معاشرے میں بے تحاشا تصویر بازی نے معاشرتی اقدار بدل ڈالے

ڈاکٹر مفتی محمد عبید اللہ قاسمی، دہلی

ہر ہاتھ میں موبائل اور ہر موبائل میں کیمرہ اور ہر کیمرے کے ہر وقت استعمال نے معاشرے میں عجیب وغریب صورتحال پیدا کردی ہے. تصویر بازی اور ویڈیو گرافی میں اس قدر غلو نے ہر شعبہِ حیات کو متأثر کردیا ہے. مدارس اور اسکول وکالج کے طلبہ کا اب یہ محبوب مشغلہ بن چکا ہے اور بجائے تعلیم پر فوکس کرنے وہ ان واہیات میں اپنا قیمتی اور golden time برباد کررہے ہیں. لڑکیاں اور لڑکے ہر روز بہت پرتکلف کپڑے پہننے اور بننے سنورنے پر فوکس کررہے ہیں کیونکہ جلد ہی ان کی تصویریں کھینچی جانی ہے اور ان کو سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے. ہر وقت متحرک ان کیمروں کی وجہ سے کمروں اور کمر کی حالت بھی دگر گوں ہوچکی ہے. مستورات مستورات نہیں بچیں بلکہ ہر ایک کے لئے مکشوفات بن چکی ہیں. شادیوں میں ویڈیو بازی نے فحاشی کے وہ کرتب دِکھائے ہیں کہ الامان والحفیظ. اب شادیوں میں پروفیشنل فوٹوگرافر کو کرائے پر لیا جاتا ہے اور وہ آنگن اور عورتوں کے بھرے مجمع میں داخل ہوکر آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر بنی سنوری عورتوں کی جسمانی ہیئت کو کیمرے میں قید کرلیتا ہے اور پھر اسے سب لوگ شیئر کرتے پھرتے ہیں. تصویروں اور ویڈیوز کا یہ “البم” جو درحقیقت فحاشی کا “بم” ہے فخر کے ساتھ مہمانوں کو بطور سوغات پیش کیا جاتا ہے.

علماء کے ماحول میں جب یہ کیمرہ داخل ہوتا ہے تو وہاں بھی اپنے کرشمے دکھاتا ہے. سادہ زندگی جو علماء کا طرہِ امتیاز تھی اس ویڈیو بازی نے اسے نیم جان کردیا. اب جس کے پاس استطاعت نہیں ہے وہ بھی زبردستی مہنگے کپڑے سلوانے پر مجبور ہے کیونکہ بار بار کیمرے کی آنکھوں سے اسے گزرنا ہے. کیمروں کے طفیل پاؤڈر غازہ سرمہ کپڑوں کا کلف، صدری شیروانی کے ساتھ اب ان کو بھی لیس ہونا پڑتا ہے جو بیچارے بمشکل اپنے ضروری اخراجات پورے کررہے ہیں. دعوتوں اور دسترخوانوں کو بھی کیمرے کی وجہ سے پر تکلف ہونا ضروری ہوگیا ہے. نظروں کو خیرہ کرنے والی ڈِشیں اور ان کی بہتات اب ضروری چیز بن گئی ہے کیونکہ ان کے فوٹو لیکر جگہ جگہ شیئر کرنا واجبات میں سے ہے. علماء کے پروگراموں میں بھی اب دوسروں کی طرح ٹرافی اور میڈل کا رواج چل پڑا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان چیزوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے سوائے سامانِ یادگار. مگر ایسی یادگاروں کی اگر کثرت ہوجائے تو بالخصوص شہروں میں کس کے پاس انہیں سنبھالنے کا وقت اور جگہ ہے. نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بہتیرے گھروں سے ایسی یادگاری چیزیں نکال کر کوڑے دان کی نذر کردی جاتی ہیں. البتہ کوئی کارآمد چیز دی جائے مثلاً کتاب، قلم، شال، کپڑا، چشمے کا فریم، ٹرالی وغیرہ تو یہ معقول بات ہوگی. اسٹیج پر ایسے میڈل لینے دینے والے بھی محض کیمرے کی وجہ سے مسکراتے نظر آتے ہیں. اِدھر کیمرے کا کام ختم اور اُدھر ان کی مسکراہٹ کافور.

خلاصہ یہ کہ حد سے زیادہ کی جارہی فوٹوگرافی اور ویڈیو گرافی نے ذہنی سکون کو ختم کردیا، معاشرے کا چین وسکون غارت کردیا ہے. اب نہ مستورات کی عزتیں محفوظ بچیں، نہ بچوں کی معصومیت اور فطرت سالم رہی، نہ نگاہیں پاکیزہ رہیں، نہ تعلیم گاہوں میں اچھا تعلیمی ماحول بچا، نہ مدارس اور علماء کا ماحول محفوظ رہا، نہ سجدے حج اور عمرے ریاکاری اور نمائش سے محفوظ رہے، نہ وعظ وارشاد کی مجلسیں اس کی زد سے بچ سکیں اور نہ میزبانی اور ضیافتیں آزاد رہ سکیں.

پندرہ بیس سال پہلے بلکہ دس سال پہلے بھی معاشرے میں جو تہذیبی اور مذہبی اقدار نظر آتے تھے آج کیمروں اور موبائل کے کیمروں کی بے تحاشا فوٹوگرافی اور ویڈیو گرافی کی وجہ سے ان کو نظر لگ گئی ہے. سخت ضرورت ہے کہ قوم ومعاشرے کے باشعور افراد اس صورتحال پر غور کریں، اس سیلاب پر بند باندھنے کی فکر کریں اور مناسب لائحہِ عمل اختیار کریں.


مورخہ 26 فروری، 2023

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے