علمی تحفے ( سلسلہ 10)
(دینی و علمی کتابوں کی شکل میں اہل علم و قلم اور احباب و رفقاء کے گراں قدر علمی تحفے)
از قلم:
حبیب الرحمٰن الاعظمی ابراہیم پوری
فاضل دارالعلوم دیوبند
استاذ جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور
*ذکر جمیل*
داعیء اسلام استاذ الاساتذہ حضرت مولانا جمیل احمد صاحب قاسمی مدنی مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ (ولادت: 1939ء وفات: 1440ھ/ 2018ء) کی ذات گرامی اپنی عظیم خدمات دینیہ اور کمالات علمیہ کی بناء پر ہمیشہ یاد رکھے جانے والے ان عظیم لوگوں میں سے ایک ہے ، جن کی دینی و علمی ، دعوتی اور تعلیمی ، ملی اور سماجی خدمات اور طویل تدریسی کارنامے آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ اور نمونہء عمل ہیں اور جو اپنے علم و فضل ، تقویٰ و طہارت ، امانت و دیانت اور حسن اخلاق کی وجہ سے ہر جگہ عوام و خواص میں مقبول و محبوب ہوا کرتے ہیں۔
یقیناً مولانا جمیل احمد صاحب مدنی مبارکپوریؒ کی تابندہ زندگی کے نمایاں و درخشاں پہلو تو کئ ایک ہیں ، لیکن بنیادی طور پر آپ کا تعلیمی کردار اور دعوتی وصف بہت زیادہ نمایاں رہا اور قدرت نے آپ کو دعوت دین کے لیے اپنے منتخب بندوں میں شامل فرماکر آپ کے ذریعہ ایسی اہم خدمات لیں ، جن کی برکت سے جہالت و ضلالت میں ڈوبے ہوئے علاقے کو علم و ہدایت کی روشنی ملی اور سنت و شریعت سے ناآشنا افراد کو اسلام کی سچی ، صحیح اور پاکیزہ تعلیمات کا علم ہوا۔
ضلع اعظم گڑھ کے معروف علمی و صنعتی قصبہ مبارک پور کے محلہ پورہ دلہن میں حاجی عبدالحی بن حافظ خدا بخش بن مولوی حکیم عبداللہ صاحبؒ کے دین دار علمی گھرانہ میں 18/ شوال 1358ھ مطابق 30/ نومبر 1939ء کو آپ نے اس جہان رنگ و بو میں زندگی کی پہلی سانس لی ، آپ کے پَردادا مولوی حکیم عبداللہ صاحب ہر قسم کی دینی و دنیاوی دولت سے مالامال تھے ، عالم فاضل اور طبیب حاذق ہونے کے ساتھ شریعت و سنت کے زبردست حامی و شیدائ اور بدعات و خرافات سے سخت متنفر تھے۔ حکیم عبداللہ صاحب کے تین لڑکے ہوئے : (1) مولانا حکیم الہی بخش صاحب مبارکپوریؒ بانیء جامعہ عربیہ احیاءالعلوم مبارکپور (2) حافظ خدا بخش صاحبؒ (3) حاجی نعمت اللہ صاحبؒ۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ مولانا حکیم الہی بخش مبارکپوریؒ بانی احیاءالعلوم مبارکپور ، مولانا جمیل احمد صاحب مدنیؒ کے دادا کے بڑے بھائ تھے۔
(ملاحظہ ہو: ذکر جمیل ، صفحہ 228، 229)
مولانا جمیل احمد صاحب مدنی مبارکپوریؒ نے قرآن کریم ناظرہ اور ابتدائ تعلیم کے بعد 1370ھ مطابق 1951ء میں دیار مشرق کی عظیم دینی درسگاہ جامعہ عربیہ احیاءالعلوم مبارکپور میں شعبہء عربی میں داخلہ لیا اور عربی اول سے عربی پنجم تک کی تکمیل یہیں رہ کر حاصل کی۔
احیاءالعلوم مبارکپور کے نامور اساتذہ میں فقیہ العصر مولانا مفتی محمد یٰسین صاحب مبارکپوریؒ ، حضرت مولانا بشیر احمد صاحب مبارکپوریؒ ، حضرت مولانا محمد یحیٰ صاحب رسول پوریؒ ، حضرت مولانا محمد عثمان ساحرؔ مبارکپوریؒ ، حضرت مولانا شمس الدین حسینیؔ مبارکپوریؒ ، حضرت مولانا عبدالمنان صاحب باسوپاریؒ اور حضرت مولانا قاری ظہیر الدین صاحب معروفیؒ ہیں۔
احیاءالعلوم مبارکپور میں عالمیت کی تکمیل کے بعد اعلی تعلیم اور فضیلت کے لیے 1376ھ مطابق 1957ء میں دارالعلوم دیوبند وارد ہوئے ، یہ آپ کی عمر کا اٹھارہواں سال تھا ، چناں چہ یہاں پر عربی ہفتم اور دورہء حدیث شریف کی تعلیم حاصل کرکے 1378ھ مطابق 1958ء میں سند فراغت حاصل کی۔
دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ کرام کے اسمائے گرامی حسب ذیل ہیں:
حضرت مولانا سید فخرالدین احمد صاحب مرادآبادیؒ
حضرت علامہ محمد ابراہیم صاحب بلیاویؒ
حضرت مولانا سید فخرالحسن صاحب مرادآبادیؒ
حضرت مولانا بشیر احمد صاحب بلند شہریؒ
حضرت مولانا عبدالاحد صاحب دیوبندیؒ وغیرھم
1958ء میں دورہء حدیث سے فراغت کے بعد مزید دوسال دیوبند میں رہ کر تکمیل فنون کی تعلیم حاصل کی اور 1960ء میں جب وطن واپس لوٹے تو خود اپنی اور اہل خانہ کی دیرینہ خواہش کے مطابق درس وتدریس سے وابستگی اختیار کرنے کو ترجیح دی ، چناں چہ اس وقت جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارکپور میں ایک باصلاحیت عربی استاذ کی ضرورت بھی تھی ، آپ کے خاندانی چچا مولانا حکیم عبدالباری صاحبؒ نے جامعہ کے ناظم اعلی مولانا عبدالباری صاحب قاسمی مبارکپوریؒ سے اس سلسلہ میں بات چیت کی اور آپ نے اسی سال سے جامعہ میں تدریسی سلسلہ کا آغاز کردیا جو بلاانقطاع مسلسل سولہ سال تک (1960ء تا 1976ء) پوری آب و تاب کے ساتھ جاری رہا۔
اس دوران آپ سے فیض یافتہ تلامذہ کی تعداد تو بے شمار ہے ، چند مشاہیر کے اسماء ذیل میں نقل کیے جاتے ہیں:
مولانا توفیق احمد صاحب قاسمی جون پوری
مولانا فیاض احمد صاحب اعظمی
مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمیؒ
مولانا محمد عامر صاحب مبارکپوریؒ
مولانا عبدالمعید صاحب مبارکپوریؒ
مولانا ابوبکر صاحب غازی پوریؒ
مولانا انعام الحق صاحب قاسمی مدنیؒ
مولانا نیاز احمد صاحب العمری سریانویؒ
مولانا نوشاد احمد صاحب اعظمیؒ
مولانا رحمت اللہ صاحب اعظمیؒ
مولانا محفوظ الرحمٰن صاحب کریمی قاسمی
مولانا لیاقت علی صاحب قاسمی
مولانا مفتی محمد امین صاحب مبارکپوری
مولانا ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب ساجد الاعظمی
مولانا مفتی نسیم احمد صاحب بارہ بنکوی
مولانا رضوان احمد صاحب بمہوری
مولانا محمد عثمان صاحب معروفی
مولانا قاری اشفاق احمد صدیقی وغیرھم
احیاءالعلوم مبارکپور میں دوران تدریس ہی چھ سال مسلسل درخواستوں کے بعد 1976ء میں مدینہ یونیورسٹی میں آپ کا داخلہ ہوگیا ، جہاں چار سال تک کلیة الشریعہ میں تعلیم حاصل کرکے 1979ء میں تکمیل کی۔
1979ء میں مدینہ یونیورسٹی سے فراغت کے بعد دارالافتاء ریاض سعودیہ عربیہ نے عربی زبان اور دینیات کے تدریس کے لیے آپ کا تقرر کردیا اور درمیان میں کچھ مشکلات کے بعد (جس کی تفصیل کتاب مذکور کے صفحہ 249 پر موجود ہے۔) آپ افریقی ملک نائیجریا کے دینی مدرسہ دارالقرآن میں مدرس ہوگئے ، جہاں تدریس ، امامت و خطابت اور تفسیر قرآن کے ساتھ دعوت دین کے ذریعہ آپ نے عظیم خدمات انجام دیں اور آپ کی شبانہ روز محنت و کوشش کی برکت سے اس علاقہ میں اسلام کی روشنی پھیلی اور لوگ احکام اسلام سے واقف ہوکر دین پر عمل پیرا ہوئے۔
2006ء میں ریٹائرڈ ہونے کے بعد آپ اپنے وطن مبارکپور آگئے اور تادم آخر یہیں قیام رہا۔ اس دوران آپ جامعہ عربیہ احیاءالعلوم مبارکپور کے رکن مجلس شوری اور رکن مجلس تعلیمی بھی منتخب ہوئے ، 2013ء ارکان مجلس شوریٰ نے بحیثیت قائم مقام ناظم آپ کا انتخاب کیا ، جسے 19 ماہ تک آپ نے اپنی علالت و ضعیفی کے باوجود تندہی اور پابندی سے انجام دیا ، پھر 2015ء میں اس ذمہ داری سے اپنی عمردرازی اور کمزوری کے باعث مستعفی ہوگئے۔
احیاءالعلوم مبارکپور کے علاوہ دیگر مدارس سے بھی آپ کا قلبی تعلق ہمیشہ قائم رہا اور آپ قرب وجوار کے کئ مدرسوں کے رکن شوری اور سرپرست بھی رہے ، تبلیغی جماعت اور جمعیة علمائے ہند سے بھی گہرا تعلق رہا اور مولانا شکراللہ اکیڈمی مبارکپور کے بھی تاحیات سرپرست رہے۔
وفات سے چند روز پیش تر اپنے بڑے لڑکے مولانا محمد عارف جمیل صاحب قاسمی مبارکپوری زیدمجدہ استاذ عربی ادب و ایڈیٹر "الداعی” دارالعلوم دیوبند کے صاحب زادے کی "تقریب تکمیل حفظ قرآن” میں شرکت کے لیے دیوبند کا سفر کیا ، جہاں پہونچ کر ہارٹ اٹیک ہوا اور دیوبند کے مشہور ڈی کے جین اسپتال میں بغرض علاج داخل کیے گئے ، لیکن وقت موعود آپہونچا تھا ، بلآخر 3/ربیع الاول 1440ھ مطابق 11/ نومبر 2018ء اتوار کو بوقت عشاء ، بحالت مسافرت ہی سفر آخرت پر روانہ ہوگئے۔ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعون
اگلے دن دارالعلوم دیوبند کے احاطہء مولسری میں مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی بنارسی دامت برکاتہم مہتمم دارالعلوم دیوبند کی امامت اور اساتذۀ و طلبہء دارالعلوم دیوبند کی موجودگی میں نماز جنازہ ادا کی گئ اور مزار قاسمی میں مدفون ہوئے۔ رحمة اللہ علیہ رحمة واسعة۔
ابر رحمت ان کے مرقد پر گہر باری کرے
حشر تک شان کریمی ناز برداری کرے
پیش نظر کتاب *ذکرِجمیل* حضرت مولانا جمیل احمد صاحب قاسمی مدنی مبارکپوریؒ کے حالات وخدمات پر مشتمل اہل علم و قلم کے مقالات و تاثرات کا گراں قدر مجموعہ ہے ، جسے مولانا کی وفات کے بعد ان کے عظیم المرتبت صاحب زادہ گرامی مولانا مفتی محمد صادق صاحب قاسمی مبارکپوری زیدمجدہ نے بڑی محنت اور تگ و دَو کے بعد مرتب کیا ہے ، یہ کتاب مولانا مرحوم کے سوانحی نقوش کے ساتھ ان کی طویل علمی و اصلاحی اور دعوتی زندگی کو بھی بھر پور طریقے سے نمایاں کرتی اور ان کی عظیم خدمات کو بیان کرتی ہے۔
اس کتاب میں جن اہل علم کے مقالات و تاثرات شامل ہیں ، ان میں سب سے پہلے دعائیہ کلمات کے عنوان سے مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی زیدمجدہ کی تحریر ہے ، جس میں آپ نے مولانا سے اپنے تعلقات اور ان کی خدمات کا مختصراً تذکرہ کیا ہے ، اس کے بعد دعائیہ کلمات کے ہی عنوان سے مولانا علامہ قمرالدین صاحب گورکھ پوری زیدمجدہ استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند کی مختصر تحریر ہے ، پھر مولانا مفتی حبیب الرحمن صاحب خیرآبادی زیدمجدہ اور مولانا خیرالبشر صاحب ولید پوری زیدمجدہ کی تقاریظ ہیں ، بعدہ صفحہ 20 سے صفحہ 33 تک مرتب کے قلم سے کتاب کا طویل مگر معلوماتی اور تاریخی مقدمہ ہے ، جس میں شرقی سلطنت اور اس کے بعد کے ادوار کا علمی جائزہ بھی پیش کیا گیا ہے اور دیار پورب کی علمی سرگرمیوں کا بھی مختصراً تذکرہ کیا گیا ہے اور مقدمہ کے آخر میں کتاب کا پس منظر بھی مذکور ہے۔
اس کے بعد کتاب ہذا میں جن اہل قلم کے مقالات ہیں ان کے اسماء گرامی بالترتیب یوں ہیں:
مولانا قاری ابوالحسن صاحب اعظمی
مولانا توفیق احمد صاحب قاسمی جون پوری
مولانا نسیم احمد صاحب بارہ بنکوی
مولانا حفیظ الرحمن صاحب مدنی خیرآبادی
مولانا مفتی محمد شوکت صاحب قاسمی مہراج گنجی
مولانا محمد رضوان صاحب قاسمی بمہوری
مولانا ظفر احمد صاحب مکی بھیروی
مولانا محمد عثمان صاحب معروفی
مولانا محمودالحسن صاحب مدنی مبارکپوری
مولانا مفتی محمد یاسر صاحب قاسمی مبارکپوری
مولانا محمد اللہ صاحب قاسمی فیض آبادی
مولانا ڈاکٹر محامد ہلال صاحب اعظمی
مولانا محمد طیب صاحب قاسمی بمہوری
مولانا ضیاءالرحمن صاحب قاسمی ولیدپوری
مولانا کمال اختر صاحب اعظمی خیرآبادی
مولانا مفتی محمد سالم صاحب قاسمی سریانوی
مولانا عبدالباسط صاحب قاسمی معروفی
اس کے بعد چار اہم مضمون خود مرتب کے قلم سے ہیں ، جس میں پہلا مضمون مولانا جمیل احمد صاحب مدنیؒ کے "اساتذۀ کرام” ، دوسرا مضمون ان کے "نامور تلامذہ و شاگرد” اور تیسرا مضمون ان کے "چند رفقائے درس” اور چوتھا مضمون "بزرگوں اور معاصرین کی نظر میں۔۔۔” کے عنوان سے ہے۔
اس کے بعد درج ذیل اہل قلم کے مقالات بھی شامل کتاب ہیں:
قاری عثمان غنی صاحب عادلؔ جہاناگنجی
جناب تہذیب انور صاحب حسینی مبارکپوری
مولانا مفتی محمد صادق صاحب مبارکپوری
مرتب کتاب کے قلم سے یہ آخر الذکر مضمون کتاب کا سب سے طویل مضمون ہے جو صفحہ 226 سے 284 تک آپ کی حیات و خدمات کے عنوان سے ہمہ جہت اور تفصیلی پہلووں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔
اس کے بعد تین منظوم کلام بھی شامل کتاب ہیں ، پھر دو تعزیتی مکتوب کو بھی کتاب میں جگہ دی گئ ہے ، "گوشہء طلبہ” کے عنوان سے پانچ طلبہ کی سوانحی تحریریں بھی موجود ہے اور آخر میں عربی مضامین کے عنوان سے مولانا عارف جمیل صاحب قاسمی مبارکپوری زیدمجدہ اور مولانا عاصم اختر صاحب العمری مدراس کا عربی مضمون ہے ، اول الذکر عربی مضمون کا اردو ترجمہ بھی اسی کے بعد موجود ہے اور سب سے آخر میں مولانا خالد سیف اللہ صاحب نوادوی کا ایک مضمون انگلش میں ہے۔
416 صفحات پر مشتمل یہ کتاب ستمبر 2019ء میں شائع ہوکر مقبول عام ہوئ ، ان شاء اللہ یہ کتاب مولانا مرحوم کے بقائے ذکر خیر کا اہم ذریعہ اور بعد والوں کے لیے موعظت و نصیحت کا سبب ہوگی۔
راقم السطور حبیبؔ اعظمی کو یہ کتاب مستطاب 10/صفر 1442ھ مطابق 28/ ستمبر 2020ء بروز سوموار ، مرتب کتاب مولانا مفتی محمد صادق صاحب قاسمی مبارکپوری زیدمجدہ کے بدست بطور ہدیہ علمیہ حاصل ہوئ ، جس کی یادداشت احقر کے قلم سے کتاب کے ابتدائ سادے ورق پر بھی مرقوم ہے۔ فجزاہ اللہ خیرالجزاء فی الدنیا والآخرة۔
حبیبؔ اعظمی
11/جمادی الثانیہ 1444ھ
4/جنوری 2023ء بدھ
کاشانہء رحمت ، ابراہیم پور ضلع اعظم گڑھ