ادارہ جاتی كتب خانوں كی بے نفع تجارت: مشكلات اور ممكنہ حل

ڈاکٹر عبدالملك رسول پوری

حالیہ دنوں میں تین اہم كتابیں زیور طبع سے آراستہ ہوكر منظر عام پر آئیں ۔ دو تو كافی اہم ہیں۔ ان كا موضوع بھی اہم ہے اور ان كے لكھنے والے بھی علمی دنیا كے مستند صاحب فكر و قلم ہیں۔ان كے رقم كردہ ہر حرف كو اہل علم نہ صرف سند اور حوالہ سمجھ كر پڑھتے ہیں؛ بلكہ ان كی استعمال كردہ تعبیرات اور لفظی ساختیات كو بھی اہل زبان استشہاد اور استدلال كے طور پر استعمال كرتے ہیں ۔ اوران كتابوں كو شایع كرنےوالے مكتبے بھی خاصی اہمیت كے حامل ہیں۔مطالعہ كے شوقین سنجیدہ افراد ان مكتبوں كی مطبوعات كو قدر كی نگاہ سے دیكھتے ہیں حتی كہ ان مكتبوں سے كسی كتاب كا نشر ہوجانا ہی اس كے لیے سند توثیق سمجھا جاتا ہے۔

ان دونوں كتابوں كی ان نمایاں خصوصیات كے باوجود ان كی فروخت اور نكاسی ناقابل ذكر حد تك كم ہے۔ ایك كتاب كو تو شایع ہوئے كئی ماہ گذر گئے؛ لیكن ا س كے نسخے گودام ہی میں انبار كی صورت ذخیرہ ہیں۔ دوسری نو وارد ہے؛ لیكن اس كی آمد پر نہ تو كوئی چراغاں ہوا اور نہ ہی كوئی جشن ۔ سمجھو ٹھیلے والے نے بھی دن ڈھلے‏، دبے پاؤوں مكتبے كے گودام میں پہونچادیا ہو كہ كہیں كسی عاشق زار كی محمل نشیں پر نظر نہ پڑ جائے ‏،كانوں كو بھنك نہ لگ جائے یا قوت شامہ كو خوشبو نہ پہنچ جائے ۔

اس كے برعكس تیسری كتاب‏، جو ان دونوں كی بہ نسبت نہ تو اتنی اہم تھی اور نہ ہی اس كا مواد كسی خاص خصوصیت كا حامل تھا ۔ایك ہزار صفحات میں صرف دو ڈھائی سو صفحات ہی تھے ‏،جو كسی سنجیدہ قاری كے لیے اہم ہوسكتے تھے‏، باقی سب تو چند چھوٹوں كی وقت سے پہلے بڑے بننے كی كوششیں تھی۔اس كا شایع كرنے والا ادارہ بھی پہلے كی بہ نسبت اتنا اہم نہیں تھا؛ حتی كہ علمی دنیا میں اس كا تعارف بھی كم ہی تھا۔ ان سب كے باوصف یہ تیسری كتاب ایك سال كے دورانیے میں متعدد بار شایع ہوئی ۔ لوگوں نے اس كے شایع ہونے كاشدت سے انتظار كیا ۔ طبع ہونے پر ہاتھوں ہاتھ لیا۔ ایك نہیں كئی كئی نسخے خرید كیے ۔ خود كی لائبریری میں ركھے اور دوسروں كو بھی ہدیہ كیے۔ شایع كرنے والے ادارے كو مالی فائدہ ہوا‏، اس كی تجارت كو فروغ ملا اور خود مرتب كرنے والی شخصیت كو مزید كاموں كے لیے حوصلہ ملا۔

ان دوبرعكس واقعات كا جب ایك تجزیہ نگار ذہن جائزہ لیتا ہے۔ اور اس خسارے و منافع كے اسباب ومحركات كی تلاش میں اپنی صلاحیتوں كو كام میں لاتا ہے تو آج كی متحرك اورتصویری دنیا میں كتابوں كے منجمد نقوش سے آنكھوں كی بیزاری، یا تنقیدی،تجزیاتی اور دورخوش آیند كے تعلق سے ترقیاتی منصوبوں پر مشتمل فكری تحریروں سے بُعد اورناول و افسانوں كے صفحات پر پھیلی ہوئی خیالی دنیا كی لذت انگیز سیریا گذشتہ شخصیات كے بارے میں سب كچھ جان لینے كی دھن ‏، جیسے اسباب تو نظرآتے ہی ہیں ؛ساتھ ہی كچھ ایسے مشترك محركات كا بھی پتہ چلتا ہے‏، جن كے ہونے اور نہ ہونے سے ان كتابوں كی بازاروں تك رسائی ‏،فروخت اور علمی نشو ونما پر كافی اثر پڑتا ہے۔

ان اسباب میں سے ایك سبب دور رس اور دیر پا ‏،جاذب نظر اشتہار ہے۔ عربی زبان میں ایك كہاوت ہے "حسن الإعلان یبیع السعلة” اشتہار كی جاذبیت فروختگیئ اشیاء كی ضامن ہواكرتی ہے۔ اسی طرح بیان كیا جاتا ہے كہ ایك عرب شیخ كے سرمیں قدرے پر تعیش مكان خریدنے كا سودا سما گیا ۔ حسب ضرورت مالی وسائل نہ ہونے كی وجہ سے موجودہ مكان فروخت كرنے كا منصوبہ بنایا۔ فروختگی كے لیے فنون لطیفہ كے ماہر ایك ادیب سے اشتہار بنوایا۔ اس ادیب نے اپنی تمام تر صلاحیتوں كو بروے كار لاكر مكان كے اوصاف كو لفظوں كی ایسی مالا میں پرویا كہ جو سنے وہ دیوانہ وار خریدنے چلا آئے۔ اشتہار بن كر تیار ہوا تو عرب شیخ نے سننے كی خواہش ظاہر كی۔ بنانے والےنے ہر كامہ و قوس كا لحاظ كرتے ہوئے صوتی زیر وبم كے ساتھ جب اشتہار كو پڑھا تو عرب شیخ نے خوشی میں چور ہوكر ایك جست لگائی اور كہا واللہ میں تو ایسا ہی مكان خریدنا چاہ رہا ہوں۔ یہاں سے یہ سمجھنا چاہئےكہ دسترخوان كی لذت اسے سجانے كے سلیقے میں ہے نہ كہ محض اشیاے خوردنی كے ذائقے میں۔ ذائقہ دار بریانی كواگر بے سلیقہ پروسا جائے گا تو ذائقہ خود ہی دم توڑ دے گا۔

ایسے ہی كہا جاتا ہے كہ عمدہ سامان خریدنے كی صلاحیتوں كی بہ نسبت عمدہ سامان فروخت كرنے والی دوكانوں كا علم زیادہ اہم ہوتا ہے۔ اگر آپ كو صحیح دوكان كی واقفیت نہیں ہے تو آپ كبھی بھی صحیح سامان نہیں خرید پائیں گے۔ یہ اشتہارات اصحاب ذوق كو عمدہ سامان سے واقفیت اور عمدہ سامان فروخت كرنے والی دوكانوں سے آگہی میں اپنا بھرپور كردار ادكرتے ہیں۔ اچھے پھول صرف گلستانوں میں نہیں كھلا كرتے ہیں ‏،جنگل بھی اپنے اندر عطر بیز خوشبو دار گلوں كی لمبی لمبی بیلیں اگاتے ہیں؛ لیكن ان سے كون محظوظ ہوتا ہے اور كون ان كی اہمیت كے گن گاتا ہے۔ چاند چمكے گا تبھی اس كو ماما بلایا جائے گا ورنہ تو زمین ہی كی طرح ایك كرہ ہے۔ مور اگر چمن میں ناچے گا تبھی لوگ اس كے رقص كی تعریف و توصیف كریں گے ورنہ جنگل میں ناچنے سے كیا ہوگا۔

دوسرا سبب مالكان مطبع ومكتبہ كا شوق اور لگن ہے۔اگر كسی شخص كےاندر كسی كام كا شوق نہیں ہے اور اسے وہ كام تفویض كردیا جائے تو محض ایك روز كا كام قلبی گرانی كے باعث ہفتوں اور عشروں میں بھی انجام تك نہیں پہنچے گا اور اگر كسی كام كا شوق ‏،جذبہ اور لگن ہے تو مہینوں كا كام محض ہفتوں میں پایہ تكمیل تك پہنچ جائے گا۔ اسی لیے ذمہ داریوں كی تفویض كے وقت قائدین كی دور رس نگاہیں لوگوں میں اسی جذبے اور لگن كو تلاش كیا كرتی ہیں۔ كہاجاتا ہےكہ اپنے شوق كی ملازمت اور اپنی خواہش كی ذمہ داری كام كو محض كام نہیں تحریك بنادیتی ہے۔

تیسرا اور عہد حاضر میں پہلے دو كی بہ نسبت قدرے زیادہ اہم سبب مالی افادیت ہے۔اقتصادیات كا یہ گوشہ مانو تو شوق كے ہی ضمن میں شمار ہوجائے ؛لیكن سكے كی شان جلالت كا اظہار نہ صرف ابن حریری نے كیا ہے ؛بلكہ عالم اسلام كے ایك مایہ ناز فقیہ شافعی نے بھی اس كی عظمت كے گن گائے ہیں ۔دونوں كے دیوانوں میں ایسے اشعار ملتے ہیں كہ اگر خدا كا خوف نہ ہوتو انسان دیناركی چمك ہی كو كائنات كا نقطہ وجود سمجھ لے اور اسی كی پرستش كرنے لگے۔ دوسری سمت خواہشات كو ضروریات میں تبدیل كرنے والے سرمایہ دارانہ نظام نے ہر انسان كے قلب میں سكے كی اہمیت كو اس طرح پیوست كیا ہوا ہےكہ شب وروز كے ہر لحظےمیں وہ سكے كے عدد ی اضافےكے لیے ہمہ تن سرگرم اور سرگرداں ہے ۔ اسے اگرسكے كے وجود یا حصول كا علم ہوجاتا ہے تو اسے كوہ كنی اور جاروب كشی میں بھی نہ كوئی تكان ہے اور نہ كوئی عار۔

آئیے ان تین اسباب كو مد نظر ركھتے ہوئے سابق میں مذكور تینوں كتابوں كی طباعت اور فروختگی كا جائزہ لیتے ہیں۔ پہلی دو كتابیں ایسے مكتبوں سے شایع ہوئی ہیں‏، جن كی ملكیت اداروں كو حاصل ہے اور جہاں منیجر مكتبہ ایك ملازم كی حیثیت سے مامور ہیں۔ان كا كام مكتبے كے مالی حساب وكتاب كے ساتھ اربا ب حل وعقد سے طباعت كی منظوری حاصل كر كے كتابوں كو طبع كرالینا اور اپنے مكتبے كی شیلف میں لگادینا ہے۔ نوسے پانچ اوقات ملازمت میں مكتبہ كھول كر تشریف فرماہوجانا ہے۔ كتابوں كی فروختگی اور عدم فروختگی سے ان كے ماہانہ مشاہرے پر سر مو فرق نہیں پڑتا ہے۔ كتابیں كم فروخت ہوئیں تب بھی ان كا كوئی مالی خسارہ نہیں ؛بلكہ اگر صاحب معاملہ سہل پسند اور كسل مند ہیں تو یك گونہ روحانی فائدہ ہی ہوگا كہ جسد عزیز كو حركت نہیں دینی ہوگی۔ اور اگر كتابیں زیادہ فروخت ہوگئی تب بھی ان كا كوئی ذاتی فائدہ نہیں اگر ہوگا بھی تو بس یہی كہ ارباب ادارہ كی طرف سے شكریے كے دو لفظ مل جائیں گے۔ اہل ادارہ كے لیے تو یہ دو لفظ ‏،معمولی تبدیلی كے ساتھ بخاری شریف كے آخری دو كلموں كے مانند كلمتان ثقیلتان من لسان ‏، ثقیلتان فی المیزان ہوں گے؛ لیكن صاحب معاملہ ملازم كے لیے حسی دنیا میں شكریے كے ان دو لفظوں كی اہمیت مثقال ذرۃ بھی نہ ہوكر خفیفتان فی المیزان رہ جائے گی۔

جب كے اس كے بر عكس كم اہمیت كی حامل زیادہ فروخت ہونے والی اور زیادہ منفعت دینے والی وہ كتاب ایك ذاتی مكتبے سے شایع ہوئی ہے۔ یہاں مكتبے كی ملكیت شخص واحد كو حاصل ہے ۔یہ مالك مكتبہ باذوق اور صاحب شوق نہ بھی ہوں پھر بھی كتابوں كی فروخت سے ان كی ذاتی آمدنی میں اضافہ ہورہا ہے۔ محنت محض نو سے پانچ‏، اوقات ملازمت میں نہیں ہورہی ہے؛ بلكہ شہری بازار كے لحاظ سے مكتبہ كھولا جارہا ہے۔ خریداروں سے من موہك نرم لہجے میں باتیں ہورہی ہیں۔ ان كو ایسا محسوس ہورہا ہے كہ كتابوں كی قیمت سے زیادہ ان كی خاطرمدارات كردی گئی ہے۔ اب زیادہ نفع كے ساتھ فروخت كی جانے والی كتابیں بھی سستی اور ارزاں محسوس ہورہی ہیں؛ كیوں كہ یہاں صاحب معاملہ كا رویہ استقبالیہ ہے‏، اس كا طرز گفتگو قلب وجگر كو راس آرہا ہے‏، اس كی باتیں دلوں تك پہنچ رہی ہیں۔ ایك دو كتابیں زائد محض لائبریری كی زینت بنانے یاكسی دوست كو تحفتا پیش كرنے كے لیے خریدنے میں بھی كوئی مضایقہ نہیں محسوس ہورہا ہے؛ كیوں كہ یہاں مالك مكتبہ كو جسد عزیز كو حركت دینے میں كسی طرح كی كسلمندی نہیں ہورہی ہے۔ اس كا ہر ہرقدم اس كے غلے میں كھنكھنا ہٹ پیداكررہاہے۔

اس صورت حال میں مدرسوں ‏،تنظیموں اورسوسائٹیوں كی زیر نگرانی چلنے والے والے مكتبوں كو نفع بخش كیسے بنایا جائے؟ ان كے ملازمین میں تجارت كا شوق كیسے پیدا كیا جائے ؟ كیسے ان كے اندر ذاتی ملكیت والے كتب خانوں سے مقابلہ آرائی كا جذبہ پیدا كیاجائے اور كیسے مستند مؤلفین كی اہمیت كی حامل كتابوں كو سنجیدہ مطالعہ كنندگان تك پہنچایا جائے اور كیسے اپنی فكر اوراپنے وزن كی تشہیر كی جائے؟ یہ ایك سوال ہے ۔ان مكتبوں كی فكری اور تجارتی ہر دوطرح كی كامرانی اسی ایك سوال كے جواب میں مضمر ہے۔ تجارتی ذہن ركھنے والے ہر شخص اور مستقبل كی خوش حالی كے لیے ترقیاتی منصوبے بنانے والےہر مفكركو اس سوال كا جواب تلاش كرنا چاہئے۔

ہمارے نارسا ذہن میں جو تدبیر آئی ہے وہ چند شواہد كی روشنی میں درج ہے۔ ریسٹورانٹ میں ظہرانہ و عشائیہ كرنے والے ہر شخص كے مشاہدے میں یہ بات آتی ہوگی كہ ہم جب اپنی ماكولات و مشروبات كا بل اداكرتے ہیں تو كچھ روپیے مہمانوں كی خدمت پر مامور خادم كو بھی ازراہ عنایت عنایت كردیتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے كہ آپ كے تہہ در تہہ موڑے ہوئے اور دوسروں كی نظروں سے چھپاكردیے جانے والے یہ روپیے ریسٹورانٹ كے منیجر كی نظروں سے اوجھل ہوں۔ وہ مہمانوں كی ان عنایات سے بہ خوبی واقف ہوتے ہیں اور انھیں عنایات كی وجہ سے ان خدام كے اصل مشاہرے بس نام كے ہوتے ہیں ‏،ماہانہ آمدنی كے تین حصے انھیں عنایات پر مشتمل ہوتے ہیں۔ حتی كہ كہیں كہیں تو ان كا اصل مشاہرہ كچھ ہوتا ہی نہیں ہے ۔ صاحب مطعم بس انھیں خدمت كے مواقع فراہم كرتے ہیں ۔وہ اپنی آمدنی كا انتظام آنے والے مہمانوں كی دل جیتنے والی خدمت اور من موہ لینے والے سلیقے اور شعور سے عنایات كی شكل میں حاصل كرلیتے ہیں۔ اور یہ قطرے جب تیس دنوں میں ساٹھ بار ایك ہی گلاس میں ٹپكتے ہیں تو كچھ نہ سہی پیاس بجھانے والی مقدار تك پہنچ ہی جاتے ہیں۔

اسی طرح عہد اسلامی میں تو دینی مدرسے بیت المال اور جاگیروں سے حاصل ہونے والی آمدنی سے اپنے اخراجات كی تكمیل كیا كرتے تھے ۔برصغیر میں اسلامی ریاستوں كے زوال كے ساتھ ہی جاگیروں اور بیت المال كا نظام بھی زوال كا شكار ہوگیا ۔عہد حاضر میں اسلامی مدرسوں كا انحصار اہل ثروت كی زكات اور امداد وعطیات پر منحصر ہوگیا۔ ذمہ دارن مدارس نے سفارت كا نظام قائم كرلیا اب انھیں سفراے كرام كے ذریعہ حاصل شدہ عطیات سے مدارس كے اخراجات كی تكمیل ہوتی ہے۔ ان سفراے كرام كو سفر كی صعوبت‏، تدریسی اوقات اور تدریسی شغل سے زیادہ محنت كی بنا پر كہیں تو مہینے كا دوگنا مشاہرہ اور كہیں اضافی انعام كی شكل میں كچھ مالی فائدے ہوجاتے ہیں۔ ان سفراے كرام كا جذبہ اور نیت یقینا مستحسن اور ان كے تدین اور فروغ دین كے لیے ان كی پیہم كوششوں كا مظہر ہوتی ہے ؛لیكن اس حسی دنیا میں كہیں نہ كہیں محض خفیف سا ہی‏، ہر ایك میں نہ سہی ‏،كسی كسی میں ہی سہی‏، یہ اضافی انعامات بھی اپنا مثبت كردار اداكرتے ہیں۔

ان شواہد كے پیش نظر ان مكتبوں كے فروغ اور كتابوں كی تجارت میں كچھ اس طرح كا طریقہ اختیار كیا جائے كہ ناظم مكتبہ اور ملازمین مكتبہ كے اصل مشاہرے تو كم ہوں؛ البتہ انھیں كتابوں كی فروختگی سے حاصل ہونے والے منافع میں پانچ ‏،دس فی صدی كا حصہ دار بنادیا جائے ۔ اب ماہانہ طور پر فروختگی كی مقدار جوں جوں بڑھتی چلی جائے گی ‏، ان ملازمیں كا ماہانہ مشاہرہ بھی بڑھتاچلا جائے گا۔ ہمیں یقین ہے كہ اس ایك معمولی تبدیلی سے ذمہ داروں میں شوق پیدا ہوگا‏، محنت كرنے كا جذبہ جلا پائے گا‏، رویوں كی خشكی میں ترواٹ آئے گی ۔ ہمارا كیا جاتا كے بجائے آپ ہمارے كتب خانے میں كیوں نہیں آتے كا رجحان جنم لے گا او رنو سے پانچ كی جگہ سوتے‏،جاگتے ہر آن و ہر لمحے كتابوں كی نكاسی كی دھن لگی رہے گی اوراس كا سودا سر میں سمایا رہے گا۔ اس طرح تجارت كو فروغ بھی حاصل ہوگا‏، فكر كی ترویج بھی ہوگی۔ اب قطاریں نہیں ہوں گی بلكہ ساقی خود ہی میز پر جام سجائے گا۔

دوسری سمت ان ذمہ داران مكتبہ كو مالی آفات سے بچانے اور مكتبےكی تجارت كو تاجرانہ اسلوب سے انجام دینے كے لیے كتابوں كی طباعت كے مراحل كچھ اس طرح طے كیے جائیں كہ جن اداروں كے اپنے ذاتی پرنٹنگ پریس نہیں ہیں ‏،انھیں چاہئے كہ وہ اولا اپنا ایك طباعتی معیار قائم كریں كہ كتنے گرام ‏،كس نوعیت اور كس كمپنی كا كاغذ استعمال كیا جائے گا۔ روشنائی اور تجلید كس معیار كی ہوگی ۔ اس طرح كے ضروری امور طے كرنے كےبعد مختلف پریسوں اور اس نوعیت كا كام كرنے والوں سے رابطے كركے طباعت پر آنے والے مصارف كے تخمینے حاصل كرلیں بعد ازاں حسب خواہش اور اعتماد انھیں میں سے كسی ایك سے كتاب طبع كرالیں۔

ناظم مكتبہ كو بے مشورہ كلی اختیار دیدینے كی وجہ سے ایك دو باركے بعد شیطان حركت میں آجاتا ہے اور ایك عربی ڈرامے كی طرح ایك شیطان ایك زاہد شب بیدار كو سكے كی چمك میں قید كرلیتا ہے۔ اسی طرح یہ ناظم مكتبہ كچھ ہی روز میں كہیں كاغذ میں اور كہیں تجلید میں ڈنڈی مارنے لگتے ہیں۔ اس سے نہ صرف كتاب كا طباعتی معیار كم ہوجاتا ہے اور بلكہ تجارت كی بركت بھی اٹھتی چلی جاتی ہے۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے