مجموعہ مکاتیب امام ربانی مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ: ایک تعارف

مکاتیب رشیدیہ [اشاعت جدید]
تعارف
از مولانا مفتی محمود اشرف عثمانی رحمہ اللہ
الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ وَالصَّلوةُ وَالسَّلَامُ عَلي سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّالِهِ وَصَحْبِهِ أَجْمَعِينَ
أما بعد!
مکاتیب کے ذریعہ تبلیغ، تعلیم اور تربیت کا سلسلہ نبی اکرم رحمت للعالمین سیدنا احمد مصطفی محمد مجتبی ﷺ کی سنت ہے۔ آپ نے جس طرح مختلف مقامات پر تشریف لے جا کر دین کی تبلیغ اور اعلاء کلمتہ اللہ کا فریضہ انجام دیا، اسی طرح اپنے مکاتیب طیبہ کے ذریعہ غیر مسلموں کو دعوتِ اسلام دینے کیلئے اہم مکاتیب تحریر فرمائے اور مختلف صحابہؓ اور قاصدوں کے ذریعہ یہ مکاتیب ، مکتوب الیہ تک پہنچائے گئے۔ نیز جو صحابہؓ کرام آپ سے دُور تھے انہیں آپ نے اپنے مکاتیب کے ذریعہ شرعی احکام سے آگاہ کیا۔ رسول اللہ ﷺ کے مکاتیب مبارکہ پر کئی کتابیں مرتب ہو چکی ہیں اور سیرت طیبہ کی ہر اہم کتاب میں مکاتیب کے ذریعہ دینی تبلیغ کا پورا باب موجود ہوتا ہے جس میں مکاتیب بہت احتیاط سے نقل کئے جاتے ہیں۔ مکاتیب کے ذریعہ تبلیغ اور تعلیم و تربیت کا یہ سلسلہ خیر القرون سے اب تک جاری ہے ۔ صحابہؓ کرام ، تابعین کرام اورتبع تابعین کی سوانح حیات میں اُن کے مکاتیب محفوظ چلے آرہے ہیں۔ قریبی دور میں امامِ ربانی حضرت مجددالف ثانی رحمہ اللہ کے مکتوبات ، نصیحت و ہدایت اور اصلاح و ارشاد کا اہم ذریعہ ثابت ہوئے اور حضرت مجد دالف ثانی رحمہ اللہ نے دین کی جو اہم خدمت انجام دی اُس کا ایک بڑا حصہ اُن کے قیمتی مکاتیب تھے جو اب دو بڑی جلدوں میں محفوظ اور دستیاب ہیں۔ اس کے بعد حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانامحمد اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کے مکاتیب بہت تیر بہدف ثابت ہوئے اور ان کے ذریعہ ہزاروں لوگوں کی اصلاح ہوئی، اُن کی دینی الجھنیں دُور ہوئیں، اور مکاتیب کے ذریعہ اُن کی اصلاح وارشاد کا اہم کام انجام پایا۔ حضرت تھانوی کے مکاتیب بھی الحمد اللہ بڑی تعداد میں محفوظ ہیں۔ تربیت السالک کی ضخیم جلدیں، حضرت مفتی محمد شفیع صاحب کی "مکاتیب حکیم الامت”، حضرت مولانا عبد الرحمن کامل پوری کی "عبادۃ الرحمن” اور ان جیسے دوسرے مجموعے آج بھی مخلوق خدا کی ہدایت و اصلاح کا ذریعہ ثابت ہورہے ہیں۔
دینی مکاتیب کی اس درخشاں تاریخ میں شیخ المشائخ ، قطب الارشاد، فقیہ النفس حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی قدس اللہ سرہ کے مکاتیب جو مکاتیب رشیدیہ کے نام سے جمع کئے گئے ، شریعت و طریقت کی جامعیت کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہیں۔ ان میں توحید الہی ، اتباع سنت کے جلال و جمال اور شریعت وطریقت کے اصولوں کو مضبوطی سے تھامنے کی تاکید کے ساتھ خط لکھنے والے عظیم المرتبت شیخ وقت کی عبدیت اور فنائیت کی قلبی کیفیت اتنی خوبصورتی اور توازن کے ساتھ نمایاں ہوتی ہے جس کی مثال خیر القرون کے بعد کے مکاتیب میں کم نظر آتی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت دار العلوم دیوبند، مظاہر العلوم سہارنپور، خانقاہ امدادیہ تھانہ بھون سے متعلق دنیا میں جتنے معتبر سلسلے علماء و مشائخ دیوبند کے نظر آتے ہیں اُن سب کی انتہاء حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی قدس سرہ پر ہوتی ہے۔ تھانوی سلسلہ ہو یا مدنی، رائپوری سلسلہ ہو یا حضرت شیخ الحدیث کا سلسلہ، یا علماء دیوبند اور مشائخ دیو بند کا کوئی اور سلسلہ تصوف ، سب کی انتہاء حضرت گنگوہی قدس سرہ پر ہی ہوتی ہے، اس لئے حضرت گنگوہی کو "قطب الارشاد” کا لقب دیا گیا ہے۔ فن تصوف میں تزکیۂ نفس اور امراض باطنی کے علاج کی جو اہمیت ہے وہ کسی صاحب نظر سے پوشیدہ نہیں۔ امراض باطنی کے علاج اور اخلاق نبویہ کے حصول پر اس دور کی مستند اور نافع ترین کتاب ” تربیت السالک” سمجھی جاتی ہے جو حضرت تھانوی قدس سرہ کے خلفاء و مریدین کے اُن مکاتیب پر مشتمل ہے جن میں اُنہوں نے اپنی باطنی کیفیات اور اُلجھنیں حضرت تھانوی کی خدمت میں پیش کیں اور حضرت نے اُن کا علاج تجویز کیا ، یا اُن باطنی کیفیات کی حقیقت اور درجہ بیان کر کے سالکین کیلئے صراط مستقیم اور راہ حق کو واضح اور آسان کر دیا۔
تربیت السالک کے شروع میں حکیم الامت مجد والملت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی نے خود تحریر فرمایا ہے:

الْحَمْدُ للهِ وَلَهُ المَنَّة کہ شیخین جلیلین حضرت مولانا و مرشدنا الحافظ الحاج شاہ محمد امداد اللہ صاحب تھانوی ثم المکی اور اُن کے خلیفہ اعظم حضرت مولانا و بادینا الحافظ الحاج رشید احمد صاحب گنگوہی قدس سرهما و عم برهما کی خدمات بابرکات کی حاضری و کثرت لزوم کی بدولت اس تربیت کے اصول صحیحہ جو گوش و ہوش تک پہنچے وہ اپنے لئے بھی اور دوسرے طالبین کیلئے بھی غلطیوں سے نکالنے والے اور تشویش و کلفت سے بچانے والے اور امرِ حق تک پہنچانے والے اور شفا و جمعیت بخشنے والے ثابت ہوئے ۔ ( تربیت السالک ،ص:۵، خطبہ ) حضرت تھانوی قدس سرہ کو خلافت تو حضرت حاجی امداداللہ صاحب مہاجر مکی رحمہ اللہ سے حاصل تھی لیکن اُنہوں نے زیادہ استفادہ حضرت گنگوہی رحمہ اللہ سے کیا، جس کا اظہار انہوں نے کئی جگہ کیا ہے۔ حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے علاوہ استاذ المحدثین حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوری رحمہ اللہ کو بھی خلافت حضرت حاجی صاحب رحمہ اللہ سے تھی ،مگر تربیت و استفادہ حضرت گنگوہی رحمہ اللہ سے کیا ۔ ( تذکرۃ الرشید : ۱۵۴/۲)
ان دو نامور جلیل القدر ہستیوں کے علاوہ حضرت گنگوہی رحمہ اللہ کے خلفاء میں مزید وہ عظیم ہستیاں شامل ہیں جن سے پوری دنیا میں علم و تصوف اور دینِ حق کا نور پھیلا ہے، جن میں :
شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحب رحمہ اللہ (متوفی ۱۳۳۹ھ)
حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب رائے پوری رحمہ اللہ (متوفی ۱۳۳۷ھ )
حضرت مولانا صدیق احمد صاحب انبیٹهوی رحمہ اللہ (متوفی ۱۳۴۴ھ)
حضرت مولانا محمد صدیق صاحب مہاجر مدنی رحمہ اللہ (متوفی ۱۳۳۱ھ )
حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی رحمہ اللہ ( متوفی ۱۳۷۷ھ )
حضرت مولانا محمد یاسین نگینوی صاحب رحمہ اللہ (متوفی ۱۳۶۰ھ)
حضرت مولانا صادق الیقین صاحب رحمہ اللہ ( متوفی ۱۳۲۴ھ)
حضرت مولانا محمد مظہر صاحب نانوتوی رحمہ اللہ ( متوفی ۱۳۰۲ھ)
حضرت مولانا محمد عاشق الہی صاحب میرٹھی رحمہ اللہ (متوفی ۱۳۶۰ھ )
نیز تبلیغی جماعت کے بانی حضرت مولانا محمد الیاس صاحب کاندھلوی رحمہ اللہ ( متوفی ۱۳۶۳ ھ ) اور حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی رحمہ اللہ کے والد ماجد حضرت مولانا محمد یحیی صاحب کاندھلوی رحمہ اللہ ( متوفی ۱۳۳۴ھ) بھی حضرت گنگوہی رحمہ اللہ کے تربیت یافتہ حضرات میں سر فہرست ہیں ۔ ( تذکرۃ الرشید : ۱۶۰/۲) ان مبارک ناموں سے ہی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان مقدس ہستیوں کی تربیت جس شیخ نے کی ہوگی اُس کا اپنا کیا مقام ہوگا؟ اسی لئے ان سب کے شیخ و مرشد حضرت گنگوہی کو قطب الارشاد کہنا کچھ بے حق نہیں، بلکہ برحق ہے۔ اب ۱۴۴۰ ھ میں جبکہ حضرت گنگوہی کی وفات کو (۱۳۲۳ھ ) ایک سو بیس سال کے قریب ہونے والے ہیں ، اور حضرت گنگوہی کے تربیت یافتہ خلفاء اور مجازین کے چلے جانے کے بعد پوری دنیا میں اُن کے خلفاء ومریدین کی چوتھی پانچویں نسل شریعت و طریقت کے میدان میں کام کر رہی ہے، اس کی بہت ضرورت ہے کہ اس موجودہ نسل اور آنے والی نسل کے مشائخ و سالکین کو حضرت گنگوہی اور اُن کے تربیت یافتہ خلفاء کا اصل طریق معلوم ہو ۔ اور اگر اُن کیلئے زیادہ معلومات حاصل کرنا دشوار ہو تو کم از کم تذکرۃ الرشید، مکاتیب رشیدیہ، تذکرۃ الخلیل، اشرف السوانح اور حضرت تھانوی کے اہم مواعظ و ملفوظات اُن کے سامنے رہیں، اور اُن کی روشنی میں وہ اصلاح و ارشاد کا کام سر انجام دیں، تا کہ شریعت و طریقت کی جامعیت اُن کے ہاتھوں سے نہ چھوٹے۔
ان کتابوں میں سے ایک اہم کتاب یہ مکاتیب رشیدیہ ہے جو اس وقت آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ ان مکاتیب کی نسبت حضرت گنگوہی رحمہ اللہ کی طرف ہے، شروع میں کچھ مکاتیب وہ ہیں جو حضرت گنگوہی رحمہ اللہ کو اُن کے شیخ و مرشد حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ نے لکھے تھے، پھر وہ مکاتیب ہیں جو حضرت گنگوہی رحمہ اللہ نے اپنے خلفاء کے خطوط کے جواب میں تحریر فرمائے تھے ۔ حضرت گنگوہی رحمہ اللہ کے ان مکاتیب کی کیا تعریف کی جائے ! یہ اپنی مثال آپ ہیں۔ یہ ایک طرف حق تعالیٰ کی توحید حقیقی ، شریعت و طریقت کے جلال و جمال کا مثالی نمونہ ہیں تو دوسری طرف حضرت کی عبدیت، تواضع اور فنائیت کا وہ اُسوہ ہیں جسے اب آنکھیں تلاش کرتی ہیں۔ اپنے آپ کو مٹا کر اور عبدیت و فنائیت کا مظہر بن کر حضرت گنگوہی رحمہ اللہ نے شریعت و طریقت کے جلال و جمال اور حق تعالیٰ کی عظمت و کبریائی کی وہ تعلیم دی ہے جس سے ایمان تازہ ہوتا ہے اور دل میں حق تعالیٰ کی خشیت و محبت بھرتی چلی جاتی ہے۔ اپنی عبدیت و فنائیت کے ساتھ حق تعالیٰ کی عظمت و کبریائی کی یہ تعلیم حضرت گنگوہی رحمہ اللہ اور پھر اُن کے خلفاء و تربیت یافتہ حضرات ہی کا مقام ہے، جس کی مثال اور جگہوں میں نہیں ملتی اور ” مکاتیب رشید یہ” اس کا بہترین مظہر ہیں۔

مکاتیب رشیدیہ کی پہلی اشاعت ۱۳۲۳ھ میں حضرت گنگوہی رحمہ اللہ کی وفات کے بعد ہوئی ، جبکہ اُن کے خلیفہ ارشد حضرت مولانا محمد عاشق الہی میرٹھی نے اہم مکاتیب جمع کر کے شائع فرمائے تھے۔ یہ مکاتیب اسی شکل میں شائع ہوتے رہے اور اہلِ نظر ان سے استفادہ کرتے رہے۔ پھر احقر محمود اشرف غفر اللہ کو اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق عطا فرمائی کہ تذکرۃ الرشید اور تالیفات رشیدیہ کی طباعت و اشاعت کا موقع ملا، اور ان دونوں کتابوں کی اشاعت کے بعد مکاتیب رشیدیہ جمع کرنے اور انہیں شائع کرنے کا داعیہ دل میں پیدا ہوا۔ احقر نے اپنے ساتھی عزیز مکرم مولانا عبد الملک العتیق مہاجر مدنی سلمہ اللہ تعالی کے ذریعہ مزید مکاتیب تلاش کئے اور ۱۴۱۲ ھ میں متعدد مکاتیب کے اضافہ کے بعد اشاعت ثانیہ ہوئی۔ الحمد للہ کہ احقر کے اکابر نے اسے پسند کیا اور خصوصا محسنی و مشفقی حضرت سید نفیس شاہ صاحب رحمہ اللہ نے ہمت افزائی کے ساتھ مکاتیب رشیدیہ کا سرورق خود اپنے قلم سے تحریر فرمایا۔ مگر ۱۴۱۶ھ میں شائع کئے جانے والا نسخہ ہاتھ کی کتابت کے ساتھ طبع کیا گیا تھا، نیز اس وقت پیش نظر یہ بات تھی کہ حضرت گنگوہی کے جملہ مکاتیب جو کہیں بھی دستیاب ہوں وہ یکجا کر کے ایک مرتبہ محفوظ کر دیئے جائیں، تا کہ مرور زمانہ کی بناء پر وہ ضائع ہونے سے بچ سکیں۔ اس طرح بحمد اللہ یہ مکاتیب مجلد ایڈیشن میں شائع ہوکر اہل نظر کے ہاتھوں اور لائبریریوں میں محفوظ ہو گئے۔ لیکن دو قسم کی ضرورت باقی تھی، ایک یہ کہ جدید کمپوزنگ کے ذریعہ بہتر انداز سے اس کی اشاعت ہو، اور دوسرے یہ کہ مکاتیب کے مشکل الفاظ اور جملوں کی تسہیل کی جائے ، کیونکہ حضرت گنگوہی کے دور میں وہ اردو زبان جو عملاً رائج تھی اُس میں زیادہ تر فارسی اور کئی جگہ عربی اور ہندی کے الفاظ بکثرت استعمال ہوتے تھے، اُس دور کے کم پڑھے لکھے لوگ بھی وہ آسانی سے سمجھ لیتے تھے لیکن موجودہ زمانہ میں زبان کی تبدیلی کی وجہ سے ان جملوں اور الفاظ کو سمجھنا پڑھے لکھے حضرات کیلئے بھی مشکل ہو گیا ہے، اور جب تک ہندی کی چندی نہ کی جائے بات سمجھ نہیں آتی ، اس وجہ سے الفاظ کی تشریح اور تسہیل کی ضرورت تھی ۔
اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے جو ان صالح عزیز القدر مولوی محمد حذیفہ سلمہ کو جودارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی میں بطور رفیق دارالافتاء ہمارے ساتھ فتویٰ کی خدمت انجام دیتے ہیں، انہیں اپنی سلامت فکر کی بناء پر ان مکاتیب سے محبت ہوئی اور انہوں نے احقر کی خواہش پر ان مکاتیب کی جدید کمپوزنگ کرتے ہوئے ان مکاتیب کے حاشیہ پر مشکل الفاظ اورجملوں کی تسہیل و تشریح کی اہم خدمت انجام دی، جس کی تفصیل اُن کے پیش لفظ میں موجود ہے۔ اُن کی خواہش پر احقر نے بھی بعض جگہوں میں تشریحی نوٹ تحریر کئے اُن کے آخر میں احقر کا نام درج ہے۔ اصل مکاتیب کو بجسم اور بلفظ محفوظ کرنے کے ساتھ حواشی میں بھی اس کا التزام کیا گیا کہ ہر حاشیہ دوسرے سے ممتاز ہو اور جس نے جو لکھا وہ اسی کی طرف منسوب ہو۔ عزیز موصوف سلمہ کی خواہش پر احقر نے وہ حواشی بھی پڑھے جو انہوں نے خود تحریر کئے تھے اور اُن کی خواہش کے مطابق اُن میں ترمیم یا اختصار بھی کیا۔ دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کی محنت اور احقر کی اس حقیر کوشش کو قبول فرمائیں ہمارے لئے اسے صدقہ جاریہ اور ذریعہ نجات بنائیں اور مکاتیب رشیدیہ کی نئی طباعت کے ذریعہ حضرت گنگوہی کے انوار و فیوض سے سلسلہ کے مشائخ و علما ء اور ہم سب کو منو رفرما ئیں ۔ آمین ! الحمد للہ کہ آج سات شعبان ۱۴۴۱ھ کو ایک بار پھر ان مبارک مکاتیب کا مطالعہ کرنے اور حواشی پر نظر ثانی کا کام کرنے کی توفیق ملی اور کام مکمل ہوا،
محمود اشرف غفر اللہ لہ و عفا عنہ ( ورحم الله عبداً قال آمینا)
۷ رشعبان ۱۴۴۱ هجری قمری
یکم اپریل ۲۰۲۰ شمسی

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے