حضرت مولانا بلال اصغر صاحبؒ: کچھ یادیں

بابا بلال” چلے گئے ؟؟

زید ( بابا کے بڑے پوتے) کا فون آتا ہے: ” وصی بھائی ابا کا انتقال ہو گیا؛؛ آپ کو معلوم ہوا؟ سبھی ساتھیوں دوستوں کو اطلاع کر دیجئے”.. اس کے بعد مسلسل گریہ وزاری، اور آہ وبکا۔۔ بس فون کٹ گیا۔

یقین کرنا اب تک مشکل کیا ناممکن سا لگ رہا ہے، اس ایک شخصیت میں کیا کچھ نہیں چھپا ہے اپنی اس زندگی کا، ذہن ماؤف سا ہو گیا، کچھ سمجھ نہیں کیا ری ایکٹ کروں، کل سے اب تک 24 گھنٹے سے زائد ہو چکے ہیں،فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر متعدد تحریریں نئے پرانے شاگردوں کی نظر سے گزرتی رہیں، لیکن دل دماغ کے ساتھ ہاتھوں نے بھی حرکت کی ہمت نہ کی، حتی کہ کسی گروپ پر بھی روٹین کی عام اجنبیوں کی وفات کی خبروں طرح "إنا لله وإنا إليه راجعون” تک نہیں کہہ پایا۔

وجہ یہ نہیں کہ کہنے کے لئے کچھ نہیں، بلکہ یہ ہے کہ اتنا کچھ ہے کیا نہ کہا جائے اور کیا کہہ دیا جائے، اور پھر کہا جائے تو کہاں سے وہ ہمت،وہ دل وہ قلم لایا جائے جو دماغ میں ابلتے، دل میں سسکتے تڑپتے خیالات کو الفاظ کے سانچے میں ڈھال کر رکھ دے، پھر اپنی شخصیت بھی عجیب بے حس واقع ہوئی ہے، جس سے جتنا تعلق زیادہ ہوتا ہے اتنا ہی اس کے تئیں جذبات واحساسات کا اخفاء رہتا ہے، خاص کر وفات پر تو لکھنے کے لئے قلب ودماغ آمادہ ہی نہیں ہو پاتا۔

لیکن بابا بلال ( سب انہیں ابا بلال کہتے ہیں اس وقت بھی کافی لوگ کہتے تھے لیکن ہم نے ہمیشہ "بابا” ہی کہا) پر کچھ لکھنے کا تقاضہ اس لئے ہو گیا کہ شاید مجھ سے جڑے سبھی احباب اور بابا بلال سے وابستہ قریبی حضرات بھی اس تعلق، لگاؤ محبت وشفقت کے پیش نظر جو بابا کو اس راقم سے تھی بندے کے تاثرات جاننے کی خواہش رکھتے ہیں۔ کیونکہ یہ تعلق کوئی ایک دو سالہ تعلیمی رسمی تعلق نہیں تھا، نہ ہی ایک دو کتاب پڑھانے والے استاد کا اپنے ایک شاگرد کے ساتھ شفقت کا وہ معاملہ جو عام طور پر ہو جاتا ہے۔

یہ گزشتہ 17 سال سے زائد عرصے سے دو ایسے انسانوں کا تعلق تھا کہ جن میں ایک انتہائی درجے کا لگاؤ، ایک بے مثال محبت، ایک طرف سے پرانی شفقت ورحمت، دوسری جانب سے پسرانہ عقیدت ادب احترام، ایک طرف سے رہنما کی ہدایات اور دوسری طرف راستہ میں بھٹکنے والے کے لئے چلنے کا سامان۔۔

وہ کیا کچھ نہ تھے اس بندے کے لئے، والد کے مثل

استاد، شیخ کی طرح رہنما، دوست کی طرح غم خوار، محبوب کی طرح دلجوئی کرنے والے، ہر قدم پر تسلی، آگے بڑھنے کا حوصلہ، نیم شب کی دعائیں، لمبے لمبے مباحثیں، گرما گرم سیاسی سماجی اور دارالعلوم کے حالات پر بحثیں، کبھی دوستوں کی طرح چھیڑ چھاڑ ومذاق ۔۔۔۔۔۔ کیا کچھ نہ ان کے ساتھ بیتا۔

یہ کوئی 2005 کا نومبر تھا جب 1426 ہجری شوال کے مہینے میں ہم لوگ چہارم میں آئے، بابا کا بڑا خوف اور رعب تھا، کیونکہ اول عربی سے ہی ثانویہ میں پڑھتے تھے، باہر سے کچھ کچھ دیکھ رکھا تھا،ہمارے ایک ساتھی پر ان کا غیض وغضب بھی سوم کے سال دیکھا تھا اور کمرے کے سینیر ساتھی بھی نہ جانے کیا کیا سناتے تھے، ہم لوگ چہارم "اولی” میں آئے، اس وقت دو ہی ترتیب ہوتی تھی، بابا کا گھنٹا "شرح وقایہ” کا تھا، وہ درس گاہ میں داخل ہوئے تو مکھن میں چٹکی بھر سندور کی طرح سرخ وسفید رنگ، باوجاہت چہرہ، سفید کلف لگا کرتا پائجامہ اور چال میں ایک بے نیازی، اس وقت رکشے سے نہیں آتے تھے، ایک تمکنت اور دھمک سے تخت پر بیٹھے، میں جو ہمیشہ پوزیشن وغیرہ کے سبب آگے ہی بیٹھتا تھا، خوف سے ایک لائن چھوڑ کر بیٹھ گیا، اس وقت تک کسی استاد سے زیادہ نزدیکیاں نہ تھیں، جانتے اور مانتے سبھی تھے، خود میں ہی کسی خدمت، بڑوں کی مجلس کے آداب سے جہالت وناواقفیت کے سبب ایک انجانی دہشت رہتی تھی، اس لئے درس کے باہر ملنا یا درس کے سوا تعلق رکھنا نہ کے برابر تھا۔ ہاں مفتی محمود صاحب بلند شہری، مولانا مزمل صاحب مظفرنگری، مولانا ایوب صاحب مظفرنگری، مولاناخضر صاحب کشمیری ان تمام اساتذہ سے سوم میں پڑھنے کے سبب ایک احترام، محبت اور شفقت کا تعلق تھا لیکن یہ ایک عام طور سے درس گاہ میں بہتر کارگردگی کے سبب ہونے والا تعلق تھا (جو بعد میں الحمد للہ مضبوط ہوتا گیا)۔

اس پس منظر میں بابا بلال سے سامنا ہوا، بابا کی عادت تھی کہ وہ اپنے قیمتی کتب خانے سے بڑی بڑی عربی شروحات، تفاسیر اور فتاوی کبھی بھی لے آتے، اور اس میں سے کچھ سمجھاتے یا حوالہ دکھاتے، ایک مرتبہ فتح القدیر لائے اور اس میں سے عبارت پڑھنے کے لئے کہا تو جیسے تیسے پڑھ دی بہت خوش ہوئے، اور پھر تو ان سے ڈر کم ہوتا چلا گیا، مفتی خورشید انور گیاوی ( استاد حدیث وفقہ اور سابق ناظم تعلیمات دارالعلوم دیوبند) کا بابا سے اچھا تعلق تھا، ثانویہ میں کوئی گھنٹہ نہ ہونے پر بھی وہ دوران درس بابا کے درس میں آجاتے، ایک مرتبہ میری طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ مفتی صاحب میرے اس شاگرد سے کچھ بھی پوچھ لو، یہ فتح القدیر شامی سب پڑھ سکتا ہے، مفتی خورشید صاحب نے سوال کیا کہ بتاؤ جانور کا گوشت مرنے پر کیوں حرام ہو جاتا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ حضرت ناپاک دم مسفوح اس کے جسم میں تحلیل ہو جاتا ہے جس کے سبب گوشت حرام ہو جاتا ہے۔

اس پر دونوں بہت خوش ہوئے اور شاباشی دی، اس کے بعد پہلی مرتبہ ہماری درس گاہ کے کئی بچوں کو بابا نے گھر پر بلایا، چائے پلائی (ان کے گھر سے طالب علم خواہ کتنے ہی ہوں چائے پیے بغیر اور کھانے کے وقت کھانا کھائے بغیر نہ جا سکتے تھے) اور پھر پہلی مرتبہ ساتھیوں کے ساتھ زندگی میں کسی شخص کے پیر دبانے کی سعادت ملی، کچھ تو ان کی شفقت، پیرانہ سالی ( بابا کی سن پیدائش 1937 عیسوی کی ہے تو اس وقت 68-69 سال کی عمر تھی) اور کچھ میرے پرانے اساتذہ کی نصیحت کہ عمر دراز اساتذہ اور بزرگوں سے بہت کچھ ملتا ہے اس کے پیش نظر میں نے بسم اللہ کر دی۔

پھر تو تقریبا ہم چند دوستوں کا روزانہ ہی آنا جانا رہنے لگا جن میں محمد الله قيصر قاسمي مدھوبنی اسجد بھائی سانپلوی( سہارنپوری)، Dilbahar Qasmi سہارنپوری، پرویز اختر گونڈوی( جن کو ہمیشہ معللہ کہا کرتے تھے اس کے پیچھے بھی ایک لطیف پس منظر تھا) غفران بھائی دیناجپوری، مرشد بھائی بھاگلپوری، صداقت بھائی سہارنپوری، قاری اقرار صاحب بجنوری، محمود آسامی، ریاض مظفرنگری( آخر کے دو ایک سال جونئیر تھے ہم سے) نمایا ہیں، روزانہ شام کی چائے ساتھ پیتے، ہم لوگ بھی کبھی کبھی کچھ نہ کچھ مل جل کر دوستوں کی طرح ساتھ میں کھانے کے لئے لے جاتے، بابا بھی بے تکلفی کے ساتھ ہمارے ساتھ شریک رہتے، ان کے گھر میں تمام پودوں کی ذمے داری ہم لوگوں نے لے لی، کیونکہ وہ اوپر والے فلور پر اکیلے رہا کرتے تھے، بچے باہر رہتے تھے پوتے نہایت کم عمر تو پودے سوکھتے جاتے تھے۔

ہمارا وہ سال ہی عجیب ثابت ہوا کہ بابا کو گھٹنے کی پرابلم شروع ہو گئی، ایک مرتبہ کلاس میں ہی چکر آگیا، دوڑ کر پانی لائے تو افاقہ ہوا، ڈاکٹر نے چلنے سے منع کیا تو رکشہ پر آنے لگے، رکشہ سیدھا درس گاہ کے آگے اترتا، اس سے یہ معمول بن گیا کہ جیسے ہی ان کا گھنٹا شروع ہوتا تو ہم ( دو تین ساتھی شروع میں اور بعد میں اکیلا میں صرف) ان کو لینے کے گھر پر جانے لگے، وہ راستے میں ہی مل جاتے تو مجھے رکشے پر ساتھ میں بیٹھاتے، اور گھر پہونچتا تب تو لازما ساتھ بیٹھ کر آنا ہوتا، مجھے دارالعلوم میں داخل ہوتے ہی اساتذہ کے سامنے خصوصا ثانویہ کی عمارت میں داخلے کے بعد بہت حجاب آتا کہ اتر جاؤں لیکن وہ سختی سے منع کرتے اور دونوں ساتھ عین درسگاہ کے سامنے اترتے، راستے بھر خوب باتیں کرتے، بزرگوں کے واقعات، سیاسی موضوعات، ملکی حالات وغیرہ سب پر۔۔۔۔۔

چہارم کا سال ختم :

پہلی مرتبہ دارالعلوم میں دل لگنے لگا تھا، اس سے پہلے کے تین سالوں میں شاندار کارکردگی کے باوجود ہر 15 دن میں گھر جانے کی جلدی رہتی تھی، اب ایک ایک مہینہ ہو جاتا تھا، جمعرات میں بابا کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کا موقع ملتا، بابا کے گھٹنے کی دقت کے سبب ان کو گھٹنے کی مالش کرانی تھی جو میں نے اپنے ذمے لے لی، شروع میں عصر بعد کرتا لیکن کچھ دن بعد عصر میں طلبہ کی بھیڑ کے پیش نظر ہم دو طالب علم ( محمود آسامی اور میں) رات میں عشاء کے بعد جانے لگے، اس وقت زیادہ استفادے کا موقع رہتا تھا، دارالعلوم کے بزرگوں،ادارے کی تاریخ، اس کے مزاج ومنہج خصوصا شیخ الاسلام حضرت مدنی رحمہ اللہ ( ہمیشہ حضرت کہہ کر یاد فرماتے) اور حکیم الاسلام حضرت قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ ( جن کو ہمیشہ حضرت مہتمم صاحب کہتے تھے) کے واقعات خوب سناتے، حضرت مدنی سے انتہاء درجے کی عقیدت ومحبت تھی، ان کے ذکر خیر پر ایک چمک آنکھوں میں آجاتی۔

خواہ کیسا ہی تکرار یا مطالعہ ہو عادت یہ ہو گئی تھی کہ جب تک عشاء کے بعد بابا سے نہ مل لیا جائے چین نہیں پڑتا تھا، بابا کبھی کبھی مسکرا کر کہتے تھے کہ میرے پاس چہارم میں بچے آتے ہیں اور پھر پنجم میں جاتے ہی جب گھنٹہ نہیں رہتا تو پہچاننا بھول جاتے ہیں،میں عرض کرتا کہ حضرت آپ کاتجربہ اس مرتبہ الگ رہے گا، کہتے کہ دیکھیں گے۔

اسی سال بابا کے چھوٹے ہوتے اسامہ کے حفظ کی تکمیل صرف 8 سال کی عمر میں ہوئی، اس میں مجھے انہوں نے گھر کے فرد کی طرح شریک کیا، بڑے صاحب زادے کمال بھائی( اسامہ کے والد) بھی انتہائی شفقت اور محبت کرتے( ابھی بھی کرتے ہیں الحمد للہ) انہوں نے بھی مدعو کیا۔

اسی تعلیمی سال 2005-2006 میں ان کے دوسرے صاحب زادے کی شادی بھی ہوئی،ولیمہ تو خیر گھر پر اپنا ہی تھا لیکن ان کی سسرال میں نکاح کی تقریب جو مدنی ٹیکنکل کے محمود ہال میں ہوئی اس میں جاتے ہوئے حجاب آیا، کیونکہ ایک تو کسی بھی دعوت میں شریک ہونے سے بچپن سے ہی طبیعت بھاگتی ہے خصوصا اجنبی لوگوں میں ، اور دوسرے یہ بھی سنا تھا کہ کچھ طلبہ نما لوگ یہاں ہونے والی پارٹیوں میں بلا دعوت گھس جاتے ہیں اور بسااوقات پکڑے جانے پر رسوا ہوتے ہیں، ہماری دعوت تو تھی لیکن دوسری جانب سے شناسائی نہ ہونے کے سبب ہم نے کھانے کے وقت چپ چاپ آسامی منزل میں رہنے کو عافیت سمجھا، بابا لگاتار ہم لوگوں کے متعلق معلوم کرتے رہے کہ وہ شریک ہوئے کہ نہیں،جب معلوم ہوا کہ نہیں آئے تو کمرے پر ہی بلانے کے لیے آدمی بھیج دیا یہ بہت بڑی بات تھی، جس آدمی کے سامنے دارالعلوم کی بڑی سے بڑی شخصیت بھی احترام میں کھل کر نہ بول پاتی ہو وہ ہمیں خود بلا رہا تھا، ملنے پر پوچھ لیا کہ کیوں نہیں آئے تھے، عرض کیا کہ اس طرح کا خیال ذہن میں تھا کہ ہمیں بھی بن بلایا نہ سمجھ بیٹھے کوئی، کمال شفقت کے ساتھ فرمایا کہ میرے ساتھ چل، مجھے پہلے نکالیں گے تب تجھے کوئی نکال پائے گا۔ اپنے ساتھ ہی کھانا کھلایا تب رخصت ہونے کی اجازت دی۔۔۔۔

بابا کے کتب خانے تک رسائی بھی اسی سال ہو گئی تھی، تفسیر، فقہ حدیث کی مطول عربی شروحات سے واقفیت یہیں سے ہوئی،”روح المعانی”، "فتح القدیر” ( تفسیر اور ہدایہ کی ابن الہمام رحمہ اللہ کی شرح دونوں) "الببنایہ”، "المحیط البرھانی”، شمس الائمہ سرخسی کی "المبسوط”، علامہ شوکانی کی "نیل الاوتار”، فتح الباری، عمدۃ القاری، ابن حزم کی ” المحلی” انگریزی عربی ڈکشنری ” المورد” ( یہ انہوں نے مجھے ہی ہدیہ کر دی تھی جو ابھی تک میرے پاس ہے) یہ سب کتب نہ صرف دیکھنے اور ورق دانی کو ملی بلکہ یہ مکمل ہماری تحویل ہی رہتی تھی، کیونکہ ان کے کتب خانے کی سیٹنگ ہم لوگ ایک دو ہفتے میں تبدیل کرتے رہتے تھے، ان کی الماریاں اس قدر گہری تھیں کہ کئی آدمی آرام سے سما جائیں۔ پڑھنے کے لئے کتاب لے جانے کی اجازت مجھے ملی ہوئی تھی، وہیں یہ بھی سعادت کی بات رہی کہ شرح وقایہ الحمد للہ انہوں نے میری کتاب سے کئی سالوں تک پڑھائی شاید تب تک جب تک ان سے متعلق یہ کتاب رہی۔

بابا نہایت ہی خوددار شخصیت واقع ہوئے تھے، خصوصا اپنی ذات کے معاملے میں وہ کبھی کچھ ظاہر نہ کرتے، نہ کوئی خدمت لیتے، ہم جتنی دیر خدمت کرتے کرتے حتی کہ انہیں خود منع کرنا پڑتا، بسااوقات رات کے 11-12 بجے تک بھی گفتگو رہتی۔ گھٹنے کی تکلیف کے بعد کئی مرتبہ بخار وغیرہ اور دقتیں آجاتی تو بڑا اصرار کرتا کہ ڈاکٹر کو دکھائیں تو ٹال جاتے، زیادہ زور دینے پر آزمانے کے لئے کہتے تو مالدار آدمی ہے میرے پاس پیسے نہیں ہیں، میں نادانی عرض کرتا کہ پیسے میں دے دوں گا،جب لاکر دیتا تو ہنس کر واپس کر دیتے، ایک مرتبہ تو میں نے چیک اپ کے لئے ہی بول دیا تو بولے تو پٹھان آدمی ہے ایسی ہی اصول جلوہ باتیں کرتا ہے، ٹیسٹ میں بہت پیسا لگتا ہے 2 ہزار لاکر دے، میں نے واقعی سچ سمجھ کر کسی طرح لاکر دے دیا، کچھ دن تک ایسے ہی رکھ کر واپس کر دیا۔

ایک مرتبہ ہم دوستوں کو معلوم ہوا کہ بابا کو بٹیر کا گوشت چاہئے، بارش کا موسم تھا سبھی غلیل لیکر نکل پڑے، دو تین گھنٹے کی کوشش میں ایک گرسل ہاتھ لگی، وہی لے گئے، اس حرکت پر خوب زور زور سے ہنسے، وہ وقت عجیب تھا، دل صاف اور چھل کپٹ سے عاری سادہ تھے، ایک جذبہ ایک جوش ایک جنون تھا، استاد کی شفقت،محبت، حوصلہ افزائی بے تکلفی الگ ہی سماں باندھتی تھی، جن دیوانوں کے اندر کچھ کر گزرنے، بلکہ بہت کچھ کر گزرنے کی تڑپ اور للک تھی، سوالات، خلجانات، افکار وخیالات کا ایک تلاطم اٹھتا تھا، جس کو راہ دینے،بایر نکالنے کا حوصلہ، ہمت اور پلیٹ فارم ایک پیرانہ سال تجربے کار شخص دیتا تھا تو نوخیز اذہان کے لئے اس کی ذات میں کششش لازمی تھی، اگرچہ خالص علمی لحاظ سے دیکھا جائے تو ان کی شخصیت کا کوئی بہت چرچہ نہیں تھا،بہت ٹیکنکل اور فنی استاد بھی نہیں تھے، نہ ہی مفکرانہ فلسفیانہ طرز کے حامل تھے نہ انہیں آپ ادیبوں اور زبان دانوں کے زمرے میں شامل کریں گے لیکن ان سب سے پرے طلبہ کے لئے ان کی ذات میں بے پناہ لگاؤ، جڑاؤ اور ایک آلہ کشش تھی، ان کے سامنے بولنے،کھلنے اور شجر ممنوعہ مانے جانے موضوعات پر دور تک اور دیر خیالات وجذبات کو ظاہر کرنے کے مواقع میسر آتے تھے، بسااوقات سخت اختلاف اور بحث بھی ہو جاتی تھی، لیکن وہ آخر میں خندہ پیشانی سے ہنس کر سب ہوا کر دیتے۔

طلبہ کی اسی وابستگی کو دیکھ کر حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی خانقاہ کے طرز پر جمعہ کی صبح کو "ختم خواجگان” کا معمول شروع کیا،اس میں ہم چند طلبہ ہوتے کچھ تسبیحات کے بعد خاموش دعا ہوتی پھر بابا کی طرف سے سب کے لئے بہترین ناشتہ، جو ہم کھاتے وہی وہ بھی کھاتے، بعد میں شگر ہونے پر ان کی چائے الگ آنے لگی تو ہنس کر کہتے کہ لے چیک کر لے کہ کچھ سپیشل تو اس میں نہیں ہے۔

چہارم کے سال پہلی مرتبہ شش ماہی میں اول پوزیشن آئی، ہم لوگوں نے اسی سال چہارم اولی کے ترجمان دیواری پرچے ” القاسم” کی ذمے داری سنبھالی، ارادہ کیا کہ ایک مہینہ اردو اور ایک مہینہ عربی میں لکھیں گے، پہلا مضمون مفتی یاسر ندیم الواجدی کی کتاب "گلوبلائزیشن اور اسلام” کو پڑھ کر اسی عنوان سے لکھا، یہ پہلی اردو کتاب تھی جو میں نے مکمل پڑھیں تھی، عربی میں کرکٹ کے اوپر مضمون لکھا، لیکن اصل کشش اس کی وہ سوالات تھے جو بابا کے حکم پر ہم ہر مہینے ڈالتے تھے اور صحیح جواب بتانے پر انعام بھی دیا جاتا تھا، ہم نے ایک مرتبہ حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کی کتاب "انتصار الاسلام” سے وہ سوال ڈال دیا جو دیانند سرسوتی نے حضرت سے کیا تھا، اس کا جواب جو حضرت نانوتوی رحمہ اللہ نے دیا تھا وہ چار پانچ مرتبہ پڑھ کر سمجھ میں آیا تھا، اور ڈائیریکٹ تو کسی کو نہیں آتا تھا،اس پر کچھ لوگوں نے یہ سوال اٹھایا کہ ذات باری کے بارے میں ایسے سوالات کرکے آپ لوگ طلبہ دارالعلوم کا عقیدہ خراب کر رہے ہو، لیکن چونکہ سوالات بابا کے کنفرم کردہ ہوتے اور جوابات بانی دارالعلوم پہلے ہی دے چکے تھے تو کچھ مسئلہ نہ ہوا۔

بابا نے ہمیں دیانند سرسوتی کی "سیارتھ پرکاش” کے بارے میں بتاکر اس کے اسلام پر اعتراضات والے حصے کے جواب لکھنے کے لئے کہا۔ بلکہ وہ خود شروع میں سبق کے بعد دو تین سوال اس قسم کے لکھوایا کرتے، ہم خود سے جوابات ڈھونڈتے، حضرت الاستاد مفتی محمود صاحب بلندی شہری نے سوم کے سال ہی حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کی معرکۃ الآرا کتاب ” تحذیر الناس” ہماری درخواست پر قدروی ختم ہونے کے بعد پڑھائی تھی، اس لئے تھوڑی شدھ بدھ اور دلچسپی ہو گئی تھی، بابا کے پاس اردو میں سوامی کی کتاب تھی، مجھے ہندی آتی تھی میں نے دیوبند سے ہندی میں خرید لی، اور کچھ نہ کچھ لکھنا شروع کر دیا۔

بابا کو فقہ پڑھانے کے ساتھ ب تفسیر اور حدیث سے بہت لگاؤ تھا، قرآن کریم کا ترجمہ تو وہ سوم میں اس وقت پڑھاتے بھی تھے، گھر پر معلوم ہوا کہ پورے قرآن کریم کی انہوں نے ترکیب اور ترجمہ اس طرح کر رکھا تھا کہ ہر آیت کو ترجمہ اور ترکیب کے ساتھ الگ الگ باکس میں لکھا تھا، اس سے ہر آیت کی ترکیب بآسانی معلوم ہو جاتی تھی، مجھے اس کی نظر ثانی( مطلب پروف ریڈنگ) کے لئے فرمایا، کمپیوٹر چھوٹے صاحب زادے چلاتے تھے میں ان کو املا اور رموز کی کتابت کی غلطیاں بتاتا جاتا، کمپیوٹر بھی باقاعدہ انہیں کے گھر چلتا ہوا پہلی مرتبہ دیکھا، کچھ دن کی مشق سے مجھے بھی بنیادی سسٹم تھوڑا تھوڑا سمجھ آنے لگا تو فاروق بھائی نے مجھے ایک دن کہا کہ آپ خود بھی ایڈیٹنگ کر سکتے ہیں ، میں نے ٹرائی کیا تو دوسرا پارہ "سیقول” نہ جانے کہاں غائب ہو گیا، میرے حواس اڑ گئے، میں نے کافی تلاش کیا لیکن بے سود، پھر اپنے کرم فرما، عزیز دوست، جو میرے اور بہت سے طلباء کے انگریزی کے استاد بھی رہے اور میرے تین سال روم میٹ بھی رہے Najeeb Hasan کاندھلوی ( ثم بنگلوری ثم ہنگری اور اب اطالوی) سے فریاد کی، وہ بھی بہت بے تکلف تھے بابا کے ساتھ، ان کے شاگرد رہ چکے تھے، کمپیوٹر اچھا جانتے تھے، ان کی انگریزی کے تو خیر جواب ہی نہیں تھے، وہ آئے اور بتایا کہ recycle bin ایک چیز ہوتی ہے جس میں delete ہونے کے بعد فائل چلی جاتی ہے لیکن وہاں بھی نہیں ملی۔

بابا سمجھ گئے کہ معاملہ گڑبڑ ہے لیکن کمال شفقت سے اپنی اس محنت کے ضیاع پر بھی کچھ نہ کہا، عصر کے بعد فرمایا کہ ادھر ادھر کی باتیں بہت ہوتی ہیں اب ہم ترجمان السنہ پڑھا کریں گے۔

بابا کی بندے پر شفقتوں کا اظہار اس سال اس طرح بھی ہوا کہ بابا دارالعلوم کے شعبہ تبلیغ کو چھوڑنے کے بعد جب تدریس میں آئے تو جلسوں میں جانا ترک کر دیا تھا، میں نے اپنے مدرسے کے جلسے کے لئے دعوت دی تو معمول کے مطابق منع کر دیا، میں نے بھی نادانی میں ضد شروع کر دی، انہوں نے بھی اپنی روش کے خلاف جانا گوارا نہ کیا پھر آخرکار میں نے کہہ دیا کہ میں بھی نہیں جاؤں گا اگر آپ نہ گئے تو،وعدہ ہوا کہ تقریر نہیں کریں گے بس بطور مہمان رہیں گے، لیکن حیرت کی بات یہ رہی کہ نہ صرف شرکت کی بلکہ تقریر بھی کی اور اس میں میرا ہی تذکرہ کرتے رہے۔

یہ سال ختم ہونے کو آیا تو ہم چہارم طلبہ نے ایک پروگرام کیا، میں نے پہلے کبھی ایک شعر یا تک بندی بھی نہیں کی تھی کبھی، لیکن اس وقت نہ جانے کیا ہوا کہ ایک مکمل ترانہ تک بندی سے بھرپور لکھ ڈالا، شاید بابا سے تعلق کا اثر تھا، یہ ترانہ مزاحیہ انداز کا تھا لیکن تمام اساتذہ کے درس گاہ کے اندر اپنائے جانے والے انداز کی ترجمانی کی کوشش کی گئی تھی، جس میں ہوسکتا ہے کہ کم عمری اور ناتجربہ کاری کے سبب الفاظ کا انتخاب کہیں کہیں معیاری نہ رہا ہو، لیکن واللہ نیت میں کوئی کھوٹ نہ تھا نہ ہی دور دور تک وہم وخیال،ویسے بھی یہ بس انہیں طلبہ کی خصوصی مجلس کے لئے تھا جو ان سب سے واقف تھے اور درس گاہ میں روازنہ دیکھتے تھے، کوئی موبائل یا سوشل میڈیا بھی نہیں تھا، لیکن پھر بھی کچھ ایک جو طلبہ دونوں ترتیبوں کے یکجا پروگرام کے حامی نہ تھے انہوں نے نہ جانے کس طرح اساتذہ کو بتا دیا کہ آپ کی شان میں اس نے گستاخی کی ہے جو وہم وگمان میں بھی نہیں تھی، اس سے کچھ عرصہ استاذہ کی ناراضگی بھی رہی جو بڑا تکلیف دہ مرحلہ تھا لیکن بابا نے ہمیشہ کی طرح مکمل سپورٹ کیا اور فرمایا کہ اس میں ایسا کچھ نہیں ہے اور تیری نیت بھی ٹھیک ہے، تو اپنا کام کرتا رہ۔

آخری درس کے وقت وہ زبردست ناصحانہ تقریر کی کہ اس کے بعد تو بالکل نہ کی ہوگی، اور شاید پہلے بھی نہ کی تھی،کیونکہ ایسی عادت ہی نہیں تھی، 2 گھنٹے سے زائد وقت تک تقریر چلی، ہم نے خاموشی کے ساتھ ٹیپ ریکارڈ میں ریکارڈ کر لی، آواز کا دم خم نوجوانوں والا تھا، دنیا جہاں کی نصیحتیں اور آگے بڑھنے کا حوصلہ اور ہمت دل ودماغ میں گویا پیوست کر دی تھی۔۔۔ افسوس کیسٹ خراب ہونے کے سبب وہ تقریر ضائع ہو گئی۔۔۔

( جاری)…….

آئندہ سالوں میں کیا ہوتا رہا یہ آگے لکھوں گا، کس طرح بابا کی شفقت ومحبت نے ان سے چہارم کے بعد تعلق برقرار رکھنے کے چیلنج کو پورا کرنے پر آمادہ کیا۔۔۔۔۔لیکن بشرط فرصت۔

یہ بے ترتیب بے ہنگم تحریر ہے، جس میں کوئی ربط سوائے اس کے نہیں ہے کہ ایک مشفق ومربی استاد کے تئیں ایک شاگرد کے ذہن میں فلم کی طرح بے شمار چل رہی ہے یادوں میں سے جو بن پڑا لکھتا گیا اور بس۔۔۔۔۔۔۔

رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے