مولانا بلال اصغر دیوبندیؒ: حیات و خدمات مع مختصر خاندانی احوال
بقلم: محمد روح الامین
شب جمعہ یعنی 26 جمادی الاخری 1444ھ بہ مطابق 19 جنوری 2023ء بعد نماز عشاء مولانا بلال اصغر انصاری دیوبندی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) ہجری تقویم کے اعتبار سے 90 سال کی عمر میں اور شمسی تقویم کے لحاظ سے 87 سال کی عمر میں اس دارِ فنا سے دارِ بقا کی طرف کوچ کر گئے۔ انھوں نے 1402ھ بہ مطابق 1982ء سے 1444ھ بہ مطابق 2022ء تک (شمسی تقویم کے لحاظ سے) تقریباً چالیس یا (قمری تقویم کے لحاظ سے) بیالیس سال دار العلوم دیوبند میں تدریسی خدمات انجام دیں اور اس سے قبل بھی دار العلوم دیوبند میں بحیثیت مبلغ خدمات انجام دیں۔ مولانا مرحوم کی ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ وہ اپنے والد بزرگوار کی طرح اپنی بات رکھنے میں کسی سے کسی بھی قسم کا خوف نہیں رکھتے تھے اور نہ ہی حقائق کو پیش کرنے میں کسی طرح کی شرمندگی یا معذرت خواہ خواہی۔ مولانا مرحوم کی خصوصیات میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ کثرت سے تلاوت اللّٰہ کیا کرتے تھے؛ یہاں تک کہ تہجد کے وقت ان اور ان کے بھائی حافظ محمد سالم دیوبندیؒ کی تلاوت کی آواز پڑوس میں بھی جایا کرتی تھی۔
نوٹ: اس تحریر کی بہت سی باتیں مولانا مرحوم کے بھتیجے مولانا محمد حسان غانم قاسمی اور مولانا مرحوم کے برادر اصغر مولانا محمد غانم قاسمی کے ذریعے معلوم ہوئیں اور بعض معلومات مولانا محمد اللّٰہ خلیلی قاسمی سے بھی حاصل کی گئیں، اسی طرح بہت سی تعلیمی و تدریسی تفصیلات مولانا ابو زرعہ فلاحی کی عربی تحریر سے لی گئیں، بعض چیزوں میں تاریخ دار العلوم دیوبند از سید محبوب رضویؒ و دار العلوم دیوبند کی صد سالہ زندگی از قاری محمد طیب قاسمیؒ سے بھی استفادہ کیا گیا اور اور بعض اپنی تحقیقات بھی پیش کی گئیں، بہت سی غلطیاں نشان دہی کرنے پر درست کی گئیں۔)
ولادت و تعلیم اور خاندان
مولانا 13 رمضان 1354ھ (بہ مطابق 10 دسمبر 1935ء) کو دیوبند میں پیدا ہوئے۔ تاریخی نام ’’بلال اصغر‘‘ رکھا گیا تھا، جس سے ان کی ولادت کا قمری سال 1354ھ نکلتا ہے۔ ابو زرعہ فلاحی صاحب کی تحریر کے مطابق تاریخ ولادت 12 اگست 1937ء ہے اور انھوں نے اپنی تحریر میں یہ بھی لکھا ہے کہ خود مولانا بلال اصغر دیوبندیؒ نے انھیں ان کی تحریر کی باتیں کچھ سال پہلے املا کروائی تھیں (کیلنڈرز میں 13 رمضان 1354ھ کی مطابقت 9 دسمبر 1935ء نکل کر آتی ہے، 9 دسمبر کے بجائے ہندوستان میں تاریخ 10 دسمبر کی ہو سکتی ہے؛ کیوں کہ سعودی عرب میں عموماً چاند ایک دن پہلے نکلتا ہے؛ مگر 12 اگست 1937ء قطعاً نہیں ہو سکتی؛ بہرحال ہجری تاریخ پیدائش یعنی 13 رمضان 1354 ہجری، مسلم اور تصدیق شدہ ہے)۔ مولانا مرحوم کا خانوادہ نجیب الطرفین یعنی دادیہالی و نانیہالی دونوں جانب سے بڑا علمی اور مبارک رہا ہے کہ ان کے علاوہ ان کے والد مولانا عبد الاحد دیوبندیؒ (1911–1979ء)، ان کے دادا مولانا عبد السمیع دیوبندیؒ (1878–1947ء، خاندانی سجع: المتشبث باذیال الباری المعروف بمحمد عبد السمیع الانصاری)، اور نانا مولانا عبد الشکور دیوبندی مہاجر مدنیؒ (متوفی: 1963ء، مدفونِ جنت البقیع) بھی دار العلوم دیوبند میں تدریسی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ مرکزی جامع مسجد دیوبند کے بانیوں حاجی عابد حسین دیوبندیؒ کے علاوہ مولانا مرحوم کے نانا مولانا عبد الشکور بن نور الحسن بن عبد الخالق بن شمس الدین دیوبندیؒ کے پردادا مولانا فقیر عبد الخالق دیوبندیؒ بھی شامل تھے (بحوالہ ’’التقریر للترمذی‘‘، ص: 23 و تاریخ دار العلوم جلد دوم، مطبوعہ: ، ص: 111)، قیامِ دار العلوم دیوبند کے لیے ابتدائی انفرادی چندے کے بعد سفید مسجد میں جو پہلا عوامی چندہ ہوا تھا اس میں مولانا ظہور الدین دیوبندیؒ پیش پیش تھے اور انھوں نے دیوبند کے مشہور و معروف رئیس اور قاری محمد طیب دیوبندیؒ کے بہنوئی (دار العلوم اور دیوبند کی تاریخی شخصیات، ص: 128) سید محتشم دیوبندیؒ کے بزرگوں سے دار العلوم دیوبند کے لیے بھاری چندہ دلوایا تھا، نیز بعد میں انھیں مجلسِ شوریٰ کا باقاعدہ رکن منتخب کیا گیا اور وہ (مولانا ظہور الدین دیوبندی) 1311 یا 1312 تا 1323ھ بہ مطابق 1894 تا 1905ء تقریباً بارہ سال دار العلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے رکن رہے ہیں (ان کے ایک ہم نام مولانا خورشید عالم دیوبندیؒ کے والد، مولانا ظہور احمد دیوبندیؒ (1900–1963ء) تھے جو دار العلوم دیوبند کے استاذ تھے اور خود مولانا بلال اصغر صاحب کے اساتذہ میں شامل ہیں، بعض تحریروں میں مولانا کے پردادا کو بھی دار العلوم دیوبند کا استاذ بتلایا گیا ہے، شاید انھیں مولانا ظہور احمد دیوبندیؒ والدِ مولانا خورشید عالم دیوبندیؒ کے ہم نام ہونے کی وجہ سے جوکہ درست نہیں ہے)۔ مولانا بلال اصغر صاحب خود کو انصاری لکھا کرتے تھے کہ ان کا خاندانی سلسلہ میزبانِ رسول حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ عنہ تک پہنچتا ہے۔
ایک قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ قیامِ دار العلوم دیوبند کے وقت اور رکنِ مجلس شوریٰ دار العلوم دیوبند رہتے ہوئے مولانا بلال اصغر کے پر دادا مولانا ظہور الدین دیوبندیؒ کی خدمات کے علاوہ؛ 1329ھ بہ مطابق 1911ء میں ان کے دادا مولانا عبد السمیع دیوبندیؒ کا تقرر بحیثیت مدرس دار العلوم دیوبند میں ہوا اور اس وقت سے مولانا بلال اصغر دیوبندیؒ کے دار العلوم دیوبند سے سبکدوش ہونے یعنی 1444ھ بہ مطابق 2022ء تک مولانا کے خاندان کا دار العلوم دیوبند میں تدریسی عرصہ کل 111 سال کا رہا ہے۔
مولانا بلال اصغر صاحب کے نانا مولانا عبد الشکور دیوبندیؒ کے پر دادا مولانا مولانا شمس الدین دیوبندیؒ حضرت سید احمد شہید بریلویؒ کے حلقۂ ارادت میں شامل تھے۔ (تاریخ دار العلوم جلد دوم، مطبوعہ: ، ص: 111–112)
مولانا نے اپنے دادا مولانا عبد السمیع دیوبندیؒ سے دس پارے بغیر قرآن دیکھے حفظ کیے، پھر اردو لکھنا، پڑھنا اپنی والدہ ’’مومنہ خاتونؒ‘‘ سے سیکھا اور اردو کی بعض کتابیں بھی ان سے پڑھیں۔ مولانا حسان غانم قاسمی کے بیان کے مطابق دس پارے اپنے دادا کے پاس بغیر قرآن دیکھے حفظ کرنے کے بعد پیر جی شریف گنگوہیؒ کے پاس حفظ قرآن کی تکمیل کی، جن کے پاس ان کے والد مولانا عبد الاحد دیوبندیؒ نے بھی حفظ کیا تھا اور عکس احمد صفحہ 476 میں مذکور ہے کہ خطیب الاسلام مولانا محمد سالم قاسمیؒ نے بھی حفظ کی تکمیل پیر جی شریف گنگوہیؒ کے پاس کی تھی۔
پھر عربی فارسی کی تعلیم شروع کی اور مولانا ابو زرعہ فلاحی کی عربی تحریر کے مطابق دار العلوم دیوبند سے آپ کی فراغت کا سنہ 1374ھ ہے، جب کہ ادارۂ پیغامِ محمود دیوبند کی شائع کردہ ڈائری بَہ عنوان ”فیضانِ شیخ الاسلام نمبر“ میں مولانا محمد طیب قاسمی ہردوئی نے دار العلوم دیوبند کی ریکارڈ کے مطابق فراغت کا سال 1375ھ (بہ مطابق 1956ء) لکھا ہے اور دونوں میں مطابقت اس طرح ہو سکتی ہے کہ دورۂ حدیث کے آغازِ سال میں 1374ھ ہو اور سال کے اختتام پر شعبان 1375ھ رہا ہو، اس طرح سے دونوں باتیں صحیح ہو جائیں گی۔ مولانا مرحوم کے اساتذۂ عربی کے نام مع اسمائے کتب درج ذیل ہیں:
میزان، منشعب، نحو میر، شرح مأۃ عامل، ہدایۃ النحو: مولانا عبد الشکور دیوبندیؒ
صغریٰ، کبریٰ، ایساغوجی، میر قطبی: مولانا سید فیض علی شاہ ہزارویؒ
ملا حسن، سلم العلوم، منتخب الحسامی، نخبۃ الفکر، مشکاۃ المصابیح، تفسیر جلالین، المسلسلات العشر (السنوسی): مولانا عبد الاحد دیوبندیؒ
نور الایضاح: خادمِ شیخ الاسلام، قاری اصغر علی سہسپوری بجنوریؒ
قدوری: مولانا سید حسن دیوبندیؒ
نور الانوار، شمائل محمدیہ (شمائل ترمذی)، سنن ابن ماجہ، مؤطا امام مالک: مولانا ظہور احمد دیوبندیؒ
ہدایہ اولین: مولانا سید اختر حسین دیوبندیؒ
ہدایہ اخیرین و سنن ابو داؤد: مولانا بشیر احمد خاں بلند شہریؒ
صحیح بخاری: شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ
صحیح مسلم و جامع ترمذی: علامہ محمد ابراہیم بلیاویؒ
سنن نسائی: مولانا سید فخر الحسن مرادآبادیؒ
مؤطا امام محمد: مولانا جلیل احمد کیرانویؒ
شرح معانی الآثار (بعض حصہ)، مسلسلات: مولانا مبارک علی نگینوی بجنوریؒ
مسلسلات: شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ
اس کے علاوہ دیگر تحریروں کے مطابق ان کے اساتذہ میں شیخ الادب و الفقہ مولانا اعزاز علی امروہیؒ (الگ سے باقاعدہ ان سے نحو و صرف کی کتابیں پڑھی ہیں)، حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب دیوبندیؒ، مولانا محمد حسین بہاریؒ وغیرہم بھی شامل ہیں۔
دورۂ حدیث کے بعد مولانا مرحوم نے مفتی مہدی حسن شاہجہاں پوریؒ سے فتویٰ نویسی کی بھی تمرین کی اور سند افتا سے نوازے گئے۔ اس کے بعد (مولانا محمد حسان غانم قاسمی کے بیان کے مطابق) اپنے والد مولانا عبد الاحد دیوبندیؒ کے حکم سے انھوں نے مکمل ایک سال تبلیغی جماعت میں لگایا۔
بیعت و خلافت اور تعلق مع اللّٰہ
مولانا مرحوم، شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے شاگرد و خلیفہ مولانا احمد علی باسکنڈی آسامیؒ سے بیعت تھے، ان کے خلیفہ و مجاز بھی تھے۔ مولانا مرحوم کے والد مولانا عبد الاحد دیوبندیؒ بھی مولانا باسکنڈیؒ کے خلیفہ و مجاز تھے اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ مولانا باسکنڈیؒ خود مولانا عبد الاحد دیوبندیؒ کے شاگرد تھے، یہ تو تواضع کی اعلیٰ مثال ہے کہ کوئی اپنے سے کم عمر یا اپنے شاگرد سے اپنا اصلاحی تعلق قائم کرے اور بیعت ہو اور ایسی مثال کم ہی دیکھنے سننے میں آتی ہیں۔ انھیں اپنے نانا مولانا عبد الشکور دیوبندی مہاجر مدنیؒ سے بھی اجازت حاصل تھی، جن کا روحانی سلسلہ ان کے والد مولانا نور الحسن دیوبندیؒ، پھر ان کے دادا مولانا عبد الخالق دیوبندیؒ، پھر ان کے پر دادا مولانا شمس الدین دیوبندیؒ کے واسطے سے حضرت سید احمد شہید بریلویؒ سے جا ملتا ہے۔ یہی نسبت مولانا بلال اصغر دیوبندیؒ نے وفات سے دس پندرہ سال قبل مولانا عبد الشکور دیوبندی مہاجر مدنیؒ کے پوتے قاری محمد فوزان دیوبندی، استاذ درجۂ حفظ دار العلوم دیوبند تک منتقل کرتے ہوئے انھیں اجازت عطا فرمائی تھی۔
تدریسی زندگی
تبلیغی جماعت میں سال لگانے کے بعد مولانا مرحوم کٹیسرہ، ضلع مظفر نگر کے کسی مدرسے میں بھی مدرس رہے۔ پھر مولانا محمد اللّٰہ خلیلی قاسمی کی تحقیق کے مطابق، 1383ھ تا 1386ھ دار العلوم دیوبند کے شعبۂ تبلیغ میں، پھر 1386ھ سے تقسیم دار العلوم دیوبند سے پہلے تک شعبۂ تنظیم و ترقی میں مبلغ کی حیثیت سے خدمات انجام دیں، پھر 1402ھ بہ مطابق 1982ء میں؛ بلکہ کیمپ دار العلوم دیوبند کے وقت سے ہی دار العلوم دیوبند میں تدریسی سلسلہ شروع کیا، سنہ 1434ھ میں درجۂ وسطیٰ ب میں ترقی ہوئی اور وفات سے چند ماہ قبل وہ دار العلوم دیوبند کی تدریس سے سبک دوش کر دیے گئے تھے، جس کا انھیں افسوس تھا کہ دار العلوم دیوبند میں ان کا تدریسی سلسلہ مزید جاری نہ رہ سکا؛ الغرض 1402ھ تا 1444ھ بہ مطابق 1982ھ تا 2022ھ اپنے اس چالیس – بیالیس سالہ (شمسی کلینڈر کے اعتبار سے 40 سالہ اور ہجری تقویم کے لحاظ سے 42 سالہ) تدریسی زندگی میں مولانا نے دار العلوم دیوبند میں صرف، نحو، منطق، فقہ، تاریخ اور تفسیر کی کتابیں پڑھائیں۔ اخیر زمانے میں عرصۂ دراز سے عربی چہارم کی کتبِ تاریخ اور عربی پنجم کا ترجمۂ قرآن مولانا کے زیر درس رہا۔ اخیر زمانے میں کوئی صاحب موبائل پر کال کرکے مولانا کے سامنے صحیح مسلم، قدروی، نور الایضاح جیسی کئی کتابوں کی عبارتیں پڑھتے تھے اور یہ اسباق ’’قناۃ الإقراء و مجالس السماع‘‘ نامی یوٹیوب چینل پر بھی لائیو نشر ہوتے تھے، جس سے ہند و پاک اور عرب ممالک کے نہ جانے کتنے لوگوں نے مولانا سے شرف تلمذ حاصل کیا اور مولانا کی طرف سے انھیں، متعدد کتبِ حدیث و فقہ کے سماع کے ذریعے اجازت سند حاصل ہوئی۔ انتقال کے بعد سیریا، مصر اور کئی عرب ممالک کے لوگوں نے بھی آپ کو اپنا استاذ لکھا۔ بہت سے عرب علماء تو حج یا عمرہ کے موقع پر مکہ و مدینہ میں مولانا سے اجازتِ سند حاصل کیے ہوئے ہیں۔ اس وقت دار العلوم دیوبند کے متعدد اساتذہ اور اکثر طلبہ مولانا مرحوم کے تلامذہ میں شمار ہوتے ہیں۔ معلوم نہیں اپنی چالیس سالہ تدریسی زندگی میں مولانا کے تلامذہ کی تعداد کتنے ہزاروں میں ہوگی۔
مولانا کی وفات کو طلبہ و علماء ایک عظیم شخصیت کے سایۂ عاطفت سے محرومی گردان رہے ہیں؛ کیوں کہ اب متقدمین اساتذۂ دار العلوم دیوبند؛ بالخصوص شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے والی چند گنی چنی شخصیات ہی بقید حیات رہ گئی ہیں۔
قلمی خدمات
مولانا کی قلمی خدمات میں مندرجۂ ذیل کتابیں شامل ہیں:
(1) الورود المسعود شرح ابو داؤد (مکتبہ مصطفائی دیوبند سے شائع شدہ اور نایاب)
(2) المنار پر عربی حاشیہ
(3) واقعۃ الصحابہ اردو ترجمہ حیاۃ الصحابہ
(4) قلیوبی کا اردو ترجمہ
(5) قصص القرآن از مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ کا ہندی ترجمہ
(6) ترجمۂ قرآن مکمل، مکمل قرآن کی ترکیب کے ساتھ (کمپیوٹرائزڈ، غیر مطبوعہ)
وفات و پسماندگان
مولانا کا انتقال ہجری تقویم کے اعتبار سے 90 سال کی عمر میں اور شمسی تقویم کے لحاظ سے 87 سال کی عمر میں، جمعرات کا دن پورا ہو کر شب جمعہ یعنی 26 جمادی الاخری 1444ھ بہ مطابق 19 جنوری 2023ء بعد نماز عشاء طبیعت بگڑنے پر دیوبند سے مظفر نگر لے جاتے ہوئے راستے میں ہوا اور اگلے دن صبح تقریباً گیارہ احاطۂ مولسری میں دار العلوم دیوبند کے مہتمم و شیخ الحدیث مولانا مفتی ابو القاسم نعمانی دامت برکاتہم نے نماز جنازہ پڑھائی، نماز جنازہ میں کثیر تعداد میں علماء و عوام اور طلبہ نے شرکت کی اور قبرستان قاسمی میں ان کے والد اور دادا کی قبر کے پاس جگہ کی تنگی کی وجہ سے ان کے چھوٹے بھائی مولانا غانم صاحب قاسمی فاضل مدینہ یونیورسٹی کے مشورے سے اپنے دادا حضرت مولانا عبد السمیع دیوبندیؒ کی قبر ہی میں سپردِ خاک کیے گئے اور ایک بات قابل ذکر یہ ہے کہ خود ان کے والد اور دادا کی وصیت تھی کہ ان کی قبروں پر کتبے نہ لگائے جائیں۔ مولانا مرحوم کی نماز جنازہ غائبانہ طور پر مصر میں بھی ادا کی گئی، ممکن ہے کہ کسی اور عرب ملک میں بھی ادا کی گئی ہو۔
مولانا کے پسماندگان میں تین بیٹیوں کے علاوہ تین بیٹے مولانا حافظ کمال اصغر قاسمی، مولانا حافظ اقبال اصغر قاسمی اور حافظ مولوی محمد فاروق صاحبان شامل ہیں۔ ان کی اہلیہ اور اور ایک صاحب زادی کا انتقال حضرت کی وفات سے قبل ہی ہو چکا تھا۔ مولانا مرحوم مولانا محمد نعیم دیوبندیؒ کے داماد اور مولانا خورشید عالم دیوبندیؒ کے ہم زُلف تھے۔
اللّٰہ تعالیٰ مولانا کی مغفرت فرمائے، ان کی خدمات کو قبول فرمائے، درجات کو بلند فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین یارب العالمین