مسلم سماج کی اخلاقی و سماجی صورت حال

امانت علی قاسمی
aaliqasmi1985@gmail.com
مسلمان ایک زندہ قوم ہے اور قیامت تک کے لیے ایمانی جرأت و عزیمت کے اظہار کے ساتھ کام کرنے کی والی جماعت ہے، اسلام اپنی ابتداء میں اجنبی تھا، اس کے ماننے وا لے چند لوگ تھے؛ لیکن آپ ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرکے حضرات صحابہ نے باوجود تعداد میں کم ہونے، طاقت میں پست ہونے، تعلیم میں کمزور ہونے اورظاہر ی اعتبارسے خستہ حال ہونے کے ایک ایسا انقلاب برپا کیا، جس سے قیصرو کسری کے محلات ہل گئے،بڑی بڑی سلطنتوں میں لرزہ طاری ہوگیا، طاقت ور قومیں سرنگوں ہوگئیں۔صحابہ جرأت ایمانی،عشق مصطفوی کے ساتھ آگے بڑھے اور بڑھتے چلے گئے،قوموں کے افکار وروایات پر چھائے اور چھاتے چلے گئے،ان کے عزم وکردار کا ایسا سیلاب آیاجو قوموں کے تمام خس و خاشاک کو بہا لے گیا اور بڑے بڑے ایوانوں میں زلزلہ پیدا ہوگیا۔انہوں نے تیر و تفنگ یا تلوار کے نیرنگسے نہیں؛بلکہ اخلاق و کردارکے جنگسے دلوں کو فتح کیا، زبان بدل دی،ملکوں کو فتح کیا، تہذیب بدل دی۔
آپﷺ کا اخلاق کریمانہ
اسلام نے بلند اخلاق وکردار سے دلوں کو فتح کیا،آپ ﷺ نے سچائی کی ایسی مثال پیش کی کہ دشمن بھی آپ کے کذب کی گواہی نہیں دے سکا،ہرقل کے دربار میں کفار مکہ کے سردار ابوسفیان سے جب پوچھا گیا کہ کیا تم نے کبھی محمد ﷺ سے جھوٹ سنا ہے تو ان کا جواب تھا نہیں (بخاری،باب بدأ الوحی،)آپ ﷺکی امانت داری کا حال یہ تھا کہ کفار مکہ جو آپ کے جان کے دشمن تھے، خون کے پیاسے تھے؛لیکن ان کی نگاہ میں آپ کے علاوہ کوئی امین نہیں تھا، تمام تر عداوت کے باوجود اپنی امانتیں آپ کے پاس جمع کرتے تھے،جب آپ ﷺ نے مدینہ ہجرت کی تو حضرت علی  کو یہ ہدایت دی کہ وہ لوگوں کی امانتیں واپس کرکے مدینہ آجائیں۔آپ ﷺ کے عفوو دگزر کا حال جاننے کے لیے یہ کافی ہے کہ طائف کے سفر میں آپ پر پتھر کی بارش ہوئی، جسم اطہر لہولہان ہوگیا، خون کی وجہ سے پاوٴں سے نعلین مبارک نکالنا مشکل ہوگیا،سید الانس و الجن ﷺ طائف کے داستان خوں چکاں کو اپنے حق میں سب سے زیادہ خوں آشام قرار دیتے تھے؛ لیکن جب پہاڑ کے فرشتوں نے اجازت چاہی کہ ان لوگوں کو پہاڑ کی دو وادیوں کے درمیان دبادیا جائے تو آپ ﷺ نے فرمایا:میں اس دہر میں قہر و غضب بن کر نہیں آیا۔
میں ان کے حق میں کیوں قہر الہی کی دعا مانگوں
بشر ہیں بے خبر ہیں کیوں تباہی کی دعا مانگوں
آپ ﷺ کے ایفا عہد کا یہ حال تھا کہ ایک شخص سے کسی جگہ ملنے کا وعدہ فرمایا او روہ شخص بھول گیا تو آپ ﷺ تین دن تک؛ اسی جگہ پر اس کا انتظار فرماتے رہے۔اس طرح آپ ﷺ کی زندگی ایثاروہمدری،اخلاق و مروت،انسانی حقوق کا احترام،صبر و تحمل، عفو و درگزر،الفت و پیار،جود و سخا، شجاعت و بہادری، جرأت و عزیمت،سچائی و دیانت داری، ایفاء عہد،عدل و انصاف،سادگی و صفائی قلب، امانت داری،جیسی اعلی ظاہری و باطنی اخلاق سے مزین تھیں اورجھوٹ،کذب گوئی و دروغ گوئی، حسد،کینہ، ظلم و ناانصافی،تکبر،غیبت،غرورونخوت،جیسے برے ظاہری و باطنی صفات سے آپ پاک تھے۔
قرآن کریم نے انک لعلی خلق کریم کے ذریعہ آپ ﷺکے اخلاق کریمانہ کی شہادت دی، آپ نے امت کواسی اعلی اخلاق کی تعلیم دی اور فرمایا بعثت لاتمم مکارم الاخلاق میں اعلی اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں؛یہی وجہ ہے کہ حضرات صحابہ آپ ﷺ کے اخلاق کریمانہ کا فیض لے کر پوری دنیا میں گئے اور اپنے اخلاق کی بلندی، کردار کی مقناطیسیت، اخلاص اور جذبہ صادق کی بناپر دنیا کے چپے چپے میں اسلام کا جھنڈا گاڑ آئے، ان کے پاس ٹکنالوجی کی طاقت نہیں تھی، صنعت و حرفت میں ان کا کوئی مقام نہیں تھا،تعلیم کے میدان میں وہ کسی اہمیت کے حامل نہیں تھے،لیکن اعلی اخلاق کے پیکر تھے،آپ ﷺ کی بے مثال تربیت اور اعلی روحانی فیض کی بناپر ان کے اندراخلاق کی وہ اعلی صفات پیدا ہوگئی تھیں جن کی بناپر وہ انسانی گروہ کی اخلاقی و روحانی قیادت کا فریضہ انجام دے گئے۔
تنزلی کے اسباب
آج ہم جس مقام پر ہیں ہمیں اپنے ماضی کا محاسبہ کرنا چاہیے، اپنے اسلاف کی روشن روایات کا جائزہ لینا چاہیے، آج یورپ ہم پر فکری اور تہذیبی طورپر حکومت کررہاہے،اور ہم مرعوبیت کے ساتھ یورپ کی طرف ٹک ٹکی باندھے دیکھ رہے ہیں،ان کی تہذیب و کلچر کو اپنانا اپنے لیے باعث فخر سمجھتے ہیں،حد یہ ہے کہ ان کی غیر معقول اور حیا باختہ چیزیں بھی ہمارے دلوں کو بھانے لگی ہیں،آپ غور کریں یورپ کے بے شمار منفی رویوں،عدل ومساوات کے باب میں غیر معمولی ناانصافیوں کے باوجود اگر ان کے ہاتھوں میں قیادت کی زمام ہے تو اس وجہ سے کہ ان کے اندراخلاقی قدریں نمایاں ہیں جو قومیں اخلاقی رویوں میں پست ہوجاتی ہیں ان کے ہاتھوں سے قیادت کی چابی چھن جاتی ہے،جن کی گفتار میں سحر انگیزی ہو؛ لیکن کردار سے عاری ہووہ کامیابی کی کلید سے محروم ہوتے ہیں،جو عملی اعتبار سے سست اور بے راہ روی کا شکار ہوں ذلت و نکبت ان کے دروازے تک آپہنچتی ہے۔ابن خلدون بڑے موٴرخ گزرے ہیں،تاریخ اور تاریخیت کے باب میں انہیں ایک مقام حاصل ہے، وہ لکھتے ہیں:
دنیا میں عروج و ترقی حاصل کرنے والی قوم اچھے اخلاق کی مالک ہوتی ہے؛جب کہ برے اخلاق کی حامل قوم زوال پذیر ہوجاتی ہے۔
حکیم الا سلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب کسی قوم کے زوال کے اسباب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
کسی قوم کی بتاہی و بربادی کے بھی تین اصول نکل کر آتے ہیں، جن سے ایک قوم قعر مذلت میں گھر کر دم توڑ دیتی ہے۔ایک یہ ہے کہ جہالت کا راستہ ہی دکھائی نہ دے، دوسرا یہ کہ بدخلقی یعنی تہذیب و شائستگی کاسر ہاتھ سے جھوٹ جائے، اور انسان کے بجائے حیوان بن جائے اور تیسرا بے عملی کہ سست اقوام کا نتیجہ ہمیشہ ذلت و خواری اور پستی و غلامی نکلا ہے، دنیا کی جو قوم بھی ہلاک ہوئی ہے وہ انہی تین بنیادی بیماریوں سے ہلاک ہوئی ہیں (ملفوظات حکیم الاسلام ص:۸۹) ۔
ایک دوسری جگہ حضرت حکیم الاسلام لکھتے ہیں:
میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ دنیا کی کوئی قوم کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتی، نہ دولت سے چاہے ارب پتی بن جائے اور نہ کوئی عددی اکثریت سے ترقی کرسکتی ہے کہ افراد اس کے پاس زیادہ ہوں اور نہ کوئی قوم محض سیاسی جوڑ توڑ سے ترقی کر سکتی ہے؛بلکہ دنیا کی اقوام کردار اور اخلاق سے ترقی کرسکتی ہے۔(ملفوظات حکیم الاسلام ص:۳۷۲)
جہالت اور دینی تعلیم سے دوری
حضرت حکیم الاسلام کی باتیں اگر ہم اپنے سماج پر منطبق کرتے ہیں تو زوال پذیر قوم کی تینوں بنیادیں ہمارے اندر موجود ہیں۔دینی تعلیم کی جہالت کا عالم یہ ہے کہ نکاح و طلاق جیسے معاشرتی مسائل جس سے ہر مسلمان کو سابقہ پڑتاہے؛لیکن ان کے بنیادی مسائل کا علم بھی سماج کے ایک بڑے طبقے کونہیں ہے، نکاح کے ارکان کیا ہیں؟ کس طرح نکاح ہوتاہے؟ نکاح میں خطبہ ضروری ہے یانہیں؟ گواہ کی کیا حیثیت ہے؟ فون کے ذریعہ نکاح ہوسکتاہے یا نہیں؟ نکاح میں وکیل اور ولی کی کیا حیثیت ہے؟اسی طرح نزاع کی صورت میں کس طرح آپسی رشتہ کو استوار رکھاجائے،میاں بیوی کے درمیان خوش گوار تعلقات کی بنیادیں کیا ہیں؟ ایک دوسرے کے حقوق کیا ہیں؟ حقوق کی ادائیگی کس درجہ میں ضروری ہے؟ اگر طلاق دینے کی نوبت آجائے،تو طلاق کس طرح دینی چاہیے؟ طلاق کب دینی جائز ہے؟ اور کیوں کر دینا جائز ہے؟ تین طلاق کا مطلب کیا ہے؟ اس طرح کے بیشتر بنیادی سوالات ہیں جن کا ہمارے سماج کے ایک بڑے طبقے کو علم نہیں ہے، انہوں نے مدرسے میں تعلیم حاصل نہیں کی اور اگر حاصل کی تو صرف قرآن کی تعلیم حاصل کی ہے؟ ان مسائل کا علم حاصل نہیں کیا ہے اور اسکول کے نصاب میں یہ مضامین شامل نہیں ہیں۔جس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ جس نکاح کے ذریعہ اسلام نے الفت و محبت کی تعلیم دی، بہترین شوہر اس شخص کو قرار دیا گیا جو بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والا ہو؛ لیکن عملی رویہ یہ ہے کہ معمولی معمولی باتوں پر شوہر بیوی کو طلاق دے دیتاہے۔سماج کی صورت حال یہ ہے کہ شوہر بیوی کو گھر جانے کو کہتا ہے اور بیوی کہتی ہے کہ کام ہونے کے بعد جاوٴں گی اور اسی دوران شوہر غصے میں کہہ دیتاہے کہ اگر تم نہیں جاوٴگی تو ایک دو تین طلاق لے لو،ایک ٹرک ڈرائیورگاری چلاتے ہوئے بیوی کو فون کرتاہے اور جھگڑا ہوتاہے تو کہتاہے رکو میں گاڑی روکتاہوں اور گاڑی روک کر شراب پیتاہے اور اسی حالت میں طلاق دیتاہے، ایک شخص بیوی کو فون کرتاہے بیوی فون نہیں اٹھاسکتی ہے تو میسج کرتاہے کہ اگر دو منٹ میں تم نے فون نہیں کیا تو تمہیں تینوں طلاق،میاں بیوی کے درمیان جھگڑا ہوتاہے بیوی کہتی ہے میری پاس سونے مت آناتو شوہر قسم کھا کر کہتاہے میں تمہارے پاس کبھی نہیں آوٴں گا۔معمولی نزاع کے درمیان شوہر بیوی کے گھر والوں کو فون کرتاہے کہ اپنی بیٹی کو لے جاوٴمیں نے اسے چھوڑ دیا ہے۔یہ تصویر ہے سماج کی، کہ کس طرح لوگ نکاح جیسے مقدس ، پاکیزہ اور پائدار رشتے کو معمولی نزاع میں ختم کردیتے ہیں جب کہ نکاح کرتے وقت کس قدر تحقیق و تفتیش کرتے ہیں۔
مسلم سماج اور اخلاقی زبوں حالی
بداخلاقی کی مثالیں مسلم سماج میں سب سے زیادہ آتی ہیں، غیر مسلم حضرات یہ اعتراف کرتے ہیں کہ اب مسلمانوں میں وہ چیزیں دیکھنے کو ملتی ہیں جو پہلے ہمارے یہاں تھیں۔یعنی غیر مسلموں کا بھی اعتراف ہے کہ مسلمانوں کی وہ اخلاقی حالت نہیں رہی، ان کے اخلاق و کردار میں بد عملی کا گھن لگ گیا ہے، ان کے کردارکو بے حیائی و ضمیرفروشی کی دیمک نے چاٹ لیا ہے،ان کے رویوں میں سیرت نبوی کو وہ چاشنی اور مٹھاس باقی نہیں رہی ہے، ان کا طرز عمل مغلوب قوموں کی اجارہ داری کررہاہے، ان کی زندگی میں دولت کی حرص و ہوس نے ہر چیز کو ماند کردیا ہے،ان کی نگا ہ میں دنیا عزیز ہے جب کہ یہ وہ قوم ہے جن کا عقیدہ آخرت کو بنانے اور سنوارنے کا ہے، ان کی محفلیں عیش و طرب سے آباد ہونے لگی ہیں جب کہ ان کو تعلیم و ذکر و تلاوت کی دی گئی ہے۔ بعض مسلمان تاجر کہتے ہیں کہ غیر مسلموں ساتھ معاملات کرنے میں اطمنان رہتا ہے، مسلمانوں کے ساتھ معاملات میں وہ اطمنان نہیں رہتا،جس خوش ا خلاقی سے غیر مسلم حضرات بات چیت کرتے ہیں،مسلمان اس طرح اخلاق و مروت کا مظاہرہ نہیں کرتے ہیں۔جھوٹ،غیبت، وعدہ خلافی اور امانت میں خیانت مسلم معاشرے کا ناسور بن گیا ہے۔ مسلم محلوں میں شراب نوشی، جوا،سٹہ کا بازار گرم ہے جب کہ اسلام انہی چیزوں سے دنیا کو پاک کرنے آیا تھا۔
علماء کی بے توقیری
دولت مندوں نے علماء کو اپنے ہاتھ کا رومال بنالیا ہے،جس طرح چاہتے ہیں علماء کو استعمال کرتے ہیں،پھر انہی علماء پر تنقید کے تیر برساتے ہیں۔ سماج میں اس معزز طبقہ کو بے حیثیت کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو اپنی پوری توانائی مسلم سماج کی اصلاح اور ان میں دینی تعلیم کی روشنی بکھیرنے میں صرف کرتے ہیں۔ علماء،ائمہ،دینی خدمت گزاراور سنجیدہ طبقہ پر تنقید کرنا ایسا محسوس ہوتاہے کہ ایک دینی و شرعی ضرورت ہو،ایک انسان کی زندگی بھر کی محنت اور دینی خدمات کو پس پشت ڈال کر صرف ایک بے عملی کو اس پر حاوی کردیا جاتاہے اور اس طرح پیش کیا جاتاہے جیسے اس سے زیادہ سماج میں کوئی برا انسان نہیں اوراس ایک برائی کو مٹا کر سماج کو ہر قسم کی غلاظت سے پاک کیا جاسکتاہے۔
خواتین کو میراث سے محروم کرنا
مسلمان آج بہنوں کو حصہ نہ دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتاہے، جب کہ اسلاف کا طرز عمل یہ تھاکہ ایک شخص انگریزوں کے عہد میں اپنے خاندانی رواج کی بنا پربہن کو حصہ دینے سے انکار کردیااور انگریزی حکومت نے اس کے حق میں فیصلہ کردیا توبزرگوں نے ملک گیر تحریک چلائی اور انگریزوں کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا جس کے نتیجے میں شریعت اپلیکیشن ایکٹ بنا۔آج عموما میراث میں سے حصہ لینے والے مسئلہ معلوم کرتے ہیں دینے والا کوئی بھی مسئلہ معلوم نہیں کرتاہے؛اس لیے کہ وہ چاہتاہے کہ مجھے کسی طرح میراث نہ دینی پڑ ے وہ لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ حضور پرنور ﷺکا ارشاد ہے: جو شخص کسی کووارث بنانے سے بھاگے گا،قیامت کے دن اللہ تعالی جنت سے اس کا حصہ ختم کردے گا(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر: 2703)۔
نوجوانوں کی بے راہ روی
نوجوانوں میں لہو ولعب اور عیش وطرب کی فضا عام ہوگئی ہے۔موبائل اور انٹرنیٹ پر اپنا اکثر وقت ضائع کرتے ہیں اور معمولی رقم کی لالچ میں موبائل پر گیم کھیلتے رہتے ہیں اور دس بیس روپیے کما کر اپنا جی خوش کرلیتے ہیں،انہیں یہ نہیں معلوم عمر عزیز کی یہ ساعتیں ان کے حق میں کس قدر مہنگی اور قیمتی ہیں۔بلا محنت کے مال کمانے کی ہوس عام ہوتی جارہی ہے اس لیے ہر انویسٹ کمپنی میں پیسہ لگاکر کمائی کرنا چاہتاہے چاہے وہ انویسٹ کا طریقہ جائز ہو یا ناجائز،مفت میں پیسے حاصل ہونے چاہیے۔
مسلم سماج کی بے عملی
بے عملی اور سست روی مسلم سماج کا ایک حصہ بنتاجارہاہے، مسلم محلے اور گلیوں کو دیکھ کر آج لوگ فیصلہ کرلیتے ہیں کہ یہ مسلم محلہ ہے یا غیر مسلم محلہ ہے، نالیوں میں گندگی،راستہ میں گندگی، سرکاری زمین کو تھوڑا تھوڑا دبانا یہاں تک کہ گلی تنگ ہوجائے یہ عام سی بات ہے۔حدیث میں ہے کہ اپنے گھرکے صحنوں کو صاف رکھواوران یہود کی مشابہت مت اختیار کرو جو گھر میں کوڑا کرکٹ جمع کرتے ہیں،آج صورت حال یہ ہے کہ تشبیہ میں ہماری مثال دی جاتی ہے کہ صفائی کرومسلمانوں کی طرف مت بنو جو اپنے گھر وں اور محلو ں کو صاف نہیں رکھتے ہیں۔
یہ ہمارا عملی رویہ ہے ظاہر ہے کہ انہی وجوہات کی بناپرہم تنزلی کا شکار ہیں۔آج ہمیں اپنے کردار پرنظر ثانی کی ضرورت ہے اپنے معاملات کی درستگی کے لیے اپنے گریبان میں جھاکنا چاہیے۔اور دوسروں کو طعنہ دینے اور اپنے غلطی کا ٹھیکرا دوسروں پر پھوڑنے کے بجائے خود احتسابی کرکے اپنی کوتاہیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔سماج کو تعلیم سے آراستہ کرنا،اس کے لیے جدو جہدکرنا اور جانی و مالی قربانی سے دریغ نہ کرنا،نسل کی تربیت سے آراستہ کرنا اچھے اخلاق اور نمونوں کوفروغ دینا،وقت کی ضرورت ہے،مسلم سماج میں قرآن اور قرآنی تعلیمات کو فروغ دینا چاہیے۔ اگر مسلمانوں نے ذلت کے اسباب کا جائزہ لے کر ان کے خاتمہ کی کوشش کی تو وہ دن دور نہیں کہ اسلام کی زر خیزی و شادابی کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں ۔
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے