خطبات دارالعلوم دیوبند: مجموعۂ خطبات یا خزانۂ معارف

ابن مالک ایوبی

کسی کتاب کی اہمیت جاننے اور اس سے کما حقہ استفادہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی قدر و قیمت اور موضوعِ تصنیف کا ادراک ہو، یہ معلوم ہو کہ اس کا دائرۂ سخن کس مضمون سے متعلق ہے اور وہ کس گوشۂ علم سے تعلق رکھتی ہے۔ بیشتر کتابیں اپنے موضوع کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہیں، جس فن اور موضوع سے کتاب کا تعلق ہوتا ہے، کتاب اسی فن کی تصنیف شمار ہوتی ہے، لیکن دنیا میں جس طرح شخصیات کے دائرۂ کار کئی ایک ہو سکتے ہیں، کتابوں کا دامنِ علم اور دائرۂ تحریر بھی اتنا وسیع ہو سکتا ہے کہ اسے ایک کے بجائے مختلف موضوعات کی کتاب قرار دیا جا سکے۔ خطبات دار العلوم دیوبند کچھ اسی طرح کی کتاب ہے، جو بظاہر خطبات اور تقاریر کا مجموعہ ہے، ممکن ہے بعض حضرات کو یہ عام سے خطبات کا مجموعہ لگا ہو، لیکن کتاب کے مطالعے پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ کتاب کا حیطۂ افادیت بے انتہا وسیع ہے، اور یہ فقط خطبات کا مجموعہ نہیں، احاطہ دارالعلوم دیوبند اور اکابرین و زائرین دیوبند کے متعلق ایک تاریخی دستاویز ہے، ڈیڑھ سو برس کے عرصے میں، دارالعلوم کے اندر کی گئیں دستیاب تقاریر کا انسائیکلوپیڈیا ہے۔ خطبات کے اس مجموعے میں یوں تو افادیت کے بے شمار پہلو ہیں، جن کی جانب ہر قاری اپنے ذہنی و فکری زاویے سے رسائی پا سکتا ہے، لیکن وہ بنیادی خصوصیات، جو اس مجموعے کی شانِ اختصاص ہے، وہ درج ذیل ہیں:

1- اس مجموعے میں چوٹی کے اکابرین دیوبند کے خطبات شامل ہیں، جو نہ کسی کتاب میں یکجا پاۓ جاتے ہیں اور نہ اتنی آسانی سے دستیاب ہو سکتے ہیں، کیوں کہ حضرت نانوتوی، حضرت گنگوہی اور حضرت شیخ الہند جیسے دورِ اول کے علماء و اساتذہ کی ادارے کے اندر کی گئی کوئی تقریر کہیں نہیں ملتی، اس حوالے سے یہ مجموعہ دیوبند اور اکابرین دیوبند سے متعلق لکھی گئی بے شمار کتابوں میں اپنی مثال آپ ہے۔

2- اس میں دارالعلوم کے ان اربابِ انتظام کی تقریریں بھی موجود ہیں، جو انہوں نے ادارے کی رپورٹ کے طور پر اور جلسۂ دستاربندی یا کسی خاص موقعے سے ادارے کے اندر پیش کی تھی، اس طرح کی تقریروں میں حضرت نانوتوی (بانئ دارالعلوم) مولانا یعقوب نانوتوی (مہتمم اول) حافظ محمد احمد صاحب (فرزند حضرت نانوتوی) اور مولانا حبیب الرحمٰن عثمانی (مہتمم دارالعلوم) وغیرہم کی تقریریں سرِ فہرست ہیں۔
اس سلسلے کی حضرت نانوتوی کی تقریر اس حوالے سے ممتاز ہے کہ وہ حضرت شیخ الہند رحمہ اللّٰہ کی دستار فضیلت کے موقعے پر کی گئی، اسی طرح حضرت مولانا یعقوب صاحب نانوتوی کی تقریر بھی حکیم الامت حضرت تھانوی کی دستار بندی کے موقعے کی ہے۔
کتاب کا یہ حصہ نہ صرف یہ کہ آمد و صرف کے متعلق ان منتظمین کی دیانت داری، ادارے کے تئیں ان کے اخلاص اور طلبہ و اساتذہ کے متعلق ان کے سوزِ دروں کا شاہد ہے، بلکہ مختلف مواقع اور انتظامی امور کے حوالے سے موجودہ و آئندہ اہلِ انتظام کے لیے بھی قابلِ مطالعہ ہے۔

3- ملک و بیرون ملک اور دور و نزدیک سے دارالعلوم آنے والے مختلف زائرین علماء اور اساطینِ علم و دانش نے ادارے میں جو تاثراتی، اصلاحی اور علمی خطاب کیے تھے، وہ خطبات بھی اس کتاب کا حصہ ہیں، ان خطبات سے نا صرف دارالعلوم آنے والے ان عباقرۂ فن کی ایک عمومی فہرست سامنے آ جاتی ہے، بلکہ دارالعلوم اور اہلِ دارالعلوم کے متعلق ان کے تاثراتی و تبصراتی خیالات بھی معلوم ہوتے ہیں۔
ان واردین میں دو طرح کے لوگ ہیں:
ایک وہ جو بیرون ملک سے ہندوستان آۓ، دارالعلوم کی زیارت کی اور اپنے خیالات کا اظہار کیا، ان میں مصری دانش ور رشید رضا مصری، فلپائنی شیخ الاسلام سید محمد وجیہ، حضرت مفتی شفیع عثمانی دیوبندی ثم پاکستانی، امام حرم شیخ عبداللہ ابن البسیل، عبد اللہ عمر نصیف، عبد اللہ المحسن الترکی، مشہور محدث شیخ عوامہ حلبی، شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی اور حضرت پیر ذوالفقار احمد نقشبندی جیسے علماء و مشائخ شامل ہیں۔
دوسرے وہ جو اندرون ملک سے ہی دارالعلوم دیوبند تشریف لائے اور یہاں اپنا قیمتی خطاب پیش کیا، جن میں مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا ابو الحسن علی ندوی، شاہ ابرار الحق صاحب ہردوئی، مولانا محمد ولی رحمانی اور مفتی احمد خان پوری ہیں۔

4- اس میں ابتدا سے اب تک کی تمام اکابر دیوبند کی سلسلہ وار اور عہد بہ عہد ہونے والی تقاریر سے ایک کہکشاں تیار ہو گئی ہے، جس کی روشنی میں فکرِ دیوبند کے منہجِ اصلی، علماء دیوبند کے اندازِ تعلیم و تربیت، دیوبندیت کے فکری اور نظریاتی گوشے اور فقہ و عقائد کے حوالے سے بنیادی افکار تک رسائی حاصل ہوتی ہے، جو شاید اس مختصر مجموعے کی افادیت کا روشن ترین پہلو ہے۔
اگر کسی کو دارالعلوم دیوبند کے حقیقی منہج اور اکابر دیوبند کے دینی و مسلکی مزاج تک بلا واسطہ رسائی حاصل کرنی ہو، تو وہ اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرے، کیوں کہ اس کتاب کا مذکورہ موضوع پر تمام مواد خود بانیانِ دیوبند اور سرپرستانِ دارالعلوم کا بیان کردہ ہے۔

5- اس کے علاوہ اس مجموعے میں بعض انتہائی منفرد مواقع کے خطبات بھی شامل ہیں، جیسے علامہ رشید رضا مصری کی آمد پر امام العصر علامہ سید انور شاہ کشمیری نے دیوبندیت کے اصولی منہج، معتدل فکر و نظر اور اکابر دیوبند کے سلسلۂ اسناد وغیرہ کے متعلق مفصل تقریر کی تھی، اسی طرح حکیم الامت حضرت تھانوی نے دار العلوم میں مشہورِ عالم دار الحدیث (جو شاید اس وقت پورے ملک کی واحد دار الحدیث کی عمارت تھی) کی تعمیر کے آغاز میں "اطاعۃ الاحکام مع فضل دار حدیث خیر الانام” کے عنوان سے ایک تقریر کی تھی، نیز شیخ الاسلام حضرت مدنی نے تقسیمِ ہند اور ملک گیر فسادات کے وقت اہل دیوبند کے سامنے ہجرت اور ترکِ وطن کے حوالے سے انتہائی جوشیلی اور جذباتی تقریر کی تھی، یہ تمام تقاریر آپ کو کتاب کی پہلی جلد میں مل جائیں گی۔

ان بنیادی خصوصیات کے علاوہ، "خطبات دارالعلوم دیوبند” کا ہر خطاب اپنی جگہ علمی و تربیتی خزینہ ہے، جس سے اس وقت کے دارالعلوم کے ماحول، اندازِ فکر و عمل اور طلباء و اساتذہ کے زاویۂ نظر سے واقفیت ہوتی ہے، جو اس عظیم ادارے کے ایک پورے عہد کی ناصرف ترجمانی کرتا ہے، بلکہ آئندہ کے لیے مشعلِ راہ کی بھی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کتاب کو دارالعلوم دیوبند کے موقر استاد حضرت مولانا مفتی عمران اللّٰہ صاحب قاسمی نے مرتب کیا ہے، جو زبان و قلم کے نزاکتوں سے آشنا اور اس میدان کے قدیم شہسوار ہیں، ادارے کا صحافتی و تصنیفی ادارہ "شیخ الہند اکیڈمی” حضرت کی ہی نگرانی میں جاری ہے۔ خطبات کے اس مجموعے کو دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ حضرت مفتی صاحب نے اس کی ترتیب و تکمیل میں کن دشواریوں کا سامنا کیا ہوگا، کیوں کہ دار العلوم کے ابتدائی عہد کے بیشتر خطبات کتابوں کا حصہ ضرور تھے، لیکن وہ کتابیں دہائیوں کی گرد سے اَٹی پڑی تھیں، اصل مواد کے اوپر کتابوں کا ایک پہاڑ تھا، جسے ہٹاۓ بغیر اصل کتاب تک پہنچنا کس قدر مشکل ہوگا، اس کا اندازہ فقط اس مصنف کو ہی ہو سکتا ہے، جو "اس کوہ کَنی” کے عمل سے گزرا ہو۔ مجموعے کو قابلِ استفادہ بنانے کے لیے یوں تو صاحبِ کتاب نے مختلف امور اختیار کیے اور وقتی تقاضوں کی بنا پر کتاب کو مفید بنانے کی حتی الامکان کوشش کی، لیکن ان امور میں دو چیزیں خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں/ اس لحاظ سے قابلِ ذکر ہیں کہ وہ مرتب کی صلاحیتوں کا مظہر اور کتاب کی افادیت میں چار چاند لگانے والی ہیں:

ایک یہ کہ ہر تقریر سے پہلے انتہائی جامع انداز میں آدھے یا پون صفحے کا پیش رس لگایا گیا ہے، جس میں صاحبِ خطاب، خطاب کے وقت و ماحول اور خطاب کے موضوع اور نوعیت کا تعارف و تذکرہ ہے، جس سے متعلقہ خطاب کی اہمیت اور واضح پس منظر کھل کر سامنے آ جاتا ہے۔

دوسرے یہ کہ اکثر خطبات بغیر کسی عنوان یا موضوع کی تعیین کے قدیم کتابوں میں موجود تھے، حضرت مرتب نے ان پر جلی و ذیلی عناوین قائم کیے، بیانات کو مختلف پیراگراف اور ٹکڑوں میں تقسیم کیا اور قابلِ استفادہ بنانے کے لیے علاماتِ ترقیم وغیرہ کا اضافہ کیا۔ حالیہ اشاعت دو جلدوں پر مشتمل ہے، جن میں ہر جلد میں تقریباً ساڑھے پانچ سو صفحات ہیں، اس سلسلے کی تیسری اور آخری جلد بھی زیرِ ترتیب ہے، جس میں بقیہ اکابرین دیوبند کے خطبات شامل ہوں گے۔ اس کے علاوہ حضرت مفتی صاحب عربی خطبات کے ایک مستقل مجموعے پر بھی کام کر رہے ہیں، جو کہ دارالعلوم کے احاطے میں کی گئی صرف عربی تقاریر پر مشتمل ہوگا، یہ مجموعہ اس اعتبار سے منفرد ہوگا کہ اس میں عرب زائرین کے تمام خطبات یکجا دستیاب ہو سکیں گے۔ کتاب کی ظاہری خوبیوں کی بات کی جائے، تو اس میں کوئی شک نہیں کہ کتاب کی طباعت انتہائی اعلی ہے، سر ورق دیدہ زیب ہے اور کتاب کی حفاظت کے لیے اسے ڈبل رکھا گیا ہے، کمپیوٹر کتابت صاف اور درمیانی ہے، نہ بہت چھوٹی اور نہ بہت بڑی… کتاب کی سیٹنگ بھی عمدہ انداز سے کی گئی ہے، کہیں کوئی اونچ نیچ یا بے توجہی نظر نہیں آتی، کتاب کی قیمت 400 روپے ہے، جو معیاری مواد، کتاب کی ضخامت اور اعلیٰ طباعت کے لحاظ سے مناسب ہی نہیں، کم ہے، کیوں کہ چند روز قبل دو جلدوں پر مشتمل ایک کتاب شائع ہوئی ہے اور طباعتی خصوصیات کے لحاظ سے اِسی کے ہم پلّہ ہے، لیکن اس کی قیمت 600 ہے۔ مجموعی طور پر کتاب کو دیکھتے ہوئے بلا جھجک یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ مجموعہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، بلکہ اس کام کو بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا، لیکن خیر دیر آید درست آید… اس لیے حضرت مرتب اس قابل قدر خدمت کے لیے ہم سب کی جانب سے مبارک باد کے مستحق ہیں۔ اللّٰہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اس کتاب کی اہمیت سے آگاہ فرماۓ، اس سے استفادے کی توفیق بخشے اور حضرت مفتی صاحب کی اس خدمت کو دنیوی و اخروی طور پر مقبولیت سے نوازے۔ آمین

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے