ولی اللہ مجید قاسمی ۔
انوار العلوم فتح پور ،مئو۔

انسان کی زندگی بہت محدود ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ مسلسل ختم ہورہی ہے ، اور گزری ہوئی زندگی واپس نہیں لائی جاسکتی ہے اورنہ ہی موت کے بعد دوبارہ دنیا میں آنا ہے ۔
اور ہمیں اس حقیقت کا بھی یقین ہے کہ مرنے کے بعد اللہ کے سامنے جوابدہ ہونا اورزندگی کے ایک ایک پل کا حساب دینا ہے ، اس لئے برف کی طرح پگھلتے ہوئے زندگی کے اس سرمایہ کو جلد سے جلد نیک کاموں میں لگا دینا چاہیے ،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

  • وَ سَارِعُوْۤا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ جَنَّۃٍ عَرْضُہَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ۔
    اور اپنے رب کی طرف سے مغفرت اور وہ جنت حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے بڑھ کر تیزی دکھاؤ جس کی چوڑائی اتنی ہے کہ اس میں تمام آسمان اور زمین سما جائیں۔ وہ پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔(سورہ آل عمران: 133)
  • فَفِرُّوْۤا اِلَی اللّٰہِ ؕ اِنِّیْ لَکُمْ مِّنْہُ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ ۔
    لہذا دوڑو اللہ کی طرف ۔ یقین جانو، میں اس کی طرف سے تمہارے لیے صاف صاف خبردار کرنے والا (بن کر آیا) ہوں۔(سورہ‌ الذاریات: 50)
    یعنی اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے دین پر ایمان لانے اور اس کے تقاضوں پر عمل کرنے میں جلدی کرو۔
  • فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ ؕ
    لہذا تم نیک کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ (سورہ البقرۃ : 148)
    اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
  • نیک عمل کرنے میں جلدی کرو‌، ( نہ معلوم پھر موقع ملے یا نہ ملے) ایسے فتنوں کے آنے سے پہلے اچھا کام کرلو جو تاریک رات کی طرح ہونگے ، صبح کے وقت بندہ مومن ہوگا اور شام میں کافر ہوجائے گا، رات میں مومن ہوگا اور صبح میں کافر ہوجائے گا ، ( آزمائش اور فتنے سے پریشان ہوکر ) وہ اپنے دین کو دنیا کے بدلے بیچ دیگا۔ (مسلم )
  • سات چیزوں کے آنے سے پہلے نیک عمل کرلو ، تمھیں کس چیز کا انتظار ہے ؟ ایسی غربت اور افلاس کا جو انسان کو خود فراموشی میں مبتلا کر دیتا ہے ؟ یا ایسی مالداری کا جو سرکشی پر آمادہ کردیتی ہے ؟ یا بیکار کردینے والی بیماری کا ؟ یا بے عقل کر دینے والے بڑھاپے کا ؟ یا کام تمام کر دینے والی موت کا ؟ یا دجال کا ؟ تو یہ ایک بدترین شخص کا انتظار ہے ، یا قیامت کا انتظار ہے ؟ تو یاد رکھو وہ بہت خوفناک اور کڑوا ہے ۔(ترمذی)
    اللہ کے سامنے زندگی کے ہر لمحے کا حساب دینا ہے ، اگر اس کی اطاعت اور عبادت میں زندگی بسر ہوئی ہے تو جنت کی بیش بہا نعمتیں میسر ہونگی اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہے تو جہنم کی دہکتی ہوئی آگ نصیب ہوگی، چنانچہ قرآن حکیم میں ہے :
    وَ ہُمْ یَصْطَرِخُوْنَ فِیْہَا ۚ رَبَّنَاۤ اَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَیْرَ الَّذِیْ کُنَّا نَعْمَلُ ؕ اَوَ لَمْ نُعَمِّرْکُمْ مَّا یَتَذَکَّرُ فِیْہِ مَنْ تَذَکَّرَ وَ جَآءَکُمُ النَّذِیْرُ ؕ فَذُوْقُوْا فَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ نَّصِیْرٍ ۔
    اور وہ اس دوزخ میں چیخ پکار مچائیں گے کہ : اے ہمارے پروردگار ! ہمیں باہر نکال دے تاکہ ہم جو کام پہلے کیا کرتے تھے انہیں چھوڑ کر نیک عمل کریں۔ (ان سے جواب میں کہا جائے گا کہ) بھلا کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی کہ جس کسی کو اس میں سوچنا سمجھنا ہوتا، وہ سمجھ لیتا ؟ اور تمہارے پاس خبردار کرنے والا بھی آیا تھا۔ اب مزا چکھو، کیونکہ کوئی نہیں ہے جو ایسے ظالموں کا مددگار بنے۔( سورہ فاطر : 37)
    اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن کوئی شخص اپنی جگہ سے قدم نہیں ہٹا سکتا ہےجب تک کہ وہ پانچ سوالوں کا جواب نہ دے ، زندگی کہاں بسر ہوئی ؟ جوانی کہاں گزری ؟ مال کیسے کمایا ؟ کہاں خرچ کیا ؟ علم پر کہاں تک عمل کیا ؟( ترمذی : 2416)
    اس لئے زندگی ، صحت ، فراغت اور جوانی جیسی انمول دولت کی قدر کرنا چاہئے کیونکہ یہ دولت ہمیشہ نہیں رہتی ہے ، زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ، کب ساتھ چھوڑ دے ، مال ڈھلتی چھاؤں کی طرح ہے ، صحت ہمیشہ نہیں رہتی ، بیماری پوچھ کر نہیں آتی ، جوانی نیند کے جھونکے کی طرح ہے ، اور فرصت کے لمحات دبے پاؤں گز جاتے ہیں، اس لئے انھیں غنیمت سمجھنا چاہئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
    پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو ، زندگی کو موت سے پہلے ، صحت کو بیماری سے پہلے ، فرصت کو مصروفیت سے پہلے ، جوانی کو بڑھاپے سے پہلے ، مالداری کو محتاجی سے پہلے ۔ ( الترغیب والترہیب للمنذری 1215)
    اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ سب سے بہتر کون ہے ؟ فرمایا: جس کی عمر لمبی ہو اور اچھا کام کرے ۔ دریافت کیا گیا: سب سے بڑا کون ہے ؟ فرمایا: جس کی عمر لمبی ہو مگر عمل خراب ہو (مسلم)
    اور حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ قبیلہ بنو قضاعہ کے دو لوگ ایک ساتھ مسلمان ہوئے جس میں سے ایک کسی جنگ میں شہید ہوگیا اور دوسرا اس کے بعد ایک سال تک زندہ رہا ، طلحہ بن عبیداللہ کہتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ دوسرا شخص شہید سے پہلے جنت میں داخل ہوگیا ، مجھے بڑا تعجب ہوا ، اور صبح میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ نےفرمایا: کیا اس نے اس کے بعد رمضان کا روزہ نہیں رکھا اور اتنی اتنی مقدار میں پورے سال نماز نہیں پڑھی ؟ (صحیح الترغیب والترہیب:365)
    اس لئے ہمیں وقت کی قدر کی قدر کرنا چاہئے خصوصا رمضان کے اس مہینے کی کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک زریں موقع عنایت فرمایا ہے ، پچھلے رمضان میں بہت سی لوگ ہمارے ساتھ تھے لیکن ان کی زندگی پوری ہوگئی اور وہ اس گراں قدر دولت سے محروم ہوگئے اور ہوسکتا ہے کہ اگلے رمضان سے پہلے ہم بھی ان کے پاس پہونچ جائیں اور دوبارہ ہمیں رمضان میسر نہ ہو اس لئے پوری کوشش ہونی چاہئے کہ ہم بھی ان لوگوں میں شامل ہوجائیں جن کی مغفرت کردی جائے اور جنھیں باب ریان سے جنت میں داخل ہونے کی اجازت مل جائے اور ہمارا شمار ان بدنصیبوں میں نہ ہو جن کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : وہ شخص ناکام و نامراد ہو جس کے سامنے میرا نام آئے لیکن وہ درود نہ پڑھے ، وہ شخص ناکام و نامراد ہو جسے رمضان کا مہینہ ملا مگر وہ اپنی مغفرت نہ کرا سکا ، وہ شخص ناکام و نامراد ہو جس نے اپنے والدین کو پایا مگر وہ ان کے ذریعے جنت میں داخل نہ ہوسکا ( صحیح الجامع الصغیر)

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے