عبداللہ خالد قاسمی خیرآبادی
ماہ شوال شروع ہوتے ہی عربی مدارس کھلنے لگتے ہیں روزہ اور تلاوت ، عبادت اور ریاضت کے ذریعہ پاک صاف دلوں کو علوم اسلامیہ کی تحصیل میں لگایا جائے تاکہ ایمان میں صلابت ، علم میں پختگی اور عمل میں مدام پیدا ہو، لہذا عیدالفطرکے بعد طالبان علوم نبویہ کے قافلے رخت سفرباندھتے ہیں اور پھر طلب علم ، تزکیہ قلب کے لئے ہندوستان کے طول عرض میں پھیلے مدارس دینیہ کا رخ کرتے ہیں،
یہ مدارس دینیہ برصغیر ہند و پاک میں اسلام کی بقا، دینی شعائر اور اسلامی تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے دور حاضر میں سب سے کارگراور مفید دینی ادارے ہیں ،اسلام کی جو شکل اس وقت ہندوپاک میں ہمارے سامنے ہے وہ در اصل انھیں مدارس اسلامیہ کا فیضان ہے ،اگر یہ دینی مدارس اور اسلام کے مضبوط قلعے نہ ہوتے تو یقیناً زمانے کی مسموم فضاؤں سے متأثر ہوکر یہ گلستانِ سدا بہار بھی خزاں آشنا ہوچکے ہوتے ، دین اور اسلام کی اصلی اور صحیح سچی تصویر ہندوپاک سے ناپید ہوچکی ہوتی، ہندوستانی تاریخ میں ایک ایسا خطرناک دور آیا ہے جب علماء اسلام نے اسلام اور دینی شعائر کے تحفظ کے لیے باقاعدہ غور و فکر کرکے ایک تحریک کی شکل میں مدارس اسلامیہ کے قیام کا فیصلہ فرمایا اور وقت کے اہم تقاضے کو پورا کیااور ماحول و زمانے میں غیر اسلامی افکار و نظریات کو خلل انداز نہ ہونے دیا۔
ماہ شوال سے اسلامی مدارس رمضان کی طویل تعطیل کے بعد دوبارہ کھُل چکے ہیں ،اکثر مدارس میں داخلوں کی کارروائی اورامتحانات داخلہ چل رہے ہیں اور عنقریب تعلیم و تدریس کا سلسلہ جاری ہوجائے گا اور دینی علوم و معارف کے فیضان میں حضرات اساتذۂ کرام سرگرم عمل ہوجائیں گے ۔
دینی علوم اور دینی تعلیم کیا ہے ؟اللہ رب العزت کی جانب سے بھیجے ہوئے قوانین اورانبیاء ورُسل کے ذریعہ، ان کی تلقین و تشریح ہی کا دوسرا نام ’’دینی تعلیم‘‘ ہے۔
علم دین کی اہمیت کے سلسلے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی بہت کافی و شافی ہے : طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَةٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ یعنی اتنی دینی تعلیم اور اتنی بصیرت ہر مسلم مرد وعورت کے لیے بے حد ضروری ہے، جن سے وہ دین پر صحیح طور سے عمل پیرا ہوسکیں اور شریعت کے مطالبات کو روبہ عمل لاکر نگاہِ شریعت میں معتبر بن سکیں، پھر خدا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب بن کر، اپنی عاقبت سدھارکر، زندگی گذارسکیں، جو ایک مسلمان کانصب العین ہے۔
دینی مدارس میں یہی علم دین سکھایا جاتا ہے اس لئے کہ ہماری دینی درس گاہوں اور مدارس اسلامیہ کا اصل موضوع قرآن وسنت اورفقہ اسلامی ہے انہیں کی تعلیم وتعلّم اور دعوت و تبلیغ مدارس عربیہ دینیہ کا مقصود اصلی ہیں، بالفاظ دیگر یہ دینی تعلیمی و تربیتی ادارے علوم شریعت اسلامی کے نقیب اور فرائضِ نبوت:تلاوت قرآن، تعلیم کتاب اورنفوس انسانی کی تطہیر و تہذیب کے مراکز ہیں۔
ماضی قریب میں ان تعلیمی مراکز نے اس عظیم امانت کی حفاظت اور اس قابل صد فخر امانت کو ملت اسلامیہ تک منتقل کرنے میں جو نمایاں کردار ادا کیا ہے وہ ہماری علمی و ثقافتی تاریخ کا ایک زرّیں باب ہے ، یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا اعتراف کئے بغیر کوئی منصف مزاج مؤرخ نہیں رہ سکتا، آج بھی یہ اسلامی مدارس اپنے محدود وسائل و ذرائع کے باوجود مصروف عمل ہیں اور ملت اسلامیہ کی اولین واہم ترین ضرورت کی کفالت کررہے ہیں۔
علمِ دین سیکھنے والے کو اس بات کا خیال رہے کہ علمی دنیا میں انھیں کامیابی اسی وقت مل سکتی ہے جب وہ علم کو دین کے حصول کے لئے سیکھیں، محی السنۃحضرت مولانا ابرارالحق رحمٓة اللہ فرماتے ہیں:ہمارا نام طالب العلم والعمل تھا، مگر اختصار کے لیے صرف طالب علم بولا جاتا ہے، ہم عمل کو اب مقصود ہی نہیں سمجھتے، طالب علمی ہی سے اعمال میں مشغول ہونے کا اہتمام کرنا چاہیے،اپنی تربیت اور اصلاح نفس کی فکرہونی چاہئے، صرف عمدہ رہائش اور روٹیوں کی فکر ہی نہیں بلکہ علم کی روح اور حقیقت حاصل کرکے تعلق مع اللہ اور خشیت بھی پیدا کرنی ضروری ہے ۔
طلبۂ مدارس کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ قرآن وحدیث کے جس علم کے حصول میں وہ لگے ہوئے ہیں، اس کا نصب العین دنیا کے تمام کاموں سے بلند ہے، اس کے بلند اور مہتم بالشان ہونےکے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ طالبِ علم وراثتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا حقدار ہوتا ہے، وہ انسانیت کی تقدیر بدل سکتا ہے، اسی سے ہدایت وروحانیت کے چشمےپھوٹتے ہیں، جس طالبِ علم کے ذہن میں دینی تعلیم کے اس عظیم مقصد کا استحضار ہوگا، وہ اپنی ساری توانائیوں کو علم کے لیے جھونک دے گا،اور پھر مستقبل میں ملت کے لئے بہترین سرمایہ ثابت ہوگا،دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ اپنے مدارس کے اساسی مقصد کو سمجھیں اور اللہ و رسول اور خود اپنے سرپرستان کی نظر میں سرخروئی حاصل کریں۔
ماضی میں مدرسہ؛ استاذ اور طالب علم کا نام ہوتا تھا، مدارس کی عمارتیں کوئی بڑی شاندار نہیں ہوتی تھیں ،جہاں پڑھانے کے لیے جگہ میسر آگئی وہیں تعلیم کا سلسلہ شروع کردیا جاتا تھا،نہ بجلی کا انتظام اور نہ بیٹھنے کے لیے کوئی اعلیٰ قسم کے قالین ہوتے تھے، بلکہ بہت سے مدارس تو ایسے بھی ہوتے تھے کہ ان میں طلبہ کو کھانے اور رہائش کے بھی بے پناہ مسائل سے دوچار ہونا پڑتا تھا،طلبہ کو مدارس دینیہ میں اب جتنی بھی سہولیات مہیا ہیں ان کا شاید ماضی میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا،نہ ہی طلبہ ان سہولیات کی جانب التفات کرتے تھے کیونکہ ان کا مقصد صرف علم دین حاصل کرنااور حاصل کیے ہوئے علم پر عمل کرنا ہوتا تھا،وہ تمام مشکلات برداشت کرکے بھی علم دین حاصل کرتے تھے،تمام مشکلات کے باوجود مدارس دینیہ کے طلبہ علم دین کے حصول میں اس قدر منہمک ہوتے تھے کہ انہیں تعلیم و تعلم کے علاوہ دنیا و مافیھا کی کوئی فکر نہ ہوتی تھی، بلاوجہ کی چھٹی کا مدارس میں کوئی تصور نہ تھا، طلبہ اپنا فارغ وقت بھی علم کے حصول میں صرف کرتے تھے،طلبہ؛ مدارس میں صرف یہی مقصد لے کر آتے تھے کہ ہمیںاپنی پوری زندگی اللہ کے دین کے لیے وقف کرنی ہے،طالب علم جب فراغت حاصل کرتے تو نصابی کتابوں کے ساتھ سیکڑوں مفید خارجی کتب کا مطالعہ بھی کرچکے ہوتے تھے۔
جیسے جیسے زمانہ گزرتارہا ویسے ہی طلبہ میں علمی و اخلاقی سطح پہ بھی انحطاط آتا جارہا ہے ،اب طلبہ میں نہ تو نصابی کتابوں کے مطالعہ کا ذوق رہا اور نہ ہی خارجی کتابوں سے کوئی سروکار،اکثر طلبہ کو زمانہ طالب علمی میں ہی اپنے مستقبل کا فکر کھائے جاتا ہے،بہت سے تو درمیان تعلیم کوئی کاروربار بھی شروع کردیتے ہیں ، جس کی وجہ سے ان میں علمی استعداد پیدا نہیں ہوتی نہ وہ صحیح طریقے سے علم حاصل کرسکتے ہیں اور نہ ہی کاروبار، اساتذہ کا ادب بھی رفتہ رفتہ دم توڑتا جارہا ہے،آٹھ دس سال مدارس میں گزارنے کے باوجود فرائض و واجبات میں بھی سستی آنا شروع ہوجاتی ہے،طلبہ نے علمی و ادبی شوق کی بجائے بہت سے ایسے شوق پال لیے ہیں، جس کی وجہ سے اکثر طلبہ میں علوم و فنون میں مضبوطی نہیں آتی،اور ایسے بہت ہی کم طلبہ سامنے آتے ہیں جو اکابر کے مزاج کے مطابق چلیں اورایسا علمی کام کریں جس کی امت مسلمہ کو ضرورت ہے۔
مفکرِ اسلام حضرت مولانا علی میاں ندویؒ طلباءِ مدارسِ اسلامیہ سے خطاب کے دوران خصوصیت کے ساتھ دوچیزوں کی طرف متوجہ فرمایا کرتے تھے، اخلاص، اختصاص، اخلاص تو علماء اور طلباء کے لیے اشد ضروری ہے، اخلاص کا اثر جہاں اعمال پر پڑتا ہے، وہیں طلبہ کی استعداد وصلاحیت اور علمی کمال پر بھی پڑتا ہے، دنیا کی بڑی سے بڑی شخصیت کے کمال کے پیچھے اخلاص ہی کار فرما رہا ہے، طلبہ کو دورانِ تعلیم اخلاص کی عملی مشق کی کوشش کرنی چاہیے، اعمال کا محاسبہ کرنا چاہیے، اس کے لیے ابھی سے کسی شیخِ کامل کے ہاتھ میں ہاتھ دے دینا چاہیے، اعمال واخلاص کے سلسلہ میں یہ خیال کہ فراغت کے بعد توجہ دی جائے گی انتہائی غلط ہے،۔
دوسری چیز اختصاص ہے، موجودہ دَور اختصاص کا دَور ہے، اس دَور میں وہی شخص اپنی افادیت ثابت کرسکتا ہے جو کسی فن میں اختصاص رکھتا ہو اور اس مقام پر پہنچ چکا ہو جہاں لوگ اس کے محتاج ہو جائیں، ویسے طلبہ کو ہرکتاب میں محنت کرنی چاہیے، تاہم جس فن سے ان کو خصوصی دلچسپی یامناسبت ہو، دورانِ تعلیم ہی سے اس میں خصوصی محنت شروع کرنی چاہیے، متعلقہ اساتذہ کی نگرانی میں اس فن کی کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہیے، اس کا اثر یہ ہوگا کہ فراغت تک فن سے غیر معمولی تعلق پیدا ہوگا اور بعد میں مستقل اس کورس میں حصہ لینا بھی آسان ہوگا۔