موت العالِم موت العالَم (1929ء_2023ء)
عبید اللہ شمیم قاسمی
انتہائی افسوس کے ساتھ یہ خبر نشر کی گئی کہ ملت اسلامیہ ہندیہ کے سرپرست، مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر اور دارالعلوم ندوہ العلماء کے ناظم مختلف خصوصیات وامتیازات کے مالک اور عظیم نسبتوں کے حامل حضرت مولانا سید محمد رابع صاحب حسنی ندوی جنہیں اب تک ہم دامت برکاتہم لکھا کرتے تھے اب وہ بھی رحمتہ اللہ علیہ ہوگئے اور 21/رمضان المبارک 1444ھ بروز جمعرات کو (امارات میں 22/رمضان المبارک) خالق حقیقی سے جا ملے
إنا لله وإنا إليه راجعون
یہ دنیا چند روزہ ہے یہاں کسی کو قرار نہیں، جو بھی یہاں آیا ہے اسے جانا ہے، باقی رہنے والی ذات صرف اللہ رب العزت کی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:{كل من عليها فان، ويبقى وجه ربك ذو الجلال والإكرام} [الرحمن: ٢٧]۔
مگر بعض شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن کی وفات کا صدمہ ہر شخص محسوس کرتا ہے، اللہ تعالٰی اس کو ایسی محبوبیت عطا فرماتے ہیں کہ دور ونزدیک کا رہنے والا ہر شخص اس کے جانے پر آنسو بہاتا ہے۔ کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں کہ اپنے لازوال کارناموں کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔
حضرت مولانا سید محمد رابع صاحب نور اللہ مرقدہ کی ذات گرامی بھی ایسی ہی تھی کہ آپ کو تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے بہت عزیز رکھتے تھے، آپ کی خدمات کے سبھی معترف تھے۔
حضرت مولانا محمد رابع صاحب ندوی رحمہ اللہ کا اس دار فانی سے رخصت ہوجانا اتنا بڑا سانحہ ہے جس کا پر ہونا بظاہر مشکل معلوم ہوتا ہے، آپ مسلم لا بورڈ کے صدر تھے اور مختلف حالات اور نازک صورتحال میں ملت اسلامیہ کی نگاہیں آپ کی طرف اٹھتی تھیں، آپ اپنی خاندانی نجابت وشرافت اور فطری سنجیدگی کی وجہ سے ان مسائل کو حل فرمادیتے تھے۔
آپ کی ذات بہت سی خصوصیات کی حامل تھی، آپ جہاں ایک بہترین ادیب واستاذ تھے وہیں اللہ رب العزت نے آپ نے اندر انتطامی صلاحیت کا جوہر بھی رکھا تھا، جہاں مسلم پرسنل لاء بورڈ کے پلیٹ فارم سے آپ خدمات انجام دے رہے تھے وہیں دارالعلوم ندوہ جیسی عظیم دینی درسگاہ کے نظامت کے عہدہ پر رہتے ہوئے اس کے انتظام وانصرام کو بہت باریکی سے دیکھتے تھے اور دن بدن ندوہ ترقی کی راہ پر گامزن تھا۔
حضرت مولانا ایک عظیم داعی اور مرشد بھی تھے اور حضرت مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ کی نسبتوں کے وارث اور جانشین تھے، لاکھوں بندگان خدا آپ سے وابستہ تھے اور آپ کے ارشادات وفرمودات پر عمل کرکے اپنی دنیا وآخرت کو سنوار رہے تھے، آپ رمضان المبارک تکیہ رائے بریلی میں گزارتے تھے اور سالکین طریقت کی آمد کا سلسلہ ہمیشہ لگا رہتا تھا۔
حضرت مولانا ایسے خاندان کے فرد تھے جس میں ہمیشہ اولیاء اللہ اور علماء کرام گزرے ہیں۔ آپ کا سلسلہ نسب حضرت سید احمد شہيد رائے بریلوی رحمہ اللہ سے ملتا تھا جن کی تحریک سے وابستہ افراد نے ہر محاذ پر اپنی خدمات انجام دیں۔
آپ کی تربیت میں آپ کے ماموں حضرت مولانا ڈاكٹر عبد العلی صاحب اور حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمہما اللہ کا بہت گہرا اثر تھا، انہیں کے زیر سایہ رہ کر تعلیمی مراحل مکمل کئے اور زندگی کے ہر موڑ پر ان سے فیض اٹھاتے رہے، حضرت ڈاکٹر عبد العلی صاحب کے انتقال کے بعد آپ پورے طور پر حضرت مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ کی سرپرستی میں آگئے اور زندگی کے آخری سانس تک مولانا کی ذات گرامی سے وابستہ رہ کر فیوض وبرکات سے مالا مال ہوتے رہے۔
اور ان کے انتقال کے بعد ان کی باطنی نسبت بھی آپ میں پورے طور پر منتقل ہوگئی۔
حضرت مولانا سید محمد رابع صاحب ندوی پر شروع ہی سے بزرگوں کی شفقت وعنایت رہی ہے۔ حضرت مولانا شاہ عبد القادر صاحب رائے پوری، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی اور شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب رحمہم اللہ کی خصوصی توجہات آپ کو حاصل تھیں۔
یہی وجہ تھی کہ طالب علمی کے زمانے میں آپ کو کچھ دنوں کے لیے دارالعلوم دیوبند حضرت مدنی کی خدمت میں بھیجا گیا، نیز آپ حضرت مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ کے ساتھ سفر وحضر میں شریک رہتے تھے اور رائے پور اور سہارن پور بارہا حاضری ہوئی اور بزرگوں کے فیض سے استفادہ کیا۔