از شاکر عمیر معروفی قاسمی مظاہری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نظام قدرت کون جانتا ہے کہ کیا ہے؛ لیکن اتنا تو ہر ایک کا عقیدہ ہے کہ ہر کسی کو موت آنی ہے، یہ نہیں معلوم کہ کہاں، کس وقت، کن احوال میں، بیماری کا طویل عرصہ گزارنے کے بعد یا اچانک۔
ابھی کل گذشتہ 21/ شوال 1444ھ، مطابق 12/مئی 2023ء کی بات ہے کہ میں بنارس کے لئے گھر سے نکل چکا تھا، ٹرین کا ٹائم دیکھنے کے لئے موبائل نکال کر نیٹ آن کیا تو واٹس ایپ پر استاذ محترم حضرت مولانا شبیر مشتاق مکی صاحب حفظہ اللہ شیخ الحدیث جامعہ ام حبیبہؓ پورہ معروف مئو کے صاحبزادے عزیزم "ثمامہ” سلمہ نے میسیج کے ذریعہ اطلاع دی کہ زین المحدثین حضرت مولانا زین العابدین صاحب اعظمی معروفیؒ(سابق صدر شعبۂ تخصص فی الحدیث الشریف جامعہ مظاہر علوم سہارنپور) کے بھتیجے گرامی قدر محترم جناب مولانا عبد الغفور صاحب معروفی قاسمیؒ کار گزار مھتمم جامعہ ام حبیبہؓ پورہ معروف، مئو بعد نماز جمعہ اس دار فانی سے دار بقا کی طرف رحلت فرماگئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
یہ دکھ بھری خبر ملنے پر دل دھک سے ہوگیا، اور موصول خبر کو قبول کرنے اور مزید اطمینان کے لئے مزید تصدیق کی ضرورت محسوس ہوئی، راستہ میں کچھ لوگوں سے ملاقات ہوتی رہی، گفت وشنید سے جب میرے لئے بھی مولانا کے انتقال کی خبر حتمی اور قطعی ہوگئی اور اس کے انکار کی کوئی گنجائش باقی نہ رہی، تو طرح طرح کی باتوں کی طرف ذہن منتقل ہونے لگا، کبھی مولانا کی بیوی بچوں کی کفالت اور دیکھ ریکھ کی طرف، کبھی ان کے اخلاق و کردار کی طرف، کبھی ان کی صلاحیت ولیاقت کی طرف، کبھی ان کی انکساری وتواضع کی طرف، کبھی ان کی سادگی اور سیدھے پن کی طرف، اسی وقت ذہن میں آیاکہ چند سطور ان کے حالات پر رقم کردوں، مگر اس سلسلہ میں میرے پاس سوائے اپنے تاثرات لکھنے کے کچھ اور چیزیں نہ تھیں، میں نے استاذ محترم حضرت مولانا شبیر مشتاق مکی معروفی صاحب سے معلومات فراہم کرنے کے لئے درخواست کی تو مولانا نے مجھے ان کے حالات کے متعلق ان کے قریبی لوگوں سے معلومات حاصل کرکے مطلع کیا، جن کی روشنی میں یہ چند سطور لکھنے پر قادر ہوسکا، فجزاہ اللہ جزاء کریما۔
نام: عبد الغفور بن قاری ابوبکر صاحب
تاریخ پیدائش: 1396ھ
تعلیم: آپ نے مدرسہ اشاعت العلوم محلہ پارہ، پورہ معروف کرتھی جعفر پور میں پرائمری اور فارسی کی تعلیم حاصل کی، اس کے بعد عربی اول سے عربی پنجم(جماعت جلالین) تک جامعہ اسلامیہ ریوڑی تالاب بنارس میں زیر تعلیم رہے، پھر وہیں سے ازہر ہند دار العلوم دیوبند داخلہ کے لئے پہنچے، قسمت نے یاوری کی، داخلہ منظور ہوگیا اور دار العلوم کی آغوش تعلیم وتربیت میں ہفتم اور دورۂ حدیث کی تکمیل کی، یہ سنہ 1998ء کی بات ہے، اس کے بعد مزید ایک سال تکمیل ادب عربی کی بھی سعادت حصہ میں آئی، کل تین سال اس عبقری درسگاہ کے سایہ میں پھولنے پھلنے، سنورنے اور نکھرنے کا زریں موقع میسر ہوا۔
1999ء میں دار العلوم دیوبند کے شعبۂ تکمیل ادب سے فراغت کے بعد مدرسہ اختر العلوم جلال آباد (بجنور) مدرسہ جامع الہدی کھاری بجنور میں عربی کے ابتدائی درجات میں تدریسی خدمات انجام دیں، پھر 2004ء کے اواخر میں دار العلوم حسینیہ تاؤلی ضلع مظفر نگر میں کم وبیش دس سال بحسن وخوبی تدریسی خدمات انجام دیتے رہے، حتی کہ اس ادارہ کے ناظم تعلیمات بھی منتخب ہوئے، اور گاؤں کی مسجد کی امامت بھی سونپی گئی، وہاں ان کو بہت مقبولیت ومحبوبیت نصیب ہوئی، پھر مشیت ایزدی سے ایک وقت ایسا بھی آیاکہ دار العلوم تاؤلی چھوڑ کر اپنے وطن آکر گھریلو کام کاج میں مشغول ہوگئے؛ مگر ابھی کچھ ہی عرصہ گزرا تھاکہ آپ کے عم محترم گرامی قدر حضرت مولانا محمد عثمان صاحب معروفیؒ سابق شیخ الحدیث دار العلوم باسکنڈی آسام انہیں اپنے ساتھ آسام لے گئے، اس طرح وہ دار العلوم باسکنڈی میں تدریس سے منسلک ہوگئے؛ لیکن وہاں کی آب وہوا راس نہ آئی بالآخر ایک ہی سال میں اس جگہ کو ترک کرکے آبائی وطن پورہ معروف واپس آگئے۔
پھر اس علمی گھرانہ کے چشم وچراغ پر پورہ معروف کے دو ارباب حل وعقد کی نظر انتخاب پڑی اور مولانا کو تدریس کے لئے مدعو کیا گیا، آپ نے جامعہ ام حبیبہؓ للبنات کو ترجیح دی اور 2016ء کے اواخر میں اس ادارہ سے منسلک ہوگئے اور تادم واپسیں اسی سے انسلاک رہا، آپ اس جامعہ کے عظیم مدرس بھی تھے اور کار گزار مہتمم بھی، اس جامعہ کا نظام تعلیم وتربیت، امور تعمیر، تقسیم مشاہرہ اور حساب و کتاب سب آپ ہی کے ہاتھوں میں تھا، جسے بڑی جانفشانی، انتہائی شفافیت اور احساس ذمہ داری کے ساتھ وقت اور رفقائے کار اور عملہ کی مکمل رعایت کے ساتھ انجام دیا کرتے تھے۔
الغرض اس جامعہ کی ظاہری اور باطنی تعمیر وترقی کے لئے مولانا مرحوم کی بے پناہ قربانیاں اور محنتیں ہیں، جنہیں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔
وفات: 21/شوال 1444ھ جمعہ کے دن جمعہ کی نماز سے قبل کچھ سینے میں تکلیف محسوس کی، معمولی سی دوالی، کچھ افاقہ ہوا، پھر عین جمعہ کی نماز کے وقت تکلیف میں شدت پیدا ہوگئی، جس میں وقفہ وقفہ سے اتار چڑھاؤ ہوتا رہا، جمعہ کی نماز کے بعد دوپہر کا کھانا کھایا، کچھ دیر بعد پھر تکلیف میں اضافہ ہونے لگا تو چہل قدمی کرنے لگے، اہل خانہ کے پوچھنے پر گیس وغیرہ کا شبہہ ظاہر کیا، مگر در حقیقت قلب کی حرکت متاثر تھی، بالآخر گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ بعد حرکت قلب بالکل ہی بند ہوگئی اور آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کرکے بارگاہ قدس میں جاپہنچی، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
مولانا کی وفات کی خبر سن کر بہت صدمہ ہوا، مولانا مضبوط لیاقت، اچھے اخلاق اور بلند کردار کے مالک تھے، وہ ایک صالح، متواضع، ملنسار اور سادہ مزاج عالم دین تھے، میرے احیاء العلوم مبارک پور اعظم گڑھ کے زمانۂ تدریس میں وہاں کے بعض امتحانی پرچے بھی بنایا کرتے تھے، جس میں میں ہی واسطہ ہوا کرتا تھا، جس کی بنا پر میرا ان سے کچھ زیادہ تعلق ہوگیا تھا، جس کی وجہ سے ان کی وفات کی خبر سن کر زیادہ قلق ہوا۔
مولانا کے وارثین میں دو بچے، ایک بچی اور اہلیہ حیات ہیں۔
اللہ رحمن ورحیم سے دعا ہے کہ وہ مولانا مرحوم کی خدمات کو قبول فرمائے اور ان کی لغزشات سے در گزر فرمائے اور اعلی علیین میں انہیں جگہ عطا فرمائے، اور ان کے اہل خانہ کو صبر جمیل کی توفیق مرحمت فرمائے اور ان کے اہل خانہ کا کفیل بن جائے، آمین۔
إِنَّ لِلَّـهِ مَا أَخَذَ، وَلَهُ مَا أَعْطَى، وَكُلُّ شَيءٍ عِنْدَهُ بِأَجَلٍ مُسَمَّىً، فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ.
اللَّهمَّ اغفرْ لَهُ وارحمهُ ، وعافِهِ واعفُ عنهُ ، وأكْرِم نُزَلَهُ ، ووسِّع مُدَخلَهُ ، واغسلْهُ بالماءِ والثَّلجِ والبَردِ ، ونقِّهِ منَ الخطايا كما نقَّيتَ الثَّوبَ الأبيضَ منَ الدَّنسِ ، وأبدِلهُ دارًا خَيرًا مِن دارِهِ ، وأهلًا خَيرًا مِن أهلِهِ ، وزَوجًا خَيرًا مِن زَوجِهِ ، وأدخِلهُ الجنَّةَ ونجِّهِ منَ النَّارِ.
آمین یا رب العالمین۔