محمد طفیل کوہاٹی
صرف و نحو میں اجراء تو تمام مدارس میں رائج ہے لیکن محض درجہ اولی تک ۔۔۔ ندوۃ التحقیق الاسلامی بہادر کوٹ کوہاٹ میں جملہ علوم و فنون کے اجراء کی طرف ابتدائی قدم اٹھایا گیا ہے اس سال صرف و نحوکے قواعد کا اجراء درجہ ثانیہ میں مستقل جاری رہا اور اگلے سال سے ان شاء اللہ تعالیٰ ثالثہ میں بھی شروع کیا جائے گا۔۔ تمام علوم و فنون میں اجراء و تطبیق کی طرف یہ خیال کیسے گیا اس کی کارگزاری پیش کرنی ہے۔۔ یہ 1425 ھ کی بات ہے بندہ درجہ سادسہ کا طالب علم تھا استاد گرامی حضرت مولانا طلحہ شمسی مدرس دارالعلوم کراچی نے بندہ کو حکم دیا کہ ایک تحقیقی کام کے سلسلے میں قرآن مجید کے دو پاروں سے علم البیان و البدیع کے قواعد کی مثالیں نکال لیں ۔۔۔ بندہ نے سال پہلے مختصر المعانی مکمل اور اس سے پہلے رابعہ میں تلخیص المفتاح اور دروس البلاغہ پڑھی تھیں ۔۔۔ ارادہ تھا کہ ان دو پاروں کی بغور تلاوت سے قواعد کی مثالیں نکال لوں گا لیکن جب بیٹھا تو اندازہ ہوا کہ تشبیہ اور مجاز کے عام فہم قواعد کی تطبیق میں بھی مشکل پیش آ رہی ہے ۔۔۔ اعراب القرآن للدرویش ، کشاف ، تفسیر المنیر اور صفوۃ التفاسیر کی مدد سے مذکورہ کام تو مکمل کر لیا تاہم یہ ارادہ کر لیا کہ بلاغت صرف نظری طور پر پڑھنے والا فن نہیں بلکہ اس کے قواعد کا بھرپور اجراء ضروری ہے ۔۔۔ اس لیے اگر تدریسی زندگی میں موقع ملا تو اس کی اجراء کا اہتمام کروں گا۔۔اس کے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ دروس البلاغہ بالکل ابتدائی کتاب ہے اور ضمنی کتاب کے طور پر پڑھائی جاتی ہے اس کے بعد مختصر کی مثال ایسی ہے جیسے نحومیر پڑھنے کے بعد شرح جامی پڑھنے بیٹھ جائیں ۔۔۔ مختصر میں لفظی مباحث سے ہٹ اکثر فنی مباحث میں بھی وہ دقت ہے جو فن کے متخصصین کو زیبا ہے مثلا سکاکی رح و مصنف رح کی تعبیرات میں تقابل ۔۔۔ ان پر نقد و تجزیہ ۔۔۔ پھر جواب در جواب۔۔۔ اسی طرح تلخیص کے شراح زوزنی و خلخالی ہر ردود ۔۔ وغیرہ جس سے فن میں رسوخ پیدا ہوتا ہے لیکن ان لوگوں کا جنہیں فن سے قدرے مناسبت ہو اگر فن کا محض تعارف ہی ہوا ہو تو ان تدقیقات کو طالب مٹی کے بھاؤ بھی نہیں لیتا۔۔ علاؤہ ازیں ایک دلچسپ اور مفید فن سے بیزاری کا رویہ پیدا ہو جاتا ہے ۔۔۔ اس لیے ان دونوں کتابوں کے ساتھ تطبیق و اجراء کا خواب و خیال ہی رہا اللہ تعالیٰ نے اپنے ادارے کی توفیق دی تو درجہ رابعہ میں ہم نے بلاغت کا گھنٹہ مستقل رکھ کر البلاغہ الواضحہ کی مشقیں شامل نصاب کیں۔۔ پھر خامسہ میں قرآن مجید کے تھوڑے سے حصے اور جواہر البلاغہ کی مشقوں کا اجراء رکھا تو عجیب فوائد محسوس ہوئے الحمد للہ اب بلاغت کو اجراء و تطبیق سے پڑھانا ہمارے نظام تعلیم کا مستقل حصہ بن چکا ہے۔۔۔ ہمارے وفاقی نصاب میں اصول حدیث کا ابتدائی رسالہ خیر الاصول داخل نصاب ہے ۔۔ یہ چند صفحات کا رسالہ انتہائی اہم و مفید ہے محدثین کے منہج پر اصطلاحات کی تعریفات پر مشتمل اس رسالہ کو ھفتہ ڈیڑھ میں گزار لیا جاتا ہے ۔۔۔ ایک بار گرامی قدر حضرت مولانا نور البشر مدظلہم العالی سابق استاد حدیث جامعہ فاروقیہ کراچی ہمارے ہاں کوہاٹ تشریف لائے تھے رات کو ہمارے مہمان تھے بندہ سے اسی موضوع رہنما گفتگو فرمائی اور ساتھ خیر الاصول کی اپنی بہترین تعریب اور آپ کے جامع حواشی کے ساتھ چھپی ہے عنایت فرمائی ۔۔۔ بندہ نے اگلے سال سادسہ میں وہی تعریب مع حواشی پڑھائی اور ساتھ مقارن مولانا عبید اللہ الاسعدی مدظلہ کی علوم الحدیث مطالعہ کروائی ساتھ ہر اصطلاح کی اجراء اضافی مثالوں میں کرتے رہے جس سے اگلے سال نخبہ پڑھتے ہوئے طلبہ کو واضح فائیدہ محسوس ہوا ۔۔۔ اس کے ساتھ یہ کسک باقی تھی کہ ان اصطلاحات حدیث کی احناف محدثین کے ہاں کئی مقامات پر تعریفات جدا ہیں ظاہر ہے احکام و تفاصیل بھی جدا تھیں اس لیے احناف کے اصول حدیث پر مستقل کتاب شامل نصاب ہونا ضروری تھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا اور برادرم مولانا عبد المجید ترکمانی مدظلہ نے اپنی عالی شان مقالہ کی تلخیص "المدخل الی علوم الحدیث علی منہج الحنفیہ” کے عنوان سے شائع کروائی ۔۔۔ جو درسی منہج پر ہے ہمارے ہاں حسامی کے بحث سنت کے ساتھ یہ مقارن مطالعہ کے لیے داخل نصاب ہے اور مفتی محمد مومن پراچہ سلمہ محنت سے اس کا مطالعہ کرواتے ہیں یوں اگلے سال اصول حدیث پڑھنے سے قبل احناف کے اصول حدیث بالتفصیل نظر کے سامنے آ جائیں گے اس سے ایک طالبعلم حدیث سے استدلال میں اپنے اصول پیش نظر رکھ سکے گا چونکہ ہمارے طلبہ اپنے اصول سے اکثر ناواقف ہوتے ہیں اس لیے جن مقامات پر اصولی فروق ہیں وہ انہیں نہیں برت سکتے یوں وہ اچھی خاصی الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں۔۔۔ اس کی مثالیں دیکھنی ہوں تو اس بار کے سہ ماہی البیان میں حدیث مرسل کی بحث ملاحظہ فرمائیں۔۔ ہمارے مدارس میں اصول فقہ کی تعلیم بھی نظری نوعیت کی ہے ۔۔۔ فن کی پہلی کتاب اصول شاشی ہے جس میں مباحث کی ترتیب ہی منتشر ہے ۔۔۔ اس جگہ جلال الدین خبازی کی المغنی شامل نصاب ہو تو کیا کہنے ۔۔۔ اس کے ساتھ اگر جدید مدرسین مفتی خالد سیف اللہ رحمانی کا مختصر رسالہ آسان اصول فقہ یا عبدالکریم زیدان کی الوجیز مطالعہ میں رکھیں تو اصول فقہ کے مباحث کی ترتیب سمجھنے میں آسانی رہے گی۔۔۔۔ اصول فقہ پڑھتے پڑھاتے اس چیز کا احساس بہرحال ستاتا رہتا تھا کہ اس کے اجراء و تطبیق کی کوشش کرنی چاہیے ۔۔۔ دلالات الفاظ کی مشق ، اسی طرح مراتب احکام کی تعیین کے طرق و اصول ۔۔نیز مناط حکم کے مراحل کی تدریبات۔۔۔۔ انتہائی لازمی ہے ۔۔۔ دلالات الفاظ اور تفسیر النصوص کی مشق کے لیے مولانا ارشاد الرحمن معتصم مدظلہ کی کتاب قواعد اصول فقہ کی مشقوں اور ادیب صالح کی تفسیر النصوص میں عمدہ مثالیں مل جاتی ہیں مدرس قرآن و حدیث پر غور سے کئی امثلہ مزید بھی نکال سکتا ہے اسی طرح کسی فقہی کتاب بالخصوص ہدایہ میں جب کسی چیز کو فرض کہا جاتا ہے یا سنت کہا جاتا ہے اور اس پر دلیل ذکر کی جاتی ہے تو دلیل سے مرتبہ حکم پر استدلال کے پورے اصولی پراسس کا اجراء بھی کم ازکم ایک باب میں طلبہ پر بہت سے عقدے کھول دیتا ہے ۔۔۔ برادر مکرم مولانا صفی اللہ مدظلہ نے اس نوعیت کے اجراء کا ایک مختصر دورہ بھی شروع کروایا بندہ نے بطور خاص اپنے مدرسہ کے دو اساتذہ کو ان کی خدمت میں بھیج کر اس منہج کو عملی طور پر سیکھنے کی ترغیب دی الحمد للہ مفتی نوید اللہ کرکی سلمہ نے اپنی محنت اور شیخ سے استفادے کی روشنی میں امسال ہدایہ صلوٰۃ میں اصول فقہ کے اجراء کو خوب برتا جس کے حیران کن نتائج دیکھنے کو ملے۔۔ ان شاء اللہ تعالیٰ سال آئندہ سے اصطلاحات کی اضافی مثالوں میں اجراء تو اصول شاشی ہی سے شروع کی جائے گی اور دلالات الفاظ و تفسیر النصوص کی تطبیق پر درجہ رابعہ و خامسہ میں بھرپور توجہ دی جائیگی نیز ہدایہ کی تمام جلدوں میں متعین ابواب میں اصول کے اجراء ہر بطور خاص توجہ دی جائے گی۔ ہمارے درسی نصاب میں منطق بھی محض نظری نوعیت کا فن ہے ۔۔ منطق ایک معیاری فن ہے ۔۔ یعنی اس کی ضرورت ہر دور میں رہتی ہے لیکن اس کا انداز و اسلوب بیان بہرحال جدت کا متقاضی ہے۔۔ ہمارے نصابی کتب میں مرقاۃ اور شرح تہذیب اس فن کی عمدہ کتابیں ہیں ۔۔ لیکن اجراء و تطبیق نہ ہونے کے باعث اس فن سے کماحقہ فائیدہ نہیں اٹھایا جاتا مثلا اگر ہمارے طالب علم کے سامنے وحید الدین خان صاحب کی تحریر رکھی جائے کہ اس کے استدلال کا منطقی تجزیہ کریں کہ یہ کن منطقی مغالطوں میں ڈال کر اپنی بات منوا رہا ہے یا جاوید غامدی کی تحریرات رکھ دی جائیں کہ ان میں کون ساقضیہ کس کے مناقض ہے تو وہ سلم العلوم ازبر ہونے کے باوجود قضایا کی پہچان ہی نہ کر سکے گا چہ جائیکہ ان کا تضاد ثابت کر دے وجہ اس کی یہی ہے کہ منطق کو چلتی پھرتی زندگی میں سنجیدگی سے منطبق کرنے کی کبھی کوشش ہی نہیں ہوئی عرصہ سے دو باتوں کی تمنا تھی کہ ایک تو قواعد منطق کے بیان کے لیے کوئی جدید اسلوب کی کتاب ہو اور دوسرا اجراء و تطبیق کی کوشش ہو ۔۔ ہم نے شرح تہذیب کے ساتھ تفہیم المنطق شامل کر کے پہلی ضرورت پوری کرنے کی کوشش کی ہے دوسری ضرورت کے لیے کرامت حسین کے دورسالے منطق استخراجیہ و منطق استقرائیہ کی مشقیں لاجواب ہیں۔۔۔ اس کے ساتھ جدید منطقی مباحث جن کی اصل قدیم منطق میں موجود ہے بھی پیش نظر رہے ۔۔ ذیل میں بندہ ڈاکٹر نثار احمد صاحب مضمون نقل کر رہا ہے جو منطقی مغالطوں سے متعلق ہے اس مضمون میں ہر منطقی مغالطے کو ایک مثال سے واضح کیا گیا ہے ۔۔ اس سے اندازہ ہو گا کہ ہم خود منطق پڑھاتے ہوئے کس قدر مغالطوں کا شکار رہتے ہیں۔ منطقی مغالطے ملاحظہ ہوں:
