زندگی کی حقیقت کو بس اتنا ہی جانا ہے

مولانا ڈاکٹر ظفیرالدین قاسمی
زندگی پھولوں کی سیج نہیں،کانٹوں سے بھری وہ راہ گزر ہے جہاں سے ہمیں دامن بچا بچا کر گزرنا ہوتا ہے یا پھر یوں کہہ لیں کہ دنیا کی زندگی وہ خاردار راستہ ہے جہاں سے دامن بچا کر جو گزر گیا اس نے امان پائی اور ہمیشہ کی زندگی کو سنوار لیا۔ زندگی کی حقیقت ایک زرد پتے کے سوا کچھ بھی نہیں کہ کب ٹہنی سے جدا ہوجائے نہیں پتا۔ کو رونا نے ہمیں زندگی کی کیا حقیقت ہے اچھی طرح سمجھا دیا ہے۔ کیا نفسی نفسی کا عالم تھا ہم نے اپنے سر کی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔ کوئی کسی کے کام نہ آسکا۔ خدائے بزرگ و برتر نے دنیا کی زندگی کو امتحان گاہ یا میدان عمل کے طور پہ ہمیں نوازا ہے۔اس دنیا میں پائی جانے والی ہر شئے کا کوئی نہ کوئی مقصد ہے۔ اسی مقصد کے تحت نظام کائنات کا پہیہ چل رہا ہے۔
اللہ رب العزت تو ہماری عبادتوں اور ریاضتوں سے بے نیاز ہے اسے نہ ہماری عبادت کی ضرورت ہے نہ ریاضت کی۔پھر بھلا اس زندگی کی حقیقت کیا ہے؟ اس دنیا کی اہمیت مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں۔ اس زندگی کی بنیاد ہی رضائے الہیٰ کا حصول ہے۔قوانین خداوندی پر عمل پیرا ہونا،پیکر عجزورضا۔ دنیا کی زندگی تو آخرت کی تیاری کے لیے ہے حدیث شریف میں ہے
کہ اس دنیا میں ایسے رہو جیسے کہ کوئی سرائے ہے اور تم مسافر۔
دنیا ایک مسافر خانہ ہے۔اور ہم مسافر ہیں۔جو ایک متعین مدت کے لیے یہاں قیام پذیر ہیں۔اس دنیا میں زندگی بے بندگی شرمندگی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے۔ارشاد فرمایا لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم۔ تو اس درجے کو نبھانا سب سے اہم ذمہ داری ہے۔زندگی کی حقیقت روپے پیسے، بلند عمارتیں کھڑی کر لینے،نت نئے ملبوسات پہن لینے اور عہدے پر براجمان ہونے سے منسوب نہیں ہے۔ ہماری زندگی اللہ کی رضا سے منسوب ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ، حقوق اللہ اور حقوق العباد سے منسوب ہے۔
ہماری زندگی ان اعمال کے ساتھ منسوب ہے جو ہم اس عارضی دنیا میں کریں اور اس کا بدلہ ابدی دنیا میں پائیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:بے شک دنیا کی زندگی فریب اور دھوکے کے سوا کچھ بھی نہیں۔دنیاوی زندگی کی حقیقت نظر کا دھوکہ ہے۔جتنی جلدی اس دھوکے سے نکلا جائے اتنا ہی ہمارے لیے بہتر ہے۔اگر ہم یہ سمجھیں کہ ابھی عمر پڑی ہے ذرا دنیا کے مزے تو چکھ لیں تو فریب دہی ہے اپنی ذات کے لیے کیونکہ ہر زندگی فنا ہوگی ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ پھر کیوں وقت ضائع کیا جائے۔کیوں دنیاوی لذتوں میں کھو کر ابدی لذتوں سے محروم ہوا جائے۔انسان کی بنیاد مٹی ہے اور آخر کار اسے مٹی ہی ہو جانا ہے۔چنانچہ ہماری زندگی کی حقیقت دوگز قبر کی مٹی ہے اور ہمارے اعمال ہیں جن کی بدولت یا تو ہم اسے جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا بنا سکتے ہیں یا پھر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ! تو کوشش کریں اس پرفتن دور میں خود کو اعمال صالح کے ساتھ جوڑے رکھیں تا کہ ہماری اصل اور ابدی زندگی کی حقیقت جنت کے باغ ہوں۔ آئے دن کسی نہ کسی کی وفات کی خبر ملتی ہے اور انا للّٰہ وانا الیہ راجعون پڑھکر یا سوشل میڈیا پر لکھ کر ہم آگے بڑھ جاتے ہیں اور اپنی زندگی میں مصروف ہوجاتے ہیں لیکن کچھ اموات کی خبریں پورے وجود کو جھنجھوڑ دیتی ہیں دل کو دہلا دیتی ہیں، کچھ دیر کے لئے ذہن و دماغ کام کرنا بند کردیتا ہے اور یقین کرنا مشکل ہوتا ہے کہ واقعی وہ اب ہمارے درمیان نہیں رہے؟ کیا سچ میں اب ہم انہیں دیکھ سکیں گے؟ کیا سچ میں وہ ابدی نیند سوگئے؟ کل ۳ فروری ۲۰۲۳ بروج جمعہ کو ایسا ہی حادثہ پیش آیا جس پر ابھی تک یقین نہیں آرہا ہے جب کہ منوں مٹی کے نیچے دبا کر ہم واپس اپنے گھر آچکے ہیں۔ میرے پڑوس میں کچھ قدم کے فاصلہ پر عبدالقادر عرف ہمراز صاحب رہتے تھے، ابھی اپنی زندگی کے محض ۲۵ بہاریں ہی دیکھ سکے تھے۔ اللہ نے مال و دولت سے خوب نوازا تھا، جسم کے اعتبار سے حسین و جمیل تھے، چہرے پر ہلکی داڑھی تھی وہ میرے دوست نہیں تھے لیکن میں اپنے کالج جاتے اور واپس ہوتے ہوئے انہیں دیکھتا تھا وہ دوستوں کے ساتھ ہنسی مذاق تفریح کرتے دِکھ جاتے تھے ابھی پچھلے جمعہ ۲۷ جنوری ۲۰۲۳ بروز جمعہ کو شادی کے بندھن میں بندھے تھے اور اپنی اہلیہ سے ساتھ زندگی گذارنے کا وعدہ کیا تھا لیکن اس جمعہ ۳ فروری ۲۰۲۳ کو وہ ہمیشہ کے لئے بہت دور چلے گئے جہاں سے واپسی آج تک کسی کی نہ ہوسکی۔ کل جمعہ کی نماز کے بعد امام صاحب نوح مسجد نے دعاء مغفرت کے لئے اعلان کیا تو یقین نہیں آیا کئی ایک لوگوں سے معلوم کیا تصدیق چاہی لیکن سب نے یہی کہا کہ خبر سچ ہے یقین ہو یا نا ہو، یہی حقیقت جسے ماننا پڑے گا اور ایک دن کرایہ کے گھر کو ہمیشہ کے چھوڑ کر جانا پڑے گا۔ ہمارا عقیدہ اور ایمان ہے کہ موت اپنے وقت پر آکر رہے گی جس میں تقدیم وتاخیر ہو ہی نہیں سکتی قرآن کریم کا اعلان ہے۔ وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ ۝
ہر شخص کی مور کا وقت مقرر اور متعین ہے جب وہ وقت آجائے گا ایک لمحہ کے لئے بھی تقدیم وتاخیر ہو ہی نہیں سکتی۔ آج اس موت نے پھر سے یاد دلایا سبق سکھایا کہ ہم اس غلط فہمی نہ رہیں کہ موت بڑھاپے میں یا مرض کی حالت میں آئےگی، ہمہ وقت ہمیں آخرت کی تیاری میں مصروف رہنا چاہئے اور نیک اعمال کرتے رہنا چاہئے اور اپنے احباب کو تلقین بھی کرتے رہنا چاہیے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھے دوست کی تین نشانیاں ارشاد فرمائی ہیں
۱۔ جسے دیکھ کر تمہیں اللہ کی یاد آجائے
۲- جس کی بات سے تمہارے علم میں اضافہ ہو
۳۔ اس کا عمل دیکھ کر تمہیں آخرت کی طرف رغبت ہو
ہمیں اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہئے کہ واقعی ہمارے دوست اور ہم نشیں اس صفات کے ساتھ متصف ہیں اور ہم اپنے دوستوں کے لئے ایسے ہی ہیں جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
جانے والا ہمیشہ کے لئے چلا گیا ہم قبر تک ساتھ تھے اب انہیں ان کا نیک اعمال ہی کام آئیں گے۔ ہم دعاء کرتے ہیں اللہ رب العزت ان کی مغفرت فرمائے درجات بلند فرمائے وہاں کی تمام سہولتیں میسر فرمائے آمین یا ربی

ظفیرالدین
بٹلہ ہاؤس نیو دہلی
4 فروری 2023
بروز سنیچر

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے