محمد جنید قاسمی،استاذ شعبہ ٕ عربی مدرسہ عربیہ مفتاح العلوم گنج مرادآباد،اناؤ
قسط دوم مکمل۔۔۔
۔آغازسخن
1962ء کے انتخابی الیکشن ہوچکاتھااور ہر طرف ہماہمی کامنظر تھا عوام مختلف خیموں میں بٹ چکے تھے۔حضرت مولانامفتی منظوراحمد صاحب مظاہری رحمۃ اللہ علیہ نے ماہنامہ نظام کے کالم ’آغازسخن‘کے زیرتحت ملک کی عوام کو باخبرکرتے ہیں:مفتی صاحب لکھتے ہیں:
جب یہ شمارہ ناظرین کے ہاتھوں میں ہوگا،اس وقت انتخاب کی ہماہمی ختم ہوچکی ہوگی،ایک دوسرے پر علی الاعلان کیچڑ اچھالنا بندہوچکا ہوگا،جلسہ جلوس اور لاؤڈ اسپیکر وں کی سمع خراشیاں ختم ہوچکی ہوں گی۔اپنے لیڈروں کے کہنے یا اپنی صوابدید کے مطابق آپ نے جو بھی فیصلہ کیا ہوگا،اس کا پس منظر آپ کے سامنے آچکا ہوگا،کامیاب ہونے والے امیدوار اپنی نشستوں پر بیٹھ چکے ہوں گے،حکمرانی کی مستحق پارٹی کرسی،حکومت سنبھال رہی ہوگی،جمہوریت کے دعوے دار،ملکوں میں ہر پانچ سال کے بعد انتہائی جوش وخروش کیساتھ عام انتخاب ہواکرتے ہیں،جس پر کروڑوں روپیہ پانی کی طرح بہادیا جاتا ہے اور اس کا مقصد یہ بیان کیا جاتا ہے کہ چونکہ جمہوریہ کے دستور میں حکمران اعلیٰ،عام پبلک ہوا
کرتی ہے۔(ماہنامہ نظام کانپور ماہ مارچ 1962ء)
حضرت مولانا مفتی منظور احمد صاحب مظاہری رحمۃ اللہ علیہ جب بھی ’نظام‘کے لیے اداریہ لکھتے،تو اس میں موجودہ حالات کے جائزہ بڑی بصیرت کے ساتھ لیتے،پھر اس کے بعد،جس میں جو کوتاہیاں اور غلطیاں نظر آتیں،آپ کابڑی باریک بینی سے جائزہ لیکرلکھتے ۔اس اداریہ میں بیماری کاعلاج،مرض کی تشخیص اور بروقت حالات کی راہنمائی بھی کرتے تھے۔آپ کے اداریوں کی ایک خصوصی نوعیت ہوتی تھی،اس منفرد قلم کی وجہ سے،اداریہ بڑامقبول اور مرکز توجہ ہوتاتھا۔
مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ ایک جگہ لکھتے ہیں:
عرصے کی بات ہے کہ میرے ایک دوست اور ایک مسٹر سیاسیات پر گفتگوکررہے تھے،اثناء گفتگو میں مسٹر صاحب نے کہیں یہ کہدیا کہ ”مولویوں کو سیاست سے کیا واسطہ،انہیں کیا معلوم کہ سیاست کیا چیز ہوتی ہے“ان جملوں پر میرے دوست جوکہ مولوی تھے، برافروختہ ہوگئے اور کہنے لگے کہ مولوی تو آسمان کی سیاست جانتا ہے،زمین کی سیاستدانی اس کے لیے کیا مشکل ہے، اور اپنے مدعیٰ کے ثبوت میں ا نبیاء اور صحابہ ؓ کے ادوارِ حکومت کو پیش کرکے دلائل کا انبار لگادیا، میں نے دیکھا کہ بات خوامخواہ طویل ہوتی جارہی ہے،اس لیے مولوی صاحب سے خاموش ہوجانے کی درخواست کی اور مسٹر صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے میں نے کہا کہ جناب والا! آپ ٹھیک فرمارہے، آج جس چیز کانام سیاست ہے،واقعی مولویوں کا اس سے کوئی واسطہ نہیں اور ہونا بھی نہ چاہیے،اس لیے کہ موجودہ دورمیں سیاست نام ہے مکرو فریب کا،جھوٹ اور دغابازی کا،منافقت اور ریاکاری کا،آج کل سب سے اونچا سیاست داں وہ کہلاتا ہے جو اعلیٰ درجہ کا مکار اور جھوٹوں کا بادشاہ ہو“
(ماہ نامہ نظام کانپور،بابت ماہ مئی 1962،/۲ بعنوان”آغازسخن“)
جب کوئی قوم تشتت اور گروہ بندی کاشکار ہوجائے؟
حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے اداریوں میں قوم کو جگانا اور عوام کو بیدار کرنا؛نیز ان کے اخلاقی پہلو پر نظر رکھنابھی شامل تھا۔
مفتی صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں:قومی بگاڑ کی ابتداء ہمیشہ افراد کے بگاڑ سے ہوا کرتی ہے، افراد کے بگاڑ کی صورت میں نہ تو معاشرے کا انتشار دور ہوسکتا ہے،نہ پورے طور پر جماعتی شیرازہ بندی ممکن ہوسکتی ہے اور ظاہر ہے کہ جب کوئی قوم تشتت اور گروہ بندی کا شکار ہوجائے، تو دنیا میں اس کی ہوا خیزی اور بربادی کسی طرح بھی نہیں رک سکتی،افراد کا بگاڑ ہی ایسا روگ ہے،جس نے مسلمانوں کو گھُن کی طرح اندرہی اندر کھوکھلا کردیا ہے اور یہی وہ بنیادی فساد ہے،جس نے قومِ مسلم کی پوری عمارت کو ہلاکر رکھ دیا ہے، مسلمانوں میں آئے دن بہتر سے بہتر اسکیمیں ناکام ہوتی رہتی ہیں،مفید سے مفید تر اجتماعی پروگرام فیل ہوتے رہتے ہیں،اتحاد و اتفاق کی ہر کوشش بے نتیجہ بنتی رہتی ہے،یہ چیزیں صاف بتارہی ہیں کہ مسلمانوں کی اکثریت رب چاہی کے بجائے من چاہی زندگی بسر کررہی ہے اور صلاح کے بجائے فساد کا راستہ اختیار کرچکی ہے۔ اور تعجب تو یہ ہے کہ خطرناک منزل کے سامنے آچکی ہے،پھر بھی اسے ہوش نہیں آتا اور سب کچھ ہو جانے کے بعد بھی غلط روش سے باز آنے کے لیے تیار نہیں، جب یہ قوم اپنی حالت بدلنے کے لیے تیار نہیں تو قانون قدرت کس طرح بدل سکتا ہے۔
(ماہ نامہ نظام کانپور، بابت جون 1962ء بعنوان ”آغاز سخن“معاون مدیر)
زمانہ ساز نہیں زمانہ سوز بننے کی ضرورت ہے
حضرت مولانا مفتی منظور احمد صاحب رحمۃاللہ علیہ،ماہنامہ نظام کے معاون مدیر تھے،آپ کے قلم سے امت کی صلاح کی خاطر اہم اداریے نکلے،جس میں بروقت لوگوں کو صحیح رخ پہ لانے کی کوشش،اورا ن کو قرآن و حدیث کے بتائے ہوئے راستے پر لانے کی فکر،ان کی خاص سوچ اور فکر تھی۔
مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
فارسی کا مقولہ ایک مشہور مقولہ ہے ”زمانہ باتو نسا زد تو باز مانہ بساز“یعنی اگر زمانہ تمہاری موافقت نہیں کرتا تو تم زمانے کے موافق بن جاؤ،دنیا کی قومیں اس مقولے کو حرز جاں بناچکی ہیں اور اسی کو ترقی کو معراج اور کمال کا زینہ سمجھ چکی ہیں،دنیا کی اس سمجھ پر ذرا بھی تعجب نہیں،حیرت اور افسوس اس پر ہے کہ مسلمان بھی اسی رو میں بہہ رہا ہے،اس لیے بھی سمجھ لیا ہے کہ اگر ہم نے زمانے کا ساتھ نہ دیا تو ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائیں گے،ملکوں کے سر براہ تاجر، ملازم، مزدور۔غرض مسلمانوں کے ہر طبقے میں یہ زہر پھیل چکاہے، قوم پرستی دنیا میں رائج ہوئی تو مسلمانوں میں بھی اس کے پجاری نکل آئے،شوشلزم کی آندھی چلی تو مسلمان بھی اس کے ساتھ اڑنے لگے۔ادریہ کے آخر میں مفتی صاحب لکھتے ہیں ”آج مسلمانوں سے جان و مال سے زیادہ جذبات کی قربانی کا مطالبہ ہے اور انہیں زمانہ ساز نہیں زمانہ سوز بننے کی ضرورت ہے“(ماہنامہ نظام کانپور،بابت جولائی ،صفحہ 4)
فضلائے مظاہر علوم اور حضرت مفتی منظورصاحبؒ
حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ،مدرسہ مظاہر علوم سہارن پور کے فارغ التحصیل تھے،اورہر فاضل اپنے ادارے سے دیرینہ محبت اور اپنے اساتذہ سے گہراتعلق اورربط رکھتاہے،حضرت مفتی صاحب نوراللہ مرقدہ بھی اپنے ادارے مدرسہ مظاہرعلوم سہارن پورسے عقیدت ومحبت رکھتے تھے۔
چنانچہ آپ نے ماہنامہ نظام میں اپنے اساتذہ کی سیرت طیبہ لکھنے کاسلسلہ شروع کیا،جس سے آپ نے اپنے حلقہ ٕ احباب میں اس کی اطلاع کی اوران سے مضامین لکھنے کی درخواست کی،اس کی اطلاع ماہ نامہ نظام میں آپ نے دی۔مفتی صاحب ؒ لکھتے ہیں:
فضلائے مظاہرسے درخواست
مولاناخلیل الرحمن صاحب مقیم کراچی نے اپنی ایک دیرینہ تمناکااظہارفرمایا،جو احقر کی بھی دلیخواہش تھی کہ دارالعلوم دیوبند کے بعد ایشیاء کی عظیم ترین اسلامی درسگاہ ’مظاہر علوم سہارن پور‘جو اپنی خصوصیات کی بناء پر اکناف وعالم میں مشہورومعروف ہے، اس کے شاہ کار ں کو ضبط تحریر میں لایاجائے،جس کی آسان شکل یہ ہے کہ فضلائے مظاہر کی علمی اور عملی کارناموں کا سلسلہ ”نظام“ میں شروع کیاجائے،جس سے قارئین ِنظام بھی سر چشمہ ٕفیض وہدایت سے نکلے ہوئے دریاؤں اور نہروں سے مستفیض ہوسکیں گے، اس لیے فضلائے مظاہر سے خصوصی درخواست ہے کہ اگر اس تجویز سے آپ کو اتفاق ہے،اور اس کو مفید سمجھتے ہیں،توجلد اس طرف توجہ فرمائیں اور اکابر مظاہر کی سوانح حیات بالخصوص انکے دینی فیوض و برکات تحریر فرماکر اشاعت کے لیے ”دفتر نظام“کے پتہ پر ارسال فرمائیں،اپنے بزرگوں سے خصوصی درخواست بھی کی جائیگی، مگر عام اخوان مظاہر سے اسی گزارش پر کرم فرمائی کی درخواست ہے۔ایک بات واضح کردیناچاہتاہوں کہ اس سلسلے کی تجویز کسی عصبیت جاہلیہ کی بناء پر نہیں ہے،علمائے ربانی سبھی اپنے اکابر ہیں خواہ کسی ادارے سے متعلق ہوں اور نظام کے صفحات تمام علماء حقانی اور مشائخ ربانی کے ذکر خیر کے ہمہ وقت متمنی ہیں؛بلکہ بات صرف یہ ہے کہ اکابر مظاہر کے حالات اور ان کے کارنامے تحریری شکل میں بہت کم موجود ہیں،اگر یہ سلسلہ شروع ہوگیاتو انشاء اللہ بہت کچھ تلافی ٕ مافات ہوسکتی ہے،فقط،منظوراحمدجونپوری۔
(ماہنامہ نظام بابت ماہ جمای الثانی1380ھ دسمبر 1960ء صفحہ/۱۲)
آخری گزارش
حضرت مفتی منظوراحمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بہت سے ایسے علمی لعل وگہرہیں،اگرکسی نے ان پرخاص توجہ کرلی،تو انشاء اللہ ان کی طویل تدریسی زندگی کے بہت سے نقوش سامنے آئیں گے۔
ان کے فتاویٰ کاا ہتمام،قاضیئ شہرکے منصب پرفائزہونے کے بعدسے بہت سے ایسے نزاعی مسائل کا حل بھی پیش کیاگیاہوگا،جوصرف قرآن وحدیثسے استنباط کرنے بعد،بصیرت افروزنگاہوں سےحل کیے ہوں گے،اسی طرح بہت سے علمی مضامین،جو مختلف عنوانات سے لکھے گئے تھے۔بہت سے مضامین ’ماہنامہ نظام کی فائلوں میں ملیں گے؛نیزان پر کام کرنے کے بہت سے پہلوہیں،اللہ تعالیٰ جزئے خیرعطافرمائے برادرمکرم جناب مولانامنصور صاحب زید لطفہ کو،کہ انہوں نے اپنے والدمحترم کی سوانح حیات ترتیب۔یہ مضمون بہت عجلت میں لکھاگیاہے،ابھی بہت سے علمی لعل وگہر باقی ہیں۔
https://telegram.me/muniri