1۔ سٹرا مین منطقی مغالطہ
Strawman Fallacy
ان میں سب سے پہلا منطقی مغالطہ سٹرامین منطقی مغالطہ کہلاتا ہے۔ اس منطقی مغالطے میں یہ ہوتا ہے کہ آپ ایک دعوی’ کرتے ہیں اور آپ کا مخالف آپ کے دعوے کو رد کرنے کی بجائے آپ کے دعوے سے ملتی جلتی کسی اور چیز کو رد کرکے آپ کو یہ تاثر دیتا ہے کہ اس نے آپ کا دعوی’ رد کردیا ہے۔
مثالیں
1۔ مثال نمبر 1
پہلا شخص: اسلام امن کا دین ہے۔
دوسرا شخص: آپ اسلامی ممالک دیکھ لیں وہاں سب سے زیادہ بدامنی ہے تو اسلام امن کا دین کیسے ہوسکتا ہے۔
اب یہاں دوسرے شخص نے پہلے شخص کے دعوے کو رد کرنے کیلئے اسلامی تعلیمات میں سے کچھ پیش کرنا تھا جو امن کے خلاف ہو لیکن اس نے اس کی بجائے کچھ اسلامی ممالک کی بدامنی سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اسلام امن کا دین نہیں ہے۔ حالانکہ پہلے شخص کا یہ دعویٰ ہی نہیں تھا کہ تمام اسلامی ممالک پرامن ہیں۔
2۔ مثال نمبر 2
پہلا شخص: ارتقاء سے کبھی بھی ایسا نہیں ہوسکتا کہ مچھلی سے مینڈک بن جائے۔
دوسرا شخص: نظریہ ارتقاء اگر غلط ہوتا تو بیکٹیریا کے اندر اینٹی بائیوٹک مزاحمت کبھی بھی پیدا نہ ہوسکتی۔ چونکہ بیکٹیریا کہ اندر تبدیلی آ سکتی ہے اس لئے مچھلی سے مینڈک بھی بن سکتا ہے۔
اب یہاں دوسرے شخص نے خود سے ہی یہ بات پہلے شخص کی طرف منسوب کردی ہے کہ انواع میں تبدیلی نہیں ہوتی۔ پھر وہ اپنی منسوب کردہ بات کہ مطابق ثابت کرنے لگا کہ اگر انواع میں تبدیلی ہوتی ہے تو اس کا مطلب ہے ارتقاء درست ہے۔ حالانکہ پہلے شخص نے یہ دعویٰ بالکل بھی نہیں کیا کہ انواع میں تبدیلی واقع نہیں ہوسکتی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ انواع میں تبدیلیاں آتی ہیں لیکن ان تبدیلیوں سے کچھ اور چیز نہیں بن جاتی۔
2۔ ریڈ ہیرنگ منطقی مغالطہ
Red Herring Fallacy
بحث کے دوران اکثر اوقات کچھ لوگ اس منطقی مغالطے کا بھی استعمال کرتے ہیں۔ اس منطقی مغالطے میں کوئی شخص بحث کے دوران اصل موضوع سے ہٹ کر کوئی اور متنازعہ موضوع چھیڑ دیتا ہے جس سے بحث اس طرف چل نکلتی ہے۔
میں اس کو مثالوں سے واضع کرتا ہوں۔
مثال نمبر 1
استاد: تم نقل کرتے ہوئے پکڑے گئے ہو، تمہیں پتا ہے کہ یہ کتنی بری حرکت ہے۔ میں تمہارا پرچہ کینسل کرتا ہوں۔
طالب علم: سر مجھے پتا ہے کہ میں نے غلطی کی ہے لیکن آپ میرے والدین کا سوچیں۔ اگر میرا پرچہ کینسل ہوگیا تو میرے والدین کا دل ٹوٹ جائے گا۔
اس مثال میں طالب علم نے بہت خوبصورتی سے استاد کی توجہ نقل جیسی قبیح حرکت سے ہٹا کر والدین کی حالت کی طرف مبذول کردی۔
مثال نمبر 2
پہلا شخص: میکرو ارتقاء کو فیکٹ کیسے قرار دے سکتے ہیں جبکہ سائنسی طریقہ کار کے مطابق اس حوالے سے کوئی مشاہدات اور تجربات موجود نہیں۔
دوسرا شخص: تو بگ بینگ کے حوالے سے کون سے تجربات اور مشاہدات ممکن ہیں۔ آپ کا اس حوالے سے کیا خیال ہے؟
اس مثال میں دوسرا شخص بحث کو اصل موضوع سے ہٹا کر ایک اور موضوع کی طرف لے گیا۔ تاکہ وہ بحث میں اپنا لوہا منوا سکے۔
اگر آپ اس منطقی مغالطے کو سمجھ گئے ہیں تو مزید مثالیں سوچ سکتے ہیں۔
3۔ استثنائی منطقی مغالطہ
Special Pleading Fallacy
بحث کے دوران اس منطقی مغالطے کا ابھی اکثر اوقات استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب کوئی شخص کیس خاص شخص یا بات کو عام قانون سے ہٹ کر استثناء دینے کی فرمائش کرتا ہے۔
مثال نمبر 1:
وکیل جج سے: میں مانتا ہوں کہ شراب پینا قانوناً جرم ہے لیکن میراموکل ایک شریف انسان ہے اور اس سے نہ چاہتے ہوئے غلطی ہوگئی لہذا اسے معاف کیا جائے۔
اس مثال میں وکیل یہ مانتا ہے کہ شراب پینے والے کو سزا ملنے چاہیے لیکن اپنے موکل کو اس سے مستثنیٰ قرار دیتا ہے کیونکہ وکیل نے فیس لی ہوئی ہے۔
مثال نمبر 2:
پہلا شخص: میکرو ارتقاء کے تجربات اور مشاہدات ممکن نہیں لہذا میں اس کو فیکٹ نہیں مان سکتا۔
دوسرا شخص: ارتقاء کے مشاہدات ممکن ہیں لیکن ایسا ملین سالوں میں ہوتا ہے اس لئے ہم اس کا مشاہدہ نہیں کرسکتے۔
یہاں دوسرا شخص عام قانون سے ہٹ کر میکرو ارتقاء کو بغیر مشاہدے کے فیکٹ ثابت کرتا ہے۔
4۔ اپیل ٹو اتھارٹی
Appeal to Athority
اس قسم کے منطقی مغالطے میں کوئی شخص کسی مشہور شخص کے قول یا فعل کو اپنے حق میں استعمال کرتے ہوئے بطور دلیل استعمال کرتا ہے حالانکہ یہ کوئی دلیل نہیں کیونکہ اس مشہور شخص کے قول و فعل کے درست ہونے کیلئے بھی دلیل چاہیے۔
مثال:
نظریہ ارتقاء قرآن سے ثابت ہے اور ایسا ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحب اپنی کتاب خطبات بہاولپور میں بیان کر چکے ہیں ۔
ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحب واقعی ایک بہت اچھے سکالر ہیں لیکن ان کی کہی ہوئی بات حرف آخر نہیں بلکہ ان کی بات کے درست ہونے کیلئے بھی قرآن و سنت کے دلائل ضروری ہیں۔
5۔ گول منطق
Circular Reasoning
ایسا اس وقت ہوتا ہے جب کوئی شخص اپنے دعوے کو ہی بطور دلیل استعمال کرتا ہے۔
مثال:
پہلا شخص: جانوروں میں مماثلت کی وجہ کیا ہے؟
دوسرا شخص: اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا مشترک جد سے ارتقاء ہوا
پہلا شخص: ارتقاء کے ثبوت کیا ہیں؟
دوسرا شخص: ارتقاء کا ثبوت جانوروں میں موجود مماثلت ہے۔
6۔ فیلسی آف ایکوی ووکیشن
Fallacy of Equivocation
ایسا اس وقت ہوتا ہے جب کوئی شخص دو مختلف چیزوں کو یکجا کرکے بطور دلیل استعمال کرتا ہے۔
مثال:
“نظریہ ارتقاء ایک حقیقت ہے جس کو ہمارے معاشرے کے مذہبی لوگ جھٹلاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم لوگ تعلیم کے میدان میں پیچھے ہیں۔”
مندرجہ بالا سٹیٹمنٹ میں ایک شخص ارتقاء کے مفروضے کو صحیح ثابت کرنے کیلئے اس کو اس بات سے جوڑ دیتا ہے کہ اس کو نہ ماننے کی وجہ سے ہم لوگ تعلیم کے میدان میں پیچھے ہیں۔ جبکہ حقیقت میں ایسا بالکل نہیں۔
7۔ جھوٹا بیان
False Dilemma or False dichotomy
اس قسم کا منطقی مغالطہ اس وقت جنم لیتا ہے جب کوئی شخص بحث کے دوران صرف دو ہی آپشنز دیتا ہے جبکہ حقیقت میں اس کے علاؤہ بھی آپشنز موجود ہوسکتی ہیں۔۔
مثال:
“آپ نظریہ ارتقاء کو یا تو درست سمجھیں یا پھر سائنس پڑھنا چھوڑ دیں کیونکہ ارتقاء کا انکار سائنس کا انکار ہے۔
مندرجہ بالا مثال میں ایک شخص نے خود سے اپنے بیان کی صرف دو آپشنز دی ہیں کہ یا تو نظریہ ارتقاء درست ہے یا پھر سائنس غلط ہے حالانکہ نظریہ ارتقاء کے غلط ہونے سے سائنس پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
8۔ آرگومنٹ آف سائلنس
Argument of Silence or Absence of Evidence
یہ منطقی مغالطہ اس وقت جنم لیتا ہے جب کوئی شخص کہتا کہ کسی چیز کے بارے میں ہم فی الحال نہیں جانتے اسلئے یہ موجود نہیں ہے۔
مثال:
“جنات صرف خیالی باتیں ہیں۔ آج تک سائنس کو جنات کا کوئی ثبوت نہیں ملا”
مندرجہ بالا بیانیے میں ظاہر ہے کہ سائنس کو اگر فی الحال کسی چیز کے ثبوت نہیں ملے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ غلط ہے۔”
9۔ اپیل ٹو دا سٹون
Appeal to the stone
یہ اس وقت ہوتا ہے جب بحث کے دوران کوئی فریق کہے کہ میں تمہاری دلیل نہیں مانتا لیکن وہ دلیل نہ ماننے کی کوئی معقول وجہ نہ بتائے۔
مثال:
“میں نہیں مانتا کہ زندگی خودبخود پیدا نہیں ہوسکتی”
کئی لوگ بحث کے دوران اس دلیل کا انکار کرتے ہیں لیکن اس کے برعکس کوئی دلیل نہیں دیتے۔
10۔ ایڈ ہومنم
Ad hominem
یہ وہ منطقی مغالطہ ہے جس کا میں اکثر سامنا کرتا ہوں۔ اس میں کوئی فریق بحث میں دلائل دینے کی بجائے فریق مخالف کی ذاتیات پر اتر آتا ہے۔
مثال:
پہلا شخص: نظریہ ارتقاء کو بہت سے جدید سائنس دان مسترد کرتے ہیں۔
دوسرا شخص: وہ جدید سائنس دان بھی تمہاری طرح بے عقل ہیں جو پتا نہیں کہاں سے پڑھ کر آ جاتے ہیں۔
اس مثال میں آپ دیکھیں کہ دوسرے شخص نے بجائے کوئی دلیل دینے کے پہلے شخص کی ذات پر حملہ کردیا جو کہ انتہائی غلط رویہ ہے۔
11۔ ایڈ ہاک ریشنلائزیشن
Ad hoc Rationalization
یہ منطقی مغالطہ اس وقت جنم لے لیتا ہے جب کوئی شخص کہے کہ ایسا ممکن ہوسکتا ہے اس لئے یہی حقیقت ہے۔
مثال:
“جب آپ مانتے ہیں کہ نسل در نسل تبدیلی ہوسکتی ہے تو ایسا بھی ممکن ہے کہ لاکھوں کروڑوں سال کی تبدیلیوں سے ڈائنوسارز پرندوں میں تبدیل ہو چکے ہوں”
مندرجہ بالا مثال میں ایک شخص نے اپنے حساب سے ایک ممکن چیز کو حقیقت کا رنگ دے دیا ہے حالانکہ یہ صرف ایک خیال ہے۔
12۔ ثبوتوں کے بھار کی منتقلی
Shifting the burden of Proofs
ایسا اس وقت ہوتا ہے جب کوئی شخص دعوی’ کرتا ہے اور اپنے دعوے کو دلائل سے ثابت کرنے کی بجائے دوسرے شخص کو کہتا ہے کہ اس کے خلاف دلائل دو۔
مثال:
“اگر ارتقاء نہیں ہوا تو اتنی ساری انواع کیسے بن گئیں”
اس مثال میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کیسے ایک شخص نے خود دلیل دینے کی بجائے سامنے والے سے دلائل مانگ لئے۔
13۔ فیلسی آف انکریڈیولٹی
Fallacy of Incredulity
اس منطقی مغالطے کا شکار وہ شخص ہوتا ہے جو کہے کہ فلاں چیز میری سمجھ اور عقل سے باہر ہے لہٰذا یہ ممکن نہیں
مثال:
“روح کا کوئی وجود نہیں۔ انسان اس وقت مر جاتا ہے جب اس کا دماغ کام کرنا چھوڑ جاتا ہے”
مندرجہ بالا مثال اس شخص کے بارے میں ہے جو روح کی حقیقت کو سمجھ نہیں سکتا لہٰذا اس کا انکار کر دیتا ہے۔
14۔ جہالت کا مغالطہ
Argument from Ignorance
اس منطقی مغالطے میں کوئی شخص کسی چیز کے بارے میں علم نہ رکھتے ہوئے اس کا انکار کر دیتا ہے۔
مثال:
“آج تک ایسا کوئی سائنسی پیپر نہیں چھپا جس میں نیوڈارونی ارتقاء پر سوالات اٹھائے گئے ہوں”
مندرجہ بالا بیانیہ ایک شخص کی جہالت ظاہر کر رہا ہے چونکہ اس نے ابھی ان پیپرز کے بارے میں ریسرچ ہی نہیں کی۔
15۔ تم بھی
To quoque
اس منطقی مغالطے میں ایک شخص کسی پر کوئی اعتراض اٹھاتا ہے تو جوابا” دوسرا شخص بھی وہی اعتراض اٹھا دیتا ہے۔
مثال:
پہلا شخص: اس ادارے کا سربراہ کرپٹ ہے۔ وہ صحیح کام نہیں کر رہا
دوسرا شخص: اس سے پہلے والا سربراہ اس سے زیادہ کرپٹ تھا۔ تب تو آپ نہیں بولتے تھے۔
یہاں دوسرا شخص وہی اعتراض پہلے والے شخص پر لگا دیتا ہے جو پہلا شخص دوسرے پر لگاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر پہلے شخص کے پاس اس کی کوئی وضاحت نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ دوسرے شخص کی بات درست ہے۔
16۔ آرگیومینٹم ایڈ پوپویولم
Argumentum ad Populum
یہ منطقی مغالطہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کوئی اپنی بات کو ثابت کرنے کیلئے کہتا ہے کہ میرا نظریہ درست ہے کیونکہ دنیا بھر میں اس کے ماننے والے زیادہ ہیں۔ حالانکہ زیادہ لوگوں کا ماننا کسی بات کے درست ہونے کی دلیل نہیں۔
مثال:
“دنیا کے 97 فیصد سائنسدان نظریہ ارتقاء کو درست مانتے ہیں”
مندرجہ بالا بیانیے میں زیادہ لوگوں کا ماننا کسی نظریے کے درست ہونے کی دلیل نہیں کیونکہ ایک وقت تھا کہ اتنے فیصد سائنسدان یہ بھی مانتے تھے کہ سورج ساکن ہے لیکن آج سب جانتے ہیں کہ سورج ساکن نہیں۔
اس کے علاوہ بھی منطق کی کتابوں میں بہت سے منطقی مغالطے موجود ہیں۔ منطقی مغالطوں کی ان اقساط کا مقصد یہ تھا کہ آپ اگر کسی سے بحث کریں تو کس طرح بحث کو اصولی بنا سکتے ہیں تاکہ بحث برائے بحث کی بجائے وہ بحث کسی اصولی نتیجے پر ختم ہو سکے۔
Source: Facebook