مولانا عبدالحمید نعمانی
راشٹر واد(قومیت و وطنیت)کا مسئلہ، ایک عالمی مسئلہ ہے، جغرافیائی حدود کے خطہ ارضی سے وابستگی کو نظرانداز کرنا کوئی فطری و دانشمندانہ عمل نہیں ہے، بھارت جیسے ملک میں راشٹر واد کی نوعیت کئی معنوں میں مختلف ہے، اس کے باشندوں کے درمیان اتحاد و یگانگت کے لیے، کسی مشترک بنیاد کی تلاش و نشاندہی، ایک ضرورت اور وقت کا تقاضا ہے یورپی، ہندوتو وادی، اسلام پسند اور محب وطن افراد کے حوالے سے راشٹر واد کے الگ الگ معنی اور نقاط نظر ہیں، تمام نقاط نظر میں سے ایسے نقطہ نظر اور تصور قومیت کو سامنے لا کر اس سے ملک کے تمام باشندوں کو جوڑنا، بھارت جیسے متنوع مذاہب و روایات والے میں اس کے استحکام و ترقی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے ایک بڑی ضرورت ہے جو بھارت کے تنوعات اور تکثیری معاشرے سے ہم آہنگ اور معقول و قابل قبول ہو، جب معقول اور ملک کی روایات و تہذیب سے ہم آہنگ راشٹر واد کو فروغ ملے گا تو اس کے تمام باشندوں کے لیے ایک قوم اور متحدہ قومیت کی راہ خود بہ خود ہموار ہوتی چلی جائے گی، یہ کوئی نئی اجنبی روایت نہیں ہے بلکہ اس کے لیے ماضی میں، ملک کی آزادی سے پہلے اور بعد وطنی حیثیت سے ایک ہندستانی قوم کی تشکیل کے لیے سنجیدہ کوشش ہو چکی ہے،۔
آزادی سے پہلے ایک تیسری اجنبی غاصب وقابض طاقت، برٹش سامراج کے چنگل سے ملک کو آزاد کرانے کے لیے ہندستانیوں میں ایک ہندستانی قوم ہونے کا شعور وجذبہ پیدا کرنا جہاں ایک ضروری عمل تھا، وہیں آج کی تاریخ میں مذکورہ شعور و جذبہ پیدا کر کے اسے پروان چڑھانا پہلے سے زیادہ ضروری ہو گیا ہے،
راشٹر واد کے نام پر گزشتہ کچھ دہائیوں خصوصا 2014 سے جس طرح کا فرقہ وارانہ ماحول بنایا جا رہا ہے اس کے تناظر میں یہ سوال اور بھی زیادہ قابل توجہ ہو گیا کہ راشٹر واد کا کون سا ماڈل اور قسم بھارت کے تکثیری سماج کے لیے بہتر اور معقول و مقبول ہے، ملت اسلامیہ ہندیہ اس تعلق سے تہی دست نہیں ہے۔
اس پر بھی توجہ کی ضرورت ہے کہ مثبت قومیت و وطنیت، اسلام سے متصادم نہیں ہے، اور کوئی باشعور سنجیدہ مسلمان مثبت راشٹر واد کے خلاف ہے، مسلم سماج میں حب الوطنی ایک فطری رویہ ہے،یقینی طور پر اسلام زمینی جغرافیائی حدود میں بند اور محدود و منحصر نہیں ہے، لیکن وہ اپنے ماننے والوں کی وطنی حدود و وابستگی کا انکار بھی نہیں کر تا ہے، دین، الہ اور رسالت کا تصور آفاقی ہے، وہ کسی ایک ملک میں محدود و منحصر نہیں ہے، تاہم وہ عالمی انسانی رشتوں پر مبنی مثبت تصور قومیت کامخالف بھی نہیں ہے، بلا شبہ اسلام ہندوتو وادی اور یورپی جارحانہ اور دیگر سے نفرت و تفریق پر مبنی تصور قومیت کے خلاف ہے اور ہونا بھی نہیں چاہیے، اس کے شدید مخالف تو گاندھی جی، ٹیگور اور منشی پریم چند وغیرہ بھی تھے، خلق خدا کو غلط طور پر تقسیم کرنے والا تباہ کن تصور قومیت، انسانی برادری کی تشکیل اور وشو گرو بننے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے،
ملک و ملت کے سلسلے میں اکابر سے ہمیں جو روشنی و رہنمائی ملی ہے اس میں متحدہ بھارت اور اس کے باشندے متحدہ قومیت کے تحت ایک قوم کی شکل میں نظر آتے ہیں،
خود کے تفوق پر مبنی جرمن ماڈل تصور قومیت اور ہندوتو پر مبنی راشٹر واد تقدس و تفوق کے جذبے کو فروغ دینے کے ساتھ دیگر کے صفایا اور محکوم بنانے کی راہ پر ملک کو ڈال دیتا ہے اور بالآخر سماج انتشار و انارکی میں مبتلا ہو کر برباد ہو جاتا ہے، ہندو مہا سبھا اور سنگھ کا نظریہ قومیت اور مسلم لیگ کا دوقومی نظریہ دونوں ملک اور اس کے باہر فرقہ وارانہ ہم آہنگی و اتحاد کے سلسلے میں ناکام ہیں، یورپی جارحانہ و خود غرضی پر تصور قومیت،بہتر رشتوں کے حوالے سے عالمی اور وطنی برادری قائم کرنے میں اپنی افادیت کھو چکا ہے،ساورکر اور گرو گولولکر کا راشٹر واد وشو گرو بننے کی راہ میں قطعی طور سے رکاوٹ ہے، نظریہ، دعوٰی اور عمل کے درمیان کھلا تصادم ہے، یہ راشٹر واد وشو گرو تو کیا، بھارت کا بھی گرو بننے میں پوری طرح ناکام ہے،
دوسری طرف سر سید، اقبال، مولانا مودودی کے حوالے سے اصل سوال کا جواب فراہم کیے اور مشترک سماجوں کے ملک میں مختلف مذاہب و روایات کی موجودگی کے مسائل و مشکلات کا حل پیش کیے بغیر، دانشورانہ اظہار خیالات سے کئی طرح کے کنفیوژن پیدا ہوتے رہے ہیں، سر سید وغیرہ کے، بعد اور واضح تفصیلی بیانات کو نظرانداز کر پہلے کی کچھ مبہم باتوں سے وطنی قومیت کی تردید و تغلیط کی کوشش ہوتی رہتی ہے، جس سے ملت میں یکسوئی کا ذہن پروان نہیں چڑھ پاتا ہے، باور یہ کرایا جاتا ہے کہ ابتداء میں سر سید نے بعض مصالح کے تحت قومیت کو بالکل سادہ معنی میں لے کر ایک علاقہ و ملک کے اندر رہنے والے لوگوں کو خواہ ان کا مذہب ایک نہ ہو، ایک قوم قرار دیا تھا، اسی لحاظ سے ہندواور مسلمان کو ایک قوم بتایا تھا، لیکن حقیقت کا زیادہ عمیق مطالعہ کرنے کے بعد قومیت کی تنگنائے سے باہر آگئے تھے اور اقرار کیا کہ ہندو مسلمان دوقومیں ہیں اور ان میں اتحاد و یگانگت ممکن نہیں ہے، ثبوت میں حالی کی کتاب حیات جاوید(ص 123اور 241،جلد اول) سے سر سید کا یہ تبصرہ پیش کیا جاتا ہے کہ اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ دونوں قومیں دل سے کسی کام میں شریک نہ ہوں گی، ایسا مولانا مدنی رح و مولانا آزاد رح کے تصور قومیت کی تردید و تغلیط کے مقصد سے لکھا کہا جاتا ہے،(دیکھیں، پروفیسر الطاف احمد کی کتاب، احیائے ملت اور دینی جماعتیں صفحہ 473تا474) حالاں کہ سر سید کامذکورہ تبصرہ ہندی اردو کے تنازع کے پس منظر میں 1867 کا ہے، جب ایک ملک میں رہنے والے ہندو مسلم کو ایک قوم قرار دینے کی بات 1884 کی ہے، اس سلسلے کے کئی بیانات سفر نامہ پنجاب، مجموعہ لیکچر اور آخری مضامین سر سید میں موجود ہیں، سر سید کو دو قومی نظریے کاقائل قرار دینے سے ان ہندوتو وادی کے کاز کو تقویت ملتی ہے جن کی طرف سے بار بار کہا جاتا ہے کہ سر سید نے ہندو مسلم میں علیحدگی کو بڑھاوا دے کر تقسیم وطن کی راہ ہموار کی ہے، پڑوسی ملک کے کئی سارے دانشور یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ دو قومی نظریہ کے اصلا بانی سر سید ہیں، وہاں تو یہ تک بندی سمجھ میں آتی ہے لیکن بھارت میں سر سید کو الگ رنگ و شکل میں پیش کر کے یہ باور کرانا کہ وہ ہندو مسلم میں اتحاد و یگانگت کو ناممکن سمجھتے تھے، قطعی ناقابل فہم ہے، سرسید کے حوالے سے دوقومی نظریہ کی ڈاکٹر سید عابد حسین اور پروفیسر خلیق احمد نظامی وغیرہ نے تردید کرتے ہیں، اب تو دو قومی نظریہ پر بننے ملک میں بھی مولانا مدنی رح و مولانا آزاد رح کے نظریہ قومیت کی صحت کو تسلیم کیا جانے لگا ہے۔
بھارت میں بھی ہندوتو پر مبنی راشٹر واد اور اسلام پسندی کے نام پر اسلامی قومیت کے حوالے سے ہندو مسلم میں اتحاد و یگانگت کو ناممکن قرار دینے کی ذہنیت کی تصویب نہیں کی جا سکتی ہے،آج کے بھارت میں راشٹر واد اور راشٹر واد میں بھارت کی بہتر و معقول تعبیر و تفہیم، وقت کا تقاضا ہے، اس کی ایک بہتر کوشش جماعت اسلامی ہند کے امیر جناب سید سعادت اللہ حیسنی نے اپنی حالیہ کتاب،” ہندوتو انتہا پسندی ”میں کی ہے۔
noumani.aum@khaliliqasmi
Source: Facebook