دیوبند سے آنے والے بتا

مولانا انصار احمد معروفی

دیوبند سے آنے والے بتا

روداد چہل سالہ تو بتا

جو مادر علمی ہے اس میں

کیا کیا تبدیلی آئی ہے؟

کیا اب بھی وہاں کے اسٹیشن

پر بھیڑ ہمیشہ رہتی ہے؟

ہیں جتنے وہاں رکشے والے

کیا پہلی سی چھینا جھپٹی ہے؟

اولاد بھی ان کی رکشے پر

کیا اب بھی گزارا کرتی ہے

دیوبند سے آنے والے بتا

دیوبند سے آنے والے بتا

بازاروں میں رکشے والے سب

کیا تیز ابھی بھی چلتے ہیں؟

نادان نئے جو طلبہ ہیں

کیا موڑ پہ گرتے رہتے ہیں

گھنٹی کے بجائے آوازیں

کیا منہ سے بجاتے بڑھتے ہیں

دیوبند سے آنے والے بتا

دیوبند سے آنے والے بتا

دیوبند میں کیا ویسے ہی ابھی

روحانی مناظر ہوتے ہیں

دربان ابھی بھی کیا شب کی

تنہائی میں اٹھ کر روتے ہیں؟

کیا آہ سحر گاہی میں ابھی

موتی اشکوں کے پروتے ہیں

دیوبند سے آنے والے بتا

دیوبند سے آنے والے بتا

کیا صحن گلستاں کے اب بھی

پرکیف نظارے ہوتے ہیں

اس علمی افق پر جلوہ گر

کیا چاند ستارے ہوتے ہیں

پر شوق مناظر میں چھپ کر

کچھ شوخ اشارے ہوتے ہیں؟

دیوبند سے آنے والے بتا

دیوبند سے آنے والے بتا

کیا فجر سے پہلے نگراں کچھ

طلبہ کو جگانے آتے ہیں

غفلت کے نشے میں کیا سوئے

لڑکوں کو اٹھانے آتے ہیں

لڑکوں کو ابھی بھی کیا جھوٹے

جھوٹے سے بہانے آتے ہیں

تادیبی سبق کیا طلبہ کو

کچھ نگراں سکھانے آتے ہیں

دیوبند سے آنے والے بتا

جس روم میں ہم سب رہتے تھے

اب اس میں قبضہ کس کا ہے

سامان تھے جس الماری میں

اب اس پر تالا کس کا ہے

دس نمبر کمرہ یا چون

انتالس والا کس کا ہے

وہ ایک سو انتیس روم جو تھا

اب اس میں حصہ کس کا ہے

لکھا تھا نام و نشاں میں نے

الماری اور کتابوں پر

لکھا تھا نہ جانے اور کہاں

اور کس کس کی دیواروں پر

جب برج شمالی میں پہنچے

تو لکھ دیا اس کے جنگلوں پر

جب جوش محبت میں آئے

تو دل نے لکھا گلابوں پر

کیا نام ابھی وہ باقی ہے

تھا جو بھی منقش ذہنوں پر

دیوبند سے آنے والے بتا

کیا شہر کی گلیوں گلیوں میں

سب گھومنے اب بھی جاتے ہیں

تفریح میں طلبہ کیا اب بھی

مستی کے ترانے گاتے ہیں

اور جاکے کہیں بازاروں میں

وہ اپنے دل بہلاتے ہیں

ہر شام اندھیرا ہونے پر

پھر لوٹ کے گھر کو آتے ہیں

دیوبند سے آنے والے بتا

دیوبند سے آنے والے بتا

مطبخ میں ابھی بھی کیا لمبی

لائن وہ لگانی پڑتی ہے

کیا کھانا ابھی بھی لانے کی

ترتیب بنانی پڑتی ہے

نو وارد سارے طلبہ کو

کیا مشق کرانی پڑتی ہے

لے جاکے انہیں کیا مطبخ کی

سب راہ دکھانی پڑتی ہے

دیوبند سے آنے والے بتا

دیوبند سے آنے والے بتا

کیا اب بھی پرانے کچھ طلبہ

چھوٹوں پہ رعب جماتے ہیں

کیا دھونس جماکر وہ ان سے

کچھ ذاتی کام کراتے ہیں

کیا ان کی خدمت لینے کو

احسان وہ اپنے جتاتے ہیں

کیا ان سے مٹھائی کھانے کو

کچھ ان کی چیز چھپاتے ہیں

دیوبند سے آنے والے بتا

دیوبند سے آنے والے بتا

کیا ساتھ ابھی بھی چائے کے

چلتا ہے محاورہ وائے کا

کیا اب بھی تقاضا کرتے ہیں

کمروں میں جاکر چائے کا

کنجوس ابھی بھی لگاتے ہیں

کیا نعرہ ہائے ہائے کا

کہتے ہیں تقاضے پر کیا وہ

جب پیسے نہیں تو آئے کیا

دیوبند سے آنے والے بتا

دیوبند سے آنے والے بتا

کیا اب بھی پرانے کچھ طلبہ

روٹھوں کو منانے آتے ہیں

باہم جو دست و گریباں ہیں

کیا ان کو ملانے آتے ہیں

ظاہر میں انھیں الفت کا سبق

وہ طلبہ پڑھانے آتے ہیں

لیکن وہ ملاکر گاجر کے بس

حلوے کھانے آتے ہیں

دیوبند سے آنے والے بتا

دیوبند سے آنے والے بتا

کمرے کی صفائی کرنے میں

کیا توتو میں میں ہوتی ہے

کھانے کے بھی برتن دھونے میں

کیا توتو میں میں ہوتی ہے

اور ناشتہ صبح بنانے میں

کیا توتو میں میں ہوتی ہے

کپڑے دھونے میں نہانے میں

کیا توتو میں میں ہوتی ہے

دیوبند سے آنے والے بتا

دیوبند سے آنے والے بتا

کیا دار جدیدہ میں اب بھی

وہ غسل کے کم ہی خانے ہیں

جب جاؤ قضائے حاجت کو

افسانے ہی افسانے ہیں

کیا روکے ہوئے ہیں کچھ سانسیں

لبریز کئی پیمانے ہیں

اور ضبط کے ٹوٹنے والے ہی

بس سارے تانے بانے ہیں

دیوبند سے آنے والے بتا

دیوبند سے آنے والے بتا

کیا اب بھی فضا یکجہتی کی

دیوبند میں چھائی رہتی ہے

ہر دم وہاں میلوں ٹھیلوں کی

تاریخ بھی آئی رہتی ہے

کیا ہندو اور کیا مسلم ہوں

طلبہ سے کمائی رہتی ہے

کیا عید ہو اور کیا ہولی ہو

سب چلتی بندھائی رہتی ہے

دیوبند سے آنے والے بتا

دیوبند سے آنے والے بتا

کیا دفتر الداعی میں ابھی

عربی کے رسالے آتے ہیں

کچھ طلبہ انہیں پڑھنے کے لیے

کیا چوری چھپے لیجاتے ہیں

معصوم جو طلبہ ہوتے ہیں

لے جاتے ہوئے گھبراتے ہیں

پھر ترجمہ اس کا کرکے کہیں

مضمون کوئی چھپواتے ہیں

دیوبند سے آنے والے بتا

دیوبند سے آنے والے بتا

بنگالی و آسامی طلبہ

کیا مچھلی مارنے جاتے ہیں

اور چھوٹے گندے گڈھوں سے

مچھلی وہ پکڑ کر لاتے ہیں

پھر لاکے انھیں کچی کچی

اور الٹی سیدھی پکاتے ہیں

پھر شوق سے اپنے یاروں کو

دعوت میں بلا کر کھاتے ہیں

دیوبند سے آنے والے بتا

دیوبند سے آنے والے بتا

وہ یوم جمعہ کو یوم سمک

کے نام سے کرتے یاد ہیں کیا

اس دن کو وہ کھانے پینے سے

سب کرتے ابھی آباد ہیں کیا

رہتے تھے گیارہ نمبر میں

کچھ باتیں ان کی یاد ہیں کیا

وہ کھا پی کر آباد ہیں کیا

دل شاد ہیں یا برباد ہیں کیا

دیوبند سے آنے والے بتا

دیوبند سے آنے والے بتا

کیا بیس روپیہ طلبہ کو

ماہانہ وظیفہ ملتا ہے

کیا بونس کے اس پیسے سے

چہرہ اب بھی کھل جاتا ہے

پھر دودھ جلیبی میں پیسہ

کیا سارا اٹھانا پڑتا ہے

کچھ لڑکوں کا اس پیسے سے

کیا سارا خرچہ چلتا ہے

دیوبند سے آنے والے بتا

دیوبند سے آنے والے بتا

کیا سعیدیہ ہوٹل والے ابھی

پہلی سی جلیبی بناتے ہیں

پھر گول بناکر کیا اس کو

پہلے کی طرح لٹکاتے ہیں

مہمان کے گھر کے نیچے ابھی

کیا ہوٹل اپنا چلاتے ہیں

کیا مثل مطوع رہتے ہیں

عزت کے ساتھ بلاتے ہیں

دیوبند سے آنے والے بتا

دیوبند سے آنے والے بتا

کیا اب بھی حسینیہ ہوٹل میں

بنتا ہے نمک پارہ کہ نہیں

اور ساتھ میں اس کے چائے کا

روشن ہے ابھی تارہ کہ نہیں

کیا دیسی گھی اور گاجر کا

بنتا ہے ابھی حلوہ کہ نہیں

اشعار کے طغرے اور نغمے

کا رہتا ہے جلوہ کہ نہیں

دیوبند سے آنے والے بتا

دیوبند سے آنے والے بتا

مرغوب کا ہوٹل بند ہوا

یا اس کی عداوت جاری ہے

کیا صبح کو بریانی زردے

کی اب بھی تجارت جاری ہے

کیا بند پلنگ توڑ اس کا ہوا

یا اب بھی قیامت جاری ہے

کیا ختم وہ بائیکاٹ ہوا

یا اب بھی روایت جاری ہے

دیوبند سے آنے والے بتا

دیوبند سے آنے والے بتا

یامنے کا ہوٹل نکڑ پہ

کیا چلتا ہے پہلے کی طرح

وہ خستہ مکاں خستہ ہوٹل

کیا کھلتا ہے پہلے کی طرح

کیا دودھ اس میں چائے پاپا

سب ملتا ہے پہلے کی طرح

کیا اندر اس کے اندھیارا

کچھ رہتا ہے پہلے کی طرح

دیوبند سے آنے والے بتا

دیوبند سے آنے والے بتا

بندو کی دوکاں حافظ جی کی

پہلے کی طرح کیا چلتی ہے

کیا ڈالڈا سوجی اور چینی

اک روپے میں مل جاتی ہے

کیا ایک ہی سکے میں اب بھی

طلبہ کی ضیافت ہوتی ہے

اک سکے میں دو چائے ابھی

بالائی والی ملتی ہے

دیوبند سے آنے والے بتا

دیوبند سے آنے والے بتا

کیا فوٹو اب بھی نکلوانے

تحصیل پہ جانا پڑتا ہے

اور گوشت ابھی بھی پڑوے کا

کچھ دور سے لانا پڑتا ہے

جامع مسجد سے کیا اب بھی

سامان منگانا پڑتا ہے

کیا فوٹو کاپی کرانے کو

بازار ہی جانا پڑتا ہے

دیوبند سے آنے والے بتا

دیوبند سے آنے والے بتا

کیا طبیہ کالج کے میداں

میں والی بال بھی ہوتا ہے

اور صحن میں افریقی منزل

کے کرکٹ کھیلا جاتا ہے

اور ریلوے لائن کی جانب

فٹبال کا ہوتا تماشا ہے

کیا جی ٹی روڈ کے کالج میں

بھی اول نمبر آتا ہے

دیوبند سے آنے والے بتا

دیوبند سے آنے والے بتا

کیا والی بال میں بستی کے

مغفور کی شہرت باقی ہے

اور گونڈہ والے نیاز کی بالی

کی کیا طاقت باقی ہے

کیا کھیل میں پہلے والی ابھی

وہ شان وشوکت باقی ہے

جو میچ میں عزت پائی تھی

کیا اب بھی وہ عزت باقی ہے

دیوبند سے آنے والے بتا

دیوبند سے آنے والے بتا

کیا طبیہ کالج میں اب بھی

نزلے کی گولی بنتی ہے

کیا سارے مرض میں اک گولی

جانے والوں کو ملتی ہے

اس طبیہ کالج کی شہرت

کیا دور تلک بھی پہنچی ہے

اک انسانی ڈھانچے کی وہاں

کیا یاد ابھی بھی رکھی ہے

دیوبند سے آنے والے بتا

دیوبند سے آنے والے بتا

کیا اب بھی جماعت کے ساتھی

تشکیل کی خاطر آتے ہیں

اور ان سے بچنے کی خاطر

لڑکے چھپ جایا کرتے ہیں

اور بعض جری طلبہ ان سے

کچھ بحث شروع کردیتے ہیں

اور بھولے بھالے وہ ساتھی

ہر اک غم سہ لیتے ہیں

دیوبند سے آنے والے بتا

دیوبند سے آنے والے بتا

کیا صحن چمن میں برکھا کی

ساون میں بہاریں آتی ہیں

بارش میں ٹولیاں طلبہ کی

کیا جھومتی گاتی رہتی ہیں

مل مل کر جسم پہ صابن پھر

کیا اٹھلاتی اور نہاتی ہیں

کیا ٹولیاں دوڑتی جاتی ہیں

ناگن کی طرح لہراتی ہیں

دیوبند سے آنے والے بتا

دیوبند سے آنے والے بتا

گرمی کے دنوں میں کیا لڑکے

چھت پر بھی سونے جاتے ہیں

جو اس میں نئے ہیں وہ چہرے

کیا اشک سے دھونے جاتے ہیں

کیا عالم تنہائی میں وہ

فرقت میں رونے جاتے ہیں

یا اپنے خوشنما تکیے کو

وہ رات میں کھونے جاتے ہیں

دیوبند سے آنے والے بتا

دیوبند سے آنے والے بتا

کیا اب بھی عزیز احمد بی اے

سائنس پڑھانے آتے ہیں

اور صحن چمن میں وہ اس کی

کچھ عملی مشق کراتے ہیں

کیا شہر سے شیخ زبیر احمد

مشکوۃ پڑھانے جاتے ہیں

اخلاص کے پتلے درس میں کیا

خود روتے اور رلاتے ہیں

دیوبند سے آنے والے بتا

دیوبند سے آنے والے بتا

وہ دار حدیث فوقانی

کیا طلبہ سے بھر جاتی ہے

اور درس مفتی سعید میں کیا

تنگی کی شکایت کرتی ہے

کیا بعض سبق میں وہ تھوڑی

تھوڑی سی سکڑتی رہتی ہے

کیا یوم جمعہ بھی وہ پڑھنے

کے واسطے اب بھی کھلتی ہے

دیوبند سے آنے والے بتا

دیوبند سے آنے والے بتا

کیا ختم بخاری کی شب میں

مہمان کہیں سے آتے ہیں

یا بےخبر اب بھی سب طلبہ

پہلے کی طرح رہ جاتے ہیں

کیا وقت دعا رونے کے لیے

سب لائٹ طلبہ بجھاتے ہیں

کیا اس کی خوشی میں شیرینی

ہوٹل میں جاکے کھلاتے ہیں

دیوبند سے آنے والے بتا

دیوبند سے آنے والے بتا

کیا کشتی نما لمبی ٹوپی

کچھ طلبہ اب بھی لگاتے ہیں

اور من چاہی ٹوپی کے لیے

کیا کپڑے مول لے آتے ہیں

پھر حافظ عبد القادر درزی

سے کیا وہ سلواتے ہیں

اور اپنے گھر والوں کے لیے

کیا تحفے میں لے جاتے ہیں

دیوبند سے آنے والے بتا

دیوبند سے آنے والے بتا

کیا پاپا یونہی بنتا ہے

اور بھٹی اس کی جلتی ہے

مدنی ہوٹل کے بازو میں

کیا اس کی تجارت چلتی ہے

اور اس کی بغل میں کتابوں کی

کیا جلد ابھی بندھتی ہے

ویشالی کے دو بھائی کی

بالوں کی دکاں بھی کھلتی ہے

دیوبند سے آنے والے بتا

دیوبند سے آنے والے بتا

آگے سیئیکل کی ایک دکاں

کیا دادا والی کھلتی ہے

سگریٹ ہمیشہ پیتے تھے

، اب ان کی طبیعت کیسی ہے

ماچس سے نہیں، سگریٹ سے ہی

سگریٹ جلایا کرتے تھے

ہم جب بھی گزرتے بس ان کو

اس حال میں پایا کرتے تھے

دیوبند سے آنے والے بتا

دیوبند سے آنے والے بتا

سو پیسے میں کیا سوجی کا

حلوہ اب بھی بن جاتا ہے ؟

پھر بھی ابھی خرچے کی خاطر

کچھ قرض بھی لینا پڑتا ہے

جب گھر سے نہیں پیسے جاتے

پھر ٹائم کیسے گزرتا ہے

کیا جاکے کہیں تنہائی میں

وہ لڑکا روتا رہتا ہے

دیوبند سے آنے والے بتا

کیا خوشبو دل آویز ابھی

بھی رات کی رانی دیتی ہے

اور دار جدید کے ہر کونے

کو ویسے ہی مہکاتی ہے

کیا نازک اور نفیس طبیعت

والوں کو پھڑکاتی ہے

کیا سارے پردیسی طلبہ

کے دل کو وہ بہلاتی ہے؟

دیوبند سے آنے والے بتا۔

کیا اب بھی بہت کم پیسے میں

دل گردے لےکر آتے ہیں

پھر گرم مسالے میں ان کو

دھیمے دھیمے وہ پکاتے ہیں

پھر گرم مسالوں کی خوشبو

سے صحن چمن مہکاتے ہیں

پھر شوق سے روٹی چاول سے

خود کھاتے اور کھلاتے ہیں

کیا صدر بزم کو کچھ طلبہ

صدرا کہہ کہہ کے بلاتے ہیں

مل جائے کسی کو ادنی خوشی

تو ہوٹل میں لے جاتے ہیں

کیا اب بھی مٹھائی کھانے کو

قصدا چیزیں بھی چھپاتے ہیں

منصوبہ بند طریقے سے

کھانے کے بہانے بناتے ہیں

دیوبند سے آنے والے بتا

اے احمد پوچھ رہا ہے کیوں

وہ مادر علمی تیری ہے

گہوارۂ علم و فضل سے یہ

کیوں آخر اتنی دوری ہے

یہ کیسا تعلق ہے تیرا

کیا جانے سے مجبوری ہے

فرزند تو آخر ہے کیسا

کیا جسمانی معذوری ہے

اب باندھ لے اپنا رخت سفر

اب حاضری تیری ضروری ہے

جواب

دیوبندسے اُلفت والے سُن

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے