عبداللہ خالد قاسمی خیرآبادی
’’مسلمان اس وقت اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گذر رہے ہیں ‘‘یہ کوئی نیاعنوان اور کوئی نیا مسئلہ نہیں رہا،آئے دن اس عنوان سے مباحثے،تقاریر،سیمینار اور فکر و نظر کی محفلیں منعقد کی جاتی ہیں ، اخبارات و رسائل میں بڑے بڑے مضامین لکھے جارہے ہیں ،تجزیہ نگاری ہورہی ہے ،رائے زنی کی جاتی ہے ،لیکن مسئلہ ہے کہ سلجھتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے ،زخم ہے کہ مندمل ہونے کے بجائے اور بڑھ رہا ہے ۔
ان حالات کی اصل اور بنیادی وجہ دین اور دینی تعلیم کا ماحول نہ ملنا ہے ،لوگوں کے دلوں میںدینی تعلیم کی اہمیت نہیں رہی حالانکہ دینی علوم ہی کےذریعہ انسان کو عرفان الٰہی جیسی عظیم نعمت حاصل ہو سکتی ہے، شاہراہِ حیاتِ انسانی تابندہ و درخشاں ہوتی ہے اور انسانیت کو دنیا و آخرت کی فوز و فلاح حاصل ہوتی ہے ،اسلامی اقدار و روایات کا شعور دینی تعلیم کے بغیر ممکن نہیں ہے ،صحیح عقائد اور دین کی بنیاد ی جانکاری کے بغیر نہ اسلام کو سمجھا جاسکتا ہے اور نہ اس کے احکام کی صحیح معنوں میں تعمیل کی جاسکتی ہے ، اورمسلمانوں کی معاشی، سماجی ،تعلیمی اور سیاسی زبوں حالی کی بنیادی اور اصل وجہ مسلمانوں کااپنے مرکز، اپنی اساس اور اپنی بنیاد، دین سے دوری ، قرآن وسنت، اسلامی تعلیمات، اسلامی شعائر اور دینی اقدار سے نا واقفیت ہے۔
آج اسلامی فکرو تہذیب کا بقاء واستحکام کس قدر خطرے میں ہے اس کا اندازہ خوب کیا جارہا ہے ،ہمارے ملک ہندوستان کی موجودہ بدلتی ہوئی صورتِ حال سے ہر صاحب فہم و ادراک واقف ہے ۔
امت مسلمہ علمی ، تہذیبی، سماجی، معاشی، دفاعی اور سیاسی شعبوں میں اپنی برتری ایک ہزار سال تک برقرار رکھنے کے بعد جب زوال پذیر ہوئی تو اس کے دو بنیادی اسباب تھے، ایک تواس کی اپنے نظریہ حیات سے مستحکم وابستگی میں کمزوریاں در آئیں اور دوسرے اس کی حریف صلیبی اور یہودی قوتوں کی سازشیں ،جنہوں نے نہ صرف مسلم معاشرے کو مغلوب کیا بلکہ اس پر قبضہ کرکے اسے اپنے فکر و نظر کے مطابق بدل ڈالا تاکہ مسلمان آئندہ کبھی سرنہ اٹھاسکیں اور ہمیشہ ان کے غلام رہیں، استعماری طاقتیں اپنے اس منصوبہ میں بڑی حد تک کامیاب ہوگئیں اور مسلمانوں کی عملی کمزوری سے انھوں نے فائدہ اٹھاکر اپنے نظریہ اور فکر کی ترویج کی ،دینی مزاج اور صحیح الفکر افراد اور جماعتوں نے اس دام ہمرنگ زمین کو سمجھنے اور امت مسلمہ کو سمجھانے کی کوششیں اور اس سے ممکنہ حد تک بچنے کی تدابیر بھی اختیار کرکے امت کو اس سے روسناش کرایا ،لیکن مغرب کا یہ ریلا اتنی تیزی سے آیا کہ تمام تر کوشش اور جدوجہد بے کار تو نہیں البتہ کم اثر ثابت ہوئیں۔
تعلیم ایک خاموش انقلاب لاتی ہے اس کے لیے نعروں کی ضرورت نہیں ہوتی، اس کے لیے کسی اسلحے اور ایٹم بم کی بھی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے حکومتی امداد کی بھی ضرورت نہیں،مقامی مسلم آبادی کو متحرک کیا جائے اور انہیں تعلیم و تربیت کی اہمیت بتائی جائے تو یقیناً اتنے وسائل مہیا کئے جاسکتے ہیں جن سے معقول دینی تعلیم کا نظم کیا جاسکے۔جہاںسے بڑی تعداد میں ایسے افراد تیار ہونا شروع ہوجائیں گے جو اپنی زندگی میں اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے والے ہوں گے اور وہ اسلامی اقدار کے پشتیبان ہوں گے،اسلامی اقدارو روایات سے واقف ہوکر پورے معاشرے کے لئے رہبرو رہنما ثابت ہونگے۔
معاشرہ چونکہ افراد ہی سے مل کر بنتا ہے لہٰذا اگر فرد کی صحیح تعلیم و تربیت کا فعال اور مؤثر نظام وضع ہوجائے تو معاشرے کے سدھرنے اور صحیح سمت میں اس کی پیش رفت کے امکانات غالب ہوجائیں گے، معاشرے کی ترقی اور عروج کے لیے فرد کی اصلاح اور ترقی نہ صرف اسلامی اصولوں کے مطابق ہے بلکہ فطری اصول کے عین مطابق بھی ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ جب مسلمان دین حق سے منحرف ہوگئے ،اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ روشن ہدایات و تعلیمات سے چشم پوشی اختیار کرلی ،احکام خداوندی سے رو گردانی کرلی،دنیا پرستی ،عیش پسندی ،جھوٹی شان وشو کت کے دلدادہ ہو گئے، مختلف قسم کے آپسی اختلافات میں مبتلا ہو گئے ، یہود و نصاری او ردوسری قوموں کی نقالی شروع کردی ،انہیں دوست بنانے اوران کی حمایت کے حصول کے لیے ان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے شروع کردیئے اور یہود و نصاری او ردوسری قوموں کی ان تمام خرابیو ں او ر برائیوں میں مبتلا ہو گئے، جن سے انتہائی سخت تاکیدکے ساتھ باز رہنے کو کہا گیا تھا،ایسی صورت میں وہی دشمن عناصر او روہ قو میں جنہیں مغضوب اور ضالین کے خطابات سے نوازا گیا تھا، نظام عالم پر بڑی ہی آسانی اور سرعت کے ساتھ قابض اور متصرف ہو نے لگیں،یہ سب اس لیے ہوا کہ مسلمانوں میں دینی تعلیم کے حصول کا رجحان ختم ہوگیا ہے جس کی وجہ سے لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کو بھلا دیا ،اسلامی اقدار و روایات سے دور ہوتے چلے گئے ،قرآن کریم میں تو خالق اکبر جل مجدہ صاف صاف اعلان کررہا ہے
وما اصابک من سیئۃ فمن نفسک (النساء:۷۹)
’’اور جوبھی مصیبت تجھ پر آتی ہے وہ تیرا اپنے کسب و عمل کی بدولت ہے ‘‘۔
ان اللہ لا یظلم الناس شیئا و لکن الناس انفسھم یظلمون (یونس :۴۴)’’حقیقت یہ کہ اللہ تعالیٰ لوگوں پر ظلم نہیں کرتا لو گ خو د اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں ‘‘۔
اور ان کی یہ حالت اس وقت تک نہیں بدل سکتی جب تک کہ اس کے بدلنے کے لیے خود کو نہ بدلا جائے :ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا ما بانفسھم (الرعد :۱۱)بے شک اللہ تعالیٰ کسی قوم کے حال کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی ‘‘۔
اغیار کا ظلم ،دشمنان اسلام کی مذموم سازشیں،کفار ومشرکین کی مخالفتیں ان سب کا صرف ایک سبب ہے اور وہ مسلمانوں کا دینی تعلیم سے دور ہونا ، آج مسلمان اپنے عمل و کردار سےدنیا کو دین بیزار باور کرارہے ہیں ،مادیات کی چمک دمک کے دلدادہ ہوتے جارہے ہیں ،مسلمانوں کو اپنی تو اپنی اپنی نئی نسل تک کی بھی پرواہ نہیں ہے ،دینی تعلیم کے حصول سے دور رکھ کر غیروں کے ترتیب دیئے ہوئے تعلیمی نظام سے ان کو مربوط کرکے ان کا مستقبل تاریک سے تاریک تر بناتے جارہے ہیں ،اوران سے اسلامی اقدار روایات کے تحفظ کے خواہاں ہیں ۔
مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ان کی ذاتی بے حسی،جدو جہد کی کمی اور جہالت ہے، اس کی وجہ سے امت میں تعلیمی انقلاب کا جذبہ جس انداز سے ہونا چاہئے وہ حاصل نہیں ہو پا رہاہے،تعلیمی اور معاشی پسماندگی دور کرنے کے لئے ضروری ہے کہ مسلم امت خود بیدار ہو، اور اسے اپنا اہم مسئلہ سمجھ کر جدو جہد کرے۔
معاشرتی ترقی کے سلسلے میں محض سماجیات کی تعلیم ہی مسئلہ کا حل نہیں جیسا کہ بعض اہل دانش کا خیال ہے بلکہ معاشرہ کو اسلامی تقاضوں کے مطابق اُستوار کرنا ہو گااور یہ چیز علم کو عمل کے دائرہ میں لائے بغیر ممکن نہیں۔
معاشرہ کو اسلامی اصولوں پر استوار کرنے کے لئے عزم پیہم اور جہدِ مسلسل سے گزرنا ہو گا، یہ داستانِ عزم و وفا بڑی دشوار گزار اور قربانیوں کی متقاضی ہے، جب تک اس مشن کے حامل و وارث علم و عمل سے مزین ہو کر مخلصانہ اور مشترکہ مساعی بروئے کار نہیں لائیں گے، اس وقت تک اُنہیں مطلوبہ نتائج کی توقع بھی نہیں رکھنی چاہئے۔
ہندوستان کے موجودہ حالات میں ملک دشمن عناصر کا جواب دینے کے لئے مسلمانوں میں تعلیمی بیداری اور دینی شعور کا پیدا ہونا انتہائی اہم اور ضروری ہے، اس لئے کہ تعلیم ایک خاموش انقلاب لاتی ہے، اس کے لیے نعروں کی ضرورت نہیں ہوتی، اس کے لیے حکومتی امداد کی بھی ضرورت نہیں، مقامی مسلم آبادی کو متحرک کیا جائے اور انہیں تعلیم و تربیت کی اہمیت بتائی جائے تو یقیناً اتنے وسائل مہیا کئے جاسکتے ہیں جن سے مقامی سکول و کالج کوچلایا جاسکے، البتہ اس اسکول کا نصاب مغربی تعلیم کا چربہ نہ ہو، بلکہ یہ نصاب اسلامی نظریۂ علم اور اسلامی کلچرپر مبنی ہو،ان اسکولوں میں مسلم طلبہ کو نہ صرف صحیح خطوط پر تعلیم دی جائے بلکہ ان کی تربیت بھی کی جائے ،یعنی تعمیر سیرت اور کردار سازی اس کا لازمی حصہ اور نتیجہ ہو، اس سے بڑی تعداد میں ایسے افراد تیار ہونا شروع ہوجائیں گے جو قوم وطن کے سچے ہمدرد اور بہی خواہ ہونگے ،ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے مثبت کردار ادا کریں گے ، جوخود اپنی زندگی میں اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے والے ہوں گے اوراپنے عمل و کردار سے دوسروں کے لئے راہ عمل متعین کریں گے اس طرح سے تعمیر ملک و ملت کی فضا ہموار ہوگی۔
آج ہم پھر سے اسلامی تعلیمات کو عملی جامہ پہنائیں،اپنا عملی رشتہ قرآن مجید سے استوار کریں اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات کے سانچے میں ڈھالیں دنیاکی کوئی بھی طاقت بجز قرآن مجید کے مسلمانوں کو زندہ نہیں رکھ سکتی، مسلمانوں کے تحفظ کی گارنٹی صرف اور صرف وہ اسلامی اخلاق واقدارہیں جن کی طرف رہنمائی قرآن پاک نے فرمائی ہے انتم الاعلون إن کنتم مومنین’’ اے مسلمانوں سربلندی و افتخار تمہارا ہی مقدر بن کے رہے گی ،اگر تم سچے پکے ایماندار بن کر رہوگے‘‘ایک دم صریح اعلان ہے۔