فاروق اعظم قاسمی
میرے تاریخ کے استاذ حضرت مولانا بلال اصغر صاحب بھی مرحوم ہوگئے ۔مدرسہ ثانویہ میں چہارم عربی میں انھوں نے ہمیں تاریخ اسلام پڑھائی تھی۔ حضرت کی ایک ایک ادا یادوں کے دریچے روشن کر رہی ہے ۔
ایک خاص انداز میں اپنے شاگردوں کو "بیٹے” کہہ کر ان کا مخاطب کرنا ہمارے لیے بڑی کشش کا باعث ہوتا ،ان کے اس لفظ میں شفقت و محبت بھی ہوتی،تنبیہ بھی ہوتی اور کبھی کبھی ناراضگی کا اظہار بھی ۔میرے کچھ ہمدرس نسبتاً کم عمر تھے اور صورت سے اور بھی چھوٹے لگتے لیکن کارناموں میں بڑے بڑوں سے فائق ۔ایک بار ایک غزالی نے ایک شبلی کو چھیڑ دیا ۔مولانا کی نظر پڑ گئی ،برہم ہوکر فرمایا:”اچھا ایک تو موضع تہمت اوپر سے یہ حرکتیں ۔دفتر میں چلو ،اس کا اخراج کراتے ہیں”۔ مولانا بظاہر بڑے غصہ ور معلوم ہوتے تھے لیکن ان کے مزاج داں شاگردان جانتے ہیں کہ ان کا یہ غصہ محض بناوٹی ہوتا ۔بڑے نرم دل اور پیار کرنے والے انسان تھے ۔ان کی صحت بڑی اچھی تھی ،ایسا محسوس ہوتا کہ ٹینشن نام کی کوئی چیز ان کی زندگی میں نہیں تھی ،سرخی مائل سفید گورے چٹے،چہرا بھرا بھرا،آنکھیں بڑی بڑی،بھر کلا ڈاڑھی ،طبیعت میں بڑی نفاست تھی ،جامع مسجد (دیوبند) کے نزدیک ان کا قدیم مکان تھا ،میرے زمانے میں گھر سے دارالعلوم پیدل آیا کرتے تھے ۔غالباً ان کے والد کا نام مولانا عبد الاحد تھا اور وہ بھی اساتذۂ دارالعلوم میں تھے اس لیے موجودہ اساتذہ میں انھیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ،مولانا ارشد مدنی صاحب کو بسا اوقات وہ صرف ارشد بولتے ،استاذ مدنی ان کی بڑی عزت کرتے،وہ بڑے نڈر قسم کے آدمی بھی تھے،کہتے میں کسی سے نہیں ڈرتا۔
میرے زمانے میں چہارم کی دو ترتیبیں تھیں ،اولی اور ثانیہ ۔اولی میں تاریخ مولانا پڑھاتے تھے اور ثانیہ میں مولانا حسین احمد ہردواری صاحب ۔عموما ششماہی امتحان کے سوالات مولانا تیار کرتے اور سالانہ کے مولانا ہردواری صاحب ۔میرے وقت میں یہ ترتیب الٹ گئی تھی اور طلبہ بڑے ڈرے ہوئے تھے اس لیے کہ مولانا بلال صاحب کے بارےمیں مشہور ہوگیا تھا کہ وہ نمبر بہت کم دیتے ہیں اور جو عربی میں جواب دیتا ہے اسے تو فیل بھی کردیتے ہیں ۔میرا یہ حال تھا کہ میں نے ٹھان لیا تھا کہ سارے امتحانات کے جوابات عربی زبان ہی میں دوں گا ،بہت سے ساتھیوں نے مجھے بھی سمجھایا کہ بے کار میں فیل ہوجاؤگے،اردو ہی میں لکھو ۔۔۔میں اسی کشمکش میں تھا کہ ایک ترکیب سوجھی اور میں نے کچھ پرانے پرچۂ سوالات کو عربی زبان میں حل کر کے مولانا کی خدمت میں حاضر ہوا ۔مقصد مشورہ اور اصلاح بھی تھا اور ساتھ ہی دل کا چور یہ بھی کہتا تھا کہ مولانا رجھ جائیں گے ۔
اللہ اللہ خیر صلا۔۔۔سالانہ امتحان کا نتیجہ آیا اور مجھے یاد پڑتا ہے کہ پچاس میں انچاس نمبر مجھے ملے (میرا کوئی ہمدرس نمبر کے کم بیش میں میری اصلاح کرسکتا ہے)۔
ایک بار دیوبند گیا تو برسوں بعد رکشے سے جاتے ہوئے حضرت نظر آئے۔رکشہ رکوا کے حضرت سے ملاقات کی ،پہلے جیسی تازگی نہیں رہی تھی،ضعیفی کا غلبہ تھا ،مختصر گفتگو کے بعد ڈھیر ساری دعائیں دے کر وہ رخصت ہوئے اور یہی میری ان سے آخری ملاقات تھی ۔۔۔اللہ تعالیٰ ان کی جملہ خدمات کو شرفِ قبولیت سے نوازے ،مغفرت فرمائے ،کروٹ کروٹ جنت عطا فرمائے اور درجات بلند فرمائے ۔۔۔
ایک غمزدہ شاگرد