🌴شکیل منصور القاسمی 🌴
دنیا میں آنا در اصل یہاں سے جانے کی تمہید ہے ، جو بھی آیا ہے ،جانے ہی کے لئے آیا ہے ۔موت زندگی کی سب سے بڑی اور اٹل حقیقیت ہے۔ہر نفس کو اس کا ذائقہ چکھنا ہے۔کسی کو بھی اس سے فرار ممکن نہیں۔انسان خاکی ہے ،موت اسے خاک میں ملادیتی ہے (سوائے انبیاء کرام )
بڑے بڑے سورما آئے اور چلے گئے ۔لاکھوں کڑوروں خاک میں پنہاں ہورہے ہیں۔موت کو شکست دینا ممکن نہیں ۔
لیکن خدمت ، ایثار ، کارنامے ،جذبے ،اوصاف وکمالات، جدوجہد ،مجاہدہ وریاضت موت کو بھی شکست دیدیتی ہیں، ہزاروں لوگ مرتے ہیں ؛ لیکن موت کے بعد دلوں میں دھڑکنے اور زندہ رہنے والے چند ہی بانصیب لوگ ہوتے ہیں ۔ جو مرکے بھی نہیں مرتے بلکہ موت کے منہ سے بھی زندہ بچ جاتے ہیں۔
مادر علمی دار العلوم دیوبند کے سابق ممتاز فاضل ، اکابر دیوبند کے معتمد وتربیت یافتہ حضرت مولانا شفیق عالم قاسمی آج روز منگل یکم ؍رجب المرجب 1444ھ24؍جنوری2023ء
ہزاروں محبین ومعتقدین کو بلکتے ،سسکتے اور ہچکیاں مارتے ہوئے چھوڑ کے آسودہ خواب ہوگئے اور وہاں چلے گئے جہاں ہم سب کو بالآخر جاناہے ۔لیکن آپ کا جانا عام لوگوں کی طرح نہیں ہے۔آپ نے آٹھ دہائیوں پہ محیط حیات مستعار کو بے لوث دینی ، تعلیمی ، ملی اور قومی خدمات میں صرف کردی ۔ موت انسانی جسم کو کھا تو سکتی ہے لیکن اس کے کارناموں کو چھو بھی نہیں سکتی۔
مرنا سب کو ہے اور مرتا بھی ہر کوئی ہے ! لیکن اصل کمال اس کا ہے جو مرکے بھی نہ مرے! جو موت کے منہ میں جاکے بھی زندہ رہے !!
ضلع بیگوسرائے کے بزرگ ترین مؤقر عالم دین حضرت مولانا محمد شفیق عالم صاحب قاسمی رحمہ اللہ جسم خاکی سے گوکہ خاک میں پنہاں ہوچکے ؛ لیکن موت کا بے رحم پنجہ ان کے کارناموں کی معطر کلیوں کو مسل نہیں سکتا !! ان کے متنوع محاسن و محامد اور خدمات اور حسن خلق کی خوشبو کو خزاں نہیں پہونچ سکتی!
افکار واعمال میں وسطیت اور میانہ روی کے ساتھ تحمل و برداشت، عفو و درگزر ، حلم مزاجی ، خندہ پیشانی ، رواداری، اخوت و مساوات ، اتحاد ویگانگت اور تمام دینی اداروں ، افراد واشخاص اور قوم وملت کے تئیں ان کی خدمات کا اعتراف و احترام آپ کا وصف ممتاز تھا ، شخصیت انتہائی متواضع تھی ، چال ڈھال انتہائی شریفانہ تھی ، جس میں نہ کو ئی اینٹھ اور اکڑ تھی ، نہ ہی مریَل پن، جب تک زندہ رہے بڑی معقولیت ، حکمت وتدبر ، بالغ نظری اور دور اندیشی کے ساتھ لازوال ، دینی ، علمی ، ملکی ، ملی اور اصلاحی خدمات پیش کیں ، جو لوح تاریخ پہ ثبت رہیں گی ان شاء اللہ ۔
حق جل مجدہ آپ کی مغفرت کرے اور خلد بریں کا مکیں بنائے ، آپ صوبہ بہار کا قیمتی سرمایہ اور متاع گراں مایہ تھے ، بالخصوص بیگوسرائے کے ماتھے کا جھومر تھے
اکابر دیوبند کے اخلاق واقدار کے امین اور ان کے افکار و نظریات کے سچے ترجمان تھے ، آپ کی رحلت صاعقہ اثر بلا امتیاز اہالیان بیگوسرائے کے لئے عظیم خسارہ ہے ۔ اللہ تعالی اس کی تلافی فرمائے ، آپ کو خلد بریں کا مکیں بنائے ، بلند رتبوں سے نوازے ، دینی ، دعوتی ، علمی ،تحقیقی ، اصلاحی اور ملی وفلاحی بے لوث ومخلصانہ خدمات کو آپ کے لئے زاد راہ اور صدقہ جاریہ بنائے ، امت مسلمہ کو آپ کا نعم البدل عطا کرے ۔
حضرت رحمہ اللہ کی رحلت کا صدمہ صرف ان کے خانوادے یا جامعہ رشید یہ بیگوسرائے کا تنہا صدمہ نہیں ؛ بلکہ ضلع بھر کے تمام علماء حقہ اور ملی تنظیموں کا اجتماعی صدمہ ہے ،آپ کی وفات حسرت آیات ہم تمام کے لئے بڑا خسارہ ہے ، ہم سب ایک دوسرے کی طرف سے تعزیت مسنونہ کے مستحق ہیں ،بالخصوص میرے مخلص دوست اور ممتاز فاضل مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی زید مجدہ اور ان کے برادرانِ نسبتی
کو سب سے زیادہ خصوصی تعزیت وتسلی کا مستحق سمجھتے ہیں اور انہیں بطور خاص تعزیت مسنونہ پیش کرتے ہیں اور دعاء کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ان کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے ، جملہ لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔ نماز جنازہ میں علماء، ملّی،سیاسی،سماجی اور عوامی نمائندگان کے ساتھ ساتھ حلقہ کے دانشوران و عام لوگوں کی کثیر تعداد شریک رہی۔ ہزاروں پُر نم آنکھوں کے ساتھ آج بعد ظہر آپ سپرد خاک ہوگئے ، آپ کا انتقال پُر ملال روز پیر ۲۳ جنوری ۲۰۲۳ کو مقامی ہسپتال میں ہارٹ اٹک کے باعث ہوا تھا ۔
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے ؟
شکیل منصور القاسمی
بیگوسرائے / بہار
(منگل یکم ؍رجب المرجب 1444ھ24؍جنوری2023ء)