلف بيماريوں كا مجموعہ تھے، فالج كا اثر بھى كئى مرتبہ ہوا مگر عزم واستقلال كے پيكر تھے، بيماريوں كے باوجود ہمت سے كام ليتے تھے اور اكثر معمولات جارى تھے۔
مولانا محمد اسلام صاحب قاسمى دارالعلوم وقف ديوبند كے ايك موقر استاذ تھے، ليكن مجھ سے كوئى شناسائى نہيں تھى اور نہ ہى كوئى ملاقات تھى البتہ دارالعلوم ديوبند كى چھ سالہ مدت تعليمى اور بعد ميں ديوبند بار بار حاضرى كے موقع پر راه چلتے كبھى مل گئے تو سلام كرليا، بس اس سے زياده استفاده كا موقع نہيں ملا، ليكن مولانا كى كتاب جمع الفضائل شرح شمائل ترمذى سے استفاده كيا اور يہ بھى معلوم ہوا كہ آپ اديبِ عصر حضرت مولانا وحيد الزماں صاحب كيرانوى نور الله مرقده كے خصوصى تلامذه ميں ہيں۔ مولانا بہت باصلاحيت تهے، آپ كى صلاحيت اور صالحيت كے سبهى معترف تھےآ پ كے رفقاء درس اور معاصرين اس كا ہميشہ برملا اظہار بھى كرتے تھے، خصوصا مولانا احمد سجاد صاحب قاسمى ابن حضرت مولانا مفتى محمد ظفير الدين صاحب مفتاحى نور الله مرقده اپنى اكثر تحريروں ميں آپ كا ذكر خير كرتے اور اسلام بهائى كہہ كر خطاب كرتے۔
يہاں امارات ميں سالِ گذشتہ ايک ہوٹل پر ناشتہ كرتے ہوئے ايک نوجوان كو ديكها اور پھر كئى روز ملاقات ہوئى اور جب بات چيت كا سلسلہ آگے بڑھا تو انہوں نے بتلايا كہ يہاں ايک كمپنى ميں ملازم ہيں، اور انجينر ہيں اور يہ بهى بتايا كہ ديوبند ان كى سسرال ہے اور مولانا محمد اسلام صاحب قاسمى ان كے خسر اور پھوپھا ہوتے ہيں، اس طرح جب بهى ملاقات ہوتى تو مولانا كى خيريت بهى ان كے ذريعہ معلوم ہوتى، انهيں نے كچھ دنوں پہلے بتلاياتها كہ مولانا پر فالج كا حملہ ہوا ہے اور پھر طبيعت كبھى سنبهل جاتى اور كبهى بيمارى ميں اضافہ ہوجاتا، كل مولانا كے اچانك انتقال پر مولانا كے حالات جاننے كے ليے ان كى كتابوں كو تلاش كر رہا تها كہ آج صبح مولانا كى كتاب "درخشاں ستارے” نظر آگئى، اس كتاب ميں مولانامرحوم نے اپنے اساتذه اور تعليمى زمانے كا تذكره كيا ہے، جب فہرست پر ايك نظر ڈالى تو ديكھ كرحيرت كى انتہا نہ رہى كہ ہمارے خسر حضرت مولانا عبد الحق صاحب اعظمى نور الله مرقده سابق شيخ الحديث دارالعلوم ديوبند بهى آپ كے اساتذه ميں ہيں۔
مولانا كى تعليمى زندگى سے متعلق كچھ باتوں كو آپ كى اسى كتاب كے حوالے سے نقل كر رہا ہوں۔ آپ كى پیدائش12/جمادی الاخریٰ 1373ھ- مطابق 16فروری 1954ء کو راجہ بھٹیا ضلع جامتاڑا(دمکا) میں ہوئى۔
ابتدائی تعلیم کا سفر نانیہال میں موضع بھڑا ضلع جامتاڑ ا (جھارکھنڈ) سے شروع سے کیا۔
مولانا خود رقم طراز ہیں:
"جب میری عمر چار، پانچ سال کی ہوئی تو گھر والوں نے بچے کو اپنی ضرورت اور فہم کے مطابق گھر کی بکریوں کو چرانے کی تربیت دینے کی کوشش شروع کردی، مگر اللہ مسبّب الاسباب ہے، مقلب القلوب ہے، میری والدہ نے کہہ دیا کہ میرا بیٹا تعلیم حاصل کرے گا۔ نقار خانے میں طوطی کی آواز ۔ اس "عظیم خاتون” کی اس بات کا مذاق اڑا یا گیا، آخر بچہ پڑھے گا کہاں، اور کس سے، گاؤں میں نہ کوئی اسکول، نہ مکتب اور نہ کچی مسجد میں متعین امام صاحب!!
جذبہ، خلوص اور لگن ہو تو منزل کے راہیں مل جاتی ہیں، والدۂ محترمہ نے گھر والوں کے علی الرغم مجھے آبائی وطن سے تقریباً بیس کلومیٹر دور میری نانی کے پاس اس تاکید کے ساتھ چھوڑ دیا کہ اس کو اسکول بھیجناہے۔ (درخشاں ستارے،ص/11/12)
اس کے بعد جامعہ حسینیہ گریڈیہہ جھارکھنڈ ميں داخلہ ليا اور اسى دوران حضرت مولانا عبد الحق صاحب اعظمى رحمہ الله سے علم الصيغہ پڑھى، مولانا رقم طراز ہيں:
"حضرت مولانا سے متعلق ہمارى كتاب "علم الصيغہ” تهى، نہايت كامياب مدرس اور بے انتہا سخت مزاج، وه درس وتدريس كے ساتھ طلبہ كى نگرانى بهى كرتے، حضرت مولانا ايک سال كےبعد ہى واپس وطن تشريف لےگے، ليكن اس دوران علاقےكےپس مانده اور ان پڑھ لوگوں ميں جاكر خطاب كرنا، دينى اجلاس ميں شركت، مدرسہ كى مالى فراہمى كےليے دور دراز كےگاؤں تک جانا ان كى مشغوليات كا ايسا حصہ رہا كہ وہاں كےلوگ آج بهى انهيں ياد كرتےہيں۔ (صفحہ: 26)۔
جامعہ حسينيہ ميں چار سال گزارنے كے بعد مدرسہ اشرف المدارس گلٹی، ضلع بردوان بنگال میں علمی آبشار سے سیراب ہوئے، پھر/1967ء میں جامعہ مظاہر علوم سہار نپور میں شرح جامی کی جماعت میں داخلہ لیا اور امام النحو علامہ صدیق احمد کشمیری رحمہ الله، مفتی عبدالقیوم صاحب مظاہری، مولانا محمد اللہ صاحب ابن مولانا اسعداللہ صاحب رامپوری علیہ الرحمہ سے استفادہ کیا، پھر اگلے سال/1968 میں دارالعلوم دیوبند کی علمی فضا میں داخل ہوئے، اور 1971 میں دورۂ حدیث کی تکمیل کی ۔
دورۂ حدیث کی کتابیں اور آپ کے اساتذہ کی تفصیل حسب ذیل ہے:
بخاری شریف جلد اول مولانا سید فخرالدین مرادآبادی قدس سرہ سے۔
جلد ثانی مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی نور الله مرقده سے۔مسلم شریف مکمل مولانا شریف الحسن صاحب دیوبندی سے۔ ترمذی شریف مکمل بشمول شمائل ترمذی مولانا فخرالحسن مرادآبادی سے۔ ابوداود شریف مکمل مولانا عبدالاحد صاحب دیوبندی سے۔ نسائی شریف حضرت علامہ حسین بہاری سے۔ ابن ماجہ شریف مولانا اسلام الحق اعظمی سے۔ طحاوی شریف مولانا سید انظر شاہ کشمیری سے۔ موطا امام محمد مولانا نعیم احمد صاحب دیوبندی سے۔ موطا امام مالک مولانا نصیر احمد خان بلند شہری سے پڑھی۔ 1972ء/ میں شعبہ عربی ادب میں داخلہ لیا اور مولانا وحید الزماں کیرانوی علیہ الرحمہ سے خوب استفادہ کیا۔
پھر1973ءاور1974ء میں منشى شکور احمد دیوبندی اور حضرت مولانا اشتیاق احمد صاحب قاسمى کی نگرانی میں اردو وعربی خوش نویسی وخطاطی میں مہارت پیدا کی، پھر 1975/ء میں دارالعلوم ہی میں مفتی نظام الدین اعظمی ، مفتی محمودالحسن گنگوہی، اور مفتی احمد علی سعید صاحب دیوبندی نور الله مرقدہم سے تخصص فی الفقہ کیا۔
شعبہ افتاء سے فراغت کے بعد 1976ء۔1396ھ میں دارالعلوم سے پندرہ روزہ عربی رسالے "الداعی” کا اجرا ہوا، اس کی ادارت مولانا وحید الزماں کیرانوی کے سپرد تھی۔ انھوں نے دو معاون طلب کیے دوسرے معاون کے طورپر آپ کا تقررہوا، پہلے معاون مولانا بدرالحسن صاحب مقیم حال کویت تھے۔ اور یہ ذمہ داری مسلسل چھ برس 1982 تک جاری رہی۔
مولانا مرحوم لکھتے ہیں:”الداعی میں ملازمت کے دوران ہی انگریزی پڑھنے کا شوق ہوا، اور بالآخر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ہائی اسکول اور پری یونیورسٹی کے انگلش امتحانات دے کر کامیابی حاصل کی، بی اے کی تعلیم تو مکمل ہوگئی مگر اجلاس صد سالہ دارالعلوم دیوبند میں منعقدہ 1980ء کی مشغولیات کی وجہ سے آخری امتحان میں شرکت نہیں ہوسکی۔ پھر دس سال کے بعد 1990ء میں آگرہ یونیورسٹی سے ایم اے اردو کی تکمیل کی” ـ۔(حوالہ بالا/8)
مولانا نے اپنى كتاب "درخشاں ستارے ” ميں دارالعلوم ديوبند ميں جن اساتذه سے كسب فيض كيا، ان كا اس كتاب ميں مفصل تذكره كيا ہے۔
جيسا كہ ميں نے سطور بالا ميں لكها كہ مولانا تقريبا تين سالوں سے بيمار تهے، خود لکھتے ہیں:”گذشتہ 3 سال سے جس مرض کاشکار ہوں وہ جسمانی اور ذہنی طور پر بھی بیحد پریشانی میں مبتلا ہوں ـ غنیمت ہے، اللہ کا فضل ہے، پڑھ لیتا ہوں، موبائل پر مختصر لکھ بھی لیتا ہوں، لیکن آنکھوں کی پریشانی کی وجہ سے لکھنے پر قادر نہیں؛ ورنہ جی تو چاہتا ہے کہ کچھ اپنی یادوں کو قلمبند کروں ـ اللہ صحت و عافیت بخشے تو ضرور کچھ پیش کروں گاـ دعاؤں کی درخواست ہے”۔
مولانا بدرالحسن صاحب قاسمی جو آپ كے معاون رہے اور قريبى رفقاء ميں شمار ہوتا ہے، وه آپ كے بارے میں لکھتے ہیں: "مولانا محمد اسلام قاسمی میرے زمیل ہیں،الداعی کے ادارت کے زمانہ میں ان کی بے مثال خطاطی پر ہی میرا انحصار تھا،اجلاس صدسالہ کے موقع پر جو خصوصی شمارہ ہم نے شائع کیاتھا،وہ آج بھی ایک مرجع کے طور پر مطلوب ہے،امام حرم شیخ محمد السبیل مرحوم نے بارہا اس کی فوٹو کاپی مولانا سعید عنایة الله صاحب كے ذریعہ منگوا ئی،مولانا محمد اسلام قاسمی صاحب کی ترتیب و اخراج کی ماہرانہ فنکاری کی وجہ سے مجھے بڑی تقویت حاصل تھی، مقامی مشاہدات میں وہ میرے ساتھ اور ہم مزاج تھےـ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ان کی صحت بحال ہو جائے اور الداعی کے پانچ چھ سال کے مشاہدات وتجربات وہ لکھیں تو میرا بوجھ ہلکا رہے اورتلخ وشیریں ان کے قلم سے آئے۔
میرے پاس تو باہر ہی کے تجربات کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ اگر باقاعدہ لکھا جائے تو سفینہ چاہیے اس بحر بے کراں کے لیےـ اللہ تعالی ان کی صحت بینائی اور قوت اپنے لطف و کر م سے بحال کر دے اور وہ پھر سر گرم ہوجائیں”۔ آمین
مولانا ايك رواں دواں قلم كے مالك تهے اور قلم سے رشتہ بهى ہميشہ قائم رہا، مولانا كى كچھ تصانيف كا ذيل ميں ذكر كيا جاتا ہے، آپ کے گہربار قلم سے سترہ کتابیں منظر عام پر آئیں، جو آپ کی زود نویسی کی کھلی تصویر ہیں:
(1)ترجمہ مفید الطالبین (2)دارالعلوم کی ایک صدی کا علمی سفرنامہ (3)مقالات حکیم الاسلام رح(4) ضمیمہ المنجد عربی اردو (5)القراءۃ الراشدہ ترجمہ اردو، تین حصے (6)جدید عربی میں خط لکھئے عربی اردو(7)جمع الفضائل شرح اردو شمائل ترمذی(8)ازمۃ الخلیج عربی، (9)خلیجی بحران اور صدام حسین (10) منہاج الابرار شرح اردو مشکوۃ الآثار(11)دارالعلوم دیوبند اور حکیم الاسلام قاری محمد طیب (12) درخشاں ستارے (14)رمضان المبارک فضائل ومسائل(15)زکوۃ وصدقات اہمیت وفوائد (16)دارالعلوم دیوبند اور خانوادہ قاسمی (17)متعلقات قرآن اور تفاسیر۔
مولانا ناب حسن قاسمی آپ کی تحریروں کی شعاع بیزی کے متعلق اپنی کتاب دارالعلوم کا صحافتی منظرنامہ، ص:258 پر رقم طراز ہیں:
"مولانا محمد اسلام قاسمی چوں کہ گہرا علم، متوازن فکر اور بیدار شعور رکھتے ہیں، اس لیے ان کی تحریروں میں معلومات کا وفور، افکار وخیالات میں حد درجہ سنجیدگی وتوازن اور حالات ومسائل حاضرہ کا بھرپور تجزیہ پایاجاتاہے اور قلم سے طویل رفاقت رکھنے کی بنا پر الفاظ کا زیاں بھی ان کے یہاں سرے سے دیکھنے کو نہیں ملتا، وہ جچے تلے الفاظ میں جچی تلی رائے پیش کرنے کے عادی ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کا قلم الفاظ کی بھول بھلیوں اور تعبیرات کی جگل بندیوں میں قاری کو غلطاں وپیچاں نہیں کرتا، بلکہ ضرورت کے بہ قدر الفاظ اور برمحل ومناسب تعبیرات کے ذریعے اس کے ذہن ودماغ کی آسودگی اور قلب وروح کی آب یاری کا سامان بہم پہونچاتاہے۔ مولانا محمد اسلام قاسمی چوں کہ عربی کے ساتھ اردو ادبیات پر گہری نگاہ رکھتے ہیں، اس لیے ان کی تحریریں سلاست وپُرکاری کا بھی عمدہ نمونہ پیش کرتی ہیں اور انھیں پڑھتے ہوئے قاری کسی قسم کے اٹکاؤ،الجھاؤ اور پیچیدگی کا قطعاً شکار نہیں ہوتا”۔
مولانا احمد سجاد صاحب قاسمى نے مولانا كے انتقال پر اپنے تاثراتى مضمون ميں مولانا كى بہت سى خصوصيات كا تذكره كيا ہے، وه مضمون بهى قابل مطالعہ ہے۔
بالآخرعلم وعمل، فضل وكمال، ايمان ومعرفت، زہد وورع كا وه مہر تاباں غروب ہوگيا جس كى ضياء پاشيوں سے طالبان علوم نبويہ فيض ياب ہو رہے تهے اور اس گنج گرانمايہ كو ہزاروں علماء وصلحاء كى موجودگى ميں مزار قاسمى ميں سپرد خاک كرديا گيا۔
نہ سمجھے تهے كہ اس جانِ جہان سے يوں جدا ہوں گے
يہ سنتےگو چلے آئے تهے اک دن جان ہےجانى
الله تعالى آپ كى مغفرت فرمائے، درجات بلند فرمائے اور آپ كے پسماندگان كو صبر جميل عطاء فرمائے اور دارالعلوم وقف كو آپ كا نعم البدل عطا فرمائے۔
آسماں ان كى لحد پر شبنم افشانى كرے
سبزۂ نو رستہ اس گھر كى نگہبانى كرے