دار العلوم دیوبند 150 سال سے زیادہ قدیم ادارہ ہے جس نے ملک میں اسلام کی حفاظت کے لئے عدیم النظیر کارنامہ انجام دیا ہے بلکہ پوری دنیا پر اس کے گہرے اثرات پڑے ہیں. اس کے قیام کا بنیادی مقصد علماءِ دین تیار کرنا ہے تاکہ امت کی رہنمائی اور اسلام کی حفاظت کی ضرورت پوری ہوسکے. مسلم عوام کے چندے اور زکوٰۃ وعطیات ہی پر اس کی functioning کا انحصار ہے. ملت اس کو اسی اشاعتِ اسلام وتحفظِ اسلام اور تیاریِ علماءِ دین کے کام کے لئے اپنی خون پسینے کی گاڑھی کمائی سے پیسے دیتی ہے اور دار العلوم ایک بہت مضبوط اور شفاف نظام کے تحت ان رقومات کو خرچ کرتا ہے.
دار العلوم ہمیشہ اپنے مقصدِ قیام پر ثابت قدم رہا ہے. اس میں جب بھی کسی جانب سے کمزوری نظر آئی دار العلوم متوجہ ہوکر اس کی اصلاح کرتا رہا ہے. کل گزشتہ کے اپنے اعلان میں بھی دار العلوم نے طلبہ کی مقصدِ قیام سے انحراف کی کوششوں پر قدغن لگانے کی کوشش کی ہے. دار العلوم میں دورانِ تعلیم انگریزی یا دوسرے علوم وفنون کی تحصیل پر دار العلوم نے اعلان میں طلبہ پر پابندی لگائی ہے اور بہت مجبور ہوکر ہی ایسا کیا ہے. پچھلے دنوں دار العلوم کے بعض ذمہ داران کی طرف سے دسویں کی تعلیم وامتحان کی بات کہی گئی تھی اگرچہ وہ دار العلوم کا اپنا باضابطہ اعلان نہیں تھا. بالخصوص شاید اس اعلان کے بعد طلبہ نے اس کو اپنے اعتبار سے سمجھا اور ایک بڑی تعداد قرآن وحدیث کی تعلیم کے دوران انگریزی وغیرہ کی طرف متوجہ ہوگئی. طلبہ جوق در جوق دیوبند شہر کے انگریزی سینٹروں کی طرف جانے لگے، احادیث اور بخاری شریف کے اسباق کے دوران بھی درسگاہوں میں بہتیرے طلبہ انگریزی پڑھتے ہوئے نظر آئے اور اس طرح دار العلوم کے مجموعی نظامِ تعلیم پر برا اثر پڑنے لگا. طلبہِ دار العلوم کا cream طبقہ ہی دار الافتاء کے لئے منتخب ہوتا ہے اور مفتی بنتا ہے مگر وہاں بھی بعض طلبہ کی فیصد غیر حاضری نظر آئی. ایسی صورتحال میں غوروفکر کرکے دار العلوم نے ایسے نامناسب اور اپنے مقصد کے لئے ضرر رساں ماحول کے ازالے کے لئے ایسا اعلان کیا. بہتیرے طلبہ پہلے بھی فارغ اوقات میں انگریزی وکمپیوٹر وغیرہ سیکھتے تھے مگر وہ تعداد کم ہوتی تھی اور مجموعی ماحول محفوظ تھا مگر اب مجموعی ماحول ہی متأثر ہونے لگا ہے اور بات out of proportion ہوگئی ہے. لہذا ایسا قدم اٹھانا ناگزیر ہوا.
بعض لوگوں کو دار العلوم کے اس اعلان سے یہ غلط فہمی ہورہی ہے کہ دار العلوم نے انگریزی وکمپیوٹر وغیرہ سیکھنے کی مخالفت کا اعلان کیا ہے اور انہوں نے سوشل میڈیا پر مذمت اور تنقید کا دہانہ کھول دیا ہے. ایسے لوگ یا تو ضرر رساں بگڑتے ماحول سے واقف نہیں ہیں یا دار العلوم سے بغض رکھنے کی وجہ سے ایسا کہہ رہے ہیں.
ظاہر ہے کہ دار العلوم نے اپنے یہاں دینی علوم کی تحصیل کے دوران انگریزی کی تعلیم پر پابندی لگائی ہے تاکہ مقصد متأثر نہ ہو. یہ پابندی علی الاطلاق ہرگز نہیں ہے. یہ واضح رہنا چاہیے کہ دار العلوم نے کبھی بھی انگریزی زبان یا کمپیوٹر کی مخالفت نہیں کی ہے بلکہ اپنی ایک صدی قبل کی روداد میں انگریزی زبان کی تعلیم جاری کرنے کی بات کہی ہے. نیز 21 سالوں یعنی تقریباً چوتھائی صدی سے دار العلوم نے باضابطہ طور پر انگریزی زبان وادب کا شعبہ جاری کیا ہے جس سے اب تک سینکڑوں نوجوان علماء نے انگریزی زبان وادب کی اختصاصی دوسالہ تعلیم حاصل کی ہے اور اسی طرح شعبہِ کمپیوٹر بھی دار العلوم میں تقریباً 25 سالوں سے قائم ہے.
ہر اہم ادارے اور تحریک کی طرح دار العلوم بھی اپنے مشن اور تحریک کی حفاظت کی خاطر فکرمند رہتا ہے اور انتظامی طور پر وقتا فوقتا اعلانات کرتا ہے اور طلبہ کے لئے ہدایات جاری کرتا ہے. یہ اعلان بھی اسی تقاضے کے پیشِ نظر ہے اور طلبہ اور ملت کی خیرخواہی کی خاطر ہے. دار العلوم کے ایسے اعلانات کی مذمت کرنا اور اول فول بکنا صحتمند علامت نہیں ہے. اس سے گریز کرنا چاہیے اور دار العلوم کے کاموں میں دخل اندازی کی بجائے اپنے کاموں پر فوکس کرنا چاہیے اور ملت کے لئے فیض رساں بننے کی کوشش کرنی چاہیے.
محمد عبید اللہ قاسمی
دہلی یونیورسٹی، مورخہ 14 مئی، 2023