ڈاکٹر مفتی محمد عبید اللہ قاسمی، دہلی
آج ویڈیو گرافی اور فوٹوگرافری کا بازار دینی اداروں اور دینی شخصیات میں بھی خوب گرم ہے. علماء دھڑلے سے ویڈیو گرافی میں مصروف ہیں. معمولی سے معمولی تقریب ہو حتی کہ کہیں چلنا پھرنا، کھانا پینا، گاڑی پر چڑھنا اترنا ہر موقعے کی ویڈیو گرافی لیکر اسے دور دور تک پھیلانے کا معمول بن چکا ہے. ملک کے موقر دینی ادارے تو بدستور ایسی ویڈیو گرافی اور فوٹوگرافی کے ناجائز ہونے کے فتوے صادر کررہے ہیں مگر علماء ان فتوؤں کا پاس لحاظ نہیں کررہے ہیں. جن مفتیانِ کرام نے ڈیجیٹل ویڈیوگرافی اور فوٹو کی اجازت بھی دی ہے تو وہ اجازت فی نفسہ کے اعتبار سے ہے نہ کہ اس میں غلو کے اعتبار سے اور مقدسات کی دھجیاں اڑانے کے اعتبار سے ہے. مگر ملوث لوگ مسجدوں میں عبادات اور نماز کی تصویریں لے رہے ہیں، کوئی سجدے میں ہے اس کی تصویریں، حج وعمرہ کے اعمال کی تصویریں لے رہے ہیں. ان تصویروں کے بغیر مضطرب وبے چین رہنا محض تصویری لَت اور photo addiction کی علامت ہے جو ظاہر ہے کہ عبادات کی نمائش پر مشتمل ہے.
آج دینی اداروں میں بھی یہ وباء زوروں پر ہے. دینی مدارس میں کمر عمر اور teen age طلبہ اب اور آگے بڑھ کر انسٹگرام، فیس بک اور دیگر سائٹس پر فوٹو اور ویڈیو شیئر کررہے ہیں. بعضوں کے ذریعے رنگ وروغن کے ساتھ ویڈیوز کے سیلاب کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے اسے اپنا پیشہ ہی بنالیا ہے اور وہ تعلیم کا خون کررہے ہیں، اپنے والدین اور چندہ دینے والے غریب مسلمانوں کو دھوکہ دے رہے ہیں. بخاری شریف کو ہاتھ میں لیکر طرح طرح کا پوز، مسجد رشید کے دروازے اور اندر ویڈیوز، درسگاہوں کے ویڈیوز، استنجا وبیت الخلاء، مطبخ ورہائشی کمروں کے ویڈیوز اور فوٹو گویا کہ اب شاید ہی کوئی جگہ بچی ہے جس کے ویڈیوز اپ لوڈ نہ کیئے جارہے ہوں.
کم عمر طلبہ جو 15 تا 20 سال کی عمر کے ہیں اگر یہ حرکتیں کررہے ہیں تو ہمیں سوچنا ہوگا کہ اس کی اصل وجہ کیا ہے؟ کیا اس کی وجہ ہم بڑی عمر کے لوگ نہیں ہیں؟ اگر 60-50-40 سال کے علماء کو بغیر فوٹو اور ویڈیوز کے چین نہ ملتا ہو تو یہ کم عمر طلبہ کیونکر گریز کرینگے؟ ظاہر ہے کہ بچے تو بڑوں سے کچھ آگے ہی دوڑینگے. اگر ہماری تقریبات اور شب روز بغیر ویڈیوز کے پورے نہیں ہونگے تو ظاہر ہے کہ ان آلات اور کیمروں کو استعمال کرتے ہوئے یہ طلبہ اپنی من پسند چیزوں کو شیئر کرینگے. لہذا اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ دینی اداروں کے طلبہ اس سے باز رہیں تو ہمیں بھی باز رہنا ہوگا. اگر ہم خود گڑ کھائیں اور بچوں کو اس سے بچنے کی تلقین کریں تو یہ ناقابلِ عمل بات ہوگی.
افسوس کہ ہمارے ملک میں ویڈیو گرافی اور فوٹوگرافی میں حد سے زیادہ آزادی نظر آتی ہے جبکہ مغربی ممالک میں ایسا نہیں ہے. یہاں بازار، اسکول کالج میں جو چاہے جس کی چاہے تصویر کھینچ لے اور اجازت بھی نہ لے. مگر مغرب میں ایسا نہیں ہے. وہاں بغیر اجازت کسی کی تصویر لینا ناجائز چیز ہے. دوسروں کی تصویر کھینچنے میں وہاں اجازت ضروری ہے مگر یہاں تو اگر کسی تقریب یا پروگرام میں اجازت نہ دی جائے تو الٹا مطعون کرتے ہیں. صورتحال بھیانک بنتی جارہی ہے. اور اس میں دنیاداروں کے ساتھ ساتھ بکثرت علماء بھی شریک نظر آرہے ہیں.
مدارس کی بگڑتی صورتحال پر قابو پانے کے لئے اور طلبہ کو بربادی سے بچانے کے لئے علماء کو سر جوڑ کر بیٹھنے اور بلا تاخیر لائحہِ عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے. اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو ہمارے دینی مدارس سے باصلاحیت علماء تیار نہیں ہونگے بلکہ کیمرے، موبائل، انسٹگرام، ٹیوٹر، فیس بک وغیرہ کے ماہرین ہی تیار ہوکر نکلینگے.
مورخہ 24 فروری، 2024