حضرت مولانا بلال اصغر صاحبؒ: شاگردوں اور محبین کے کچھ تاثرات

استاد محترم حضرت مولانا بلال اصغر صاحب ابھی ابھی اچانک حرکت قلب بند ہونے کے باعث اپنے مالک حقیقی سے جاملے

آپ کا اسم گرامی بلال اصغر ابن مولانا عبد الاحد ابن مولانا عبدالسمیع ہے آپ کے والد اور دادا دونوں دارالعلوم کے محدث تھے

آپنےازابتداتاانتہاتمام علوم دارالعلوم دیوبند میں حاصل کئے دورہ حدیث شریف میں شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی سے بخاری شریف دونوں جلدیں اور ترمذی شریف پڑھی اسی طرح علامہ ابراہیم بلیاوی، مولانا فخر الحسن ،مولانا نعیم دیوبندی ( جو بعد میں آپ کے سسر ہوئے ) اپنے والد مولانا عبد الاحد رح ،حکیم الاسلام قاری محمد طیب ودیگر یگانہ روزگار ہستوں سے صحاح ستہ کی دیگر کتابیں پڑھیں اور دورہ کے بعد فقیہ النفس مفتی مہدی حسن صاحب شاہ جہاں پوری سابق مفتی اعظم دارالعلوم دیوبند سے فتوی نویسی کی مشق کی ،اور افتا کی سند سے سرفراز ہوئے

آپ نے علوم ظاہری کے ساتھ ساتھ علوم باطنی پر بھی توجہ دی، اور شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ و مجاز مولانا احمد علی باسکنڈی آسامی سے بیعت ہوئے اور خلافت سے سرفراز ہوئے ، میرے علم کے مطابق آپ نماز کے معاملے میں صاحب ترتیب تھے

آپ سبق میں طلبہ کے ساتھ انتہائی شفقت و محبت کا مظاہرہ فرماتے تھے راقم نے حضرت سے فقہ کی معروف کتاب شرح وقایہ پڑھی ہے اس کے علاوہ ان کی نجی مجلسوں میں بیٹھنے اور ان کی خدمت کا سالہا موقع ملتا رہاہے ۔

آج ان کے جانے سے ایسا لگا کہ اب ہم ایک مخلص سرپرست سے محروم ہوگئے اللہ ان کو غریق رحمت کرے اور جنت الفردوس کا مکین بنائے راقم نے یہ چند سطور حادثے کی اطلاع ملتے ہی ایک جگہ کھڑے گھڑے اپنی یاد داشت سے لکھ ڈالے ۔

تعزیت کا مستحق

سعداحمد

یکے از تلامذہ مولانابلال رح

Facebook: https://www.facebook.com/saad.ahmad.9237

ابا بلال وفات پاگئے، تھے تو وہ مولانا بلال اصغر قاسمی، علمی خانوادے کے چشم و چراغ تھے، اور محض چراغ نہیں روشن چراغ تھے، دیوبند کے رہنے والے، بھرے ہوئے گداز جسم اور بزرگانہ شکل و شباہت کے مالک، ہم انہیں ابا ابا کہتے تھے، اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں، دیوبند میں تہذیب پارینہ کی دو ایک چیزیں بچی ہیں جن پر فخر کیا جاسکے، وہاں بزرگ کو ابا جی اور بڑھیا کو اماں جی کہہ کر پکارا جاتا ہے، ان لفظوں میں جو روحانی و نفسیاتی لگاؤ ہے کسی دوسرے میں کہاں؟

مولانا بلال اصغر صاحب پورے دارالعلوم میں ابا بلال سے مشہور تھے، دیوبند شہر کا پتہ نہیں، ہاں قرب و جوار کے دکاندار اور رکشہ والا ان کا ذکر ابا بلال کہہ کر کرتے، اس نام سے ان کی شخصیت اتنی مربوط ہوگئی تھی کہ مولانا بلال اب ان کے لئے اجنبی بن کر رہ گیا تھا۔

ابا بلال کو ہم نے رکشہ سے ہی دارالعلوم آتے جاتے دیکھا، رکشہ سے اترتے عصا تھام کر درسگاہ کی جانب دھیرے دھیرے قدم بڑھاتے، جیسے کوئی پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا ہو، پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی تعبیر یہاں درست نہیں، عموما یہ خوف و ہراس کے مقام پر مستعمل ہے، اور ابا کو خوف و ہراس سے کیا علاقہ؟ وہ بھی دارالعلوم میں جہاں ان کی کئی پشتیں خدمت انجام دے چکی تھیں، خود کہتے تھے کہ "میں کسی کے باپ سے نہیں ڈرتا”، اگرچہ ضعف کی وجہ سے ان کی آواز کرختگی کھو چکی تھی، بول چال کے ایسے مقامات تھوڑے کرخت اور تحکم آمیز ہوں تو اچھا لگتا ہے، مگر کوئی حرج نہیں، تحکمانہ آثار آواز میں گرچہ نہ ہوں ان کے چہرے پر صاف عیاں ہوتے تھے، ویسے انہیں کسی سے کیا ڈر ہوتا چھوٹا ہو یا بڑا سب انہیں ابا پکارتے، اور ابا ڈرا نہیں کرتے۔

میں پنجم میں تھا، اس سال ترجمہ قرآن کا گھنٹہ ان سے متعلق تھا، آخری گھنٹہ تھا، وہ بھی شام کا، اور استاد ابا بلال سے رحم دل، لہذا ہم نے خوب جم کر ان کی رحم دلی اور شفقت کا ناجائز فائدہ اٹھایا، شام کا پہلا گھنٹہ سلم کا تھا، جیسے ہی گھنٹہ ختم ہوا ہم چائے پینے کے لئے حافظ جی کے ہاں جا بیٹھے، جب دوسرا یعنی آخری گھنٹہ عین ختم ہونے کو آیا اور حاضری شروع ہوئی تو ہم چھپ چھپا کر کر درسگاہ کے کونے میں آ بیٹھے، اور حاضری بنوالی، وہ حاضری عام طور پر سبق کے بعد لیتے جس میں غیر حاضر ہوتے ہوئے بھی ہم حاضر ہوتے، آہ اب وہ دن یاد آتے ہیں تو ولولہ خرابات جاگ جاتا ہے، غرض ابا باغ و بہار تھے، اور ہم نے اس بہار کا خوب لطف اٹھایا، اللہ ان کی مغفرت فرمائے، آمین

(آج کی ڈائری کا ایک ورق)

Facebook: https://www.facebook.com/obada.zafar.9

استاذ الاساتذہ حضرت مولانا بلال اصغر علیہ الرحمہ کی رحلت

اپنے گلستاں کے کسی گل کا چٹکنا، فطری طور پر وحشت اثر ہوتا ہے، حضرت مولانا بلال اصغر علیہ الرحمہ سابق استاذ دارالعلوم دیوبند کی وفات پر بھی دل کے دھڑکنے کی صدا دیر تک آئی۔

فإنا لله وإنا إليه راجعون، اللهم اغفر له، وارحمه، وأسكنه فسيح جناتك، وأنزل الصبر والسلوان على ذويه، آمين يارب العالمين۔

ان کی بے ساختگی، بے حجابی، آخری ایام میں بھی غنچہ نما بے تکلفی تا دیر یاد آئے گی، ثانویہ کے دفتر میں جلوہ افروز ہوجاتے تو شمع مجلس کا سماں ہوتا اور خردوں بل کہ تلامذہ کی "گدازِ عاشقانہ” اور اس کی تمام تر نزاکتوں کو خوش گواری سے نبھاتے؛ جس میں بعض احباب کی "بہ مد” چائے، مبینہ وعلانیہ "جیب تراشیاں” بھی شامل ہیں۔

حضرت علیہ الرحمہ اپنے رنگ کے بزرگ تھے، زندگی کے نشیب وفراز کو لے کر ان کا اپنا زاویہ نگاہ تھا اور وہ بہ ہر صورت لطف اندوز ہوتے تھے، بڑی شخصیات کی طرح انھوں نے بھی گردشِ لیل ونہار سے سمجھوتہ نہیں کیا اور حیاتِ مستعار کو اپنی شرطوں کی جواب دہی تک محدود رکھا۔

وہ عہد قدیم کے امین تھے، ہمارے دور کے اکابر کی "داستان شخصیت” کے وہ شاہد العین تھے، اس ضمن میں وہ بعض دل چسپ اور سبق آموز "یاد ہائے کہن” شئیر بھی کردیتے تھے۔

بعض ساعتوں کی ترتیب، یومیہ زیارت کی تقریب پیدا کرتی تھی، میں تیسرے گھنٹے سے فارغ ہوتا تو وہ اسی جماعت کو چوتھا گھنٹہ پڑھانے کے لیے رکشے پر شاداں وتاباں نمودار ہوتے، سالوں پر محیط یہ معمولات رخت سفر باندھتے ہیں تو زندگی کے بہت سے پہلوؤں کو چونکا جاتے ہیں۔

اللہ تعالٰی ان کے درجات بلند فرمائے، ان کی خدمات کو صدقہ جاریہ بنائے، جنت الفردوس عطا فرمائے اور جملہ پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔

محمد فہیم الدین بجنوری

19 جنوری 2023ء

Facebook: https://www.facebook.com/faheembijnori.bijnori

مولاناکلیم الدین کٹکی

استاذ دارالعلوم دیوبند

حضرت مولانا بلال اصغر دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ کے آخری دیدار کے لیے حاضر ہوئے تو حضرت کے صاحب زادے نے بیان کیا: ہمیں نہیں معلوم کہ آپ کی تہجد کی نماز کبھی ناغہ ہوئی ہو، بلکہ تہجد میں طویل ترین قراءت آپ کا عام معمول تھا، ایک ایک رکعت میں کئی کئی پارے تلاوت کرلیتے تھے، دوبجے سے صبح صادق تک نماز ودعا، پھر دوگانہ سنت پڑھ کر ذکر میں مشغول ہوجاتے تھے۔ اِس وقت ہر تیسرے دن ایک ختم قرآن پاک کامعمول تھا، کل بھی ایک ختم فرمایا، تلاوت قریب الختم تھی، چائے رکھی ہوئی تھی، بچے نے کہا: ابا چائے ٹھندی ہوجائے گی! فرمانے لگے: مجھے آخرت کی تیاری کرنے دو!

مدینہ منورہ سے متعدد طلبہ حضرت سے آن لائن مسلم شریف پڑھتے تھے، کل ہی اس کی بھی تکمیل ہوئی، سب کو اجازت دیتے ہوئے فرمایا: میں نے مسلم شریف علامہ بلیاویؒ سے پڑھی ہے۔ طلبہ نے سنیچر سے شمائل ترمذی شروع کرنے کی درخواست کی تو فرمانے لگے: پرسوں کی بات اللہ بہتر جانتاہے!

اخیر تک سارے کام خود سے، کسی کا سہارا لیے بغیر ہی کر لیتے تھے۔

آپ کی کوئی نماز قضا نہیں ہوئی، کل عشاء کے بعد استنجاء سے آئے تو نقاہت غیر معمولی تھی، طبیعت بگڑ گئی، بے ہوش ہوگئے، ہم مظفر نگر یا میرٹھ کے ارادے سے لے کر نکل پڑے، روہانہ کے بعد حضرت نے پہلے کلمہ شہادت پڑھی پھر کلمہ طیبہ پڑھ کر خاموش ہوگئے، ہمیں نہیں لگا کہ ابا ہمیشہ ہمیش کے لیے خاموش ہوگئے ہوں!

Facebook

استاذ محترم حضرت مولانا بلال اصغر صاحب استاذ دارالعلوم دیوبند انتقال فرماگئے

انا للہ وانا الیہ راجعون

مولانا بلال صاحب ہمارے لئے "ابا بلال” تھے جن سے ہمارا تعلق ایسا ہی تھا جیسے پوتوں کا دادا ابا سے ہوا کرتا ہے،وہ ہم سے ہنسی مذاق کرتے تھے،بے پناہ شفقتیں لٹاتے تھے،درسگاہ سے دولت کدے تک وہ ہمارے لیے ایک استاذ ہی نہیں بلکہ زندگی کے معمار تھے،بہت ساری یادیں ہیں،

وہ باغ و بہار طبیعت کے مالک تھے.

رب کریم ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے جملہ منسلکین و لواحقین کو صبر جمیل کی توفیق دے.

آمین ثم آمین یا رب العالمین

مہدی حسن عینی دیوبند

Facebook: https://www.facebook.com/MehdiHasanAini444

ملی اطلاع کے مطابق:

مولانا بلال اصغر ؒ (معروف بہ "ابا بلال”) صاحب حرکت قلب بند ہونے کے سبب ابھی ابھی جان جان آفریں کے سپرد کر گئے😭 (رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ)۔

إنا لله و إنا إليه راجعون.

حضرت والا ؒ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ کے شاگردوں کے آخری قافلے سے تعلق رکھتے تھے۔

دارالعلوم دیوبند میں ہمیں ان کی شاگردی تو نصیب نہیں ہوئی لیکن حضرت والا کے فکاہیہ کلام ، ظریفانہ طبع اور ذوق جمال سے ہم عصر و ہم درس ساتھیوں کی زبانی محظوظ ہوتے رہتے تھے ؛ چونکہ جس ترتیب میں ہم ہوتے اس ترتیب میں مولانا مغفور سے متعلق کتابیں نہیں ہوتیں "عربی چہارم” کے سال ہم "ترتیب ثانیہ” میں تھے جبکہ حضرت مرحوم "ترتیب ثالثہ” میں جلوہ افروز ہوتے تھے ایسا ہی کچھ پنجم عربی کے سال بھی ہوا۔

اللہ مرحوم کو غریق رحمت کرے، بال بال مغفرت فرمائے ، کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے ، خطا و سیئات درگزر فرمائے اور حسنات قبول فرمائے!!!

آمین

Facebook: https://www.facebook.com/profile.php?id=100012982897203

"ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا”

دارالعلوم دیوبند کے مؤقر استاد مولانا بلال اصغر دیوبندی کچھ دیر قبل اس دار فانی سے کوچ کر گئے ،دیوبند آپ کا آبائی وطن تھا، آپ کا تعلق بڑے علمی خانوادے سے تھا ۔

آپ کے دادا مولانا عبد السمیع صاحب دیوبندی(ولادت 1878–وفات 1947ء) دارالعلوم کے اکابراساتذہ میں سے تھے، اور آپ کے والد ماجد مولانا عبد الاحد دیوبندی ( ولادت 1911ء— وفات 1979ء)بھی دارالعلوم کے علیا کے استاد تھے ،

آپ حضرت مولانا حسین احمد مدنی کے آخری شاگردوں میں سے تھے، 1981 ء میں دارالعلوم دیوبند میں آپ کا تقرر ہوا،مرنجا مرنج طبیعت کے مالک تھے ، درس میں طلباء کے ساتھ بہت زیادہ مزاح فرمایا کرتے تھے ،ہمیں آپ سے پنجم عربی میں ترجمۂ کلام پاک پڑھنے کا شرف حاصل ہوا ،آپ کے انتقال کی خبر سے دل مغموم ہوگیا، اللّٰہ آپ کی بال بال مغفرت فرمائے ۔

"ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا

آنکھ حیران ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا” ۔

Facebook: https://www.facebook.com/profile.php?id=100078525453138

★ایک چراغ اور بجھا اور بڑھی تاریکی★

دارالعلوم دیوبند کے ہر دل عزیز اور استاذ الأساتذہ حضرت مولانا بلال أصغر صاحب مختصر علالت کے بعد ابھی (بتاریخ ‌2023-1-19) بعد نماز عشاء تقریبا 90 سال کی عمر میں اس دار فانی سے دار بقاء کی طرف کوچ کرگئے،

إنا لله وإنا إليه راجعون، إن لله ما أخذ وله ما أعطى وكل شيء عنده بأجل مسمّٰى فلتصبر ولتحتسب !

مولاناؒ شوگر کے مریض تھے شوگر بہت زیادہ بڑھ جانے کے باعث انھیں علاج کی غرض سے مظفر نگر لے جایا گیا، مگر راستے میں ہی حالت بگڑ گئی اور ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی اپنے مالک حقیقی سے جا ملے ،

اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے، اُن کی علمی ودینی خدمات کو قبول فرمائے اور جملہ پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے، آمین !

مولانا بلال اصغرؒ شیخ الإسلام حسین احمد مدنی رح کے شاگرد رشید تھے، حضرت مدنی سے انھیں بخاری شریف کا آخری درس لینے کا شرف حاصل تھا۔ مولانا کی شخصیت علمی وقار اور عمیق مطالعہ سے عبارت تھی، جس کی روشنی میں آپ اپنے آخری ایام میں تاریخ و تفسیر کا درس دیا کرتے تھے۔ آپ طلبہ اور اساتذہ کے درمیان یکساں طور پر مقبول تھے۔۔۔۔

غفر الله له ورحمه وأنزل عليه شآبيب الرحمة !!

Facebook: https://www.facebook.com/profile.php?id=100071831173919

آہ استاذ محترم مولانا بلال اصغر صاحب بھی چل بسے!

ایک ایسے علمی گھرانے کا آخری چشم وچراغ، جس نے تین پشت تک دار العلوم میں تدریسی خدمات انجام دی تھی۔

انا للّٰہ وانا الیہ راجعون

کئی اہم کتابوں کے مصنف ومحشی، بہت کم لوگوں کو علم ہوگا کہ حضرت استاذ محترم کا (اصول فقہ کا مشہور متن) المنار پر عربی حاشیہ مدتوں داخل درس تھا، اسی طرح قلیوبی پر عربی حاشیہ اب بھی ڈھاکہ کے سرکاری مدارس کی زینت ہے۔

اللہ تعالی ان کتابوں کو ان کے لیے ذخیرۂ آخرت بنائے۔

طلحۃ سلمان بَلان٘ت٘وی

Facebook: https://www.facebook.com/talha.salman.50309

انا للہ و انا الیہ راجعون

آج ہم چمنستان مدنی کے دوپھولوں سے محروم ہوگئے، حضرت مولانا عبدالغنی ازہری رحمہ اللہ سے تلمذ حضرت مولانا نور الحسن صاحب مدظلہ کی برکت سے حاصل ہوا تھا جبکہ حضرت مولانا بلال اصغر صاحب سے براہ راست گفتگو سے حاصل ہوا،

حضرت مولانا بلال اصغر صاحب سے پہلی گفتگو حضرت مولانا شاہ عالم گورکھپوری مدظلہ کی مرہون منت ہے، بندہ کو حضرت مولانا عبدالاحد صاحب دیوبندی کے اساتذہ حدیث کی تفصیل مطلوب تھی، مولانا شاہ عالم صاحب نے نمبر مہیا کردیا فجزاہ اللہ عنی خیر الجزاء

حضرت مولانا مشفق ہونے کے ساتھ ساتھ مجلسی بھی تھے، راقم کو تین چار مرتبہ آپ سے گفتگو کا شرف حاصل ہوا ایک بات پوچھنے کے لیے فون کرتا آپ باتوں سے باتیں نکال کر کافی دیر گفتگو فرماتے،

اجازت حدیث کے لیے آپ کے صاحبزادے نے بات کروائی اس وقت مشکوۃ شریف مہیا ہوسکی بندہ نے اسی میں سے کچھ سنایا، اسی شام تفصیلی وقت کا عرض کیا فورا شام کا وقت دے دیا، فون ملنے پر فرمایا منتظر ہی تھا بندہ نے بخاری شریف، ترمذی شریف اور ابوداؤد شریف تین کتابوں کے ابتدائی ابواب سنائے آپ تسلی کے ساتھ سنتے رہے، اس کے بعد بندہ نے عادت کے موافق تمام اساتذہ حدیث کی تفصیل پوچھی تو ہر کتاب کے جدا جدا استاذ بتائے اگر ایک کتاب دو اساتذہ سے پڑھی تو اس کی وضاحت بھی کی، آپ کے استاذ کا معلوم ہونے پر بندہ اوپر کی سند ذکر کرتا تو بہت خوش ہوتے

یہ معلوم ہونے پر کہ بندہ کا تعلق جامعہ مدنیہ کریم پارک سے ہے تو ایک ایک کا نام لے خیریت دریافت کی، حضرت مولانا نعیم الدین صاحب مدظلہ سے عزیز داری کا معلوم ہوا تو بہت خوش ہوئے، حضرت مولانا کو سلام کہلوایا

آپ سے اجازت حدیث کے موقع پر ہوئی گفتگو بندہ نے اپنی ڈائری میں نوٹ کی تھی اس کو پڑھ رہا ہوں تو ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ابھی بھی گفتگو چل رہی ہے،

یہ بات ہر جگہ چل رہی ہے کہ آپ حضرت مدنی سے بخاری پڑھنے والی آخری جماعت میں تھے، یہ غلط ہے، حضرت مولانا کی فراغت 1375 کی ہے اور حضرت مدنی کا وصال 1377 وصال والے سال بھی آپ نے نصف سال اسباق پڑھائے تھے، اس سال کے فضلاء میں مولانا قمرالدین صاحب گورکھپوری مدظلہ موجود ہیں ان سے پوچھا جاسکتا ہے

ایک ہی دن میں دو حادثے!!!!!!!!!! اللہ تعالیٰ ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے کچھ سمجھ نہیں آرہا کیا لکھوں

اللہ تعالیٰ حضرت رحمہ اللہ کو کروٹ کروٹ سکون نصیب فرمائے اور سب تلامذہ کو آپ کے لیے صدقہ جاریہ بنائے

Facebook: https://www.facebook.com/profile.php?id=100006177466022

یہ خبر ہم پر بجلی بن کر گری کہ ہمارے مشفق استاذ حضرت مولانا بلال اصغر دیوبندی استاذ دارالعلوم دیوبند 19 جنوری 2023 کو شب جمعہ میں حرکت قلب بند ہوجانے سے وفات فرما گئے۔ إنا للہ وانا الیہ راجعون رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ و غفر لہ من ذنبہ ما تقدم و ادخلہ فسيح جناتہ

حضرت الاستاذ واقعی بہت شفیق و مہربان استاذ تھے، باغ و بہار شخصیت کے مالک، طلبہ سے محبت کرنے والے، تکلفات سے دور، بڑی نسبت کے حامل، دارالعلوم دیوبند کے سابق استاذ حدیث حضرت مولانا عبدالاحد صاحب دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند ارجمند، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد رشید، ایک طویل عرصے تک دارالعلوم میں تدریسی خدمات انجام دیں،1990 میں عربی دوم کے سال مجھے بھی حضرت سے نور الایضاح اور قدوری پڑھنے کا شرف حاصل ہوا، کچھ مسودات کی تبییض کے لیے کبھی کبھی حضرت کے گھر بھی جانا ہوتا تھا، بارہ تیرہ سال کی میری عمر تھی، لذیذ ناشتہ اور چائے بھی کراتے، اب ان کی شفقتیں یاد آتی ہیں تو کلیجہ منھ کو آتا ہے. وہ اپنے اصل گھر چلے گئے اور ہم سے روپوش ہوگئے، لیکن ہماری یادوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے ۔ان کے ہزاروں شاگرد ان کے لیے صدقہ جاریہ ہیں ۔

آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے

سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

Facebook: https://www.facebook.com/jawedashraf.qasmi

مرحوم مولانا بلال اصغر صاحب سے تو ہمارا تعارف نہیں تھا، مگر اُن کے والد محترم حضرت مولانا عبدالاحد صاحب دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ ہمارے استاذ تھے، ہم نے بیضاوی اور مسلم شرہف اُن سے پڑھی ہے، ……… بہت بزرگ شخصیت تھی، مستجاب الدعوات تھے، اکابر دیوبند کے گویا عاشق تھے، ہر مسئلہ پر جہاں فقہا کے اختلاف کا ذکر فرماتے اُس میں اپنے اکابر کی تحقیق ضرور بتاتے تھے،…….. درسی تقریر نہ بہت مختصر ہوتی نہ طویل، ……… ” یہاں پر ” تکیہ کلام تھا جو کثرت استعمال سے ” آں پر ” ہوجاتا تھا، مثلا

” آں پر ہمارے اکابر کی تحقیق یہ ہے،

درس کے آغاز میں پہلے خلاصہ بتاتے، اُس وقت یوں فرماتے ……..

” آں پر چار باتیں ہیں،

یقینا اُن کے صاحب زادے کے اندر بھی اُن کی بزرگی اور دیگر خصوصیات آئی ہوں گی، اللہ تعالی دونوں کے درجات بلند فرمائے ـ

محمود احمد خاں دریابادی

Facebook: https://www.facebook.com/mahmood.daryabadi.5

حادثۂ فاجعہ

دارالعلوم دیوبند کے ہر دل عزیز اور استاذ الاساتذہ حضرت مولانا بلال اصغر صاحب بھی اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ مولانا حضرت شیخ الاسلام مدنی رح کے شاگرد رشید تھے، حضرت مدنی سے بخاری کا آخری درس لینے کا شرف حاصل تھا۔ آپ طلبہ اور اساتذہ کے درمیان یکساں طور پر مقبول تھے۔

دارالعلوم دیوبند میں داخلے کے بعد جن اساتذۂ کرام سے پہلے پہل وابستگی ہوئ ان میں سے ایک حضرت الاستاذ مولانا بلال اصغر صاحب دیوبندیؒ تھے۔میں نے عربی چہارم میں حضرت سے شرح وقایہ پڑھی ۔

دوران درس جب بچوں کی طرف سے کسی قسم کا اشکال ہوتاتوحضرت خوب مزے لے کر جواب ارشاد فرماتے اور فرماتے:‌بیٹے ! بحرالرائق دیکھ کر آتا ہوں۔ کھیل بات نہیں۔

آہ !حضرت کی سادگی اور شگفتگی ۔

سن ۲۰۰۰ء میں فراغت کے بعد جب ۲۰۰۱ء اور ۲۰۰۲ء میں شیخ الہند اکیڈمی میں تھا۔ ان دو سالوں کےدوران حضرت سے نہ صرف بھرپور شناسائی ہوئی٬ بلکہ بہت بے تکلف سا ہوگیا تھا۔اور اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت اپنا گھنٹہ پڑھانے کے بعد عام طور اکیڈمی میں تشریف لاتے اور ہر موضوع پر تقریبا گفتگو ہوتی۔مجھ سے بڑے مشفقانہ اور بے تکلفانہ انداز میں گفتگو فرماتے۔ان دو سالوں میں ان کی سادگی٬شگفتگی اور بے تکلفی کےعلاوہ دارالعلوم اور اساتذہ دارالعلوم کے ان واقعوں سے آگہی ہوئ جو کسی کتاب کے پنّوں میں نہیں مل سکیں گے۔

اکیڈمی سے نکلنے کے بعد ۲۰۰۳ ء میں حضرت کے حکم پر ہی دیوبند چھوڑ کر بریلی کے مدرسہ کاشف العلوم میں بحیثت استاذ اورماہنامہ الکاشف کی ادارت کے حوالے سے مقرر ہوا اور کم وبیش تین سالوں تک اس ادارے سے وابستہ رہا۔

اس درمیان کئ مرتبہ حضرت سے گھر پر ملاقات ہوئی اورصلاح ومشورہ بھی۔

۲۰۱۳ کے بعد میرا دیوبند جانا نہیں ہوسکا ۔اس لیے جو ملاقات ۲۰۱۳ میں ہوئ وہی آخری رہ گئ۔

حضرت کے وصال کی خبر نے نڈھال سا کردیا۔

اللہ تعالی حضرت الاستاذ کو کروٹ کروٹ چین وسکون عطا فرمائے اور اعلی علیین میں مقامِ عالی نصیب فرمائے۔

Facebook: https://www.facebook.com/darussalam.chhatwan

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے