از:مفتی عبد العلیم صاحب اعظمی رسول پوری ،مبارک پوری رحمہ اللہ
ترتیب،تعلیق،تحقیق: مفتی فرحت افتخار قاسمی مبارک پوری
صفحات:۴۶۹
دین اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہے اور اس کی روشن تعلیمات انسانی زندگی کے تمام شعبوں اور گوشوں کو محیط ہے،کسی شعبۂ حیات کو تعلیمات اسلام نے تشنہ نہیں چھوڑا ہے،اور ظہور اسلام سے ہی حیات انسانی کی کامل رہنمائی کی ہے،چنانچہ امت مسلمہ کی شرعی رہنمائی اور دینی خدمت کے لئے ہمیشہ اہل علم کے دو طبقے رہے ہیں،ایک طبقہ محدثین عظام کا جن کی گہری نظر اور زیادہ تر توجہ کا ارتکاز احادیث شریفہ کی روایت و بیان پر اور ان کی اسنادو الفاظ پر رہا ہے،اور دوسرا طبقہ فقہائےاسلام کا ہے،جنہوں نے آیات کریمہ اور احادیثِ شریفہ سے احکام و مسائل کے استنباط و استخراج کو مرکزِ توجہ بنایا اور الفاظ سے زیادہ معانی اور اصول و قواعد پر نظروں کو مرکوز رکھا۔مفتیان کا تعلق اسی دوسرے طبقہ سے ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و اسلم کے عہدِ زریں میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے مسائل پیش کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کی طرف سے نازل کردہ وحی کی روشنی میں اس کا جواب دیتے،اس سے واضح ہوتاہے کہ اسلامی تاریخ میں آپ سب سے پہلے مفتی تھے۔علامہ ابن القیم الجوزیہ[م:۸۵۱]اپنی شہرۂ آفاق تصنیف “اعلام الموقعین عن رب العالمین”میں اس پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے رقم طراز ہیں:
“وأول من قام بھذا المنصب الشریف سید المرسلمین،وامام المتقین،خاتم النبین،عبد اللہ ورسولہ،وأمینہ علی وحیہ وسفیرہ بینہ وبین عبادہ،فکان یفتي عن اللہ بوحیہ المبین” (اعلام الموقعین ۱۱/۱)
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام میں صاحب افتاء حضرات کی تعداد ایک سو تیس سے زیادہ بیان کی جاتی ہے،صحابہ کے بعد تابعین و تبع تابعین نے،پھر ان کے بعد آج تک علماء اسلام و فقہائے عظام اور مفتیان کرام نے اس سلسلہ زریں کو بخوبی قائم رکھاہے،اور امت کے عوام و خواص کی ان کے پیش آمدہ دینی مسائل و احکام اور شرعی ضروریات میں راہ نمائی اور خدمت کا کام انجام دے رہے ہیں۔
یوں تو ہندوستان میں مختلف مکاتبِ فکر کے فتاوی،کتابی صورت میں مرتب ہوکر شائع ہوچکے ہیں،لیکن اس سلسلے میں سب سے نمایاں کردار علماء دیوبند کا رہاہے،چنانچہ فقیہ النفس حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کے فتاوی کا مجموعہ”فتاوی رشید یہ”،حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری کے فتاوی کا مجموعہ “فتاوی مظاہر العلوم”،حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کے فتاوی مجموعہ”امداد الفتاوی”،مفتی کفایت اللہ صاحب دہلوی کے فتاوی کا مجموعہ “کفایت المفتی”،مفتی عبد الرحیم صاحب لاجپوری کے فتاوی کا مجموعہ”فتاوی رحیمیہ”مفتی محمود حسن گنگوہی کے فتاوی کا مجموعہ”فتاوی محمودیہ”اسی طرح فتاوی احیاء العلوم،نظام الفتاوی،کتاب الفتاوی،فتاوی قاسمیہ،کتاب النوازل،کے نام سے کئی اہم مجوعےطبع ہوکر اصحابِ بحث و تحقیق کے لئے مینارۂ نور ثابت ہورہے ہیں،یہ سلسلہ تاہنوز جاری ہے اور تقریبا ہر سال کسی نہ کسی ادارے یا مفتی کی جانب سے کوئی نہ کوئی مجموعہ فتاوی مرتب ہوکر سامنے آتا رہتاہے۔
اسی سلسلۃ الذہب کی ایک کڑی زیر نظر کتاب “فتاوی علیمیہ” ہے،جو ماہر علوم و فنون ،متبحر عالم دین،فقیہ عدیل اور مولانا عبد الحی فرنگی محلی کے شاگردِ سعید مولانا عبد العلیم صاحب رسول پوری مبارک پوری رحمہ اللہ (متوفی ۱۳۴۱ھ) کے ان فتاوی کا مجموعہ ہے جو انہوں نے مدرسہ چشمۂ رحمت غازی پور میں کم و بیش ۳۵سالہ قیام کے دوران تحریر فرمایاتھا،اور رجسٹر نقولِ فتاوی میں اندراج بھی کیا تھا۔صاحب فتاوی مولانا حضرت مولانا عبد العلیم صاحب رسول پوری علماء فرنگی محل بالخصوص فقیہ عصر حضرت مولانا عبد الحی فرنگی محلی کے تلمیذِ رشید اور اور فیض یافتہ محقق و فقیہ تھے،ان کے فتاوی میں استاذ موصوف کی محققانہ شان،فقیہانہ بصیرت اور اسلوبِ نگارش کی جھلک بدرجہ اتم معلوم ہوتی ہے،بعض مسائل میں جمہور فقہاء احناف کے راجح و متداول قول کو نظر انداز کرکے اپنے علم و تحقیق کی بنیاد پر بڑی خود اعتمادی کے ساتھ فتوے صادر کئے گئے ہیں،اور دلائل سے اپنے موقف کو ثابت کر نے کی کوشش کی گئی ہے۔
یہ فتاوی کا مجموعہ اب تک غیر مطبوع اور نقولِ فتاوی کے رجسٹر میں محفوظ جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور کے کتب خانہ میں موجود تھا،لیکن انتہائی بوسیدہ اور خستہ حالت میں یہ رجسٹر تھا،نیز فتاوی کی زبان آج سے ۱۳۰سال پرانی اردو ہے،غرضیکہ رجسٹر کی خستہ حالی ،اوراق کی بو سیدگی،تحریر کی شکستگی،مرور ایام سے روشنائی کا پھیکا پڑجانا،جگہ جگہ الفاظ و حروف کا نا صاف و غیر واضح ہونا،ان تمام امور کے مجموعوں نے “فتاویٰ علیمیہ”کوبشکلِ مخطوطہ بنا دیا تھا۔
بڑی مسرت کی بات ہے کہ “فتاوی علیمیہ”کی ترتیب ،تبییض ،تحقیق ،تشریح و تعلیق اور تخریج و تحشیہ جیسے ادق کاموں کا قرعۂ فال اللہ تعالی کی طرف سے حضرت مولانا مفتی فرحت افتخار صاحب قاسمی مبارک پوری (استاذ و مفتی جامعہ اسلامیہ مظفر پور،اعظم گڑھ) زادہ اللہ علما و شرفا کے نام مقد ر ہوا،مرتب موصوف ایک باصلاحیت و بافیض عالم دین ہیں،دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد بلا انقطاع تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں،اس کتاب پر موصوف کا کام ان کی علمی پرواز اور تحقیقی ذوق کا مکمل عکاس ہے،مرتبِ موصوف نے جہاں کہیں راجح و مفتی بہ قول سے اپنے علم و دانش کے مطابق انحراف محسوس کیا تو بلا تکلف حاشیہ میں اس کا تعاقب کیا ہے،اور اپنی دانست میں قولِ راجح کی دیانت و متانت کے ساتھ کتبِ فقہ و فتاوی کے حوالہ سے توضیح و تشریح کیا ہے،جس سے استفادہ آسان اور سہل ہوگیا ہے۔
رجسٹر نقول فتاوی میں ابواب کی ترتیب “کتاب الطہارۃ “سے شروع ہوکر “کتاب النوادر “پر ختم ہے،ابوب کی ترتیب میں جزوی ترمیم کرتے ہوئے کتاب النوار کی جگہ “کتاب الحظرِ و الإ باحہ” کو رکھ دیا گیا ہے،اور ہر مسئلے کے عناوین کا اضافہ کیا گیا ہے ،جو مسائل باب کے موافق نہ ملے اسے “کتاب الحظر والاباحہ” میں ترتیب دے کر یکجا کر دیا گیا ہے،بہت سی جگہوں پر ایک باب کے مسائل دوسرے ابواب میں درج تھے ان کو باب کے موافق مناسب جگہ رکھنے کی سعی کی گئی ہے۔
بہت سے مقامات پر مسائل کی وضاحت کے لئے حاشیہ لگا یا گیا ہے،اور ان مسائل سے متعلق حوالجات اور عربی جزئیات و عبارات نقل کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے،نیز جہاں تشنگی یا وضاحتی جملے کی ضرورت محسوس ہوئی ان کو بین القسین یا حاشیہ میں لکھ دیا گیا ہے۔
اس کتاب میں صاحب فتاوی کا مولانا احمد رضا خان بریلوی سے “اذان بین یدی المنبر”پر ایک تحریری اور قلمی مناظرہ بھی ہے،کہ جمعہ کےدن خطبہ کی اذان منبر کے سامنے ہونی چاہیے،جبکہ مولانا احمد رضا خان بریلوی منبر سے دور اذان ثانی کے قائل تھے،اس سلسلے میں صاحبِ فتاوی نے بڑی عالمانہ اور محققانہ بحث کی ہے۔اور ثابت کیا ہے کہ خطبہ کی اذان منبر کے سامنے ہی ہونی چاہیے۔
۴۹۶ صفحات پر مشتمل اس اہم اور علمی و فقہی کو ذخیرہ کو شاندار ٹائٹل،عمدہ اوراق اور ظاہری و معنوی خوبیوں کے ساتھ شائع کرنے کرنے کا کارنامہ “قاضی اطہر اکیڈمی مبارک پور،ضلع اعظم گڑھ،یوپی”نے انجام دیا ہے۔اللہ تعالی جزائے خیر دے۔
ملنے کے پتے۔
(1)مکتبہ عکاظ دیوبند
(2)فرحت افتخار قاسمی مبارک پوری،9044929915
(۲۰۔شعبان المعظم،۱۴۴۴ھ)