6؍ فروری ۔۔۔۔ 2006ء ۔۔۔۔ 17 واں ۔۔۔۔ یومِ وفات
تحریر وترتیب : مُحمّد طاھر قاسمی ابن حضرت مولانا قاری دین محمد صاحب قاسمی میواتی ثم الدھلوی رحمۃ اللہ علیہ
جامع مسجد حوض رانی نئی دھلی انڈیا
تعارف :
آپ امیر الھند ثانی ، فدائے مِلت ، عظیم المرتبت شخصیت ، ھندوستانی مسلمانوں کے عظیم قائد و رھنما ، شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حُسین احمد صاحب مدنی نوّر اللہ مرقدہ کے بڑے صاحبزادے و جانشین ، جمعیۃ علماء ھند کے صدر اور دارالعلوم دیوبند کی مجلسِ شوریٰ کے رُکنِ رکین تھے ۔
ولادت :
آپ کی ولادت باسعادت 6؍ ذِی قعدہ 1346ھ مُطابق 27؍ اپریل 1928ء بروز جُمعہ یوپی کے مشہور ضلع سہارنپور کے قصبہ دیوبند میں ہوئی ۔ یوں تو آپ کا آبائی وطن قصبہ ٹانڈہ ضلع فیض آباد ہے ، لیکن والد صاحب حضرت شیخ الاسلامؒ وہاں سے دیوبند آکر مقیم ہوگئے تھے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کرلی تھی ۔ آپ کے دادا حضرت مولانا سید حبیب اللہ صاحبؒ ، حضرت مولانا فضلِ رحمٰن گنج مرادآبادیؒ کے خلیفۂ مجاز تھے ۔ بڑے ذاکر ، شاغل ، پاکباز و باخدا انسان تھے ۔ مستجاب الدّعوات ایسے کہ جس نے ستایا اور ان کے لئے بددعا نکلی تو وہ پنپنے نہیں پایا ۔ کشف ان کا بہت قوی تھا ۔ ویسے حضرتؒ کے اسلاف سب کے سب اولیاءاللہ تھے ۔ شیخ الاسلام حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ ایک گرامی نامہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ :” ہمارا خاندان اولیاء اللہ اور سچے فقراء باطن کا ہے ، جہاں تک میں نے والد مرحوم سے سنا ہے دادا مرحوم یا ان سے پہلے لوگ اہل باطن اور اہل نسبت تھے ، دنیا دار اور مال و متاع و زمین کے کتے نہ تھے ۔ (مکتوباتِ شیخ الاسلام ص 298 ج 4 ، مکتوب نمبر 108)
آپ تقویٰ و طہارت علم و عمل ، سیاسی بصیرت ، ملی و قومی خدمت میں اپنے والد گرامی کے صحیح جانشین اور خلف الصدق تھے ۔
تعلیم و تربیت :
آپ نے ابتدائی تعلیم اپنی والدہ ماجدہ ” محترمہ سائرہ صاحبہؒ” سے حاصل کی ، آپ کی والدہ ماجدہ قصبہ بچھراؤں ضلع امروہہ صوبہ یوپی کے حکیم سید غلام علی صاحبؒ کی چھوٹی صاحبزادی تھیں جو خاندانِ سادات کی ایک حسِین ، خوبصورت ، نیک سیرت ، خدا ترس اور قابلِ رشک صفات کی حامل خاتون تھیں ، آپ کی ابتدائی تربیت میں آپ کی والدہ ماجدہ کا بڑا حصہ ہے ، مگر افسوس کہ ابھی آپ کی عمر تقریباً نو سال تھی کہ 1355ھ مُطابق 1936ء میں آپ کی والدہ ماجدہ کا وصال ہوگیا ۔ آپ نے والد صاحب حضرت شیخ الاسلامؒ سے بھی ابتدائی تعلیم حاصل کی ، پھر حضرت شیخ الاسلامؒ کے خادمِ خاص اور آپ کے خانوادے کے مربّی حضرت مولانا قاری اصغر علی صاحب سہسپوریؒ نے آپ کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری سنبھالی اور انہیں کے زیرِ نگرانی آپ نے تعلیم کے مراحل طے کئے ، ، از ابتداء تا انتہا تمام علوم کی تکمیل آپ نے دارالعلوم دیوبند ہی میں رہ کر حاصل کی ۔ 1365ھ مطابق 1946ء میں آپ نے دارالعلوم دیوبند سے فراغت حاصل کی ۔ جن جلیل القدر اساتذۂ کرام سے آپ نے کسبِ فیض کیا ان میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حُسین احمد صاحب مدنیؒ ، شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی صاحب امروہویؒ ، امام المعقولات حضرت مولانا علّامہ ابراھیم صاحب بلیاویؒ ، حضرت مولانا سیّد اصغر حسین میاں صاحب دیوبندیؒ ، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری مُحمّد طیب صاحب قاسمیؒ ، حضرت مولانا مُحمّد ادریس صاحب کاندھلویؒ ، حضرت مولانا سیّد فخرالحسن صاحب مرادآبادیؒ ، حضرت مولانا مفتی سیّد مہدی حسن صاحب شاہجہاں پوریؒ ، حضرت مولانا جلیل احمد صاحب کیرانویؒ ، حضرت مولانا عبدالحق صاحبؒ بانی دارالعلوم حقّانیہ اکوڑہ خٹک جیسے جلیل القدر اکابرین ، اساطینِ علم و فضل اور علوم نبوت کے آفتاب و ماہتاب شامل ہیں ۔
درس و تدریس :
دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد کچھ عرصہ تک مدینہ مُنوّرہ میں قیام فرمایا ، پھر 28 شوّال 1370ھ مطابق اگست 1951ء میں دارالعلوم دیوبند میں تدریس کے لئے آپ کا اعزازی تقرّر کیا گیا اور 1372ھ میں استقلال ہوا ، اس طرح 1382ھ مطابق 1962ء تک مُسلسل بارہ سال آپ نے دارالعلوم دیوبند کی مسند تدریس کو زینت بخشی اور زیادہ تر درجات متوسطہ کی کتابیں آپ کے زیر درس رہیں ، اس کے بعد ملّی ضروریات اور قومی خدمات کے پیشِ نظر درس و تدریس کا سِلسلہ موقوف ہوگیا اور آپ دارالعلوم دیوبند سے مستعفی ہوگئے ۔
بیعت و خلافت :
رمضان المبارک 1368ھ میں اپنے والد ماجد حضرت مدنیؒ کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے ، سفر و حضر میں ساتھ رہ کر سلوک و تصوف کے تمام مراحل طے کئے ۔ حضرت شیخ الاسلامؒ کے چشمۂ علم و عرفان سے بھرپور فیضیاب ہوئے اور حضرت شیخ الاسلامؒ اپنی اخیر زندگی میں متوسلین کو آپ کے حوالے کرنے لگے تھے جو آپ کی تکمیل کی طرف اشارہ تھا ، اسی بنا پر حضرت شیخ الاسلامؒ کے وصال کے بعد حضرت کے تمام خلفاء نے متفق ہوکر اجازتِ بیعت سے نوازا اور جانشینِ شیخ الاسلام مقرر کیا ، نیز شیخ الحدیث حضرت مولانا مُحمّد زکریا صاحب کاندھلوی مہاجر مدنی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے حکم سے خصوصی اجازت مرحمت فرمائی ، حضرت مولانا شاہ عبدالقادر صاحب رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی خلعت خلافت سے سرفراز فرمایا ، اور بیعت و ارادت کا سلسلہ جاری رکھنے کا حکم فرمایا ۔ ان اکابر اہل اللہ نے آپ کو جس مقام و منصب پر فائز کیا تھا آپ نے اس منصب کی ذمہ داری کامل طریقہ پر نبھائی ۔ آپ کے ذریعہ نہ صرف ہندوستان بلکہ پورے برِصغیر ، افریقہ ، امریکہ ، انگلینڈ اور یورپ تک کے ہزاروں فرزندانِ توحید راہِ یاب ہوئے اور مدنی سلسلہ سے منسلک ہوئے یہ سلسلہ برابر جاری رہا ۔ آپ کے مریدین کی تعداد تقریباً 18؍ لاکھ اور مجاز طریقت خلفاء کی تعداد تقریباً 264 ہے ۔
جمعیۃ علماء ھند کے اسٹیج پر :
جمعیۃ علماء ہند سے فکری ہم آہنگی آپ کو گھریلو ماحول سے عطا ہوئی تھی ۔ آپ نے آنکھیں کھول کر تحریکات ہی تحریکات دیکھی تھیں ۔ اپنے عظیم باپ کی قربانیوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تھا اور حضرت شیخ الاسلامؒ کے جیلوں میں جاتے وقت فراق کے غم انگیز لمحات بھی دل پر پتھر رکھ کر برداشت کئے تھے ۔ ان حالات نے آپ کو تپاکر کندن بنادیا تھا ۔ قومی خدمت آپ کے رگ و پے میں رچ بس گئی تھی ۔ جمعیۃ علماء ہند سے آپ کو جذباتی لگاؤ تھا ۔ چنانچہ اپریل 1956ء میں حضرت شیخ الاسلامؒ کی زندگی ہی میں آپ جمعیۃ علماء دیوبند کے نائب صدر بنادئیے گئے ۔
1957ء کے اواخر میں شیخ الاسلام حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ صدر جمعیۃ علماء ہند کی وفات کے بعد جمعیۃ علماء ہند سے وابستہ حضرات کی نظریں بے اختیار آپ کی طرف اُٹھنے لگیں ۔ اس وقت پوری جماعت کے دلی جذبات آپ کے ساتھ تھے ، حضرت شیخ الاسلامؒ کے متوسلین کے لئے آپ کی شخصیت مرجع و سرچشمہ بن گئی ۔ آپ جہاں بھی جاتے عوام کا عظیم مجمع آپ کی زیارت اور آپ سے استفادہ کے لئے امڈ آتا ، نہ صرف عوام بلکہ خواص کی نظر میں بھی آپ کا مقام نہایت بلند تھا ۔ حضرت شیخ الاسلامؒ سے انتساب اور آپ کے نقش قدم کو مضبوطی سے پکڑے رہنے کی ادا نے آپ کو بڑے بڑے اکابر وقت کا مخدوم بنادیا تھا ۔
24 جون 1960ء میں مرادآباد میں جمعیۃ علماء یوپی کے اجلاس منتظمہ میں آپ کو ملک کے سب سے بڑے صوبہ اترپردیش کی جمعیۃ علماء کی صدارت کے منصب پر فائز کیا گیا ، ریاست بھر میں اس انتخاب پر مسرت محسوس کی گئی ، جہاں پہنچتے نہایت گرم جوشی سے استقبال کیا جاتا ، اسی دن سے آپ نے جمعیۃ علماء کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا اور پوری زندگی اور خدمات اسی کے لئے وقف کردیں ۔ اس دورِ صدارت میں حضرت فدائے ملتؒ نے خاص طور پر پورے صوبہ یوپی میں دینی تعلیمی بورڈ کا نظام مستحکم کرنے پر توجہ مبذول کی اور اسلامی شعائر کی حفاظت ، مسلمانوں کے تشخص کے تحفظ اور جمعیۃ علماء کی تنظیم پر زور دیا ۔
9 اگست 1963ء کو فخرالمحدثین حضرت مولانا سید فخرالدین صاحب مرادآبادیؒ کی زیر صدارت میں مجلس عاملہ کے مشورہ سے آپ کو جمعیۃ علماء ھند کا ناظم عمومی بنایا گیا اور اپنی بے مثال جدوجہد سے پوری جماعت میں تازگی پیدا کی ۔
حضرت فدائے ملتؒ کے ناظم عمومی بننے پر جمعیۃ علماء ہند اور دھلی معزز شہریوں کی طرف سے 8؍ ستمبر 1963ء کو دھلی کے مشہور کانسٹی ٹیوشن کلب میں پرتپاک استقبالیہ دیا گیا جس میں وزیر اعظم ہند جواہر لال نہرو نے بھی شرکت کی ۔ استقبالیہ ایڈریس کے جواب میں حضرت فدائے ملتؒ نے اپنی زندگی کا نصب العین ان الفاظ میں بیان کیا کہ میرے والد ماجد حضرت شیخ الاسلامؒ نے ہمیں ایمان و یقین اور تحصیل و اشاعتِ دین کے ساتھ وطن عزیز سے تعلق ، آزادی سے محبت اور انسانوں کی خدمت کی جو راہ دکھائی تھی میری کوشش یہی ہے کہ جب تک زندہ رہوں ان عنوانات پر زندگی کی داستان ترتیب دیتا رہوں ۔
ناظم عمومی کے منصب پر فائز ہونے کے بعد آپ نے جمعیۃ علماء ہند کے شایانِ شان مرکزی دفتر کی تعمیر اور حضرت مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمٰن صاحب سیوہاروی رحمۃ اللہ علیہ کے دیرینہ خواب کی تکمیل پر بھرپور توجہ دی ۔ نئی دھلی کے انتہائی برمحل اور جائے وقوع کے اعتبار سے نہایت مصروف علاقہ میں واقع قدیم مسجد عبدالنبی اگرچہ 2؍ فروری 1963ء کو جمعیۃ علماء ہند کے حوالہ کی جاچکی تھی ، حضرت فدائے ملتؒ نے تعمیری منصوبوں میں مرکزی دفتر کی تعمیر اور مسجد کی آبادی کو اوّلین حیثیت دی ۔ آپ کی شبانہ روز جدوجہد سے 1965ء کے اوائل میں جمعیۃ علماء ہند کا مرکزی دفتر گلی قاسم جان کی مصروف گلیوں سے نکل کر مسجد عبدالنبی (آئی ٹی او) میں منتقل ہوگیا ۔
19؍ اپریل 1965ء کو شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی مہاجر مدنی رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت جی مولانا انعام الحسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ و دیگر اکابر تبلیغ کی معیت میں مسجد عبدالنبی میں تشریف لائے اور دعاؤں سے نوازا ۔
22؍ اپریل 1965ء کو فخرالمحدثین حضرت مولانا سید فخرالدین صاحب مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند کی صدارت میں جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ کا اجلاس مسجد عبدالنبی میں پہلی مرتبہ منعقد ہوا ۔ آج الحمد للہ یہ دفتر پوری شان و شوکت کے ساتھ ہندوستان میں مسلمانوں کی زندگی کی علامت بن چکا ہے ۔ اب یہ صرف مسجد تک محدود نہیں رہا بلکہ شاندار مدنی ہال ، محمودیہ لائبریری ، مہمان خانہ ، مفتی کفایت اللہؒ ہال ، دفتر محکمہ شرعیہ ، دفتر ہفت روزہ الجمعیۃ ، کمپیوٹر سینٹر اور جدید سہولیات سے آراستہ خوبصورت کمپلیکس میں تبدیل ہوچکا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اسے ہمیشہ اسی طرح شاداب رکھے آمین ثم آمین ۔
1968ء مطابق 1388ھ میں آپ کو جامعہ ازہر مصر کی اِسلامی تحقیقات اکیڈمی کا نمائندہ منتخب کیا گیا اور 1968ء ، 1970ء 1971ء اور 1972ء میں اُس کی چوتھی ، پانچویں ، چھٹی اور ساتویں کانفرنس منعقدہ قاہرہ میں شریک ہوئے ۔
آپ 9؍ اگست 1963ء سے 10؍ اگست 1963ء تک (10 سال) جمعیۃ علماء ہند کے ناظم عمومی کے منصب پر فائز رہے ۔
11 اگست 1973ء بمطابق 18؍ شعبان 1393ھ کو مجلس عاملہ کے اجلاس میں آپ کو جمعیۃ علماء ھند کا بالاتفاق صدر منتخب کیا گیا جس پر تادمِ حیات 6؍ فروری 2006ء تک مسلسل 33 سالوں تک اس عظیم منصب پر فائز رہ کر جمعیۃ کا قافلہ آپ کی قیادت میں ملک و مِلّت کے لئے عظیم خدمات انجام دیتا رہا جن کا احاطہ دشوار ہے یہاں تک کہ آپ اللہ کو پیارے ہوگئے ۔
آپ نے اپنے دورِ صدارت و نظامت میں پورے ملک میں جمعیۃ علماء ہند کی شاخوں کا جال بچھادیا اور اس کے تمام شعبوں کو اتنا شاندار متحرک اور فعال بنادیا کہ جمعیۃ کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔ جمعیۃ علماء ہند کے تعلق سے آپ کی خدماتِ جلیلہ کے عنوانات (جو اپنی جگہ مستقل تاریخ ہیں) کی مختصر فہرست اس طرح ہے ۔ فسادات کی روک تھام اور مظلومین کی امداد اور فریاد رسی ، مسئلہ کشمیر ، مسئلہ آسام مسلم اوقاف کی حفاظت اور جدوجہد اردو کا تحفظ اور اس کی بقا ، عالمِ اسلام سے ملت کا واسطہ اور تعلق ، بابری مسجد ، مسلم یونیورسٹی کا تحفظ اور اس کے اقلیتی کردار کی بحالی کے لئے جدوجہد ، مسئلہ ارتداد اور اس کا ڈٹ کر مقابلہ ، مسلمانوں کی اقتصادی بحالی کے پروگرام ، مسلم پرسنل لاء ، تحفظ حرمین شریفین ، مسئلہ فلسطین ، مسئلہ ، افغانستان ، چیچنیا ، بوسنیا ، مسئلہ عراق و کویت ، تحفظ شریعت ، تحفظ حقوق شہریت ، یکساں سول کوڈ ، اصلاح معاشرہ ، رویت ہلال ، امارتِ شرعیہ ، مسئلہ کسٹوڈین ، جبری نسبندی ، تعمیری و تعلیمی پروگرام ، ارتدادی علاقوں میں مکاتب کا قیام ، عصری تعلیمی اداروں کا قیام اور اس کے لئے جدوجہد ، ملت اسلامیہ ہندیہ کے حقوق کی بازیابی کے لئے جدوجہد اور فرقہ باطلہ اور فرقہ ضالہ کا دفاع ، فتنہ قادیانیت کی بیخ کنی کے لئے جدوجہد ، مسلک دیوبند اور اکابرین دیوبند کی خدماتِ جلیلہ کا عالم اسلام میں تعارف ، دارالعلوم دیوبند اور دیگر عظیم مدارس کی سرپرستی اور شوریٰ کی رکنیت ، محاکم شرعیہ کا قیام ، ادارۃ المباحث الفقہیہ کا قیام اور مشکل مسائل کا حل تلاش کرنے کے لئے پورے ملک کے مفتیان کرام اور بالبصیرت علماء کرام کے فقہی اجتماعات ہیں جو مستقل تصانیف کی متقاضی ہیں اور ان شاءاللہ کوئی مؤرخ اس عظیم خدمت کو انجام دے گا ۔
حضرت مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمٰن صاحب سیوہاروی رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کے بعد سے پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی حمایت میں کھل کر آواز اُٹھانے والے کی کمی شدت سے محسوس ہوتی تھی ضرورت تھی کہ اس خلا کو پُر کیا جائے ۔
بالآخر 1968ء میں متعدد حلقوں اور شخصیتوں کے اصرار نیز حالات کے تقاضوں کے تحت راجیہ سبھا کا الکیشن لڑنے کے لئے تیار ہوئے اور منتخب ہوکر پارلیمنٹ میں پہنچے اور ملت کی وہ آرزوئیں پوری کر دِکھائیں جو حضرت مجاہد ملّتؒ کے انتقال کے بعد آپ کی ذات سے وابستہ کی گئی تھیں ۔
1968ء تا 1994ء تین ٹرم (18) سال پارلیمنٹ کے ممبر رہ کر ملک و ملت کے تمام مسائل کی پوری جراءت و بیباکی کے ساتھ ترجمانی کی اور اعلائے کلمۃ الحق عند السلطان الجائز کا فریضہ انجام دیا اس عرصہ میں آپ کی 56 تقریریں پارلیمنٹ کے ریکارڈ میں محفوظ ہیں اور کتابی شکل میں بھی شائع ہوچکی ہیں جو جراءت و بیباکی اور حق گوئی کی زرّیں شاہکار اور اعلائے کلمتہ الحق کی روشن مثال ہیں ۔ جن کے مطالعہ کے بعد کوئی شخص یہ کہے بغیر نہ رہ سکے گا کہ اگر حضرت فدائے ملتؒ وہاں نہ ہوتے تو ملک کے منتخب نمائندوں اور ذمہ داروں کے سامنے مسلمانوں کے مسائل بھی اس طرح سے نہ آسکتے ۔
حضرت مولانا سید اسعد مدنیؒ کی سیاست کو ایک اور اعزاز اور امتیاز حاصل ہے کہ جمعیۃ علماء ہند کے پلیٹ فارم سے آپ نے ہمیشہ مسلمانوں کے حقوق کی لڑائی اربابِ اقتدار سے لڑی ۔ ملّی امور اور مسلمانوں کے مسائل میں کبھی مصلحت کوشی سے آپ نے کبھی کام نہیں لیا ۔ آپ نے اسلاف کے سچے جانشین اور اکابر کے ورثہ کے امین اور رہنما ہونے کے ناطے جمعیۃ علماء ہند وقار اور اس کے اثرات ہی میں اضافہ نہیں کیا بلکہ اس کے وسائل اور ذرائع میں بھی اضافہ کیا ، اپنی سیاسی قوت اور جماعتی وحدت کو اقتدار کی سودا بازی اور بڑی طاقتوں کی سازشوں کی تکمیل کا ذریعہ نہیں بنایا ، ورنہ وہ کونسا عہدہ تھا جو انہیں نہیں مل سکتا تھا ، مگر آپ نے مسلمانوں کی وحدت اور اپنی سیاسی قوت کو اقتدار کے گرداب میں نہیں پھنسایا بلکہ مکمل آزادی ، خدمت اور انقلاب کی جدوجہد کرتے رہے ۔ آپ نے سیاست کا سبق مغرب کی کتاب سے نہیں پڑھا بلکہ یہ درس بارگاہِ رسالت مآب ﷺ سے لیا ، کیونکہ سیاسی مہنت چودہ سو سال پہلے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھنے کی آفر کیا کرتے تھے اور آج بھی عالمی طاقتیں اسی طرح کی مرغوب پیشکش ہر وقت اپنی جیب میں رکھتی ہیں ، مگر حضرت مولانا سید اسعد مدنیؒ نے ہر چمک کو ٹھکرادیا وہ مستضعفینِ جہاں کے نزدیک جانِ آرزو کا درجہ حاصل کرچکے تھے ۔
آپ دارالعلوم دیوبند کے فرزند جلیل اور نامور فیض یافتگان میں سے ہیں ، دارالعلوم دیوبند ہی سے آپ کو سب کچھ حاصل ہوا ، بلاشبہ آپ اپنے مادر علمی مخلص سپوت ہیں اس لئے مادر علمی کی خدمت اور اس کی ترقی و استحکام کے لئے جدوجہد آپ کا نصب العین رہا ہے ۔ دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد مسلسل بارہ سال تک دارالعلوم ہی میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے پھر بعض ملی ، قومی تقاضوں کے پیش نظر اگرچہ تدریسی ذمہ داریوں سے خود علاحدگی اختیار کرلی تھی مگر باہر رہ کر دارالعلوم دیوبند کی خدمت انجام دیتے رہے ۔ اجلاس صدسالہ کے موقع پر دارالعلوم دیوبند کے لئے آپ کی خدمات دارالعلوم کی تاریخ میں سنہرا باب ہیں ۔
مطابق 1985ء بمطابق 1405ھ میں دارالعلوم دیوبند کی ہیئت حاکمہ مجلس شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے ، دارالعلوم دیوبند میں شورائی نظام کی بحالی و بالادستی میں نمایاں خدمات انجام دیں ۔ دارالعلوم دیوبند کے وسائل کی توسیع ، تعمیر و ترقی اور دیگر امور میں آپ کی مخلصانہ کاوشیں تادمِ حیات قائم رہیں ۔ اور آپ کی مساعئی جمیلہ سے دارالعلوم کا حلقہ اثر داخلی اور خارجی ہر اعتبار سے شاہراہ ترقی پر رواں دواں رہا ، دارالعلوم دیوبند کی نشاۃِ ثانیہ کے بعد اس کی تعلیمی و تبلیغی خدمات کی توسیع و ترقی میں آپ کا بڑا ہاتھ تھا ۔ دارالعلوم دیوبند میں کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت کا قیام ، شعبہ تخصص فی الحدیث ، شعبہ انگریزی ادب ، شیخ الہندؒ اکیڈمی وغیرہ کا اضافہ آپ کی خصوصی دلچسپی کا ثمرہ ہے ۔
غرض آپ کمالات و فضائل کا مجمع البحار تھے اور آنے والی نسل بلاشبہ آپ کے لائق تقلید کارناموں سے فائدہ اٹھائے گی اور آنے والے مؤرخین آپ کی حیات طیبہ کے مخفی گوشوں پر لکھتے رہیں گے ۔
آپ کا اہم کارنامہ :
2 نومبر 1986ء بمطابق 28؍ ربیع الاوّل 1407ھ کو مدنی ہال بہادر شاہ ظفر مارگ نئی دھلی میں علماء کرام ، مفتیان عظام اور دانشوران ملک و ملت کا ایک عظیم اجتماع منعقد ہوا جس میں پورے ملک کے چودہ صوبوں سے تین ہزار افراد شریک تھے اور باتفاق رائے امارت شرعیہ ہند کے قیام کا فیصلہ کیا گیا ، اس کا اولین امیرالہند مُحدّثِ کبیر حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی رحمۃ اللہ علیہ اور نائب امیرالہند آپ کو منتخب کیا گیا ۔ 1992ء میں امیرالہند حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمیؒ کے انتقال کے بعد 9؍ مئی 1992ء کے عظیم الشان نمائندہ اجتماع میں آپ کو امیرالہند منتخب کیا گیا ، جس پر تادمِ واپسیں فائز رھے اور دینی ، قومی ، مِلّی ، سماجی ، سیاسی اور معاشرتی خدمات انجام دیتے رھے ۔ آپ تاحیات آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکنِ تاسیسی رہے ، عملی میدان میں سرگرم کار ہونے کے اولین مرحلے میں ہی آپ نے غیر سودی مسلم فنڈ دیوبند میں قائم کیا ، جس کی متعدد شاخیں ملک کے طول و عرض بالخصوص مغربی یوپی میں قائم ہوچکی ہیں ۔ جمعیۃ علماء ھند کے پلیٹ فارم سے آپ نے ہندوستانی مسلمانوں کی شاندار مثالی قیادت کی اور بے لوث خدمات کی ایک روشن تاریخ رقم کی ، ملک میں مسلمانوں کو پیش آنے والے تمام چیلنجوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ہر موڑ پر ملت اسلامیہ کی شاندار قیادت کی ، آزاد ہند میں مسلم اقلیت کی خدمات کے حوالے سے آپ کا نام تاریخ میں جلی حروف میں لکھا جائے گا ۔
ان ہمہ جہت خدمات اور کثرتِ اسفار کے ساتھ آپ کا ذوقِ عبادت ، اتباعِ سنت ، نماز باجماعت اور شب بیداری قابلِ رشک ہے ۔ حضرت فدائے ملتؒ کی ایک اہم صفت نماز باجماعت اور قیام اللیل کی پابندی تھی ، نماز کو انتہائی خشوع و خضوع و اطمینان سے ادا کرنے میں وہ ممتاز حیثیت کے حامل تھے ۔ ارکان کی ادائیگی اور تمام اجزائے صلوٰۃ کو پورا کرنے میں درازی ، سکون اور انہماک ، میں نے اُن کی طرح بہت کم لوگوں میں دیکھا ہے ، خواہ کتنی عجلت ہو نماز میں رواداری اور کنسیشن کے قائل اور عامل نہ تھے ، لوگوں کو کتنی ہی عجلت ہو ، کوئی بڑا لیڈر آرہا ہو یا انہیں کسی سے ملنے جانا ہو ، گاڑی تیار ہو ، دسترخوان چُن دیا گیا ہو ، جلسے کے منتظمین عجلت مچارہے ہوں ، حضرت فدائے ملتؒ نماز شروع کرنے کے بعد اس کو انتہائی اطمینان ہی سے ادا کرتے تھے ۔
حضرت فدائے ملتؒ میں مرد ہوشیار کی ذہانت ، قائد کی دور رسی ، سپہ سالار کی جراءت ، عالم کا وقار ، داعی کی حکمتِ عملی ، سیاست داں کی سمجھداری ، سپاہی کی تیز روی ، برسرِ جنگ سالارِ لشکر کی احساسِ ذمہ داری ، مصلح کی فکر مندی ، مثالی عبادت گذار کا انہماک ، پیدائشی فیاضی و سخی کی کشادہ دلی اور ہمہ جہت مقابلے کی صلاحیت رکھنے والے مُحارِب کی چوکسی اور بیداری تھی ۔
حج و زیارت :
آپ کو حرمین شریفین کی حاضری اور حج بیت اللہ کی زیارت کا والہانہ ذوق نصیب ہوا تھا اور اللہ تعالی کی طرف سے اس کی قابلِ رشک توفیق بھی ملی ۔ اس سعادت و خصوصیت میں بھی آپ اپنی مثال آپ ہیں ۔ دستیاب معلومات کے مطابق آپ نے 37 حج اور 32 عمرہ کے سفر فرمائے ۔ اِیں سعادت بزور نیست ۔
اسفار :
فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنیؒ نے دنیا کے کونے کونے کا لاتعداد مرتبہ سفر کیا ، ذرائع اِبلاغ کے مطابق کثرتِ اسفار کے حوالے سے برِصغیر کا کوئی عالم اور قائد یا داعی الی اللہ آپ کی ہمسری نہ کرسکا ۔ آپ نے اندرونِ ہند و بیرونِ ہند دعوتی ، اصلاحی ، ثقافتی اغراض اور سیمیناروں ، کانفرنسوں اور دینی و سیاسی جلسوں میں شرکت کے لئے ، ملک کے گوشے گوشے میں اتنی بار سفر کیا کہ اخبار نویسوں کے بہ قول آپ نے اپنے مستقر پر قیام کم اور سفر میں اپنی زندگی کے اوقات زیادہ گذارے ۔
مرض الموت :
1425ھ میں کعبہ مُشرّفہ کے غسل موقع سے ، سعودی عرب کی دعوت پر آپ مکۂ مکرّمہ تشریف لے گئے ، جہاں حج و زیارت سے شرف یاب ہوئے ۔ مدینہ منورہ میں قیام کے دوران شدید طور پر بیمار ہوگئے ، آپ وہاں ایک ہسپتال میں زیرِ علاج رہے ، مرض کی شدت کے کم ہونے کے بعد آپ وطن لوٹ آئے اور دھلی میں "اپولو” ہسپتال میں زیرِ علاج رہ کر ایک مدت کے بعد صحت یاب ہوکر گھر واپس آگئے ؛ لیکن صحت کی قدرتی حالت بحال نہ ہوسکی ۔
وفات :
5؍ نومبر 2005ء مطابق 2؍ شوّال المُکرم 1426ھ بروز شنبہ کو آپ وہیل چیئر پر ، دھلی سے دیوبند واپسی پر اپنے گھر میں داخل ہورہے تھے کہ اُس سے پھسل گئے ، جس کے نتیجے میں سر کے پچھلے حصے میں شدید ضرب آئی ، دماغ میں گہرا زخم آیا ، خون زیادہ بہنے کی وجہ سے دماغ کی رگیں ناکارہ ہوگئیں اور آپ مفلوج ہوگئے ، رات ہی میں دھلی لے جایا گیا ، دھلی کے "اپولو” ہسپتال میں دوبارہ داخل کئے گئے اور انتہائی نگہداشت والے کمرہ میں ایڈمٹ کئے گئے ، جہاں اعلیٰ سے اعلیٰ علاج ہوتا رہا ، لیکن آپ مُسلسل تین ماہ پانچ دن تک بیہوش رھے ، عیادت کنندوں اور معاشرے کے ہر طبقے کے سیکڑوں لوگوں کی روزانہ آمد و رفت رہی ، جو آپ کی خبر خیریت معلوم کرنے کے لئے ہسپتال کے زیریں ملاقاتی ہال میں بھیڑ لگائے رہتے تھے ، وقتِ آخر آچکا تھا ، اس لئے ساری تدبیریں ناکام ثابت ہوئیں اور 7؍ مُحرّم الحرام 1427ھ مطابق 6؍ فروری 2006ء بروز دوشنبہ کی شام پونے چھ بجے بمقام اپولو ہوسپٹل نئی دھلی یہ آفتابِ عزیمت غروب ہوگیا ۔ 8؍ بجے کے قریب آپ کا جنازہ بذریعہ ایمبولینس جمعیۃ علماء ہند کے آئی ٹی او میں واقع مرکزی دفتر میں لایا گیا ، کچھ ہی دیر بعد ملک کے وزیر اعظم جناب منموہن سنگھ ، کانگریس پارٹی کی صدر محترمہ سونیا گاندھی دسیوں وزراء اور معزز سیاسی و سماجی شخصیات اپنے محبوب کا آخری دیدار اور خراج تحسین پیش کرنے کے لئے جمعیۃ علماء ہند کے مرکزی دفتر پہنچے ، تقریباً رات ساڑھے دس بجے بذریعہ ایمبولینس حضرتؒ کا جسد خاکی دیوبند کے لئے روانہ ہوا ساتھ گاڑیوں کا ایک قافلہ دیوبند کے لئے روانہ ہوا اور تین بجے شب میں دیوبند پہنچا تو ہزاروں انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر اپنے شیخ کے آخری استقبال کے لئے جی ٹی روڈ پر موجود تھا ۔ جنازہ حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب کے مکان پر لایا گیا جہاں گھر کی تمام مستورات جمع تھیں ، فوراً غسل دیا گیا اور پھر کچھ دیر تک اہل خانہ کی زیارت کے لئے رکھ دیا گیا ، صبح پانچ بجے جنازہ کو دارالعلوم دیوبند کی دارالحدیث میں آخری دیدار کے لئے لے جایا گیا بہ مشکل تمام 40؍ منٹ میں جنازہ گھر سے دارالحدیث پہنچا ، نماز فجر کے کچھ دیر بعد سات بجکر بیس منٹ پر جنازہ دارالحدیث سے باہر لایا گیا اور باب الظاہر کے سامنے رکھ دیا گیا ، مجمع اتنا زیادہ تھا کہ نہ صرف دارالعلوم دیوبند چپہ چپہ لوگوں سے بھرا ہوا تھا ، شمال میں مدنی گیٹ سے گذر کر مسجد رشید کے آخری گوشہ تک جنوب میں معراج گیٹ سے ہوکر رواق خالد کے صحن تک ۔ مشرق میں دارالعلوم کے مہمان خانہ کے پیچھے تک ۔ اس درمیان کے تمام صحن ، دالان ، درسگاہیں ، طلبہ کی قیام گاہیں ، نوردہ ، احاطۂ مولسری ، صدر گیٹ وغیرہ میں اوپر تلے کوئی ایسی جگہ خالی نہ تھی جہاں نمازِ جنازہ کے لئے صفیں نہ لگی ہوں ۔ جن لوگوں کو دارالعلوم دیوبند دیکھنے کی سعادت حاصل ہے وہ بخوبی اس کی وسعت کا اندازہ لگاسکتے ہیں ۔ اسی پر بس نہیں بلکہ لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے کہ چڑھا آرہا ہے اور لوگ حیرت زدہ ہیں کہ اتنی صبح اتنی کثرت سے لوگ کہاں سے آگئے اور کیسے انہیں خبر ہوئی ۔
8؍ مُحرّم الحرام 1427ھ مطابق 7؍ فروری 2006ء کو بعد نماز فجر ٹھیک اشراق کے وقت صُبح 7؍ بجکر 25 منٹ پر دارالعلوم دیوبند میں حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی مہاجر مدنیؒ کے صاحبزادۂ محترم پِیر طریقت حضرت مولانا مُحمّد طلحہ صاحب کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ کی امامت میں لاکھوں افراد نے نماز جنازہ ادا کی ، جس میں ایک لاکھ سے زائد عُلماء و مَشائخ ، طالبانِ علوم نبوّت اور عام مسلمانوں نے شرکت کی ، اخباری نمائندوں کے مطابق ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد نے آپ کے جنازے میں شرکت کی ، جنازہ میں لمبی لمبی بلّیاں باندھ دی گئی تھیں کے لے جانے میں سہولت ہو اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو کاندھا دینے کی سعادت حاصل ہو ، اب جنازہ کو قبرستان تک لے جانا بڑا اہم مرحلہ تھا ، آنے والوں کا جو سلسلہ رات سے شروع ہوا تھا تسلسل کے ساتھ جاری تھا اور مجمع اندازے سے باہر ہوگیا تھا ، اور ہر فرد کی یہ خواہش تھی کہ جنازہ کو کندھا دینے کی سعادت حاصل کرے ، لیکن یہ ناممکن تھا ، احاطۂ دارالعلوم سے لے کر قبرستان قاسمی تک کوئی دیوار ، مکان ، یا اونچی عمارت حتیٰ کے درخت ایسا نہیں تھا جس پر لوگوں کا جم غفیر موجود نہ ہو جس کو جہاں جگہ ملی کھڑا ہوگیا اور حسرت بھری نگاہوں سے جنازہ کی آمد کا منظر دیکھنے لگا ، اِدھر جنازہ کو دیکھئے تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ پانی میں تیر رہا ہے ۔ وہ تو اچھا ہوا کہ بروقت نماز جنازہ ہوگئی ورنہ اگر تھوڑی بھی تاخیر کردی جاتی ۔ جیسا کہ آنے والے لوگوں کا برابر اصرار تھا ، تو مجمع بے قابو اور کنٹرول سے باہر ہوجاتا ۔ دارالعلوم سے قبرستان قاسمی تک کی مسافت جو مشکل سے پانچ منٹ میں طے ہوجاتی تھی ، آج وہ قبرستان آنے کا نام نہیں لے رہا تھا ، پھر بھی مدنی گیٹ سے ہوتا ہوا تقریباً دو گھنٹے میں جنازہ قبرستان قاسمی میں پہنچا ، جہاں حضرت فدائے ملت کو ان کی آخری آرام گاہ پہنچایا گیا ، اب آپ کو آخری آرام گاہ میں اتارنے کی تیاری کی جانے لگی ، حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم نے فرمایا کہ :” حفّاظ قرآن ہی آپ کو قبر میں اتاریں ۔” چنانچہ حضرت مولانا سید ارشد صاحب مدنی ، حضرت مولانا سید اسجد صاحب مدنی ، حضرت مولانا سید محمود صاحب مدنی ، مولانا محمد مدنی صاحب ، مولانا ازہد مدنی صاحب ، مفتی سید سلمان صاحب منصورپوری اور مفتی سید عفان صاحب منصورپوری نے آپ کو قبر اتارا ، اور دیوبند کے تاریخی قبرستان مزارِ قاسمی میں اپنے والد ماجد شیخ الاسلام حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے پہلو میں جانبِ غرب ہمیشہ کے لئے علم و عمل ، روح و تقویٰ ، خلوص و للّٰہیت ، جراءت و شجاعت اور روحانیت و عزیمت کے اس عظیم پیکر کو سپرد خاک کیا گیا ۔ رحمۃ اللہ رحمۃً واسعۃً ۔
پسماندگان :
آپ نے اپنے پیچھے پانچ بیٹے ، دو بیٹیاں اور دو بھائی ، اُن کی والدہ محترمہ (جو اَب رحلت فرماچکی ہیں) اور خاندان کے بہت سے افراد کے ساتھ ساتھ مریدین ، متوسلین ، معتقدین ، مُحبّین اور اہل تعلق کی بہت بڑی تعداد چھوڑی ۔
(ماہنامہ دارالعلوم دیوبند ، مارچ 2006ء ، ہفت روزہ الجمعیۃ اکتوبر 1995ء ، جمعیۃ علماء نمبر ص : 248 ۔ 255 ، تاریخ شاھی ص : 288 ، پسِ مرگ زندہ ص : 763 ۔ 765 ، تذکرہ اکابر ص : 281 ، دارالعلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ ص : 676 ، ہفت روزہ الجمعیۃ فدَائے مِلت نمبر اپریل 2007ء ٬ حیاتِ فدائے ملتؒ)