دیوبندسے اُلفت والے سُن

نوٹ: ایک طویل منظوم سوال نامہ واٹس ایپ گروپس پر گردش کر رہا ہے،جس کے آخری بند سے پتہ چلتا ہے کہ شاعر کا تخلص احمد ہے، مولانا ضیاء الحق خیرآبادی کے نام کے ساتھ یہ اطلاع بھی وائرل ہورہی ہے کہ شاعر مولانا انصار احمد معروفی ہیں جو 1980ء سے پہلے کے فارغ ہیں.

دیوبند سے آنے والے بتا

اس نظم میں دارالعلوم اور دیوبند کے قدیم ماحول سے متعلق دل چسپ اسلوب میں بہت سے سوالات کیے گئے ہیں،سبھی سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی گئی ہے، جوابات کا پورا لطف وہی حضرات اٹھا سکتے ہیں جن کی نظروں سے سوالات گزر چکے ہیں.

دیوبندسے اُلفت والے سُن
اُضحوکے سُن کچھ نالے سُن
چالیس سال میں جو بھی بدلا جو کچھ باقی
سب کچھ کھل کر کہتا ہے یہ ادنی ساقی

ہاں اب بھی یہاں کے اسٹیشن پر بھیڑ کا منظر رہتا ہے
اور اس پر قابو پانے کو پولیس کا ہنٹر رہتا ہے
رکشا والوں کی پکڑا پکڑی،چھینا جھپٹی اب بھی ہے
اس سے چلتی،اس سے ملتی ان کی روٹی اب بھی ہے
اولاد بھی ان کی رکشے پر ہاں کچھ کی گزارا کرتی ہے
اور کچھ کے گھروں میں علم و عمل کی شمع اُجالا کرتی ہے

دیوبند سے اُلفت والے سُن
دیوبند سے اُلفت والے سُن

بازاروں میں رِکشاؤں کی رفتار ابھی تک تیز وہی
اِن سڑکوں پر ہے اب بھی ہنگامۂ رُستا خیز وہی
طلبہ اب نادان نہیں جو رستے میں یوں گرجائیں
میدان اُنھیں گر مل جائے تو کام اَنوکھا کرجائیں
اب منھ سے سیٹی بجتی ہے نہ گھنٹی کا ہے نام کہیں
ای رِکشاؤں کے دور میں بھی اس کا کچھ ہے کام کہیں

دیوبند سے اُلفت والے سُن
دیوبند سے اُلفت والے سُن

رونے والے شب میں اب بھی دکھتے ہیں
اُٹھنے والے رات میں چھپ کر اُٹھتے ہیں
پہلے جیسا نور نہیں پر کوشش اب بھی ہوتی ہے
دل تو ویسا صاف نہیں پر آنکھ تو اب بھی روتی ہے
کچھ طلبہ اب بھی ایسے ہیں جو پہلے پہلے روتے ہیں
داخلہ جب ہوجاتا ہے تو گھنٹوں گھنٹوں سوتے ہیں

دیوبند سے اُلفت والے سُن
دیوبند سے اُلفت والے سُن

ہاں صحنِ گلستاں کے اب بھی پرکیف نظارے ہوتے ہیں
اس علمی اُفُق پر جلوہ گر ہاں چاند ستارے ہوتےہیں
پُر شوق مَناظر میں چھُپ کر کچھ شوخ اشارے ہوتے ہیں
کچھ لڑکے بھولے بھالے ہیں کچھ تیز شرارے ہوتے ہیں
فجر سے پہلے غسل و وضو اور خوب غرارے ہوتے ہیں
بعدِ عصْر چہل پہل کے خوب نظارےہوتے ہیں

دیوبند سے اُلفت والے سُن
دیوبند سے اُلفت والے سُن

ہاں فجر سے پہلے نگراں کچھ ہم سب کو جگانے آتے ہیں
غفلت کے نشے میں سوئے ہوئے لڑکوں کو اُٹھانے آتے ہیں
لڑکوں کو ابھی بھی ہاں جھوٹے جھوٹے سے بہانے آتے ہیں
پر جھوٹ نہیں اب چلتا ہے اور پکڑے پھر وہ جاتے ہیں
تادیبی سبق میں بچے کچھ بھی مار نہیں اب کھاتے ہیں
یا سیٹ پہ بجلی گرتی ہے یا کھانا بند کراتے ہیں

دیوبند سے اُلفت والے سُن
دیوبند سے اُلفت والے سُن

جس روم میں تم سب رہتے تھے وہ روم کبھی کا ٹوٹ گیا
کیا الماری،کیا دس چوّن!وہ شیش محل ہی پھوٹ گیا
اس کی جگہ پر میری بلڈنگ بنوائی ہے مدراسی نے
کمرہ اسی میں پایا ہے مجھ جیسے کم تر عاصی نے
نام لکھا تھا جس جا تم نے وقت نے سب کو ختم کیا
آج کی نسلوں نے آکر اُس پچھلے ڈَھب کو ختم کیا

دیوبند سے اُلفت والے سُن
دیوبند سے اُلفت والے سُن

گلیوں گلیوں سڑکوں سڑکوں گھومنے ہم بھی جاتے ہیں
مستی مستی چلتے پھرتے خوب ترانے گاتےہیں
دور کہیں بازاروں میں اب جانے کا وہ دور گیا
پاس ملی ہے ہر شے میں نے جتنا اب تک غور کیا
سیروتفریح اب بھی ہے ہاں جنگل کی بازاروں کی
جنگل حصے میں کم آیا ہم قسمت کے ماروں کی

دیوبند سے اُلفت والے سُن
دیوبند سے اُلفت والے سُن

مطبخ میں ابھی بھی لمبی سی اک لائن لگانی پڑتی ہے
گر ساتھ کسی کے کھائیں تو ترتیب بنانی پڑتی ہے
نووارِد سارے طلبہ کو کچھ مشق کرانی پڑتی ہے
لےجاکے اُنھیں سب جگہوں پر ہر راہ دکھانی پڑتی ہے
پر آج کا کوئی نووارد بالکل بھی انجان نہیں
دھوکا ان کو دینا ہاں کچھ ایسا اب آسان نہیں

دیوبند سے اُلفت والے سُن
دیوبند سے اُلفت والے سُن

رعب جمانا، دھونس دکھانا عہدِ کہن کی باتیں ہیں
اب تو محبت کے نغمے اور اُلفت کی سوغاتیں ہیں
وہ دور گیا،وہ شور گیا اورٹوٹ گئی ہیں گھٹیا رسمیں
دولت مند یا طاقت ور کے آج نہیں ہے کچھ بھی بس میں
کھانا کھلانا،چائے پلانا آج بھی چلتا رہتا ہے
چوڑا نمکیں کھانے کو بھی دل مچلتا رہتا ہے

دیوبند سے اُلفت والے سُن
دیوبند سے اُلفت والے سُن

دست و گریباں ہوجاتے ہیں اب بھی کچھ ناداں
کرلیتے ہیں لڑ بھڑ کر اِخراج کا اپنے وہ ساماں
ایسا بہت کم ہوتا ہے جب شرم سے سر خم ہوتا ہے
الفت کی اس نگری میں کم ہی ہم کو غم ہوتا ہے
ناراضی تو فطرت ہے،روٹھوں کو منانا جاری ہے
گاجر کا حلوہ خوب ہے مہنگا،برفی کی اب باری ہے

دیوبند سے اُلفت والے سُن
دیوبند سے اُلفت والے سُن

ترتیب سے جب سب ہوتا ہے،تکرار کی آخر بات ہی کیا
اور ہو بھی کبھی گر جائے تو اصرار کی آخر بات ہی کیا

دیوبند سے اُلفت والے سُن
دیوبند سے اُلفت والے سُن

پانی بجلی کمرہ گارڈن پاکر ہم سب ہیں دیوانے
باقی اب تو کچھ بھی نہیں ہیں تنگی کے وہ افسانے
غسل کے خانے خوب کشادہ،بیت خلا بھی لمبی چوڑی
فجر سے پہلے اب بھی ہے ہاں تنگی تھوڑی تھوڑی
تنگی تو رہنی ہی ہے جب سب اک ساتھ آئیں گے
ضبط کا بندھن ٹوٹے گا اور افسانے بھی بن جائیں گے

دیوبند سے اُلفت والے سُن
دیوبند سے اُلفت والے سُن

یک جہتی تو ختم ہوئی ہاں جشن ابھی تک باقی ہے
بے جام و صراحی بے ساغر یوں آج ہمارا ساقی ہے
میلے ٹھیلے اب بھی ہیں پر نفرت ان میں بکتی ہے
بھیڑ ہمارے طلبہ کی اب کچھ بھی نہیں واں دکھتی ہے
ہم کو بڑوں نے روکا ہے بے جا آنے جانے سے
نفرت کی محفوظ رہیں ہم تاکہ زد میں آنے سے

دیوبند سے اُلفت والے سُن
دیوبند سے اُلفت والے سُن

دفترِ داعی اب بھی ہے،عربی کے رسالے کچھ کچھ ہیں
پڑھنے کی اجازت عام نہیں گو ہمت والے کچھ کچھ ہیں
عام اجازت دینے میں تو خطرہ ہے گم ہونے کا
شوق نہیں اب پڑھنے کا،بس کام ہے ہم کو سونے کا
لگ جاتے ہیں موبائل میں جب وقت ہمیں کچھ ملتا ہے
عربی کے رسالے پڑھنے کو کب وقت ہمیں کچھ ملتا ہے

دیوبند سے اُلفت والے سُن
دیوبند سے اُلفت والے سُن

مچھلی اب بھی بنتی ہے پر پیسوں میں سب لاتے ہیں
اکثر طلبہ بے مچھلی بس کھاکے تہاری جاتے ہیں
دورِ مچھلی بیت گیا،اب عہدِ تہاری آیا ہے
بس اک تنہا نامِ تہاری دیوبند میں اب چھایا ہے
جمعرات میں چھٹی ملتی ہے تو خوب تہاری پکتی ہے
اُنگلی پیلی ہوتی ہے جب کھانے میں وہ لگتی ہے

دیوبند سے اُلفت والے سُن
دیوبند سے اُلفت والے سُن

یومِ جمعہ کو یومِ سمک اب کوئی نہیں یاں کہتا ہے
اِس دن تو یہاں پر ہر طالب سرمستِ خطابت رہتا ہے
سارے مُناظر، سارے مقرر،مدنی مطالعے والے بھی
مشق میں سب ہی رہتے ہیں،ہاں گورے بھی اور کالے بھی
گیارہ نمبر والے لڑکے آج کہاں مل پائیں گے
اک دن ہم بھی وقت کی گہری کھائی میں گرجائیں گے

دیوبند سے اُلفت والے سُن
دیوبند سے اُلفت والے سُن

بیس روپے تو چھوٹا بچہ چاٹ میں اب کھاجاتا ہے
بیس روپے کی بات ہی کیا،کیا ان سے اب آتا ہے
اب تو وظیفہ تین سو روپے ہے،کچھ پیسے گھر سے مل جاتے ہیں
چاٹ پکوڑی اور جلیبی خوب مزے سے کھاتے ہیں
باذوق جو طلبہ ہیں تھوڑے،وہ خوب کتابیں لیتے ہیں
سارا وظیفہ خوش ہوکر ناشر کو وہ دیتے ہیں

دیوبند سے اُلفت والے سُن
دیوبند سے اُلفت والے سُن

حسینیہ ہوٹل اب بھی ہے اور گول جلیبی بنتی ہے
لٹکانے کا تو دور گیا ہاں تھال میں رکھی رہتی ہے
زیرِ خانۂ مہماں ہے پر مثلِ مطوّع کوئی نہیں
عزّت سے بُلانا ختم ہوا،اب شیخِ مشرّع کوئی نہیں
زور سعیدی ہوٹل کا اب پہلےسے کچھ کم ہے
پھر بھی اس کی دودھ ملائی رکھتی کافی دم ہے

دیوبند سے اُلفت والے سُن
دیوبند سے اُلفت والے سُن

مرغوب کا ہوٹل اب بھی ہے پر کیا وہ پرانا والا ہے؟
حیدرآباد کی بریانی کا دیوبند میں بول بالا ہے
بند پلنگ توڑ اس کا ہوا،بائکاٹ روایت جاری ہے
گستاخوں کی گستاخی اس سے نکلتی ساری ہے
جھگڑا جس سے ہوتا ہے،بائکاٹ اس کا ہوتا ہے
جھگڑا کرنے والا تاجر سر کو پکڑ کر روتا ہے

دیوبند سے اُلفت والے سُن
دیوبند سے اُلفت والے سُن

نکڑ پر اک خستہ ہوٹل اچھا چلتا اب بھی ہے
چائے بسکٹ اور پاپا جس پر ملتا اب بھی ہے
اب بھی اس پر رہتا ہے ہاں پہلے جیسا اندھیارا
نکھرے ذوق کا انساں کوئی جائے نہ اس پر دوبارا
بجلی کے اس دور میں بھی تم اس ہوٹل کی قسمت دیکھو
نور جہاں میں پھیلا ہے پر اس میں اب بھی ظلمت دیکھو

دیوبند سے اُلفت والے سُن
دیوبند سے اُلفت والے سُن

حافظ بندو جی کے بجائے حافظ جی کا ہوٹل ہے
سادہ اچھا سستا کھانا جس پر ملتا ٹوٹل ہے
ڈالڈے گھی کا دور گیا اب دیسی گھی سب کھاتے ہیں
دیسی کی گنجائش نہ ہو تو سرسو رِفائنڈ لاتے ہیں
مہنگائی کے اس دور میں صاحب ایک روپے کی بات کرو ہو
پنج سو روپے بھی تھوڑے ہیں اب دعوت گر ہیہات کرو ہو

دیوبند سے اُلفت والے سُن
دیوبند سے اُلفت والے سُن

تصویروں کی اب کثرت ہے،فتویٰ گرچہ حرمت ہے
پاس ہیں ساری دوکانیں،تحصیل کی کیا اب حاجت ہے
جامع مسجد پاس ہی ہے کیا تم کو دور لگتی تھی؟
جامع مسجد ہی پر کیا ہر اک چیز بکتی تھی؟
اب تو گھر میں ملتی ہے ہر چیز کبھی تو آؤ تم
مرغ متنجن، مچھلی، اِسٹو،جو چاہو کھاؤ تم

دیوبند سے اُلفت والے سُن
دیوبند سے اُلفت والے سُن

طبّیہ کالج اب تو بس طلبہ کی اک منزل ہے
والی بال بھی ہوتا ہے پر کرکٹ کڑوا حنظل ہے
سر پہ لگی جو گیند کسی کے اس کا یقینًا سر پھوٹا
ٹکرائی کسی کی گاڑی سے تو شیشہ ساماں سب ٹوٹا
اب ریلوے لائن پر فٹ بال کا خرچا ختم ہوا
کالج کے اوّل نمبر کا بالکل چرچا ختم ہوا

دیوبند سے اُلفت والے سُن
دیوبند سے اُلفت والے سُن

والی بال ہی جب ڈوبا مغفور کی شہرت کیا معنی
گونڈے والے کیا اور کھیل کی شوکت کیا معنی
ہر ہاتھ موبائل رکھتا ہے اب میچ کی عزّت کیا معنی
جدّت کے اس دور میں بھیّا پچھلی روایت کیا معنی
بے برکت اس دور میں صاحب پچھلی برکت کیا معنی
بے فرصت اس دور میں صاحب کھیل کی فرصت کیا معنی

دیوبند سے اُلفت والے سُن
دیوبند سے اُلفت والے سُن

دارِ شفائے عظمت میں سرکاری دوا اب ملتی ہے
کھاکر جس کو طبعِ مریضاں پل بھر میں کھلتی ہے
محدود دوائی ہوتی ہے چند ڈبّے رکھے رہتے ہیں
بیماری چاہے جو بھی ہو، سب میں سے اک اک دیتے ہیں
طبّیہ کالج کی شہرت پچھلوں کے بس ساتھ گئی
ڈھانچہ وانچہ کچھ بھی نہیں اب رات گئی تو بات گئی

دیوبند سے اُلفت والے سُن
دیوبند سے اُلفت والے سُن

ہاں اب بھی جماعت کے ساتھی تشکیل کی خاطر آتے ہیں
بحثیں ان سے ہوتی ہیں اور لڑکے چھُپ چُھپ جاتے ہیں
سیف اللہ جیسے ساتھی ہیں جو ہر اک غم کو سہتے ہیں
سب کی باتیں سنتے ہیں اور خود چُپ چُپ رہتے ہیں
گشت بھی طلبہ کرتے ہیں اور نظمِ جماعت قائم ہے
رحمت ان پر اللہ کی ہر پل ہے اور دائم ہے

دیوبند سے اُلفت والے سُن
دیوبند سے اُلفت والے سُن

ہاں صحنِ چمن میں برکھا کی ساون میں بہاریں آتی ہیں
پر بارش میں ٹولیاں طلبہ کی نہ جھومتی ہیں نہ گاتی ہیں
بارش جب بھی ہوتی ہے کھل اُٹھتی ہے دارِ جدیدِ مدراسی
منظر دل کش ہوتا ہےاور لُطف یہ لیتا ہے عاصی
"تاج محل” کا گنبد بھی تو دھول سے ستھرا ہوتا ہے
ہر اک جانب سارا منظر نکھرا نکھرا ہوتا ہے

دیوبند سے اُلفت والے سُن
دیوبند سے اُلفت والے سُن

گرمی کے دنوں میں کچھ لڑکے اب بھی چھت پر سوتے ہیں
نئے نئے لڑکے اوپر جاکر سب سے چھپ کر روتے ہیں
پچھلے برس جب آیا تھا اک دوست ہمارا پڑھنے کو
روروکر ہوتا تھا بے حال بے چارہ گرنے کو
تکیہ غائب ہوجانا یہ گزرے دور کی باتیں ہیں
محفوظ ہمارے دن اب ہیں،محفوظ ہماری راتیں ہیں

دیوبند سے اُلفت والے سُن
دیوبند سے اُلفت والے سُن

اب تو عزیز اور شیخ زبیر انجانے ہی انجانے ہیں
آج کی نسلیں آج کے طلبہ کم ہی انھیں پہچانے ہیں
گزرے دور میں جو تھے ساقی دنیا ان کو بھول گئی
یادیں ان کی کچھ کچھ باقی دنیا جن کو بھول گئی
وقت جو بدلا ہم بھی بدلے،بدلے یہ پیمانے ہیں
اخلاص کے پتلے فوت ہوئے،اب افسانے ہی افسانے ہیں

دیوبند سے اُلفت والے سُن
دیوبند سے اُلفت والے سُن

ہفتم کا اک درجہ ہے اب دارِ حدیثِ فوقانی
اور ہفتم ہی کا درجہ ہے اب دارِ حدیثِ تحتانی
یہ درجے جب بھی بھرتے تھے،یہ درجے اب بھی بھرتے ہیں
پر درسِ سعیدی یاد یہاں پر آج سبھی ہم کرتے ہیں
یومِ جمعہ کو دورے میں ہاں گھنٹہ اب بھی ہوتا ہے
کوئی تو اس میں جاتا ہے اور کوئی پڑا بس سوتا ہے

دیوبند سے اُلفت والے سُن
دیوبند سے اُلفت والے سُن

ختمِ بخاری کی شب میں مہمان نہیں اب آتے ہیں
ناواقف اب بھی سب طلبہ پہلے کی طرح رہ جاتے ہیں
لائٹ اب بھی بجھتی ہے اور رونا رلانا جاری ہے
دعوتِ رُخصت اب بھی ہے اورکھانا کھلانا جاری ہے
جانے والے روتے ہیں چھو چھو کر در دیواروں کو
دیکھنے والے محوِ حیرت ہوتے ہیں سَرشاروں کو

دیوبند سے اُلفت والے سُن
دیوبند سے اُلفت والے سُن

کشتی نما وہ لمبی ٹوپی کوئی نہیں اب سِلواتا
درزی ٹوپی دونوں میں،کوئی نہیں ہے اب ناتا
ٹوپی تحفے میں چلتی ہے جو،وہ بھی مدوّر ہوتی ہے
گول والی خوب پسندِ اہلِ تدبّر ہوتے ہے
لمبی ٹوپی نذر ہوئی اے وقت!تری رفتاروں کی
اہلِ غربت اس کو چاہیں اور نہ چاہت زرداروں کی

دیوبند سے اُلفت والے سُن
دیوبند سے اُلفت والے سُن

جلد کی دوکاں،پاپا بھٹّی،مدنی ہوٹل بند ہوئے
سب کچھ بدلا بدلا ہے؛گویا حنظل قند ہوئے
ویشالی کا تو علم نہیں ہاں دوکانیں ہیں کچھ بالوں کی
کرتے ہیں جو سرکی خدمت ہم جیسے آشفتہ حالوں کی
ایک دکاں پر بالوں کی اب فتویٰ لٹکا رہتا ہے
"قطعِ لحیہ ہے ناجائز” جس پر لکھا رہتا ہے

دیوبند سے اُلفت والے سُن
دیوبند سے اُلفت والے سُن

سائکل والے دادا کب کے پہنچ چکے ہیں جنت میں
رہتے ہوں گے اللہ کی وہ ہر دن اب تو رحمت میں
سائکل کی اب پاس میں کوئی دوکاں شاید ہے ہی نہیں
سگریٹ پینے کا بھی کسی کو عرفاں شاید ہے ہی نہیں
محروم ہوئی بےچاری سگریٹ دادا جیسے باذوقوں سے
خالی ہے اب دیوبند سارا ایسے کامل باشوقوں سے

دیوبند سے اُلفت والے سُن
دیوبند سے اُلفت والے سُن

سوجی حلوے میں اب تو صاحب خمسون روپے تک لگ جاتے ہیں
جب پیسے جیب میں ہوتے ہیں تو خوب مزے ہم پاتے ہیں
اب بھی قرضے میں ساتھی سے پیسے لینے پڑتے ہیں
پیسے جب آجاتے ہیں دکھ درد سے دینے پڑتے ہیں
پیسے اتنے ملتے ہیں کہ رونے کی نوبت کم آتی ہے
اب تو جماعت طلبہ کی مہنگے کھانے کھاتی ہے

دیوبند سے اُلفت والے سُن
دیوبند سے اُلفت والے سُن

رات کی رانی چلتی بنی،اب دن کا راجا آیا ہے
مدراسی نے اک مہکا مہکا تازہ چمن لگوایا ہے
دونوں طرف ہے لال عمارت بیچ کا منظر خوب حسیں ہے
ایسا مبارک اچھا منظربتلاؤ تم اور کہیں ہے؟
کیا دیسی! کیا پردیسی! ہر اک کا دل بہلاتا ہے
چہکاتا ہے،لہکاتا ہے،مہکاتا ہے،پھڑکاتا ہے

دیوبند سے اُلفت والے سُن
دیوبند سے اُلفت والے سُن

ہوٹل اتنے کھل گئے ہیں اب کون پکائے کمرے پر
ہوٹل پہ نہ کھانا ہو تو لے کر جائے کمرے پر
اک سچ گر میں کہ دوں تو کچھ کو کڑوا لگ جائے گا
خود سے پکا کر کھانے کا وہ لطف کہاں مل پائے گا
منظر ہانڈی چڑھنے کا،وہ خوش بو گرْم مسالوں کی
مرغ متنجن کیا رکھے طاقت و قوّت دالوں کی

دیوبند سے اُلفت والے سُن
دیوبند سے اُلفت والے سُن

صدرِ بزم کو صدرا کہنا بے تہذیبی دَرشاتا ہے
میرے دور کا ہر طالب عزّت دیتا پاتا ہے
ادنی مسرّت مل جائے تو ہوٹل ہم بھی جاتے ہیں
دعوت ہم بھی کرتے ہیں اور دعوت ہم بھی کھاتے ہیں
چیز چُھپانا،چیز چُرانا اچھی کوئی بات نہیں
جَبرًا قَہرًا دعوت کھانا اچھی کوئی بات نہیں

دیوبند سے اُلفت والے سُن
دیوبند سے اُلفت والے سُن

احمد صاحب! ہم کو دیں اب آپ اجازت رُخصت کی
آپ پہ مجھ پہ ہووے بارش خوب خدا کی رحمت کی
دعوت آپ کو دیتا ہوں میں دیوبند گھومنے آنے کی
فکر نہ کرنا رہنے کی اور فکر نہ کرنا کھانے کی
فن کی خامی ہوبھی کچھ تو نظر میں لانا ٹھیک نہیں
سیدھی سادی باتیں ہیں یہ شعر بتانا ٹھیک نہیں

مئی 2023ء

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے