شیخ المشائخ پیر طریقت حضرت مولانا شاہ قمر الزماں الہ آبادی دامت برکاتہم العالیہ

ابھی کچھ لوگ باقی ہیں

٫٫بقلم٬٬( نجم الدین انبہٹہ پیر)
برصغیر پاک و ہند کو عالمِ اسلام میں یہ امتیازی حیثیت حاصل ہے کہ اس سرزمین پر اولیائے کرام اور صوفیائے عظام کی قدوم میمنت لزوم سے دینِ اسلام سے والہانہ محبت، اسلامی حمیّت و غیرت کا چراغ روشن ہے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ ہوں یا خواجہ سید علی ہجویریؒ، حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ کا فیضان ہو یا خواجہ بہاؤ الدین زکریا ملتانیؒ کی تعلیمات ہوں، حضرت لعل شہباز قلندرؒ کی درخشندہ تاریخ ہو یا خواجہ نظام الدین اولیاء کے کارنامے، سب اکابرین کی تاریخ ساز جدوجہد اور محنت و عرق ریزی نے انسانیت کے مردہ قلوب کو اسلام کی تابندہ روشنی سے منور کیا۔
عہدِ حاضر میں پوری دنیا کفر و ضلالت اور الحاد مغربیت کی زد میں جاں بلب ہے۔ مسلم ممالک تک لادینیت کے زہر سے آلودہ ہیں۔ دہریت اور جدت طرازی نے ایک ارب بیس کروڑ مسلمانوں کی ثقافت و معاشرت اور تہذیب و تمدن کو تبدیل کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ غوایت و گمراہی کے ان مہیب سایوں، شرک و کفر اور بدعات و توہمات کے اندھیروں میں صرف ایک روشنی کی کرن اکابرین و اسلاف اور اولیاء عظام کی تعلیمات کی صورت میں پوری ملت اسلامیہ کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ اہلسنت والجماعت کے تمام مکاتبِ فکر ولایت و ریاضت کے چار روحانی سلسلوں میں منسلک ہیں۔ حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ سے سلسلہ قادریہ، خواجہ شہاب الدین سہروردیؒ سے سلسلہ سہروردیہ، حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ سے سلسلہ چشتیہ، حضرت مجدد الف ثانیؒ اور حضرت بہاؤ الدین نقشبندی سے سلسلہ نقشبندیہ، برصغیر پاک و ہند بنگلہ دیش میں ذکرِ الٰہی، صفائی قلب، تزکیہ نفس اور انسانیت کی سچی تعمیر کے لیے روبہ عمل ہیں۔
ہم زیرِ نظر مضمون میں عہدِ حاضر کی ایک ایسی برگزیدہ ہستی اور عبقری صفت انسان کا تذکرہ کریں گے جو سلسلۂ نقشبندیہ کا درخشندہ ماہتاب
سلسلہ چشتیہ کے آفتاب ہیں جس کی عطر بیزی سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے قلوب معطر ہو رہے ہیں۔
میری مراد شیخ المشائخ پیر طریقت رہبر شریعت عارف باللہ حضرت مولانا شاہ قمر الزماں الہ آبادی دامت برکاتہم العالیہ ہیں عاجز کو حضرت والا کی پہلی مرتبہ زیارت بچپن میں حضرت جد امجد مولانا شاہ عظیم الدین انبہٹوی رح کے ساتھ حضرت امام ربانی مولانا رشید احمد گنگوہی رح کے مزار پر ہوئی تھی "اللہ اکبر "اللہ والوں کی بات بھی عجیب ہوتی ہے دونوں حضرات ایک دوسرے سے بالکل نا آشنا اور ایک دوسرے کے احترام میں بچھے جارہے ہیں تعارف ہوا تو ہمیں بھی معلوم ہوا کہ یہ حضرت الہ آبادی ہیں
بہرحال اسکے بعد انکا تذکرہ بھی اس تواتر سے سنتے رہے کہ انکی عظمت و محبت کا سکہ دل پر بیٹھ گیا زیارت کے لئے دل کی بے چینی بڑھتی رہی امروز و فردا کرتے کرتے وہ دن بھی آہی گیا شرف استفادے کے جذبے نے یاری کی کہ مذکورہ سال حضرت والا دارالعلوم وقف دیوبند کی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں تشریف لائے ہوئے تھے والد محترم اور حضرت کے خلیفہ مولانا شاہ معین الدین انبہٹوی۔ حضرت پیر ذوالفقار نقشبندی مدظلہ العالی کے خلیفہ مفتی خورشید انور صاحب نقشبندی۔ اور مولانا اسلام الحق سیتاپوری کے ہمراہ دوسری مرتبہ زیارت کا شرف حاصل ہوا تو انکے دیدار سے اکابر و اسلاف کی یاد تازہ ہوگئی، دل نے کہا کہ یا اللہ جب یہ تیرے بندے ایسے ہیں تو انکے بڑے کیسے ہوں گے ۔
سادگی کا پیکر ،انکسار کا بہتا دریا، زاہد عن الدنیا،راغب الی الآ خرہ، متوکل علی اللہ، قانع باللہ، خورد نوازی میں بے عدیل، بزرگوں کے احترام میں میں بے مثل، سادہ پوشاک، نہ ظاہر طمطراق، نہ عصا بدست اور نہ ہی سر پر لمبی سی دستار، ٹیپ ٹاپ سی مستغنی، گورا چٹا رنگ ،کشادہ پیشانی، کسی قدر چہرہ مستطیل، بھرے ہوئے رخسار، لمبا قد، نہ دبلے پتلے نہ ہی بہت لحیم و شحیم، ایک ایک ادا پروقار، سیدہ سادہ لباس، سفید کرتہ ہم رنگ پائجامہ، سادگی کا مجسم، باطن منور ،
تعارف ہوا تو مہربان ہوگئے ،خوب شفقتیں فرمائیں۔
یقیناً حضرت کا سایہ عاطفت ہم ہندی مسلمانوں کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہے۔ عرب و عجم ان سے بساط بھر استفادہ کررہا ہے، جہاں جاتے ہیں مخلوق خدا کا تانتا لگ جاتا ہے، ہجوم ارد گرد رہتا ہے، حضرت بھی کسی کا دل میلا ہونے نہیں دیتے، سب کے لئے حاضر ہیں، وہ اگر چاہتے تو زر کشی کے بے شمار منازل طے کرسکتے تھے لیکن انھوں اپنے اکابرین کی روشن روایتوں آگے بڑھانے کی کوششیں کیں،انکی راہوں میں پھول بھی آئے ہوں گے کانٹے بھی۔ مخالف و موافق حالات نے انھیں پابہ زنجیر کیا ہوگا، زمانے کے مد جزر بھی انھوں نے برداشت کئے ہوں گے عسر و یسر کی صحبتیں بھی انھیں میسر آئی ہوں گیں لیکن آھنی حوصلوں کا یہ انسان اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہا بقول شاعر
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
برصغیر کی نہایت ہی عالی نسبتوں سے مالا مال مصلح الامت حضرت مولانا شاہ وصی اللہ فتح پوری رح کے داماد و جانشین ہیں (حضرت فتح پوری حضرت تھانوی کے ایسے خلیفہ ممتاز تھے جن پر خود حضرت کو ناز تھا ) حضرت مولانا شاہ فضل رحمن گنج مرادآبادی کے فیض یافتہ حضرت مولانا شاہ احمد صاحب پرتاپ گڑھی کے خلیفہ مجاز ہی نہیں عرصہ دراز تک انکی خدمت میں رہ کر مقامات طے کئے ۔ جسطرح الہ آباد میں گنگا ۔ جمنا آپس میں مل جاتے ہیں ایسے ہی حضرت کی دوبڑے روحانیت کے سمندر کے مرج ہیں ۔حدیث کی سند بھی بہت عالی رکھتے ہیں حضرت مولانا شاہ وصی اللہ الہ آبادی کے علاوہ حضرت مولانا شیخ زکریا کاندھلوی ۔ حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی رحمہم اللہ سے صحاح ستہ کی اجازت ہے
آج دوآبہ شہر الہ آباد میں اکابر کی امانت کی منتقلی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں ،ہر دن مجلس ہوتی ہے، دور دراز سے خلق خدا انکے میکدہ عرفان پر دیوانہ وار جمع ہوکر اپنے مرشد سے جام محبت نوش کرتے رہتے ہیں۔ علمی۔ تحقیقی و تصنیفی کارنامے بھی قابل رشک ہیں بہت سی اعلیٰ درجے کی کتابوں کے مصنف ہیں۔ مواعظ کے تو کہنے ہی کیا بولتے ہیں تو سلوک و احسان کی گتھیاں سلجھاتے چلے جاتے ہیں لگتا ہے حضرت تھانوی گفتگو فرما رہے ہیں اور ہم سہل پسندوں کو خزف تلاش کر کے موتیوں کے آب دے رہے ہیں
مجھے حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب رح کا قول یاد آرہا ہے حضرت نے فرمایا تھا ہندوستان میں تین شخصیت روحانی فیض اٹھانے کے لئے میری نظر سب سے موزوں ہیں جنمیں حضرت باندوی ۔ حضرت ہردوئی۔ حضرت مولانا قمر الزماں الہ آبادی لیکن مولانا قمر الزماں صاحب سہل ہیں
ایں سعادت بزور بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ
حضرت الہ آبادی کے فیض اور برکت کی فرحت بخش ہواؤں نے دنیائے اسلام کو روح اور روحانیت سے مالامال کردیا تو کوئی مبالغہ شاید نہ ہو ۔ کیو ں کہ جس طرح آپ کے اس چشمہ فیض سے عشق و محبت کے جو خم کے خم لنڈھائے جارہے ہیں۔ جس طرح تشنہ کامان معرفت بادہ خواری میں مصروف عمل ہیں۔ اس کو دیکھتے ہوئے جو محبوبیت و عبقریت اور عظمت میخانہ قمر کے اس میکدہ کو حاصل ہے ۔اس سے ہمارے دعوے کی تصدیق ہوجائے گی۔مزید حضرت الہ آبادی کے چشمہائے صافی سے سیراب ہونے والے کارواں میں شامل ہند اور بیرون ہند کی وہ عبقری اور باکمال شخصیات ہیں ۔جو صاحب حال بھی ہیں اور صاحب فضل و کمال بھی۔ بلکہ جن کے دم قدم سے دنیا کی رونق میں اضافہ ہے۔ان میں حضرت مولانا اسرار الحق صاحب رح حضرت مولانا محمد سفیان صاحب قاسمی دامت برکاتہم ۔حضرت مولانا سید احمد خضر شاہ صاحب مدظلہ۔ حضرت مولانا مفتی زین الاسلام صاحب مفتی دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا ظریف صاحب قطر ۔حضرت مولانا موسیٰ ماکروڈ ۔ حضرت مولانا اسماعیل صاحب بوٹا گجرات۔ حضرت مولانا محمد سعیدی صاحب مظاہری۔ حضرت مولانا مفتی خالد سیف اللہ صاحب گنگوہ۔ حضرت مولانا نجم الحسن تھانوی۔ حضرت مولانا شاہ معین الدین صاحب انبہٹوی۔ حضرت مولانا مفتی ثمین اشرف قاسمی یوکے۔ حضرت مولانا اسلام الحق سیتاپور۔حضرت مولانا مفتی عاشق الٰہی مدینہ منورہ۔ حضرت شاہ عتیق صاحب رائے پوری۔ حضرت مولانا عنایت اللہ عمرا کھروی گجرات۔ حضرت مولانا مقبول بستوی۔ ڈاکٹر سید محمود قادری۔ حضرت مولانا محبوب صاحب صاحب زادہ حضرت والا وغیرہ کے علاوہ کثیر تعداد میں اس میخانے کے رند باصفا علماء اور صلحاء دنیا بھر میں موجود اس روحانی چمن کی عظمت۔ آبیاری اور نیک نامی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔
خدا تعالی کی طرف سے جب کسی بندے کی محبوبیت پر مہر ثبت ہوجاتی ہے.تو اہل ایمان کے قلوب کے لیے وہ شخصیت محبوب اور باعث سکون خاطر بن جاتی ہے۔وہ محبوب خدا شخص جس طرف بھی چل پڑتاہے لوگ اس کے استقبال کے لیے نکل پڑتے ہیں جہاں وہ بیٹھ جاتاہے وہی جگہ مے خانہ بن جاتی ہے۔لاریب حضرت الہ آبادی ان محبوب اورمقبول بندوں میں شامل ہیں۔جن کو اہل ایمان میں بے پناہ محبوبیت اور اعتبار حاصل ہے۔
کسی انسان کا شہرت اور اعتبار کے مرحلوں سے گزر کر اہل ایمان کا منظور خاطر بن جانا کوئی آسان کام نہیں۔لوگ اس کے لیےہر دن کیا کیا جتن کرتے ہیں لیکن پھر بھی وہ اس تمغہ خاص سے محروم ہی رہتے ہیں۔
بہر حال ہمارے حضرت شیخ المشائخ کے اس منبع معرفت کی محبوبیت کے عناصر میں صبر و تحمل۔ ایثار اور ہمدردی کے ساتھ آپ کا حسن عمل اور حسن کرادر شامل ہے اگر آپ کے اخلاق کو جمع کیاجائے تو ایک دفتر درکار ہوگا۔آپ کی زندگی اخلاقی اصولوں کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔یقینی ہے کہ جس شخص کی پیشانی پر اتنے خوبصورت عنوان کہکشاں کی طرح جھلمل ہیں اس کے گلشن قلب میں ضرور محبت اور محبوبیت کے پھول کھلیں گے۔
حضرت کے لائق و فائق صاحب زادے حضرت مولانا عبد اللہ صاحب دامت برکاتہم نہایت ہی مبارک بادی کے مستحق ہیں جو اپنے والد محترم کے اس تحریکی مشن میں حصہ دار ہیں
تم سلامت رہو ہزار برس
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار
16 رمضان المبارک۔ 144ھ ۔بعد الظہر ۔خانقاہ عظیمیہ و مدرسہ خلیلیہ انبہٹہ پیر سہارنپور

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے