نام کتاب……خطبات دارالعلوم دیوبند۔2/جلد
جمع وتریب……مفتی عمران اللہ قاسمی استاذ دارالعلوم دیوبند
سن اشاعت…..2023ء
صفحات……1080،ایک ہزار اسی
ناشر…..ادارہ فکر اسلامی افریقی منزل قدیم دیوبند
رابطہ….7253922176
*تعارف نگار*
محمد جنیدقاسمی
مدرس مدرسہ عربیہ مفتاح العلوم گنج مرادآباد/اناٶ
زیر نظر کتاب اکابر کے خطبات کا مجموعہ ہے۔ جو دوجلدوں پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں وہی خطبات درج ہیں،جو احاطہ ٕ دارالعلوم میں کیے گئے ہیں۔ برصغیر کی علمی دانش گاہ میں کسی بھی فرد فرید کا علماء اور طلباء کے سامنے کچھ بولنا،اہمیت کا حامل ہے۔یہ مجموعہ اپنی نوعیت کا منفرد مجموعہ ہے۔ جہاں اساطین علماء کرام کی وہ باتیں ہیں،جو سند کا درجہ رکھتی ہیں۔ اس کتاب کاتعارف کراتے ہوئے معروف عالم دین،حضرت مولانا سلمان صاحب بجنوری دامت برکاتہم استاذ حدیث،ایڈیٹر ماہنامہ دارالعلوم دیوبند خلیفہ ومجاز محبوب العلماء حضرت مولانا پیر فقیر ذوالفقار صاحب نقشبندی مدظلہ العالی تحریر فرماتے ہیں: خطبات دارالعلوم دیوبند یعنی ”احاطہ ٕ دارالعلوم میں اکابر علماء کے خطبات“ ایک نئے انداز کا علمی تحفہ بلکہ تبرکات کا مجموعہ ہے، جس میں حجۃالاسلام حضرت اقدس مولانا نانوتوی قدس سرہٗ سے لیکر، حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب دامت برکاتہم تک، دارالعلوم دیوبند کے اکابر وذمہ داران اور اساتذہ ٕ کرام؛ نیز باہر سے تشریف لانے والے مشاہیر کے خطبات جمع کیے گئے ہیں، اور اس خوبصورت اور انوکھے کام کی توفیق ملی ہے دارالعلوم کے ایک باصلاحیت، سلیقہ مند اور علمی وادبی ذوق کے حامل استاذ، جناب مولانا مفتی عمران اللہ صاحب زیدمجدہم کو، جو تدریسی خدمت کے ساتھ، شیخ الہند اکیڈمی کی نگرانی کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں”۔
کتاب کی اہمیت اور اس کی افادیت،نیز فہرست پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:”اس کتاب کی فہرست پر ایک نظر ڈال کر آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ان شخصیات کے ناموں ہی سے کیسی دیدہ زیب کہکشاں تیار ہورہی ہے پھر ان کی آفاقی عظمت اور عالمی شہرت، ان افادات کی اہمیت پر کیسی مہر لگاتی ہے، شخصیات کے انتخاب میں زمان ومکان کی اس وسعت کے ساتھ، اس میں تحدید یہ کردی گئی کہ یہ افادات، دارالعلوم دیوبند کی چہاردیواری میں پیش کیے گئے ہوں، اس حدبندی نے، معیار کو کس درجہ بلند کردیا اس کا اندازہ اہلِ نظر ہی لگاسکتے ہیں؛ اِس لیے کہ خطاب کے معیار وتاثیر میں مقامِ خطاب اور مخاطبین کا کردار، ایک طیشدہ حقیقت ہے۔
پھر موضوعات ومضامین پر نظر ڈالیں تو علم وحکمت، دین ودعوت، تزکیہ وسلوک، ایمان وعرفان، تعلیم وتربیت، فتنوں کا تعاقب، نظامِ مدارس، نصابِ تعلیم، منہجِ دارالعلوم جیسے تمام ہی مسائل پر بیشمار عنوانات کے تحت اعلیٰ معیار کی سیرحاصل رہنمائی موجود ہے، فکر ونظر کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جو اس مجموعہ میں شامل کسی نہ کسی شخصیت کے خطاب میں نہ آگیا ہو، حقیقت یہ ہے کہ یہ مجموعہ یوں تو اب ہرمیدان کے لوگوں
کے لیے مفید ہے؛ لیکن اس کی سب سے زیادہ افادیت علماءِ کرام اور دینی خدمت کے کسی بھی میدان میں کام کرنے والوں کے لیے ہے”۔
خطبات تو بکثرت تیار بھی کیے گئے ہیں، ان سے خلق کثیر مستفید بھی ہورہی ہے، علماء کرام ممبروں سے انہیں خطبات کانچوڑ بھی پیش کرتے ہیں، لیکن یہ مجموعہ بقول حضرت مولانا سلمان صاحب بجنوری دامت برکاتہم استاذ حدیث،ایڈیٹر ماہنامہ دارالعلوم دیوبند کے
”خطبات اور تقریروں کے مجموعے تو بیشمار ہیں، جن میں سے بعض ایسے بھی ہیں جن میں متعدد علماء کی تقریریں جمع گئی ہیں؛ لیکن اُن میں عام طور پر چند ہی ناموں کی نمائندگی ہے، اور زیادہ تر خطبات وہ ہیں جو کسی ایک ہی شخصیت کے افادات پر مشتمل ہیں، اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اُن میں سے بعض مجموعے، اس قدر نافع ہیں کہ اُن سے ایک زمانہ مستفید ہوتا رہا ہے، مثال کے طور پر ”خطبات حکیم الامت“، ”خطبات حکیم الاسلام“، ”خطباتِ مدارس“، ”خطبات مفکراسلام“، ”جواہر الرشید“، ”خطبات فقیر“ اور ”اصلاحی خطبات“ وغیرہ، یہ اور اُن کے علاوہ بھی بہت سے مجموعے نہایت نافع اور مقبول ہیں۔
لیکن زیرنظر مجموعہ، اس اعتبار سے بالکل منفرد ہے کہ اس میں مختلف اَدوار اور مختلف میدانوں کی ایک سے زائد ایسی عظیم شخصیات کے افادات شامل ہیں جن میں سے ہرایک اپنی ذات میں ایک انجمن کا مصداق ہے، اور جن کی زمانی وسعت ڈیڑھ صدی سے زیادہ عرصہ کو محیط ہے، ان میں علم وفن، سلوک تصوف، دین وادب، صحافت وسیاست، غرض ہرمیدان کی نہایت قدرآور شخصیات شامل ہیں۔
ان میں حضرت نانوتویؒ، حضرت گنگوہیؒ، حضرت شیخ الہندؒ، حضرت تھانویؒ، حضرت مدنیؒ، حضرت علامہ کشمیریؒ اور حضرت حکیم الاسلام جیسے جبالِ علم اور اساطینِ دیوبندیت بھی ہیں، مولانا آزادؒ اور حضرت مولانا علی میاں ؒ جیسے عالم ورہنما بھی ہیں، ائمہئ حرم شیخ سبیل، شیخ سُدیس، شیخ شُریم اور عرب علماء کبار ڈاکٹر عبداللہ عبدالمحسن ترکی، شیخ عائض القرنی اور شیخ عوامہ جیسے محدث بھی ہیں، اور دارالعلوم دیوبند کے راسخ العلم والعمل کبار اساتذہ بھی ہیں۔
ایک سوال یہ بھی قائم ہوتا ہے، کہ بکثرت خطبات کے ہوتے ہوئے ایک جدید مجموعہ ٕ خطبات کی کیوں ضرورت پڑی، کتاب کے مرتب مفتی عمران اللہ قاسمی استاذ دارالعلوم دیوبند پیش لفظ میں اس کا جواب دیتے ہوئے رقمطراز ہیں:” راقم کو اکابر کے ملفوظات، خطبات، سوانح اور تاریخ وتذکرہ سے دلچسپی ہے، اسی نوع کی کتابوں کے صفحات اُلٹ پُلٹ کرتے ہوئے ایک روز یہ خیال دامن گیر ہوا کہ اکابر دیوبند کے وہ ”خطبات جو احاطہ ٕ دارالعلوم میں کیے گئے“، اگر تلاش کرکے یکجا کردیے جائیں تو ایک خاصے کی چیز ہوگی، اس میں رہنما خطوط، مفید باتیں اور تاریخی حقائق ہوں گے، اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے تلاش وجستجو شروع کی، کافی ذخیرہ فراہم ہوگیا، پھر ان خطبات کو ترتیب دیکر مجموعہ کی شکل دیدی گئی، جو آپ کے سامنے ہے۔
خطاب کا پس منظر سامعین کا مزاج اور ماحول پھر جائے خطاب اور معیارِاسٹیج کا خطاب پر بہت اثر پڑتا ہے، اس کے اعتبار سے تقریر میں علمی نکات، اسرار ورموز، اور موعظت شامل ہوجاتی ہیں، جس سے تقریر کی اہمیت اور اس کے معیار میں اضافہ ہوجاتا ہے کہ نہ صرف حاضرین؛ بلکہ بعد والے بھی اس سے استفادہ کرتے ہیں، پھر دارالعلوم کی اہمیت ہرزمانے میں مسلّم رہی ہے؛ لہٰذا دارالعلوم دیوبند کے احاطے میں طلبہ واساتذہ کے سامنے کیا جانے والا خطاب بھی اہمیت کا حامل رہتا ہے، اس نقطہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے
احقر نے ”احاطہ ٕ دارالعلوم میں اکابر علماء کے خطبات“ کو ترتیب دینے کا کام انجام دیا اور اس کو ”خطبات دارالعلوم دیوبند“ کے نام سے موسوم کردیا۔
یہ مجموعہ نہایت اہمیت کا حامل ہے، خطاب کے ساتھ ساتھ موجودہ دور کے مسائل کاحل، اکابر کے ملفوظات کی روشنی میں کام کا طریقہ، عوام سے مخاطب ہونے سے پہلے،ماحول پر نظر، پرخوب روشنی نظرآتی ہے۔مفتی صاحب پیش لفظ میں تحریر فرماتے ہیں:”جمع وترتیب کے بعد اس مجموعے کو ”خطبات دارالعلوم دیوبند“ کا نام دیاگیا؛ کیونکہ خطیب ومقرر کی طرف نسبت نہ کرکیمحلِ خطاب کی طرف انتساب کردینا بہ کثرت مروّج ہے، ”خطباتِ مدارس“، ”خطباتِ لندن“، ”خطباتِ بھاول پور“، ”خطباتِ بنگلور“ اس کی واضح مثالیں ہیں، نیز مجموعہ مذکور کی ترتیب وتلاش میں یہی نقطہ یعنی محل بیان پیشِ نظر رہا؛ لہٰذا خطبات کو اُن کے محل کی طرف منسوب کرکے احباب ومخلصین کے مشورے سے ”خطبات دارالعلوم دیوبند“ کے نام سے موسوم کردیاگیا، پھر اکابر دارالعلوم دیوبند کی زبان سے دارالعلوم دیوبند کے فکرونظر کی ترجمانی بھی اسی کی متقاضی تھی۔
احقر نے اکابر کی تقاریر کو علیٰ حالہٖ باقی رکھتے ہوئے ان میں حسبِ ضرورت ذیلی عناوین کا اضافہ، رُموزِاملا کی رعایت، آیات واحادیث کا حوالہ اور ان کے اُردو ترجمے، ضروری توضیحات، اشعار عربی، اشعار فارسی کا ترجمہ شامل کرکے ہرتقریر کو ایک عنوان بھی دیا ہے اور اگر پہلے سے اس پر عنوان ہے تو اس کو ہی برقرار رکھا ہے، اورہرممکن طریقے سے تقریر کو مفید اور سہل بنانے کی کوشش کی ہے، چندعرب مہمان علماء اور خصوصاً ائمہ حرم کی تقاریر کا ترجمہ کرکے ان کو بھی عناوین کا اضافہ کرکے شامل کرلیا ہے، ساتھ ہی ہرتقریر کا خلاصہ اور صاحبِ تقریر کا مختصر اور جامع تعارف بھی شامل ہے؛ تاکہ تقریر کی اہمیت اور پس منظر کا اندازہ ہوسکے۔درحقیقت یہ ایک ایسی دستاویز تیار ہوگئی ہے جس میں قاری کے لیے تاریخی معلومات، ماضی کے حالات، اکابر کا اندازِفکر ونظر، طریقہ? عمل، اُمّت کے تئیں اُن کی کُڑھن، طلبہ کے لیے ان کی تڑپ اور دُھن، ہمدردی ومحبت، دارالعلوم کے نظام کو مستحکم کرنے، تعلیمی نظام کو آگے بڑھانے کے لیے اُن کی جدوجہد اور آنے والی نسلوں کے لیے لائحہ ٕ عمل، علمی استعداد میں پختگی پیدا کرنے کے اُصول، علماء کی ذمہ داریاں، ان کے مقام ومنصب کے تقاضے وغیرہ سبھی کچھ اس مجموعے میں دستیاب ہے، فی الحقیقت یہ اکابر علماء کے تجربات، ان کی معلومات سے لبریز ایک ایسا خوانِ علمی ہے، جس کی تازگی طویل مدت گزرنے پر بھی باقی ہے، مدارس سے وابستہ افراد، اساتذہ، طلبہ، ذمہ داران، سبھی کے لیے اس مجموعہ میں مفید، بصیرت افروز اور چشم کشا مضامین ہیں۔
جوشخص بھی اس کتاب کو پڑھے گا، ان شاء اللہ اسے ضرور نفع ہوگا۔یہ عظیم علمی سرمایہ جو بڑی محنت کے بعد تیارکیاگیاہے۔ان خطبات تک علما ٕ اور طلبا ٕ کی رساٸ آسان کردی گٸ ہے۔جہاں سے لینا دشوار تھا۔اہل ذوق حضرات کو اس سے استفادہ کرناچاہیے۔
اس خطبات کی ایک خوبصورتی یہ بھی ہے کہ اساتذہ ٕ دارلعلوم کی تقریظات بھی شامل ہیں۔ضرورت کی تکمیل کردی گٸ ہے۔الحَمْدُ ِلله۔
مرتبِ خطبات اس خوبصورت ترتیب پرقابل مبارک باد ہیں۔