خواطر راقية
عبدالملك رسول پوری
آج فقہ حنفی كی ایك عظیم درس گاہ كی طرف سے شایع شدہ ایك اشتہار نظروں كے سامنے آیا۔ اشتہار میں اپنے طلبہ كو محدود دائرے میں عصری علوم سے واقف كرانےكے لیے چند ماہرین اساتذہ كی ضرورت كا اظہار كیا گیا تھا۔اس سے پہلےبھی ایك اشتہار سماجی روابط كی برقی دنیا میں گردش كررہا تھا، جس میں اہل مدارس نے كافی جوش اور جذبے كا مظاہر كیا تھا۔دونوں كا مقصد تقریباایك ہی تھا۔ بس پہلے میں طلبہ كی تلاش تھی اور دوسرے میں اساتذہ كی جستجو۔اشتہار دینے والے دونوں ادارےفكری طور پرایك ہی سمت میں رواں نظر آئے۔اوروہ فكر یہ تھی كہ مدارس میں زیر تعلیم طلبہ كو كیسے بارہویں جماعت كا سرٹی فیكیٹ دلایا جائے ۔
اشتہار دینے والے جس گروپ كو طلبہ كی تلاش ہے، انھیں اپنے اسكولوں میں طلبہ كی قلت كا سامنا نہیں ہے؛ بلكہ انھوں نے اس حقیقت كو بسر وچشم قبول كیا ہوا ہے كہ مدرسوں میں زیر تعلیم طلبہ ذہین اور محنتی ہوتےہیں۔ اب اگر یہ محنتی طلبہ ان كے اسكولوں میں پہنچ جائیں گے تو ان كے اسكولوں كی كاركردگی سورج اگتے ہی دوگنی ہوجائے گی۔جو یہ سمجھتے ہیں كہ اس گروپ كا مقصد مدارس كے نادار طلبہ كو انجینئر اور ڈاكٹر بنانا ہے تو انھیں اس حقیقت كا بھی ادراك ہوگا كہ مدارس میں ملت اسلامیہ كے صرف پانچ فی صد بچے تعلیم حاصل كرتے ہیں، باقی پچانوے میں سےفرض كریں كہ چالیس فی صد ناداری كے پائیدان سے قدرے اوپر ہیں اور وہ اپنی جیب خاص سے اپنے تعلیمی صرفے پورے كررہیں۔ اب یہ جو پچپن فی صد باقی بچے ہیں ان كاپرسان حال كون ہے؟ یہ مدرسہ اور حفظ پلس گروپ ان بچوں پر كیوں توجہ نہیں دیتے؟۔ ان كی ساری توجہات مدرسوں میں زیر تعلیم بچوں كو اچكنے ہی پر كیوں مركوز ہیں؟ یہ ایك سوال ہے۔ اس پراگر غور كیا جائے گا اور اس كی پیازی تہیں كھولی جائیں گی تو ڈی ریڈیكلائیزیشن كی كوئی مہم بھی نظر آسكتی ہے اور عصری علوم سے ہم آہنگی كی نامناسب طرز عمل والی ایك مستحسن سوچ بھی۔ فروغ تعلیم كے لیے دی جانےوالی حكومتی امداد كی طلب بھی نظرآسكتی ہے اور مدراس كودیے جانے والے صدقات وعطیات اور زكات میں ایك طرح كی سیندھ لگانے كی كوشش بھی منكشف ہوسكتی ہے۔ اس سے قطع نظر كہ ان سادہ لوح حفاظ كرام كے والدین نے انھیں حفاظ كس نیت اور كس مقصدسے بنایا تھا اور كیا یہ حفاظ كرام حفظ پلس میں پڑھنے كے بعد بھی حافظ باقی ہیں اوران میں سے كتنے فی صد تروایح میں قرآن كریم سنارہے ہیں۔
دوسرا ادارہ جسے عصری علوم كی تعلیم كے لیے ماہر اساتذہ كی جستجو ہے ، اس كا مقصد اپنے طلبہ كی عصری ضروریات كو پورا كرنا بھی ہے اور شاید وہ اس وقت بیرونی دباؤ میں بھی ہے ۔ اس نے فیصلہ كیاہے كہ وہ اپنے طلبہ كو این آئی او ایس كے ذریعہ غیر روایتی سرٹی فیكیٹ دلائے گا؛ تاكہ اس كی اصل تعلیم میں كوئی فرق بھی نہ آئے اور طلبہ كی حكومتی ضروریات بھی پوری ہوجائیں۔ اس ادارے كا مقصد اگر محض بارہویں جماعت كا سرٹی فیكیٹ حاصل كرنا ہے توآئیے دیكھتے ہیں كہ اس كے حصول كے كیا كیاطریقے ہوسكتے ہیں:
حصول مقصد كا پہلا طریقہ تعلیم وتدریس كے اصل ،روایتی صوبائی اور مركزی بورڈوں سے ملحق كسی اسكول میں پرائیوٹ طور پر رجسٹریشن كرایا جائے اور پھر حكومتی ضوابط كے لحاظ سے امتحانات پاس كرلیے جائیں۔ یہاں آپ كو موضوعات كےسلسلے میں كسی تحدید كا سامنا نہیں ہوگا طالب علم اپنے شوق اور اپنی صلاحیت كے لحاظ سے انسانی اور پیشہ ورانہ كسی بھی زمرے سے تعلق ركھنےوالے كسی بھی موضوع كا انتخاب كرسكتا ہے اور مزید تعلیم كے لیے كسی بھی میدان میں آگے بڑھ سكتا ہے۔
حصول مقصد كادوسرا طریقہ یہ بھی ہے كہ مدارس میں زیر تعلیم طلبہ كا یوپی مدرسہ بورڈیا بہارمدسہ بوڈر سے ملحق قریب كے كسی مدرسے میں پرائیوٹ طور پر رجسٹریشن كرادیا جائے اوریہ بچے مدرسے كی تعلیم كے ساتھ وہاں كے بھی امتحانات دیتے رہیں ۔ دونوں جگہ تعلیمی موضوعات تقریباایك جیسے ہی ہوتے ہیں ، ادھر ان كو مدرسے سے عالمیت كی باضابطہ سند ملے گی اُدھر ساتھ ہی میں بورڈ كے مدرسے سے بارہویں درجے كےمساوی عالم كا سرٹی فیكیٹ بھی مل جائے گا۔ حكومت سے منظور شدہ یہ مساوی سرٹی فیكیٹ مزید تعلیم كے لیے كالجز اور یونیورسٹیوں میں علوم انسانی میں داخلے سے لے كر دیگر حكومتی كاموں میں ہر جگہ ویسے ہی كام آئے گا جیسے كسی دیگر ریگولر اسكول كے سرٹی فیكیٹس كام آتے ہیں۔ اس طریقہ كارمیں وسائل كے طور پر محض زبانی ترغیب اور تشجیع ہی كافی ہوگی یہاں مالی وسائل كا استعمال زیرو كی حدتك كم كیا جاسكتا ہے۔
حصول مقصدكاتیسرا طریقہ یہ تھا كہ مركزی حكومت كی زیر نگر انی تعلیم كے ایك غیر روایتی ادارے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوپن اسكولنگ میں طلبہ كا رجسٹریشن كرایا جائے ، جہاں وہ اپنی صلاحیتوں كے مطابق اپنی صواب دید سے كچھ تعلیمی موضوعات كا انتخاب كریں اور ان كے امتحانات میں كامیابی حاصل كر كے دسویں اور بارہویں درجے كے سرٹی فیكیٹس حاصل كرلیں۔ ان سرٹی فیكیٹس سے بھی مزید اعلی تعلیم كے لیے كالجز اور یونیورسٹیوں میں پڑھائے جانے والے علوم انسانی میں داخلے لیے جاسكتے ہیں اور حكومت كے دیگر كاموں میں بھی یہ سرٹی فیكٹس كام آسكتے ہیں۔ اس طریقے كا شمار تعلیم كے غیر روایتی طریقوں میں ہوتا ہے اور اسے وطن عزیز میں زیر عمل تمام طریقوں میں آخری درجےكا طریقہ مانا جاتا ہے ۔ زیادہ تر اس كا مقصد ملك كی اوسط خواندگی كو بڑھانا ہوتا ہے۔
ان تینوں طریقوں میں ایك چیز قدرے مشتر ك ہے جسے ہم امتحانات كے لیے منتخب موضوعات كا مطالعہ اور معلومات پر دسترس كہہ سكتے ہیں، تو كہیں تو طلبہ ذاتی مطالعے سے اس پر گرفت حاصل كرلیتے ہیں اور كہیں طلبہ كواستاذ كی رہنمائی كی ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔یہ رہنمائی علاقی مراكز میں بھی دی جاسكتی ہے اور كوئی ایك مركزی سینٹر بنا كر آن لائن بھی دی جاسكتی ہے۔ اب دانش مندی كا تقاضا یہ ہے كہ ملت اسلامیہ كے علم دوست ماہرین تعلیم كی كوئی ٹیم سر جوڑ كر بیٹھے اور جائزہ لے كہ ملت كے نونہالوں كے لیےكون سا طریقہ بہتر ہوسكتا ہے جس میں كم وقت اور كم وسائل كے ساتھ زیادہ منافع حاصل كیے جاسكتےہوں۔
البتہ حصول سند كے ان تینوں دستیاب طریقوں كے علاوہ ایك طریقہ اور بھی ہوسكتا ہے ، جس میں ابتدائی مرحلے میں تو كچھ مشكلیں پیش آسكتی ہیں؛ لیكن اگر اللہ رب العزت نے منصوبے كو كامیابی سے ہم كنار كیا توحالات یك سر بدل سكتے ہیں۔ وہ منصوبہ ان بنیادوں پر ترتیب دیا جاسكتا ہےكہ ہم مدارس میں موجود پرائمری كے نظام كو اور بھی مضبوط كر یں اور اسے پنجم سے بارھویں درجے تك اس طرح لے جائیں كہ تعلیم كے اس مرحلے میں ہمارے طلبہ درس نظامی كے علوم آلیہ اور ابتدائی علوم اسلامیہ میں مہارت حاصل كرلیں۔ طریقہ كار كچھ ایسا بھی ہوسكتا ہے كہ وزارت تعلیم كی طرف سے لازم حساب ، سائنس ، علاقائی زبان اور انگریزی جیسے موضوعات كے ساتھ ہم اپنی معاشرتی ضروریات كو پیش نظر ركھ كر قرآن پاك، حدیث نبوی، فقہ اسلامی اور عربی زبان جیسے چار مزید موضوعات كا اضافہ كریں اور ایك بارہ سال كورس ترتیب دیں، جسے ابتدائی ،ثانوی اور اعلی درجوں میں مرحلہ وار تقسیم كیا جائے اور عیسایوں كے بنائے ہوئے بورڈ آئی سی ایس ای كےطرز پر ایك جدید مسلم تعلیمی بورڈ بنانے كی پہل كی جائے۔ملت كے مسلكی اختلافات كے سد باب كے لیے ہم مسلكوں كے اعتبار سے اسلامی موضوعات كی فقہ حنفی ،شافعی ،جعفری اور فقہ اہل حدیث جیسی اقسام كی حامل ایك فہرست دیدیں گے اور طلبہ كو اختیار دیدیا جایئے گا كہ وہ حسب منشاء كسی ایك فقہ كو منتخب كرلیں۔ ہندی ،انگریزی اورعربی زبانوں كی تدریس میں ہم نصاب كی مرحلہ وار یت كو سامنے ركھ كر اپنے نصاب میں ایسی كہانیاں شامل كریں، جس میں ملكی تاریخ اور تہذیب كے ساتھ اسلامی تہذیب وتمدن كی بھی جھلك نظر آئے ،جسے پڑھ كر طالب علم نہ صرف زبان سیكھے؛ بلكہ اپنی تہذیب سے بھی روشناس ہوتا جائے۔ واضح رہے كہ وزارت تعلیم كی طرف سے زبانوں كی نصاب سازی میں كوئی مذہب مخالف بندش اور تحدید نہیں ہے اور نہ ہی كوئی ایك طے شدہ نصاب ہے۔
اس طرح ہم خود اپنی اسلامی تعلیم كو حكومت سے منظور شدہ تعلیم كے زمرے میں لے آئیں گے او راس تعلیم كا حاصل كرنےوالا عالم بھی ملك كی شرح خواندگی والی فہرست میں خواندہ تصور كیا جائے گا۔ اس سے نہ صرف ہماری تعلیم كی اہمیت بڑھ جائے گی بلكہ وطن عزیز كی شرح خواندگی بھی ایك جست میں كئی ڈگری بلندی پر پہنچ جائے گی۔ حكومت بھی ایسا ہی كچھ چاہتی تھی، حیدر آباد میں واقع مولانا آزاد اردو یونیورسٹی اور لكھنو كی خواجہ معین الدین چشتی یونیورسٹی كی بنیادیں اسی طرح كی فكر پر ركھی گئیں تھیں؛ لیكن ہمارے كچھ مسلم بہی خواہان ہی كی وجہ سے ان دونوں یونیورسٹیوں نے اپنا طرز اور رخ تبدیل كرلیا ہے۔
ہمیں یقین ہے كہ اگر مسلمانوں كی تمام تنظیمیں نصاب سازی اور بورڈ كی ترتیب میں متفقہ طور پر كوئی كوشش كریں تو حكومت بھی تعاون كرے گی ۔اگر كسی وجہ سے مركزی حكومت بے اعتنائی كرے تو اسی منصوبے كو صوبوں كی سطح پر بھی منظور كرایا جاسكتا ہے۔ وطن عزیز میں موجود مسلم تنظیموں میں جمعیۃ علماء ہند نے ماضی بعید میں اس موضوع پر كام كیا تھا ، اس كا اپنا ایك قدیم دینی تعلیمی بورڈ ہے، جس كا ایك جامع نصاب بھی ہے ۔اسی نصاب كو بنیاد بناكر اس میں لازمی عصری علوم كااضافہ كیا جاسكتا ہے۔ جنوبی ہندوستان میں بھی كچھ علم دوست قائدین نے نصاب بنائے ہوئے ہیں ان سے بھی استفادہ كیا جاسكتا ہے۔
نصاب سازی اور مسلم تعلیمی بورڈ كی ترتیب كا یہ منصوبہ صرف مدارس میں پہلے سے موجود پرائمری تعلیم میں درجہ پنجم سے دوازدہم تك كا ایك اضافی منصوبہ ہے ۔ اس میں مدارس كے نصاب فضیلت سے چار یا تین سال جن میں صرف نحو وصرف اور ابتدائی علوم اسلامیہ كی تعلیم ہوتی ہے ، وہاں سے حذف كركے اس نصاب كے خانے میں ركھ دئیں جائیں گے۔ اس كے بعد فضیلت كا نصاب صرف پانچ سال كارہ جائے گا ،جس میں حسب سابق اسلامی علوم عالیہ كی تعلیم دی جائے گی ۔اگرنصاب فضیلت كا جائزہ لیا جائے تو واضح طور پر یہی نظر آئے گا كہ آٹھ سالہ نصاب میں ابتدائی تین سالوں علوم آلیہ اور آخر كے پانچ سالوں میں علوم عالیہ كی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس نصاب كو پڑھ كر ہمارا طالب علم دیگر اسكولوں میں زیر تعلیم طلبہ كے ہم پلہ ہوجائےگا ،ساتھ ہی اس كی فكر بھی اسلامی سانچے میں ڈھل جائے گی اور اس كی ذہنی تربیت اسلامی ماحول میں ہونے كی وجہ سے مستقبل كی اعلی سكولر تعلیم اسےفكری طور پر گمراہ كرنے یا غلط رخ پر ڈالنے میں كامیاب نہیں ہوسكے گی ۔
یہ ایك خیال ہے اس كی مصداقیت اور اہمیت سے انكار بھی كیا جاسكتا ہے اور اسے روبہ عمل لانے كے لیے مزید پكایا بھی جاسكتا ہے۔