ـــــــــ
از ـ مولانا محمود احمد خاں دریابادی
حضرت مولانا قاضی اطہر مبارکپوری کا اصل نام عبدالحفیظ تھا، گھریلو نام غالبا ” جِھنّو میاں ” تھا، جب شاعری کرتے تھے تو اطہر تخلص استعمال کرتے، یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ اصل نام کے بجائے تخلص سے مشہور ہوئے، آبائی وطن میں چونکہ اُن کے آباء علاقے میں نکاح خوانی کے فرائض انجام دیتے تھے اس لئے پورا خانوادہ قاضی خاندان کہلاتا تھا، ویسے ابتدا میں کچھ مضامین اطہرالقاضی کے نام سے بھی لکھے ہیں مگر بعد میں قاضی اطہر مبارکپوری کو اپنی شناخت بنالیا ـ
ہماری عربی تعلیم کا آغاز 1969 میں ممبئی کے دارالعلوم امدادیہ میں ہوا تھا، اُن دنوں قاضی صاحب مدرسہ میں اعزازی طور پر چند کتابیں پڑھایا کرتے تھے، ہم چونکہ اعدادیہ پڑھنے والے بچے تھے اس لئے پتہ نہیں وہ کون سی کتابیں تھیں ـ ایک سال بعد ہمارےوالد صاحب نے ہمیں حضرت باندوی کے مدرسہ جامعہ عربیہ ہتورا بھیج دیا، چار سال بعد جب واپس آکر پھر شرح وقایہ پڑھنے کے لئے امدادیہ میں داخلہ ہوا تو قاضی صاحب نے تدریسی سلسلہ ختم کردیا تھا، مگر مدرسے میں تقریبا روز ہی تشریف لاتے، اساتذہ کے ساتھ بیٹھتے، بڑی باغ وبہار شخصیت تھی، تفریح، ہنسی مذاق ہوتا، مدرسہ میں ان کے شاگرد تھے اُن سے پُرلطف گفتگو فرماتے، لباس بالکل سادہ، اکثر کرتا، علی گڑھ ہاچامہ کبھی سفید شیروانی بھی پہنا کرتے تھے، ہمیں یاد ہے شیروانی کی اندرونی جیب سے ایک روپیہ نکالتے اور اپنے کسی شاگرد کو نیچے بھیج کر ایک پاو بڑے کا قیمہ منگواتے، یہی ایک پاو قیمہ اپنے ہاتھ سے پکاکر دونوں وقت بازار کی تندوری روٹی کے ساتھ تناول فرمالیا کرتے تھے، ……… قیام گاہ پر کتابوں کاڈھیر چاروں طرف رہتا، چٹائی بچھی رہتی ایک طرف اسٹوپ، چند برتن، مٹکا اور ایک چار پائی، کھونٹیوں پر ٹنگے چند کپڑے ! یہ قاضی صاحب کی کل کائنات تھی، ……… یہ وہی قاضی اطہر مبارکپوری تھے جن کا عرب وعجم کے علمی حلقوں میں ڈنکا بج رہا تھا، ……… تقریر سے مناسبت نہیں تھی، جلدی جلدی بولتے اس لئے نئے آدمی کو بات سمجھنے میں کچھ دشواری ہوتی،
انقلاب میں مستقل کالم جواہر القران لکھتے جس میں مختلف آیات کا ترجمہ ہوتا، ایک دوسرا کالم ” احوال ومعارف ” کے نام سے تھا، جو پہلے تین کالم تک طویل ہوتا، اس میں علمی، تحقیقی، فقہی، مواد کے ساتھ حالات حاضرہ پر بھی تبصرے ہوتے تھے، بعد میں یہ کالم مختصر ہوگیا تھا ـ
حضرت قاضی صاحب نے برسوں انقلاب میں لکھا، اگر وہ سب جمع ہوجاتا تو ہمارے سامنے علمی، تحقیقی، فقہی اور تاریخی اقتباسات کا ایک مستند ذخیرہ ہوتا ـ
گفتگو بڑی بے تکلفانہ اور پُر لطف ہوتی، ہنسی ہنسی میں بڑے کام کی بات کہہ جاتے، درمیان میں کہیں کہیں پوربی بولی مزہ دے جاتی تھی ـ
ایک مرتبہ کچھ الفاظ کا ترجمہ اپنے مخصوص انداز میں بتانے لگے، مثلا ” چھپکلی ” مطلب پوشیدہ غُنچی، ” لکھنو ” مطلب دریں شہر بصد ہزار حجّاماں ( لاکھ ناؤ)
ہمارے دواخانے کے پڑوس میں حکیم فصیح اللہ اعظمی کا دواخانہ تھا، وہاں بھی روز آنا جانا تھا، بیٹھتے اخبار پڑھتے، نگاہ کمزور تھی چشمے کے باوجود اخبار بالکل آنکھ کے قریب لاکر پڑھتے تھے ـ مجھ سے بھی تقریبا روز ملاقات ہوتی تھی، وقتا فوقتا استفادہ بھی کرتا رہتا ـ
ایک مرتبہ میں نے ایک دھریہ ایڈیٹر کے رد میں ایک مضمون لکھا جو ممبئی سے شائع ہونے والے ماہنامے ” نشاط ثانیہ ” میں چھپا، اہل نظر نے اس ناچیز کاوش کو پسند کیا، کچھ لوگوں میں شہرت بھی ہوگئی، ایک دن حضرت قاضی صاحب نے مجھ سے کہا کہ وہ تمھارا کون سا مضمون ہے جس کا بہت چرچا ہے، ……… میں نے اُن کی خدمت میں یہ کہتے ہوئے وہ رسالہ پیش کیا کہ حضرت میرے پاس یہ ایک ہی کاپی ہے ـ……… دوسرے دن حضرت قاضی صاحب نے ایک لفافے میں وہ رسالہ واپس فرمایا اور کہنے لگے، یار تم تو چھپے رُستم نکلے اچھی کھال کھینچی ہے ـ
ایک بار جب ہم دارالعلوم دیوبند میں پڑھتے تھے تب دیوبند کا سفر ہوا تھا، قیام مہمان خانے میں تھا، طعام کا نظم کرنے کی سعادت ہم ممبئی کے طلبا نے اپنے ذمہ لے لی تھی اور کہہ دیا تھا کہ آپ کھانے کی دعوت کہیں کی قبول نہ فرمائیں، دودن قیام رہا، چونکہ مہاراشٹرا جمیعۃ علماء کے صدر بھی تھے اس لئے ایک شام حضرت مولانا اسعد مدنی صدر جمیعۃ علماء سے ملاقات طے تھی، ظاہر یےوہاں سے بغیر کھائے کیسے چھٹی ملتی ؟
آخر میں شیخ الھند اکیڈمی دیوبند کے ڈائرکٹر بھی بنائے گئے تھے ـ
ویسے انھیں جو بھی انجان آدمی دیکھتا یا اُن سے رسمی گفتگو کرتا وہ اُنھیں عالم، محقق، مصنف کیا عام ” ملّاجی ” بھی نہیں سمجھتا، ……..
ہمارے سامنے کی بات تو نہیں مگر ہمارے ساتھ پڑھنے والے کئی ساتھیوں نے بتایا کہ ایک دن یمن کا کوئی اعلی عہدے دار قاضی صاحب سے ملنے آیا اور نیچے چونا بھٹی مسجد میں وضوخانے کے پاس پہنونچ کر قاضی صاحب کے بارے میں معلوم کیا، اتفاق سے اُسی وقت قاضی صاحب ہاتھ میں جوتے لئے نیچے اُترے اور سامنے کے دروازے کی طرف جانے لگے، کسی نے بتایا کہ یہی قاضی صاحب ہیں، وہ دوڑ کر ملا اور بڑی دیر تک اوپر سے نیچے تک دیکھتا رہا، کافی دیرلگی اس کو یہ یقین کرنے میں کہ یہی قاضی اطہرمبارکپوری ہیں ـ کسی نے سچ کہا ہے کہ
یہ الگ بات کہ چپ چاپ کھڑے رہتے ہیں
قد میں جو لوگ بڑے ہیں وہ بڑے رہتے ہیں
محممود احمد خاں دریابادی
۱۵ دسمبر ۲۰۲۲ ء شب ایک بجے