جوف کعبہ میں نماز اور ابر رحمت پر نظر

حضرت مولانا بدر الحسن قاسمی

اللہ رب العزت کا وہی مبارک گھر جسے سب سے پہلے انسانوں کی سعادت اورعالمین کے رشد وھدایت کیلئے بنایا گیا ہے
(ان اول بیت وضع للناس للذی ببکة مباركا وهدي للعالمين ) ال عمران٩٦
حضرت آدم علیہ السلام سے پہلے اس کی معماری کے فرائض فرشتوں نے انجام دئے اور اس کے لئے وہ منتخب کی جو عرش آلہی کے نیچے
اور” البیت المعمور” کی بالکل سیدھ میں ہو رب کائنات نے اس مقدس گھر کی نسبت اپنی ذات کی طرف کی ہے اور اسے لوگوں کیلئے امن امان کاگہوارہ بنایا ہے
پھر سیدنا ابراہیم واسماعیل علیہما السلام کو بت پرستوں کی تدنیس سے پاک کر نے پر مامورکیا
(وعهدناالي ابراهيم واسماعيل ان طهرا بيتي للطائفين والعاكفين والركع السجود ) البقرة
یہ مقدس گھر نمازوں کیلئے قبلہ بھی ہے حج اور عمرہ کرنے والوں کی جائے طواف بھی ہے اور رب کی تجلیات کا مرکز بھی ہے
کعبہ کی پرشکوہ اور بلند وبالا عمارت کے اندر کیاہے؟۔ اسکو جاننےکی خواہش ہر شخص کو ہوتی ہے
خانہ کعبہ کی کلید برداری کاشرف شببی خاندان کو حاصل ہے اور خانہ کعبہ میں داخل ہو کر دوگانہ پزھنے کا موقع مختلف زمانوں میں مختلف انداز سے لوگوں کو ملتا رہا ہے لیکن انکی تعداد محدود ہی رہی ہے
اس زما غلاف کعبہ کی تبدیلی کے متعین ایام کے علاوہ بعض خصوصی مہمانوں کیلئے شاہی فرمان کے تحت کھولا جاتا ہے اور زیارت کرائی جاتی ہے
خانہ کعبہ میں داخلہ کی توفیق محض اللہ رب العزت کا کرم اور اسکی عنایت ہے ورنہ ہم جیسے بے کمالوں کو یہ سعادت کب نصیب ہوسکتی تھی ؟
خانہ کعبہ میں نماز پڑھنے کی کیفیت کےبارے مین فقہ حنفی کی کتابوں میں لکھا ہوا ہیکہ کہ :
ومن جعل ظھرہ الی ظہر امامہ جاز ولو الی وجهه لايجوز وكر ہ ان يجعل وجهه الي وجهه
ولو تحلقوا حولهاوهوفيها جاز
یہ شکلیں خانہ کعبہ کے گرد نماز پڑھنے کی ہیں
ليكن هميں تو اللہ تعالی نے جوف کعبہ مہں نماز پڑھنے کی توفیق بخشی تو ہمارے سامنے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دخول کعبہ کا اسوہ تھا جیساکہ صحیح بخاری شریف میں حضرت عبد اللہ بن عمر کی روایت میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن جوف کعبہ میں نماز پڑھی ابن عمررض کے بیان کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں داخل ہوئے اور آپ کے ساتھ اسامہ بن زید وبلال اور عثمان بن طلحہ الجمحی تھے آپ نے اندر داخل ہوکر دروازہ بند کرلیا ارادہ دیر تک ٹھر رہے اور جب باہر نکلے تو میں بلال رض سے دریافت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کے اندر کیا کیا ؟ تو انہوں نے کہا کہ آپ نے ایک ستون کو اپنے بائیں طرف اور ایک ستون کو اپنے دائیں طرف رکھا اور تین ستونوں کو اپنے پیچھے رکھا پھر نماز پڑھی
آس زمانہ میں خانہ کعبہ کی عمارت چھ ستونو ں پر قائم تھی
یہ صحیح بخاری کی روایت ہے
فقہائے کرام نے ساری نمازیں خانہ کعبہ میں پڑھنے کی اجازت دی ہے اور اسکی چھت پر نماز پڑھنے کو مکروہ لکھا ہے
اور چونکہ اسکی ساری دیواریں قبلہ ہیں اس لئے وہ مفرو ضہ شکلیں لکھی ہیں کہ اگر کسی نے اپنی پیٹھ امام کی پیٹھ کی طرف کرلی تب بھی نماز اسکی اقتدا میں صحیح ہو جائیگی لیکن اگر ان پیٹھ امام کے چہرے کی طرف کرلی تو اقتدا صحیح نہیں ہوگی
لیکن یہ سب مفروضہ شکلیں اور احتمالاے ہیں
مجھے جب خانہ کعبہ کے اندر جانے کی سعادت حاصل ہوئی تو میں نے دیکھا کہ چند افراد اس دیور کی طرف رخ کرکے نماز پڑھ رہے ہیں باہر سے جس ایک سرے پر رکن یمانی اور دوسرے سرے پر حجر اسود ہے
اس کے بر خلاف جو شخص ہماری طرح دروازے سے داخل ہونے کے بعد دو ستونوں کے درمیان کھڑا ہو گیا تو اس کا رخ اس دیوار کی طرف رہا جس میں باہر سے باب کعبہ اورملتزم وغیرہ ہے
وللناس فیما یعشقون مذاھب
اندر جانے کے بعد کعبہ کی عظمت اور رب کعبہ کا جلال ا وراسکی یکتائی اور سطوت کا تصور یہ ہوش کہاں باقی رہنے دیتا کہ کہ آدمی ستون گو دیکھے یا چھت کی طرف نظر اٹھائے یا سمت اور رخ کی طرف دھیان جمائے
اکنوں کرا دماغ کہ پرسد زباغباں
بلبل چہ گفت گل چہ شنید و صباچہ کرد -؟
(یعنی اب کسے اس کا ہوش ہے کہ باغباں سے دریافت کر ے کہ بلبل نے کیا کہا؟ گل نے کیا سنا ؟اور صبا نے کیا کیا؟ )
سارا کمال وجلال اللہ رب العزت والجلال کا ہے اور کعبہ کی رونق اور اسکی شان عظمت بھی اسی کی تجلیا ت کا کرشمہ ہے
خانہ کعبہ کے اندر امام ابو حنیفہ اور امام شا فعی کے مسلک کے مطابق مطلقا ہر نماز کا پڑھنا جائز ہے
امام مالک اور امام احمد کے یہاں صرف نفل نماز پڑھنا جائز ہے فرض جائز نہیں ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ کعبہ میں صرف نفل نماز پڑھی تھی
محمد بن جریر طبری کہتے ہیں کہ کعبہ میں مطلقا نماز جائز نہیں ہے
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال کے بیان کے مطابق کعبہ کے اندر نماز پڑھی ہے لیکن اسامہ بن زید کے بیان سے معلوم ہوتا آپ دعا میں مشغول رہے نماز کی نوبت نہیں آئی
کہا جاتاہے کہ اسامہ بن زید کو آپنے پانی لانے کیلئے بھیج دیا تھا آئے تو انہوں نے نہیں دیکھا ہوگا
معلوم ہوتاہے کہ آپ کے حکم سے دروازہ بند کرنے والے حضرت بلال رض ہیں
مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ عثمان بن طلحہ نے بند کیا تھا ہوسکتا ہے کہ دونوں نے مل کر بند کیا ہو
ایک حدیث میں” صلی”اور دوسری حدیث میں “لم یصل” کے درمیان تطبیق کیلئے ابن حبان کہتے ہیں کہ آپ دو مرتبہ کعبہ میں داخل ہوئے ایک مر تبہ نماز پڑھی اور دوسری مرتبہ جب داخل ہوئے تو دعا میں مشغول رہے اور نماز نہیں پڑھی
علامہ سہیلی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ دس ذی الحجہ کو داخل ہوئے اوراس میں نماز نہیں پڑھی اور دوسری مرتبہ گیارہ ذی الحجہ کو داخل ہوئے تو آپ نے خانہ کعبہ میں نمازپڑھی
اس مختصر مضمون میں زیادہ تفصیل کی گنجائش نہیں ہے
خانہ کعبہ کے اندر یعنی جوف کعبہ میں فرض اور نفل سبھی نماز یں پڑھی جاسکتی ہیں
یہ مسلک امام ابو حنیفہ اور امام شافعی کا ہے
امام احمد بن حنبل اور امام مالک کے یہاں صرف نفل نماز پڑھنے کی اجازت ہے ان کا کہناہے کہ اندر نماز پڑھنے سے کعبہ کی طرف رخ کرنے کا تحقق نہیں ہوتا
امام اعظم کا کہنا یہ ہے کہ قبلہ خانہ کعبہ کی دیواروں کو نہیں بنایا گیاہے چنانچہ کعبہ کی دیواریں اگر نہیں رہیں تب بھی نماز اسی کی طرف رخ کر کے پڑھی جائیگی جیسا عبد اللہ بن ژبیر کے زمانہ میں ہوچکاہے جب انہوں نے پہلی عمارت توڑکر قواعد ابراہیم پر کعبہ کی تعمیر کی تھی
عذر کی وجہ سے قبلہ کا استقبال کبھی ساقط ہو سکتا ہے مثال کے طور پر اگردرندہ یا جان لیوا دشمن کا خوف ہو تو تو کسی اور رخ پر نماز پڑھی جاسکتی ہے
علامہ ابن عابدین شامی فرماتے ہیں کہ ایک شکل اور ہے جس کا حکم کسی نے بیان نہیں کیا وہ یہ کہ مقتدی تو کعبہ میں ہو اور امام کعبہ سے باہر ہو نماز کا حکم کیا ہوگا ؟
بظاہر تو اسکو صحیح کہنا چاہیے اگر کوئی د وسری قباحت نہو
شیخ عبد الغنی نابلسی نے اپنے رسالہ نفض الجعبہ فی الاقتداء من جوف الکعبہ میں اس کو صحیح قرار دیا ہے
1233ھ میں جب میں نے حج کیا
تو مدینہ منورہ کے بعض ترک قاضیون سے منی میں ملا قات ہوئی اور اس موضوع پر بات ہوئی تو انہوں نے اس مسئلہ کے بارے میں مجھ سے سوال کیا تو میں نے جواب دیا تو کہے لگے کہ اقتدا صحیح نہیں ہوگی کیونکہ مقتدی کی حالت اما م سے زیادہ قو ی اور بہتر ہوگی کیونکہ وہ کعبہ کے اندر ہوگا اور امام اس سے باہر
اور اسی بنیاد پر یہ مسئلہ بیان کیا کہ اس شخص کی۔ نماز جو حطیم میں ہو اور امام دوسری سمت میں ہو کیونکہ حطیم بھی خانہ کعبہ ہی کا حصہ ہے
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر میں مکہ کا قاضی بنا تو میں لوگوں کو اس سے منع کرونگا
میں نے ان کی رائے سے اختلاف کیا اور کہا کہ آپ نے جو مقتدی کی حالت امام سے قوی ہونے کی بات کہی ہے وہ نماز کے صحیح نہ ہونے کی بنیاد نہیں بن سکتی کیو نکہ خانہ کعبہ کے ایک جزء کا استقبال ان پر واجب ہونے میں دونوں شریک ہیں
دوسری بات یہ کہ کعبہ کے گرد حلقہ بنا کر کھڑا ہونا وہاں کا قدیم طریقہ کار ہے چاہے امام حطیم سے باہر ہی کیوں نہ ہو میں نے کسی مجتہد کی یہ رائے نہیں سنی کہ اگر صف حطیم سے گزرتی ہو تو اندر کھزے ہونے والے مقتدی کی نماز صحیح نہیں ہوگی خواہ امام حطیم سے باہر ہی کھڑا کیوں نہ ہو
در مختار میں ہے
یصح فرض ونفل فیہا
وفی رد المحتار
وعند مالک لایصح الفرض فیہا لانہ ان کان مستقبلا جھة كان مستدبرا جهة اخري
وهي العرصة والهواء لا البناء
والعرصة كل بقعة من الدور ليس فيها بناء الي عنان السماء
فقہی دقیقہ سنجیاں تو جاری ہی رہیں گی لیکن ہمیں تو ذکر وفکراور حمد و شکر پر توجہ دینی چاہیے :
نظر ہے ابر کرم پر درخت صحرا ہوں
کیا نہ میرے خدا نے محتاج باغباں مجھکو
والحمد للہ اولا وآخرا

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے