حضرت مولانا سید محمد یحی ندوی صاحب کا انتقال

ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے؟

عصر حاضر کے مشہور وممتاز محقق ،نابغۂ روزگار ،آسمان ِبحث وتحقیق کے نیّر تاباں ، شوق مطالعہ وکتب بینی میں مثل شمع پگھلنے والے “سندِ عالی “کے حامل جلیل القدر وعظیم ترین محدث ، ضلع بیگوسرائے کے قابل فخر سپوت اور سرمایۂِ “ بہار “ ؛بلکہ “متاعِ ہند “ میرے مشفق ومہرباں حضرت مولانا سید محمد یحی ندوی صاحب انتقال فرماگئے: إنا لله وإنا إليه راجعون .

بے مثال جلالت علمی اور عظمت شان کے علی الرغم ، سادگی ، زہد فی الدنیا ، خلوص اور اخلاقیات وخود داری کے آپ پیکر جمیل تھے ۔

آپ کی ولادت 1931 سادات کی مشہور بستی “سانہا ، بیگوسرائے “ میں ہوئی ۔دارالعلوم ندوة العلماء لکھنو و علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فیض یافتہ تھے

فن حدیث ؛بالخصوص اسماء الرجال میں آپ کا خاص مقام و مرتبہ تھا، حضرت مولانا شاہ فضل رحمن گنج مرادآبادی رح(1208-1313) سے ایک واسطہ سے روایت حدیث کرتے تھے: (الشيخ محمد يحيى عن المفتي لطف الله عن الشيخ فضل رحمن عن الشيخ المحدث عبد العزيز الدهلوي عن الشيخ المحدث ولي الله الدهلوي )۔

حضرت مولانا سید محمد علی مونگیری رحمہ اللہ (1927)کے تربیت یافتہ :مولانا مفتی عبداللطیف رحمانی (1871-1959) سے آپ کو اجازت حدیث حاصل تھی ۔ حضرت مولانا شاہ لطف اللہ رحمانی رحمہ اللہ سے قرابت صہریت قائم تھی ؛ یعنی کہ حضرت مرحوم شاہ لطف اللہ رحمانی کے داماد ہوتے تھے ۔

محدث اعظمی حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی رحمہ اللہ کے خصوصی تربیت یافتہ اور معتمد علمی تھے، متعدد تحقیقی کاموں میں آپ محدث اعظمی کے دست وبازو اور رفیق کار تھے ۔ علو اسناد کے باعث

عرب شہزادے تک آپ سے سند حدیث حاصل کرنے کو فخر سمجھتے تھے۔ اللہ غریق رحمت کرے ۔لواحقین کو صبر جمیل کا حوصلہ دے ، اس صاعقہ اثر اور جاں کاہ حادثے کے موقع سے جہاں حضرت کے خانوادے کو ہم تعزیت مسنونہ پیش کرتے ہیں ، وہیں حضرت مرحوم کے علمی معتمد اور ہر دل عزیز وچہیتے ومحرمِ راز حضرت الاستاذ مولانا محمد صابر نظامی صاحب القاسمی مدظلہ بھی ہم لوگوں کی طرف سے برابر کے مستحقِ تعزیت ہیں ، شیخ نظامی کا حجرہ حضرت ندوی صاحب رحمہ اللہ کا بیگوسرائے میں دوسری قیام گاہ تھا ، جب بھی علاج معالجہ کے لئے بیگوسراے آنا ہوتا تو حضرت مرحوم “حجرہ نظامی “ پہنچ کر اپنے حشم وخدم واپس بھیج دیتے ، اور بالکل یکسو ہوکر یہاں قیام فرماتے ۔ علاج کے علاوہ بھی یہاں گاہے مستقلاً مقیم رہتے تھے۔

مطالعہ کا دور چلتا تھا، دو چار دن یا ہفتہ بھر تو ضرور قیام رہتا ، حضرت مرحوم سے عاجز کی کئی ملاقاتیں بھی یہیں ہوئی ہیں ، آپ کی بے مثال وانمول اور نایاب کتابوں پر مشتمل بیش بہا لائبریری سے بھی خووووب استفادہ کرتے ، راز ونیاز کی باتیں کرتے ، زیر نظر تصویر بھی حضرت نظامی کی مسجد ہی کی ہے جو وفات سے صرف چند ماہ قبل کی ہے ۔ کئی روز سے بیگوسرائے کے ڈاکٹرز کے یہاں بھی حضرت نظامی مرحوم کے ساتھ ساتھ تھے ، حضرت ندوی کی رحلت شیخ نظامی کے لئے نسبۃً زیادہ جاں گسل ہے ، رب تعالی انہیں ہمت وحوصلہ دے ، سرزمین بیگوسرائے پھر اپنے ایک تاریخ ساز علمی سپوت اور گوہر نایاب سے محروم ہوگئی ، جو بجائے خود بہت بڑا خسارہ ہے ، اللہ تعالی اس کی تلافی فرمائے اور ہمیں ان کا نعم البدل عطا فرمائے ۔

شکیل منصور القاسمی

بیگوسرائے

(ہفتہ16؍رمضان المبارک 1444ھ 8؍اپریل 2023ء)

(حضرت پہ تفصیلی تحریر بعد میں آئے گی ان شاء اللہ )

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے