محمد تبریز عالم حلیمی قاسمی
خادم تدریس دارالعلوم حیدرآباد و سابق معین مدرس دارالعلوم دیوبند
یہ حقیقت ہے کہ علم دین کے لیے پوری قوم میں سے صرف ایک ڈیڑھ فیصد افراد دینی مدارس کا رخ کرتے ہیں،اور ان ڈیڑھ فیصد میں سے نصف کے قریب مختلف عوامل کی وجہ سے ضائع ہوجاتے ہیں باقی نصف میں سے بمشکل دس فیصد باصلاحیت ہوتے ہیں، پھر ان میں سے بھی معدودے چند ہی صحیح الفکر ،سلیم الطبع ،متدین اور متقی ہوتے ہیں،یہ جو ڈیڑھ دو فیصد کی تعداد ہے،بہت کم ہے لیکن غنیمت ہے کہ ان کے ذریعہ اسلام کسی نہ کسی درجہ میں محفوظ ہے۔
لیکن یہ بھی واقعہ ہے کہ اب ہمارے یہ ڈیڑھ دو فیصد افراد و احباب کو مدارس کی دنیا پسند نہیں آرہی ہے،کبھی نظام تعلیم ان کے نشانے پر رہتا ہے تو کبھی نصاب تعلیم کی فرسودگی موضوعِ سخن ہوتی ہے،کوئی مدارس اسلامیہ کو اپنی مزعومہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتا ہے تو کوئی نصابِ مدارس پر رفتارِ زمانہ سے ہم آہنگ نہ ہونے کا الزام لگاتا ہے۔آف لائن اور آن لائن مجلوں اور تحریروں میں اس کی بھرمار ہے،مدارس اسلامیہ کے فضلاء کے واہٹس ایپ گروپ پر اس حوالے سے سوال و جواب پھر جواب الجواب کی ایسی بہتات ہے کہ بس اللہ کی پناہ۔
پہلے تو یہ تھا کہ ہر سر سید کے لیے ایک قاسم، ہر شبلی کے لیے ایک اشرف،ہر حالی و فراہی کے لیے ایک حبیب(عثمانی) ہر سلیمان کے لیے ایک شبیر اور ہر آزاد کے لیے ایک طیب موجود رہا کرتا تھا اور مدارس اور نصاب تعلیم کے حوالے سے ان کے اعتراضات کے لیے سپر کا کام کرتا تھا،اسی لیے مدارس اور نصاب کے متعلق علی گڈھ اور ندوہ سے اٹھنے والی کسی آواز کو اہلِ حق کے یہاں کبھی اعتبار حاصل نہ ہوسکا،چنانچہ مدارس اپنی روایت کے مطابق مصروفِ عمل رہے اور کبھی کسی ترقی میں رکاوٹ کا سبب نہیں بنے۔یہ صورت حال گزشتہ تین چار عشرے تک بالکل واضح تھی لیکن بیسویں صدی عیسوی کے آٹھویں عشرے کے اکابر واسلاف کے دنیا سے اٹھ جانے کے بعد دارالعلوم دیوبند اور مظاہر علوم سہارن پور جیسے اداروں سے فارغ ہونے والے فضلاء اس حوالے سے بے اطمینانی کا شکار نظر آتے ہیں اور اس کیفیتِ بے اطمینانی میں کمی کے بجاے آے دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے،جس کا کچھ نظارہ یوپی میں مدارس کے سروے کے موقع پر نظر آیا، کیا پراے اور کیا اپنے: سب نے مدارس اور نصاب تعلیم کی ناکامی کے حوالے سے صفحات کے صفحات کالے کر ڈالے۔ذرا سوچیں!جب پاسبان ہی بے اطمینانی کا شکار ہونے لگ جائیں،اپنے اسلاف کے بناے ہوے نصاب و نظام کے سلسلے میں گو مگو میں پڑے جا رہے ہوں اور جدت و تجدد پر گرے جا رہے ہوں تو پھر رہزنوں کو خوف ہو تو کس کا ہو؟
دور حاضر کے اکثر فارغین مدارس کے خلاف اٹھنے والی آواز کو وقت کی آواز سمجھ کر چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی کا عملی نمونہ بنے ہوے ہیں،ایسے فارغین نفسیاتی طور پر خود سپردگی،مصالحت؛بلکہ متابعت کی پوزیشن میں آچکےہیں،سوچ کی اس تبدیلی کے بعد اپنے بھائیوں نے ایسے ایسے اقدامات،اعلانات اور بیانات کا سلسلہ جاری کیا ہوا ہے کہ کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ مدارس کی تعلیم اور اس کی ملازمت کوئی دینی خدمت یا شرف و سعادت کی بات ہی نہیں ہے؛ بلکہ جمود،تعطل،مجبوری،بدنامی،اور جگ ہنسائی کا ذریعہ ہے،توکل اور تعقُل کا ایسا فقدان ہے کہ اب ایسا لگتا ہے کہ اصولِ نانوتوی کی کوئی حیثیت نہیں ہے،نوبت بایں جا رسید کہ ایسے فضلاء کے پاس سواۓ اس کے اور کوئی چارہ نہیں رہ گیا کہ فکری التباس،ذہنی مرعوبیت اور مزعومہ ترقی ہی کو اصل صداقت کہنے اور سمجھنے لگے۔اس کا اثر یہ بھی ہوا کہ طلبہ اور بعض اساتذہ میں میں آزادی،غیر نصابی سرگرمیاں، اپنی شہرت سے دلچسپی اور اصل مقصود میں خلل انداز امور کی جانب رغبت بڑھتی جا رہی ہے۔
*
مقامِ افسوس ہے کہ جو مختصر طلبہ مدرسہ کا رخ کرتے ہیں ان کی بڑی تعداد ایسی ہے جنھیں فکرِ دیوبند اور اصولِ نانوتوی سے کچھ سروکار نہیں،وہ اپنے اکابر و اسلاف بالخصوص بانیانِ دارالعلوم دیوبند کی تحریروں کو بلکل نہیں پڑھتے،کچھ یہی صورت حال متعدد مدارس اور ذمہ دارانِ مدارس کی ہے،اس پر مستزاد یہ کہ دونوں جگہوں میں فکرِ دیوبند سے متعارف کرانے کا کوئی نظم بھی نہیں ہے،اس کی وجہ سے انفعالی کیفیت طلبہ اور ذمہ داران مدارس میں روز افزوں ہے،یہ مرعوبیت اور انفعالی کیفیت ہی کا نتیجہ ہے کہ طلبہ بارہ پندرہ سال مدارس میں پڑھنے کے باوجود خود کو پڑھا لکھا انسان نہیں سمجھتے اور متعدد ڈگریوں کے خواہاں ہوتے ہیں،انفعالی کیفیت کا دباؤ متعدد نظماۓ مدارس میں بھی خوب نظر آتا ہے،چنانچہ انھوں نے دین کے نام پر مدرسے تو قائم کیے لیکن انھیں اپنے بچوں کے روشن مستقبل کے نام پر اپنے ہی مدرسے کی دینی تعلیم پر اطمینان نہیں ہے،چنانچہ ان کے بچے شہر کے نامور اسکول و کالج میں نظر آتے ہیں،مرعوبیت کا ہلکا عکس اساتذہ کرام میں بھی نظر آنے لگا ہے کہ نظام اور نصابِ مدارس پر سے ان کا بھی ایمان تزلزل کا شکار ہوتا جا رہا ہے،وہ فیصلہ نہیں کر پاتے کہ اپنے بچوں کو مدرسہ کی تعلیم دلوائیں یا انھیں اسکول میں داخل کریں،اسی پس و پیش میں ایک نئی صورت حال یہ پیدا ہو گئی کہ ایک ہی وقت میں دونوں تعلیم دلوانے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے،جبکہ عموما ایسی جگہوں میں دینی تعلیم اور دینی ماحول مغلوب رہتا ہے،مختصر مدتی کورس اور دینی و عصری تعلیم کی جامعیت مدارس کی ترجیحات کا حصہ بنتی جا رہی ہے۔
آج ہر شعبے میں مقصد سے غفلت عام بات ہے،ایسے ماحول میں اگر ہمارے ذہنوں سے مدارس کا مقصد اوجھل ہو گیا ہو تو کچھ تعجب کی بات نہیں؛کیونکہ وبائی امراض اور کرونائی دور میں صحت مند لوگ بھی کچھ نہ کچھ متاثر ہو ہی جاتے ہیں؛لیکن سب کچھ جانتے ہوۓ آنکھ بند کر لینا اور انفعالی کیفیت کا شکار ہوجانا اہلِ علم بالخصوص منتسبینِ قاسم کا شیوہ نہیں ہے۔
ہم فضلاء کو یاد رکھنا چاہئے کہ جب تک پوری قوم کے اندر دینی فکر اور اسلامی تحفظات کا جذبہ پیدا نہ ہو جاۓ تو اس وقت تک ہم علماء اور ملاؤں ہی کے ذریعے ہمارا اور ہماری نسلوں کا دین سنبھلا ہوا ہے،ورنہ بہت سے ممالک اور بہت سے علاقوں میں جدید نافع کو اختیار کرنے والے اپنے قدیم صالح سے معلوم نہیں کب کے دور اور محروم ہو چکے ہیں،آپ اپنےاور اپنے مدارس کو معمولی نہ سمجھیں،ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ مدارس اسلامیہ کا نظام و نصاب ایک جامع و مکمل تعلیمی نصاب و نظام ہے جس کے اندر انسانی زندگی کے انفرادی و اجتماعی تمام احوال سے علمی اور عملی طور پر بحث کی جاتی ہے:انفرادی زندگی میں عقیدہ ،عبادت اور اخلاق کی تعلیم دی جاتی ہے ،اجتماعی زندگی سے متعلق معاشرت ،معاملات اور سیاست کے ابواب پڑھاے جاتے ہیں۔
یہی وہ جامع و مکمل نظام تعلیم ہے جو ہر دور میں عالم انسانیت کی فلاح دارین کی ضمانت اور کامیابیوں کی شاہ کلید رہا ہے ، یہی وہ تعلیمی نصاب ہے جو معلم کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے دار ارقم اور صفہ کے مدرسے میں جاری ہوا تھا ،یہی وہ کتب اور ابواب ہیں جن کی تعلیم و تعلم کا غلغلہ خیر القرون کی درس گاہوں میں بلند تھا اور یہی وہ منھج ہے جو غیر اسلامی تہذیب سے سمجھوتہ کرنےاور مغربی دنیا کی مادی ترقیات سے مرعوب ہونے کے بجاۓ،ان کی کفریہ،مادی اور عجمی تہذیبوں میں جکڑے ہوۓ لوگوں کو اسلام کی روحانیت ،سادگی،اور خود سپردگی والی زندگی کی طرف دعوت دیتا ہے،نیز عالم انسانیت کی دنیا سے لے کر آخرت تک کے،حیات سے لے کر ممات تک کے اور ذاتیات سے لے کر اجتماعیات تک کے سارے مسائل کا حل اسی نظام تعلیم سے وابستہ ہے،یہ بات ہمارے "نادان دوستوں” سے کہیں زیادہ "دانا دشمن” جانتے ہیں۔مذکورہ مقاصد اور ان کی اہمیت و ضرورت کی تکمیل کے بعد ہمیں اجازت ہے کہ ہم اسلام کے باہر کی وہ چیزیں بھی حاصل کر لیں جو کسبِ معاش میں ممدو معاون ہوں یا پھر حکومتی قانون کی وجہ سے ان کا حاصل کرنا ناگزیر ہو۔ان مدارس کے نظام و نصاب کی حفاظت کے ساتھ ہمیں حق ہے کہ اسلامی اسکول کی بنیاد ڈالیں،اعلی ڈگریاں حاصل کرنے کے مراکز قائم کریں، میدانِ سیاست میں شہسواری کریں اور ملت و انسانیت کی خدمت کے سینٹر بنائیں۔
ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ مدارس کی حیثیت محض ایک تعلیمی ادارہ کی نہیں ہے جو کچھ لوگوں کو پڑھانے لکھانے کے لیے قائم کیاگیا ہو؛ بلکہ اُن مدارس کا مرکزی مقصد علوم اسلامیہ کی حفاظت یا بالفاظ دیگر، نبوت کی علمی میراث کو اس کی حقیقی روح اور مکمل مزاج کے ساتھ محفوظ رکھنا اور اگلی نسلوں تک منتقل کرنا ہے، یہ کوئی سائنس کا نظام و نصاب نہیں ہے جس کی حفاظت ہی تبدیلی میں ہے اوراس کی ترقی کا راز ہی اس کا روز بروز نئی شکل اختیار کرنا اور نئے نئے تجربات سے مستفید ہونا ہے۔ اس کے برخلاف علوم نبوت کا تو سارا اعتبار اُن کی قدامت ہی میں ہے، اس لیے اس نصاب کو اسکول کالج کے نصاب پر قیاس کرنا بڑی نادانی کی بات ہے۔
۱۸٦٦ء میں قائم ہونے والے دارالعلوم دیوبند کے مقاصد عالیہ کو اگر ایک جملے میں ادا کیا جاۓ تو کہا جاسکتا ہے کہ بانیانِ دیوبند اور شارحینِ فکر دیوبند کے پیشِ نظر "سواۓ دین کے اور کچھ نہیں تھا” اور دین کا مطلب ہے: احیاءِ علوم دینی،اشاعتِ سنت،تعلق مع اللہ،ذکر اللہ،اتباعِ سنت رسول اللہ،اعلاءِ کلمة اللہ،دعوتِ توحید و سنت اور رد شرک و بدعت کی ترویج کے لیے تن من دھن کی بازی لگانا۔دیوبند کا مزاج اور موقف امامِ ربانی حضرت گنگوہی،حضرت نانوتوی،مولانا یعقوب نانوتوی اور حضرت تھانوی کی تحریروں سے ہی ظاہر ہوتا ہے،اس لیے ہمارے فضلاء کو ان بزرگوں کو مکمل طور پر پڑھنا چاہیے
آئیے ہم سب مل کر مدارس کی عظمت رفتہ کی بحالی کی کوشش کریں،اس حوالہ سے احساس کمتری کے بجاۓ اطمینان و فخر سے سر اٹھا کر جئیں،سلف کے متوارث طریقہ اور بزرگوں کی نسبتوں کا خیال رکھیں،اور مدارس اسلامیہ ہی کو اپنا قبلہ و کعبہ یقین کریں۔اس کے باوجود اگر قدم ڈگمگائین اور دل عدم اطمینان کا شکار ہو تو حضرت نانوتوی،حضرت مولانا یعقوب نانوتوی، مولانا گنگوہی اور حضرت تھانوی اور دیگر اکابر دارالعلوم دیوبند و مظاہر علوم کو پڑھا کریں۔
نوٹ: ماہنامہ ریاض الجنہ جنوری ۲۰۲۳ء میں یہ مضمون تفصیل کے ساتھ شائع ہوا ہے۔