عبید اللہ شمیم قاسمی
رسول اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ آپﷺ کی نبوت کی سچائی پر مستحکم دلیل و علامت ہے، یہ آپ ﷺ کے کمال و جمال اور جلال کی معراج ہے، یہی معجزات کا زینہ ہے، رسول اللہ ﷺ مجسم زندہ جاوید قرآن كى عملى تفسير ہیں، جو لوگوں کو خیر کی تعلیم دیتے ہیں، اور ربانی طریقہ پر لوگوں کی رہنمائی فرماتے ہیں، سلف صالحین نے سیرت کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھا تھا اور اپنی اولاد کو قرآن کی مانند سیرت کی تعلیم دی تھی، حضرت امام زین العابدین علی بن حسین (۳۸۔۹۵ھ) فرماتے ہیں کہ ”ہم لوگ غزوات کی تعلیم بھی قرآن کی طرح دیتے تھے“۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے پوتے اسماعیل بن محمد کا قول ہے کہ:“میرے والد ہم لوگوں کو غزوات و سرایا کی تعلیم دیتے تھے، اور فرماتے تھے کہ یہ عزت و سعادت آباء و اجداد سے چلی آرہی ہے ، اس کو ضائع نہ ہونے دو“۔
ان بلند مقاصد کو حاصل کرنے کے ليے کئی عالی مرتبت تابعین نے سیرت کے واقعات قلم بند کرنے اور ان کو جمع کرنے کی پہل کی، ان میں بطور مثال امام و امیر وفقیہ ابان بن عثمان بن عفان (متوفی ۱۰۵ھ)، عالم مدینہ حضرت عروہ بن زبیر بن عوام (متوفی ۹۳ھ)، شرحبیل بن سعد خطمی مدنی (متوفی ۱۲۳ھ)، علامہ وہب بن منبہ انباوی یمانی صنعانی (متوفی ۱۱٤ھ) ہیں، یہ سلسلہ تابعین سے تبع تابعین تک پہنچا، تبع تابعین میں حافظ و مؤرخ ماہرِمغازی محمد بن اسحاق بن یسار مطلبی (متوفی ۱۵۱ھ)، محمد ابن اسحاق کے شیخ عبداللہ بن ابوبکربن محمد بن حزم (متوفی ۱۳۵ھ)، عاصم بن عمر بن قتادہ بن نعمان (متوفی ۱۱۹ھ) اور امام ابوبکر محمد بن مسلم زھری (متوفی ۱۲٤ھ) ہیں، بعد میں ان کے شاگردوں نے اسی منہج کو اختیار کیا، جن میں موسیٰ بن عقبہ بن ابو عیاش (متوفی ۱٤١ھ )، معمر بن راشد (متوفی ۱۵۳ھ)، اور دیگرجلیل القدر حضرات ہیں جیسے محمد بن عمر بن واقد واقدی (متوفی ۲۰۷ھ) اور محمد بن سعد بن منیع (۱٦٨۔۲۳۰ھ) جیسے اہل علم ہیں جنھوں نے سیرت کے واقعات کی تدوین کی، اور جرمنی مستشرق یوسف هُورُوفِتْش نے اپنى گرانقدر كتاب ”المغازي الأولیٰ ومؤلفوها“ ميں ان سب كو جمع كرديا ہے ۔
سيرت كے مؤلفين كا پہلى صدى ہجرى سے لے كر آج تک ايک سيلاب نظر آرہا ہے جن كا شمار بھى آسان نہيں، جن كى تصنيفات ہزاروں ميں ہيں۔ اسى سلسلے كى مبارک كڑى ’’محمد رسول الله ﷺ رحمة للعالمين‘‘ بھى ہے، جس كے مؤلف عالم اسلام كے مشہور محدث حضرت مولانا ڈاكٹر تقى الدين ندوى صاحب مدظلہ العالى ہيں۔ اس کتاب پر عالم اسلام کی مشہور شخصیات کے مقدمات بھی ہیں، جن میں رابطہ عالم اسلامی کے سابق جنرل سکریٹری عبد اللہ عبد المحسن ترکی، امام حرم مکی ڈاکٹر سعود بن ابراہیم الشریم وغیرہ شامل ہیں۔
اس کتاب كے بارے ميں ڈاكٹر ابولبابہ سابق رئيس جامعہ زيتونہ تيونس مقدمہ میں رقم طراز ہيں:
حضرت مولانا ڈاکٹر تقی الدین صاحب ندوی نے سیرت کے واقعات اور مضامین کو خواہ وہ بعثت سے پہلے کے ہوں یا بعثت کے بعد کے ہوں، اور خواہ ہجرت سے پہلے کے ہوں یا ہجرت کے بعد کے ہوں خوب تفصیل سے ذکر کیا ہے، ان میں جہاں سیرت کے قدیم بنیادی مآخذ کا انھوں نے سہارا لیا ہے وہیں علمائے متاخرین جن میں مستشرقین اور مغربی مصنفین کی کتابوں کو سامنے رکھ کر ان کے مغالطوں اور بے بنياد باتوں کا پردہ بھی چاک کیا ہے، ضعیف اور اسرائیلی روایتوں سے مکمل گريز كيا ہے، بلکہ ایسی روایات ذکر کر کے ان پر سخت نقد وجرح کی ہے، مولانا نے ساتھ ساتھ ہندوستانی علمائے کبار کی سیرت النبی کے موضوع پر تالیفات سے استفادہ کیا ہے۔
اس طرح مولانا کی یہ فاضلانہ تصنیف ایک گرانقدر علمي دستاويز کی شکل اختیار کر چکی ہے، سیرت سے شغف ركھنے والے طلبہ اور خاتم الانبیاء والمرسلین ﷺ کی حیات طیبہ کے شیدائیوں کے لئے یہ ”موسوعہ“ اہم مرجع ہے۔
حضرت مولانا ندوی صاحب کے اس ضخیم موسوعہ میں سیرت نگاروں کی ان موشگافیوں اور نکتہ چینیوں کا رد بھی ہے جن کو نبوت کے فطری وروحانی آثار پر اطمینان اور بھروسہ نہیں ہے، جس کی وجہ سے انھوں نے رسول اللہ ﷺکے بعض مادی معجزوں کا اس لئے انکار کر دیا کہ وہ عقل و تجربہ کے دائرہ میں نہیں آتے، اسی طرح اس کتاب میں روافض کے اختراع کردہ حدیثی اجزاء کا بھی رد ملے گا، ایسی مثالوں میں حضرت ابو طالب کے اسلام کے بارے میں ان کا خاص نظریہ ہے، علاوہ ازیں بہت سے احکام اور ہیں، نماز، جانور کا گوشت اور خالہ کے لئے حق حضانت کا حکم بھی اس فہرست میں آتا ہے، جن کے بارے میں اہل سنت والجماعت کے خلاف روافض مخصوص نظریات کے حامل ہیں۔
الغرض یہ کتاب ”محمدرسول اللہﷺرحمۃ للعالمین“ عقل کو غذا فراہم کرتی ہے، وجدان و ذوق کو پاکیزہ بناتی ہے، شخصیت کو اجاگر کرتی ہے، عقیدہ کو مضبوط کرتی ہے، ایمان کو قوت بخشتی ہے، یہ کتاب مستند علمی حقائق سے بھرپور ہے، اور رسول اللہ ﷺ، خلفائے راشدین، صحابہ کرام، امہات المؤمنین اور وہ خاص خاص صحابہ رضی اللہ عنہم جنھوں نے ایمان و اخلاق اور ایثار و جہاد کی داستانیں رقم كي ہیں ان سب کے حالات اور مستند علمی حقائق سے يہ كتاب آراستہ ہے، اسی كے ساتھ اس كتاب ميں ان كا بھی ذكر ہے جنھوں نے خودمختار ریاستوں کو زیرنگیں کیا، ظالموں اور باغيوں كو مغلوب کیا، خواہ وہ آتش پرست مجوس ہوں یا صلیب كے ماننے والے نصارىٰ، اس كتاب ميں سب كے حالات درج ہيں۔
اس عظیم تالیف سے واضح ہے کہ جدید مؤلفین اور عیسائی ومغربی اور بے دین مصنفین كی كتابيں بھی ان كے سامنے ہیں اور وہ ایک ایک کر کے ان کے اعتراضات کا جواب دے رہے ہیں، گویا یہ فاضلانہ تصنیف ان مصنفین کی جہالتوں اور بے اعتدالیوں کے جواب میں لکھی گئی ہے، اور یورپین مصنفین نے منصوبہ بند پروپیگنڈه کے تحت دشمنان اسلام اور ملت کے مخالفین کی خوشنودی اور ان سے مالی مکافات حاصل کرنے کے لئے ہی دفتر کے دفتر تیار کئے تاکہ اس راہ سے امت مسلمہ کے ان فرزندوں سے سودا کیا جا سکے جنھوں نے حق کے راستے سے دور ہو کر اہل ایمان کے علاوہ دوسروں کا طریقہ اختیار کر لیا اور اسلام کے مقدس اور بنیادی احکام پر طعن و تشنیع کی مذموم حرکت شروع کر دی۔
اللہ تعالیٰ اس عظیم الشان ایمانی ذخیرہ (سيرت انسائيكلوپيڈيا) پر شیخ تقی الدین ندوی کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ انھوں نے ایسا ممتاز ونادر سیرت کا مجموعہ تیار فرما دیا ہے، اللہ تعالیٰ سے ہم دعا کرتے ہیں کہ اس عظیم المرتبت کتاب کو مقبول و نافع اور امت کے لئے منارۀ نور بنائے۔
اس كتاب كے بارے ميں شيخ الاسلام حضرت مولانا محمد تقى عثمانى صاحب مدظلهم تحرير فرماتے ہيں:
حضرت مولانا ڈاكٹر تقى الدين ندوى صاحب مدظلهم العالى ہمارے دور كى ايسى علمى شخصيت ہيں جن كا تصور كركے اپنے زمانے ميں قحط الرجال كے غم ميں بہت تخفيف ہوتى ہے۔ الله تبارک وتعالى نے اُن سے بہت سى علمى اور دينى خدمات لى ہيں جن ميں علمِ حديث كى خدمت بہت نماياں ہے كہ انھوں نے اس علم كے بہت سے خزانوں كو اپنى تحقيقى كاوشوں سے آراستہ كركے شائع كيا ہے۔
ماشاء الله موصوف نے سيرت طيّبہ كو نہايت شرح وبسط كے ساتھ بيان فرمايا ہے اور اپنى تحقيق كے مطابق روايات كى صحت كو بھى حتى الامكان پيش نظر ركھا ہے۔ تين جلدوں ميں يہ كتاب عربِ جاهليت اور بعثت كے وقت دنيا كى حالت سے ليكر نبى كريم ﷺ كى وفات تک كے واقعات تفصيل سے بيان فرمائے گئے ہيں، اور آپ ﷺ كے بعد آپ ﷺ كے آثار اور اخلاق جميلہ پر مفصل گفتگو ہے۔ پھر آخر ميں معجزات، مستشرقين اور خلافتِ راشده كے مقام ومرتبہ پر تحقيقى مباحث شامل كئے گئے ہيں۔
واقعات كى ترتيب اور اندازِ بيان اتنا متين اور دلكش ہے كہ پورى كتاب پڑھنے كو دل چاهتا ہے۔ الله تعالى مجھے اس كى توفيق عطا فرمائيں۔ آمين
يہ كتاب عربى زبان ميں تين جلدوں ميں دارالقلم دمشق سے طبع ہوچكى ہے، جس كے مجموعى صفحات (١٨٢٦) ہيں، اردو زبان ميں یہ کتاب مركز الشيخ ابو الحسن ندوى مظفر پور اعظم گڑھ سے طبع ہوئى ہے، جس كے مجموعى صفحات (١٩٥٨) ہيں۔
الله تعالى مؤلف كى كاوش كو قبول فرمائے اور ان كو بہترين بدلہ عطا فرمائے۔