سیکس ایجوکیشن: "بہشتی زیور” سے دور جہالت تک

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سید تجمل۔۔

پوسٹ میں موجود حدیث ۔۔۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے۔ (عربی متن ملاحظہ کیجئے)

اور صرف یہ ایک حدیث نہیں،

بلکہ صحاح ستہ میں حیض، نفاس، استحاضہ۔۔۔ حتی کہ جنسی ازدواجی تعلقات تک سے متعلق احادیث کا اچھا خاصہ ذخیرہ موجود ہے۔ اور تقریبآ ہر حدیث امہات المؤمنین رضی اللہ عنہما کے ذرائع سے ہی ہم تک پہنچی ہے۔ درمیان میں زیادہ تر راوی مرد صحابہ کرام اور تابعین ہیں۔ جنہیں یہ احادیث ان کی بیویوں نے، ان کی ماؤں نے یا ان کے والدین کرام نے سنائی ہیں۔

کیا آپ ۔۔۔۔ ان باتوں کو پڑھ کر یا سن کر کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں؟

آپ یہ کیوں نہیں کہتے کہ توبہ توبہ ۔۔۔۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اس دور کی مقدس ہستیاں ایک دوسرے سے حیض و نفاس جیسی شرمناک باتوں کے بارے میں بھی گفتگو کرتی ہوں گی۔

نوجوانی میں جب پہلی مرتبہ بہشتی زیور پڑھی تھی تو میں حیران رہ گیا تھا۔ یہ ایک بہت پرانا نسخہ تھا جس کے کاغذ پیلے پڑچکے تھے اور ان صفحات کو بہت احتیاط سے کھولنا پڑنا تھا۔

پڑھنے کے دوران، گھبرا کر ادھر ادھر چوری چوری دیکھتا تھا کہ۔۔۔ کہیں سے کوئی دیکھ تو نہیں رہا۔۔۔۔ اور ساتھ ہی حیرانی سے بار بار سرورق پر موجود مصنف۔۔۔ "مولانا اشرف علی تھانوی” صاحب کا نام پڑھتا تھا۔

جلد کو الٹ پلٹ کر دیکھتا تھا کہ مبادا کسی بےحیا شخص نے اس مذہبی کتاب میں الگ سے۔۔۔ "ٹوٹے”۔۔۔ تو نہیں جوڑ دئیے۔

دل کی دھڑکن بڑھ گئی تھی۔

توبہ توبہ۔۔۔ کیا یہ واقعی انہوں نے لکھی ہے؟

دارالعلوم دیوبند کے اتنے بڑے عالم دین

اس میں تو۔۔۔۔ اف ۔۔۔۔۔!

میں تو صرف چھالیہ کو سپاری سمجھتا تھا۔ مگر اس کتاب میں تو۔۔۔۔

میرے کانوں کی لوئیں سرخ ہونے لگیں۔

اوئے ہوئے۔۔۔ ہوئے۔۔۔۔ یار

اس میں تو۔۔۔ "سب کچھ” لکھا ہے۔

وہ سب کچھ۔۔۔۔ جس کا ذکر ممنوع ہے۔

جسے ہم کانوں میں سرگوشیوں کی صورت میں بھی ڈر ڈر کر کرتے ہیں۔

تو پھر ہماری سوسائٹی میں اتنے سارے جنسی مسائل کہاں سے آگئے؟

ان موضوعات کو Taboo کس نے بنادیا؟

ذہن میں سوال اٹھنے لگے۔

سو، ۔۔۔۔ زندگی میں پہلی بار کسی کتاب کا دیباچہ پڑھا۔

اس کتاب کے بارے میں خود حضرت تھانوی صاحب جو کچھ فرماتے ہیں، اس کا لب لباب یہ ہے کہ،

"ہم نے یہ کتاب صرف عام مسلمانوں کیلئے ہی نہیں بلکہ بالخصوص اپنی "بچیوں کی تعلیم و تربیت” کیلئے لکھی ہے۔ اور اس میں ان تمام موضوعات کا احاطہ کیا ہے جن کی نامناسب معلومات کی بناء پر ہماری مسلمان خواتین میں جہالت کسی ناسور کی طرح پھیل رہی ہے۔۔۔ وہ اپنے مسائل کو کسی دانا کے سامنے کہنے کی بجائے جاہل عورتوں کی باتوں میں آکر اپنے گھر کا۔۔۔ اپنی ازدواجی زندگی کا اور صحت کا بیڑا غرق کرلیتی ہیں”

تو پھر کیا خیال ہے؟

کیا میں تھانوی صاحب کو برصغیر کا پہلا "اسلامک فیمینسٹ” کہہ سکتا ہوں؟

اگر فیمینسٹ کے لفظ سے چڑ ہے۔۔۔ تو پھر مجھے بتائیے کہ

یہ کون عظیم لوگ تھے۔۔۔ جو اپنی بیٹیوں سے ان کے پوشیدہ جنسی مسائل پر بھی گفتگو فرمالیا کرتے تھے۔ اور نہ صرف گفتگو ۔۔۔ بلکہ اسے برسرمنبر آگاہی کیلئے بھی بیان کردیا کرتے تھے۔

علماء دیوبند کے مخالفین کو۔۔۔ اس کتاب میں ہزار کیڑے نظر آتے ہیں۔

میں خود بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھتا ہوں اور اسی وجہ سے میں جانتا ہوں کہ بریلوی مکتب فکر کی جانب سے بھی اس کتاب کی کئی باتوں پر اعتراض کیا جاتا ہے۔

بلکہ، اہل حدیث تو باقاعدہ اس کتاب کا ٹھٹھہ اڑاتے نظر آتے ہیں۔

کچھ باتوں پر مجھے بھی اعتراض ہے، (شاید اس دور کے چلن کے حساب سے یہ باتیں لکھی گئی ہونگیں)

مگر اس کے باوجود۔۔۔۔ تقریباً سو سال پہلے لکھی جانے والی یہ کتاب آج بھی "روشن خیالی” کا بھرپور استعارہ نظر اتی ہے۔

یہ مسلمان بچیوں کو "نورانی قائدہ” کی طرح حروف تہجی پڑھانے سے شروع ہوتی ہے۔۔۔ خط لکھنے کے طریقوں پر آتی ہے۔

پھر۔۔۔ وضو، نماز، غسل سے ہوتی ہوئی۔۔۔ آداب زوجیت تک

اور پھر نہ صرف نسوانی مسائل کا مکمل احاطہ کرتی ہے۔ بلکہ مہندی کے ڈیزائن، زردہ بنانے اور دیگر مشہور پکوانوں کی تراکیب کے ساتھ ساتھ

پریگننسی کے نو مہینوں کی تفصیلات،

بچے کی ولادت، بعد از ولادت نفاس کے مسائل،

بچے کی رضاعت اور ان کی تربیت۔۔۔

حتی کہ بچوں کی شادیوں تک کے بارے میں کسی بوڑھی نانی دادی کی طرح مشورے دیتی اور مسائل بیان کرتی اور ان کا حل بتاتی ہوئی نظر آتی ہے۔

کہیں کہیں یہ کتاب موضوع کے بوجھل پن کو کم کرنے کیلئے جاہل عورتوں کی نقل اتار اتار کر ہنساتی بھی ہے۔۔۔۔ جیسے کوئی بزرگ بڑھیا۔۔۔ ہنس ہنس کر اپنے بچپن کی شرارتیں سناتی ہو۔

آپ کو یقین ہی نہیں آئے گا کہ یہ کتاب کسی "مرد” نے لکھی یے۔

ایک زمانہ تھا جب پڑھے لکھے اور دولتمند مسلمان والدین اپنی بیٹیوں کے جہیز میں "بہشتی زیور” لازمی رکھا کرتے تھے۔

پھر یہ کتاب بھی دیگر کتابوں کی طرح محض "اسٹیٹس” کی علامت بن گئی۔ اور گھر کے بک شیلف میں محض اسلئے رکھی جانے لگی کہ آنے والے مہمان ہمیں مذہبی، معزز اور پڑھا لکھا سمجھیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کتابوں سے دوری ۔۔۔ ہمیں پھر دور جہالت میں گھسیٹ لائی ہے۔ ہماری بیٹیوں کے مخصوص مسائل ایک بار پھر "بڈھی کھوسٹ جاہل خواتین” کے ہاتھوں میں چلے گئے۔

منبر سے بھی محض "مردوں” کے مسائل بیان ہونے لگے ہیں۔ کیونکہ وہاں سوال پوچھنے والے بھی مرد ہی ہوتے ہیں۔

انہیں بتایا جاتا ہے کہ

بیوی اگر "وظیفہ زوجیت” ادا نہ کر سکے تو تم "دوسری شادی” کرسکتے ہو۔

یہ نہیں کہا جاتا کہ

"گھامڑ انسان۔۔۔ ساری گرمی تجھے ہی چڑھی ہے کیا؟… اگر تیری بیوی وظیفہ زوجیت ادا نہیں کر پارہی ہے تو اس کے پاس جاکے مر۔۔۔ اس سے وجہ پوچھ۔۔۔اس کی دلجوئی کر۔۔۔ اس کا علاج کروا ۔۔۔ ایتھے کی امب لینے آیاں ایں”

مگر نہیں۔۔۔۔ ایسا جواب اسلئے نہیں دیا جاتا کہ

سائل مرد کا سوال ہی یہ تھا کہ

اگر میری بیوی وظیفہ زوجیت ادا کرنے کے قابل نہ ہو تو کیا میرے لئے دوسری شادی کرنا جائز ہے؟

لہذہ جواب بھی اتنا ہی دیا جاتا ہے ۔۔۔ جتنا سوال کیا گیا ہے۔

ویسے۔۔۔ صاحبان منبر سوال کرنے والے کی نیت کی کھوٹ کا اندازہ لگا کر اس کی "اخلاقی چھترول” تو کر ہی سکتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے پتہ ہے کہ آپ میں سے بہت سے دوستوں کو یہ باتیں ہضم نہیں ہونگی۔

لیکن اگر آپ بیٹیوں کے باپ ہیں۔

تو آپ کو یہ سب جاننا ہوگا۔

آخر آپ کی بہو بیٹیوں کو ایام حیض میں بھی وضو، نماز اور روزے کی اداکاریاں کیوں کرنی پڑتی ہیں؟

کیا آپ کو خواتین کے شرعی عذر کے بارے میں کچھ نہیں پتہ؟

تو پھر اتنا خوف کس بات کا ہے؟

یہ باتیں جاننے کی تمام مردوں کو ضرورت ہے۔

اگر آپ بیٹی کو بیاہنے والے ہیں یا بیاہ چکے ہیں۔۔۔ تو دعا کریں کہ آپ کے داماد کو ہی نہیں بلکہ اس کے سسرال میں بھی سب کو یہ باتیں پتہ ہوں۔۔۔۔ تاکہ کوئی آپ کی بیٹی کو بے نمازی یا روزہ خور کا طعنہ نہ دے سکے۔

اور ایسا صرف اسی وقت ممکن ہوگا۔۔۔ جب آپ اپنے بیٹوں سے ۔۔۔ ان کے جنسی مسائل کے ساتھ ساتھ عورتوں کے جنسی مسائل پر بھی ڈسکس کریں گے۔

تربیت کے اس نازک مرحلے کو کبھی بھی کسی دوسرے کے ذمے مت ڈالئے۔

اپنے بچوں کی جنسی تربیت خود کیجئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے ایک کم عمر کولیگ کی شادی تھی۔۔۔۔ ایک دن پہلے میں نے اس سے پوچھا

"کسی نے کچھ بتایا بھی ہے کہ کیا کرنا ہے؟”

منہ بنا کر بولا

"اپنے کزن سے پوچھا تھا۔۔۔۔ اس بغیرت نے کہا تیرے کمرے میں ٹی وی لگا دیا ہے۔۔۔ کیبل بھی موجود ہے۔۔۔۔ ایک رشین چینل سیٹ کردیا ہے۔۔۔ بس وہ دیکھ لینا”

اور میں سر پکڑ کر رہ گیا۔

میں نے پوچھا، تو کیا والدین نے بھی آج تک کچھ نہیں بتایا؟

تو الٹا مجھ سے سوال کرنے لگا۔۔۔ بولا۔۔۔ آپ کو کیا آپ کے والد نے بتایا تھا؟

میں نے کہا ۔۔۔ ہاں ۔۔۔ حالانکہ اس وقت میری شادی کا تو کیا منگنی کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔

کہنے لگا ۔۔۔ تو پھر آپ ہی کچھ بتادیجئے۔

میں نے پوچھا ۔۔۔۔ اپنی دلہن کو پہلے سے جانتے ہو؟

بولا ۔۔۔ زیادہ بات چیت نہیں ۔۔۔ بچپن میں دیکھا تھا۔

میں نے کہا۔۔۔ پہلی رات اس سے ڈھیر ساری باتیں کرنا۔۔۔ اس سے دوستی کرنا۔۔۔ ہنسی مذاق کرنا۔۔۔ اور جب تک ماحول نہ بن جائے "کچھ” نہیں کرنا

بولا ۔۔۔ اور اگر شرما حضوری میں "ماحول” نہ بن سکا تو پھر؟

میں نے کہا۔۔۔۔ تو پھر اگلی رات ماحول بنانے کی کوشش کرنا۔۔۔ مگر زبردستی کچھ مت کرنا

بولا۔۔۔ شاہ صاحب کیوں مروائیں گے مجھے۔۔۔۔ اس طرح تو ولیمہ ہی جائز نہیں ہوگا۔

میں نے کہا۔۔۔ یہ تمہیں کس نے کہا؟

بولا ۔۔۔ سب یہی کہتے ہیں۔

میں نے کہا۔۔۔ تو پھر سب کو "حرام ولیمہ” کھانے دو۔۔۔ تم وہی کرو جو میں نے بتایا ہے۔

بولا ۔۔۔ دیکھ لیں شاہ صاب۔۔۔۔ لوگ پوچھیں گے تو کیا جواب دوں گا؟

میں نے کہا۔۔۔۔

لوگوں سے کہنا۔۔۔ بالکل ویسا ہی کیا ہے ۔۔۔ جیسا تم نے کیا تھا۔۔۔ اس طرح لوگ اگلا سوال ہی نہیں کریں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب ذرا سنجیدگی سے اس پوسٹ کا مقصد بتاتا چلوں اور وہ یہ ہے کہ

اس سال خواتین لکھاریوں کی جانب سے مسلسل یہ مطالبہ سامنے آرہا ہے کہ، جب اسلام ہمیں ایام حیض میں نماز اور روزے کی چھوٹ دے رہا ہے تو پھر گھر کے مرد۔۔۔ بار بار نماز اور روزے کے بارے میں سوال کر کے کیوں۔۔۔۔ ہمیں نماز کی اداکاری کرنے پر مجبور کرتے ہیں؟ وہ کوئی بچے تو نہیں ہیں۔

بچوں کو تو پھر "ناسازی طبیعت” کا کہہ کر ٹرخایا جاسکتا ہے۔ مگر بالغ مرد تو بالکل ہی "ہٹلر” ہوجاتے ہیں۔

حتی کہ کچھ خاندانوں میں تو جیٹھانیاں اور دیورانیاں تک سب کی عبادتوں اور نمازوں کا حساب رکھ رہی ہوتی ہیں۔

ایسی خواتین سے گذارش ہے کہ یہ کام فرشتوں کیلئے چھوڑ دیں۔

تمام والدین ۔۔۔ اور صاحبان منبر سے بھی التجاء ہے کہ،

ہماری نسلوں کی جنسی تربیت کو رشین ٹی وی چینلز کے ذریعے ہونے سے روکیں۔

انہیں "سب کچھ” خود بتائیں۔ یہ شرم کی بات نہیں۔۔۔۔ ہمارے مستقبل کی بات ہے۔

اور ہمارا مستقبل ۔۔۔ ہماری خواتین کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔

ان کے مسائل کو دردمندی سے سمجھئے۔

اور اپنی اولاد کو بھی سمجھائیے.

by: Sierra Tango

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے