31؍ دِسمبر ۔۔۔ 1952ء ۔۔۔ 70 واں ۔۔۔ یومِ وفات
سابق شیخ الحدیث و مھتمم مدرسہ امینیہ دھلی وصدرِ اوّل جمعیّۃ علماء ھند
تحریر وترتیب : محمد طاھر قاسمی دھلوی ابنِ حضرت مولانا قاری دین محمد قاسمی میواتی ثم الدھلوی رحمۃ اللہ علیہ ، حوض رانی نئی دھلی
تعارف :
آپ اپنے وقت کے مُفسّر ، مُحدّث ، محقق ، مصنف ، فقیہ دوراں ، ادیب ، عربی ، فارسی ، اردو کے بہترین شاعر ، قافلۂ فضل وکمال کے درشہسوار ، قافلۂ حریت کے قافلہ سالار ، فقیہ الاُمّت ، ابُوحنیفۂ زماں ، مُدبّر سیاست داں ، ریاضی داں ، سرخیل جماعت علماء دیوبند ، ھندوستان کے بِالاتفاق مفتیٔ اعظم ، مدرسہ امینیہ دھلی کے شیخ الحدیث وصدرالمدرسین اور مھتمم تھے ، جمعیۃ علماء ھند کی تاسیس میں پیش پیش رھے اور مسند صدارت پر بھی فائز ھوئے ، علم و فضل ، تقویٰ و طھارت اور اخلاق و کمالات کے لحاظ سے طبقہ علماء کی ایک بے نظیر شخصیت تھے ۔ آپ وقت کے ان چِیدہ اور منتخب روزگار علماء میں سے تھے جو بیک وقت عالم و فاضل ، فقیہ و مُحدّث ، ادیب و شاعر اور غیور مجاھد تھے ۔ آپ کی شخصیت نہ صرف معاصرین بلکہ اساتذہ و اکابرین میں قابل اعتماد تھی اور سب ہی آپ کے علم و فضل ، اعتدال مزاج اور رعایت حدود کے قائل تھے ۔
ولادت :
آپ کی ولادت باسعادت 1292ھ مطابق 1875ء میں شاہجہاں پور کے "محلّہ سن زئی” میں ہوئی ۔ آپ کے والد ماجد کا نام شیخ عنایت اللہؒ اور دادا کا نام فیض اللہؒ تھا ۔ یہ سلسلہ نسب شیخ جمال یمنی سے جاکر ملتا ہے ۔ یعنی آپ کا اجدادی وطن جزیرۃ العرب کا جنوبی ساحلی خطہ یمن ہے ۔
تعلیم و تربیت :
آپ پانچ سال کی عمر میں شہر کے ایک محلے میں حافظ برکت اللہ صاحبؒ کے مکتب میں داخل ہوئے اور یہیں ناظرہ قرآن مجید ختم کیا ۔ اردو فارسی کی ابتدائی تعلیم حافظ نسیم اللہ صاحبؒ کے مکتب واقع محلّہ ورگ زئی میں ہوئی ۔ اس کے بعد مولوی اعزاز حسن خاں صاحبؒ کے مدرسہ اعزازیہ میں جو محلہ خلیل شرقی میں واقع تھا داخل ہوئے یہ مدرسہ اپنے قابل اساتذہ کی بدولت بہت مشہور تھا اس لئے حضرت مفتی صاحبؒ کی علمی بنیاد کو اس مدرسہ نے مستحکم کیا ۔ چنانچہ فارسی نصاب کی اعلیٰ اولیٰ کتاب "سکندر نامہ” اور عربی کی ابتدائی کتابیں حافظ بدھن خاں صاحبؒ نے شروع کرائیں جو نہایت ہی ذہین اور قابل استاذ تھے ۔ آپ کے دوسرے استاذ محترم اس مدرسہ میں مولانا عبیدالحق خاں صاحبؒ جو افغانستان سے ہندوستان دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے آئے تھے اور مولانا مفتی لطف اللہ علی گڑھیؒ جیسے شہرۂ آفاق عالم کے شاگرد تھے ۔ مولانا عبید الحق خاں صاحبؒ کی جوہر شناس نگاہ نے جلد معلوم کرلیا کہ ان کے نو عمر مگر ہونہار شاگرد کو نہایت اعلیٰ تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے اس لئے انہوں نے آپ کے والد محترم شیخ عنایت اللہ صاحبؒ کو مجبور کیا کہ وہ اپنے صاحبزادے کو دارالعلوم دیوبند بھیجیں ، آپ کے والدین اپنے غریبانہ حالات کے ماتحت اپنے کم سن صاحبزادے کو اس قدر دور بھیجنے پر رضا مند نہیں ہوئے کیوں کہ اس وقت آپ کی عمر صرف پندرہ برس تھی ۔ آخر کار مولانا موصوف نے انہیں اس بات پر آمادہ کرلیا کہ وہ اپنے نو عمر قریب کے مدرسہ شاہی مرادآباد کی طرف ایک اور طالب علم کے ساتھ بھجوادیں جن کا نام حافظ عبد المجید تھا چنانچہ حضرت مفتی صاحبؒ حافظ عبد المجید صاحب کے ساتھ مدرسہ شاہی مرادآباد میں داخل ہونے کے لئے روانہ ہوگئے ۔ وہاں حضرت مولانا عبد العلی میرٹھیؒ (تلمیذ رشید حضرت مولانا قاسم صاحب نانوتویؒ) اور دوسرے اساتذہ سے پڑھا ۔ مدرسہ شاہی میں دو سال تعلیم حاصل کی ، آخر میں 1312ھ میں دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے اور 1315ھ مطابق 1896ء میں 22 سال کی عمر میں حضرت شیخ الھندؒ سے حدیث کی تکمیل کرکے سند فراغت حاصل کی ۔ دارالعلوم دیوبند میں آپ کے اساتذہ کرام میں شیخ الھند حضرت مولانا محمود حسن صاحب دیوبندیؒ ، حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوریؒ ، حضرت مولانا عبدالعلی میرٹھیؒ ، حضرت مولانا غلام رسول خاںؒ صاحب ، حضرت مولانا منفعت علی صاحبؒ ، حضرت مولانا حکیم محمد حسن صاحبؒ (برادر خورد حضرت شیخ الہندؒ) کے اسمائے گرامی شامل ہیں ۔ بائیس برس کی عمر میں غریب خانوادہ کا چشم وچراغ بزم شیخ الہند کا ایک دانائے راز بن گیا ۔ اپنی خداداد ذہانت و ذکاوت اور اساتذۂ باکمال کی فیض صحبت سے معاصرین میں وہ امتیازی مقام اور تبحر علمی و جامعیت کی وہ شان حاصل کرلی جو شاید باید کسی کو نصیب ہو ۔
دارالعلوم دیوبند میں آپ کا قیام تین سال رہا ۔ قیامِ دیوبند کے زمانے میں مندرجہ ذیل ساتھی اور ہم جماعت ایسے تھے جن سے بے تکلفی تھی ۔ مولانا عبد الخالق شاہجہانپوریؒ ، مولانا عبد المجید شاہجہانپوریؒ ، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنیؒ اور ان کے بھائی مولانا سید احمد صاحب فیض آبادیؒ ، حضرت مولانا ضیاء الحق صاحب دیوبندیؒ صدر مدرس مدرسہ امینیہ دہلی ۔
دارالعلوم دیوبند سے حضرت مولانا سید محمد انور شاہ صاحب کشمیریؒ 1314ھ میں ، حضرت مفتئ اعظم مفتی کفایت اللہ صاحبؒ 1315ھ میں اور شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنیؒ 1316ھ میں فارغ التحصیل ہوئے ۔
حضرت مفتی صاحبؒ فرمایا کرتے تھے کہ حصول تعلیم کے زمانے میں اگرچہ میں نے بہت کم محنت کی ، مگر افتاء کے معاملہ میں بڑی احتیاط اور محنت سے کام لیا کرتا تھا ۔ حصول تعلیم دارالعلوم دیوبند کے زمانہ میں رات کے مطالعہ کے لئے طلبہ کو سرسوں کا تیل چراغ میں جلانے کے لئے ملا کرتا تھا میں رات کو مطالعہ نہیں کرتا تھا ، تیل کا پکوان تل کر کھاتا اور ساتھیوں کا کھلاتا تھا ، اس کے باوجود امتحان میں کامیاب رہتا تھا ۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنیؒ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے کوشش کی کہ اپنے ہم سبقوں میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کروں ۔ بڑی محنت اور خوب مطالعہ کرتا تھا ، امتحان کے موقع پر میر زاہد رسالہ کا پرچہ تھا ، ایک سوال کا جواب بڑی عمدگی سے میں نے دو صفحے پر لکھا اور اسی سوال کا جواب مفتی صاحب نے آدھے صفحہ پر لکھا ۔ حضرت شیخ الہندؒ اس پرچہ کے ممتحن تھے ، آپ نے دونوں کو برابر نمبر دئے ، یعنی آدھے صفحہ کا مضمون اپنے وزن کے لحاظ سے دو صفحے والے مضمون سے کم نہ تھا ۔
درس و تدریس :
دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد آپ دہلی آئے اور اپنے دوست مولانا امین الدین صاحبؒ کے پاس دو تین روز قیام کرکے عازم وطن ہوئے ۔
اس کے بعد مدرسہ عین العلوم شاہجہانپور میں مدرس مقرر ہوئے ، آپ کے اولین مربی و استاذ مولانا عبید الحق خاں صاحبؒ جو مدرسہ اعزازیہ کے اعزازی مدرس تھے بوجہ غلبہ مبتدعین کچھ بددل ہوکر 1314ھ میں مدرسہ عین العلوم کی بنیاد ڈال چکے تھے ، حضرت مفتی صاحبؒ جب دیوبند سے واپس آئے تو انھوں نے اپنے ہونہار اور قابل شاگرد کو درس و تدریس اور دفتری خدمات پر مامور فرمایا ، تنخواہ غالباً پندرہ روپے ماہوار مقرر ہوئی ۔ اس زمانے میں فتنہ قادیانیت کا زور تھا آپ نے ضرورت کا احساس فرمایا اور شعبان 1321ھ / 1903ء میں قادیانیت کی تردید کے لئے ایک ماہانہ رسالہ ” البرہان ” جاری کیا ۔ اس کے ایڈیٹر آپ خود تھے ۔ اس رسالہ میں قادیانیت کے رد میں بہترین مضامین شائع ہوتے تھے ۔
مدرسہ امینیہ کو حضرت مولانا امین الدین صاحب دھلویؒ نے سنہری مسجد چاندنی چوک دہلی میں جاری کیا تھا ۔ حضرت مولانا سید محمد انور شاہ صاحب کشمیریؒ اس کے سب سے پہلے صدر مدرس تھے ۔ حضرت شاہ صاحبؒ کچھ عرصہ کے بعد اپنے وطن کشمیر واپس تشریف لے گئے تو حضرت مولانا امین الدین صاحبؒ نے حضرت مفتی صاحبؒ کو خط لکھا ۔ حضرت مفتی صاحبؒ نے مولانا عبید الحق صاحبؒ سے دہلی جانے کی اجازت چاہی ، مولانا نے بڑی خوشی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ ” آپ ترقی پر جارہے ہیں اللہ مبارک کرے ، لیکن اگر خدا نے مجھ سے آخرت میں یہ پوچھا کہ تم نے مولوی کفایت اللہ کو کیوں چھوڑ دیا تو کیا جواب دوں گا ؟ ” آپ نے دہلی کا ارادہ ملتوی کردیا مگر قدرت نے آپ کے لئے وہ جگہ مخصوص کررکھی تھی ۔
مدرسہ عین العلوم کے ریکارڈ دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مدرسہ کے تمام انتظامی امور حضرت مفتی صاحبؒ ہی انجام دیتے تھے ، تمام عملے پہلے مدرسہ پہنچ جاتے تھے اور سب کے بعد وہاں سے روانہ ہوتے تھے ۔ حساب کتاب بہت عمدہ اور باقاعدہ رکھتے تھے ۔ افتاء کا کام بھی کرتے تھے اور درس و تدریس بھی ۔ سب سے پہلا فتویٰ جو بہت مدلل اور مبسوط لکھا تھا اس کو شاہجہانپور کے تمام علماء نے اور خاص کر آپ کے استاذ مولانا عبید الحق صاحبؒ نے بہت پسند کیا اور بڑی تعریف کی تھی ۔ رمضان 1321ھ میں مولانا عبید الحق خاں صاحبؒ کی وفات ہوگئی ۔
حضرت مولانا امین الدین صاحبؒ شاہجہانپور پہنچ گئے حضرت مفتی صاحبؒ کے مکان پر ہی قیام کیا اور دہلی آنے پر آمادہ کرلیا ۔ چنانچہ شوال المکرم 1321ھ / 1904ء کے اواخر میں حضرت مولانا امین الدین صاحب دھلویؒ کے اصرار اور طلب و فرمائش پر حضرت مفتی صاحبؒ دھلی تشریف لائے اور مدرسہ امینیہ دھلی کے صدر مدرس و مفتی کے عھدہ پر مامور ہوئے ۔ 1338ھ میں حضرت مولانا امین الدینؒ بانی مدرسہ کے وصال کے بعد اھتمام کا منصب بھی سنبھالا ، پھر تادم زیست ان خدمات کو انجام دیا اور وہاں تادم واپسیں تقریبا پچاس سال صدرالمدرسین اور شیخ الحدیث کے عہدہ پر قائم رھے ، پچپن سالہ زمانۂ تدریس میں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں اربابِ فضل وکمال تیار ہوئے جن میں شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علیؒ ، فقیہ وقت حضرت مولانا مفتی مہدی حسنؒ ، سحبان الہند حضرت مولانا احمد سعیدؒ ، حضرت مولانا ضیاءالحق دھلویؒ جیسے عبقری علماء شامل ہیں ۔ الغرض پوری زندگی آپ نے اسی مدرسہ کو بنانے اور سنوارنے میں صَرف کردی اور عمر کے آخری لمحوں تک اسی مدرسہ سے وابستہ رھے ۔
عملی حیثیت سے مدرسہ امینیہ کے تمام انتظامی معاملات درس حدیث اور افتاء آپ ہی انجام دیتے تھے ۔ مہتمم صاحب تمام امور حتیٰ کہ خانگی معاملات میں آپ کے مشورہ کو ضروری خیال کرتے تھے ۔ جلسوں کا انصرام روئدادوں اور مضامین کی ترتیب و تدوین معاہدات اور تمام معاملات آپ کے ہی سپرد تھے ۔
دھلی کے لئے آپ کی تشریف آوری آیۂ رحمت ثابت ہوئی اور ایسا محسوس ہوا کہ عرصہ سے دھلی کو اور خاص کر اس چمنستان ملت کو آپ کا ہی انتظار تھا ۔ شہر کے زعما و شرفا اور اہل الرائے حضرات نے بھی ہر قسم کے سیاسی و ملی اور اجتماعی و شہری اداروں کے معاملات میں آپ سے رجوع کرنا شروع کردیا ۔ حاجی رشید مرزا مرحوم سے کسی بیرسٹر نے کہا کہ مسلمانوں کے مقدمات کے فیصلوں میں مجسٹریٹوں اور وکیلوں کو سخت الجھن اور دشواری پیش آتی تھی کیونکہ مقامی علماء کے فتوے الجھے ہوئے ہوتے تھے یا تو عبارت سمجھ میں نہیں آتی تھی یا غلط ہوتے تھے اور جس مقدمہ میں دو چار علماء کے فتوے عدالت میں پیش ہوتے تھے ان میں اختلاف ہوتا تھا ۔ جب سے مولانا کفایت اللہ کے فتوے آنے شروع ہوئے عدالتوں کو بڑی سہولت ہوگئی ہے ۔
حضرت مفتی صاحبؒ کا ایک بڑا کارنامہ یہ ھے کہ آپ نے مدرسہ امینیہ دھلی کو اپنی جدوجھد سے غیر معمولی ترقی دی اور اس کا ھندوستان کے مشھور دینی مدارس میں شمار ہونے لگا ۔
1355ھ / 1936ء میں دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے اور آخر عمر تک اپنے فہم و تدبّر سے دارالعلوم دیوبند کے ارباب انتظام کو مستفید کرتے رھے ۔
راہِ سلوک :
آپ امام ربّانی حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی قُدّس سِرّہ سے بیعت تھے ۔ مگر خود کسی کو بیعت نہیں کیا ۔ جب کوئی عقیدت مند بیعت کی درخواست کرتا تھا تو حضرت تھانویؒ یا حضرت شاہ عبد القادر صاحب رائپوریؒ یا حضرت مولانا مدنیؒ یا حضرت مولانا الیاس صاحب کاندھلویؒ کی خدمت میں حاضر ہونے کی ھدایت فرماتے تھے ۔
آپ کی ملی وقومی سیاسی کارنامے :
حضرت مفتی صاحبؒ کو اپنے استاذ حضرت شیخ الھندؒ کے ساتھ جو تعلق تھا وہ عشق کی حد تک پہنچا ہوا تھا آپ نے کئی عربی قصیدوں میں اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے ۔ اس لئے شروع ہی سے آپ سیاست میں دلچسپی لینے لگے ۔
حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب دیوبندیؒ جب کسی سیاسی معاملات میں کسی لیڈر سے گفتگو کرتے تھے تو فرماتے تھے کہ ہمارے کفایت کو بلاؤ ۔ ایک طرف حضرت شیخ الہندؒ کے وہ رفقاء اور تلامذہ جو ہر وقت آپ کے ساتھ رہتے تھے اور ہر حالت میں شریک تھے ، مالٹا میں اسیری کی سختیاں جنھوں نے آپ کے ہمراہ جھیلی تھیں اور دوسری طرف حضرت شیخ الہندؒ کا ہر اہم معاملہ میں مولوی کفایت کو یاد فرمانا ۔ ایں سعادت بزور بازو نیست ۔ آخر ایک روز آپ کے ایک تلمیذ خاص نے عرض کیا کہ حضرت ہم بھی تو آپ کے ہمراز و دمساز خدام ہیں اور سیاسی معاملات سے بھی واقف ہیں ۔ فرمایا ہاں بیشک تم لوگ سیاستداں ہو لیکن مولوی کفایت اللہ کا دماغ سیاست ساز ہے ۔ (بروایت مولانا مفتی سید مہدی حسن صاحبؒ)
آپ مختلف علوم وفنون کے جامع تھے حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ فرماتے ہیں :
قدرت کی فیاضیوں نے جو خاص جامعیت اور مسابقت مفتی صاحب کو عطا فرمائی تھی ، وہ بہت ہی کم کو نصیب ہوئی ہے ۔ (معاصر فقہ اسلامی نمبر : 138)
یوروپین ٹرکی کے سیاسی مطلع کا ریاستہائے متحدہ بلقان کی بغاوت سے مکدر ہونا تھا کہ اسلامی اخوت اور ملی غیرت کی روح مغرب سے مشرق تک دوڑ گئی ۔ دھلی کے مسلمانوں نے بھی گہری ہمدردی کا ثبوت دیا ۔ مدرسہ امینیہ کی طرف سے قنوت نازلہ کے بارے میں ایک فتویٰ شائع کیا گیا ۔ اس کے بعد چرم قربانی کے بارے میں دوسرا فتویٰ ہزاروں کی تعداد میں شائع کیا گیا ۔
حضرت مفتی صاحبؒ نے ایک جلسہ بلایا اور تقریر میں ترکی کے اندوہناک مصائب بیان فرماکر اعانت کی ترغیب دی ۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ طلبہ نے اپنا سب کچھ دے ڈالا اور جن کے پاس کچھ نقد نہ تھا انھوں نے کپڑے ، کتابیں اور برتن دے ڈالے ۔ اس کے بعد آپ نے مدرسین و طلبہ کے وفود مرتب کرکے رونہ کیے اور چندہ جمع کیا گیا ۔ جو سامان جمع ہوا تھا اس کو آپ نے خود جامع مسجد کی سیڑھیوں پر کھڑے ہوکر نیلام کیا ۔ آپ کی سعی و کوشش سے جو چندہ ہلال احمر کو دیا گیا اس کی میزان تین ہزار آٹھ سو چورانوے روپے آٹھ آنے نو پائی تھی ۔
جس تربیت گاہ سے آپ تربیت پاکر نکلے تھے یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ آپ صرف درس و تدریس ہی کے مرد میدان نہ تھے بلکہ میدان سیاست کے بھی شہسوار تھے ۔ حضرت شیخ الہندؒ کی وصیت کے سننے اور جاننے والے جانتے ہیں کہ اس نگاہ جوہر شناس نے اول دن سے اس لعل یمنی کی آب و تاب دیکھ لی تھی اور ارکان جمعیۃ علماء کو وصیت فرمائی تھی کہ دو آدمیوں کو ہرگز نہ چھوڑنا ۔ ایک مولانا حبیب الرحمٰن عثمانیؒ (مہتمم دارالعلوم دیوبند) اور دوسرے مولانا کفایت اللہ) صدر جمعیۃ علماء ہند)
آپ کے دل میں قومی و ملی احساس بدرجہ اتم موجود تھا ۔ اور باوجود خاموش طبع ہونے کے آپ اہم اور خطرناک موقعوں پر بے دھڑک میدان میں آجاتے تھے ۔ بیسویں صدی کا آغاز مسلمانان عالم کے لئے بے انتہا دل شکن اور صبر آزما تھا ۔ جبکہ بلقان میں ترکوں پر آفتوں کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے ۔ مبارک ہیں وہ آنکھیں جنھوں نے وہ منظر دیکھا ہوگا کہ چمنستان محمودؒ و قاسمؒ کا یہ سروِ آزاد جامع مسجد شاہجہانی کی سیڑھیوں پر چندہ کا سامان نیلام کررہا تھا اور لوگ زیادہ سے زیادہ قیمت دے کر خرید رہے تھے ۔
آپ کی مِلی و قومی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ھے ۔
خلافت کانفرنس سے فارغ ہونے کے بعد علماء نے آپس میں مشورے کیے اور یہ بات طے کرلی کہ علماء کو ایک مرکز پر جمع ہونا چاھئے اور اپنی ایک منظّم جماعت ہونی چاھئے ۔ حضرت مولانا احمد سعید صاحب اور مولانا آزاد سبحانی کو تمام علماء سے جو اس وقت دھلی میں موجود تھے گفتگو کرنے کے لیے ھدایت کی گئی اور سب سے زیادہ پُرجوش طریقے پر حضرت مولانا عبد الباری صاحبؒ نے اس کی تائید فرمائی ۔ اجتماع کا وقت وغیرہ طے ہوجانے کے بعد پچیس علماء کی میٹنگ میں 1919ء میں جمعیۃ علماء ہند کا قیام عمل میں آیا ۔(بروایت مولانا احمد سعیدؒ)
حضرت مفتئ اعظمؒ کو اس کا عارضی صدر اور حضرت مولانا احمد سعید صاحبؒ کو عارضی ناظم بنادیا گیا ۔ اور مولانا سید داؤد غزنوی کی دعوت پر طے پایا کہ جمعیۃ علماء ہند کا پہلا اجلاس دسمبر 1919ء میں بمقام امرتسر بصدارت حضرت مولانا عبد الباری صاحبؒ منعقد ہوگا ۔
حضرت مولانا احمد سعید صاحبؒ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ 1918ء میں جب حضرت مفتی صاحبؒ حضرت شیخ الہندؒ کے حالات پر ایک کتابچہ لکھ رہے تھے (جو طبع ہوکر شائع ہوچکا ہے) اسی وقت سے حضرت مفتی صاحبؒ نے یہ طے کرلیا تھا کہ علماء کا ایک آل انڈیا جماعت کی صورت میں منظّم ہونا اشد ضروری ہے ۔ جب خلافت کانفرنس میں شرکت کی غرض سے دھلی میں علماء کا اجتماع ہوگیا تو آپ کے تخیل نے عملی شکل اختیار کرلی اور جمعیۃ علماء ہند وجود میں آگئی ۔
رولٹ بل 1919ء کے خلاف جب گاندھی جی نے خلات کمیٹی کی شرکت میں تحریک ستیہ گرہ شروع کی تو حضرت مفتی صاحبؒ بڑے انہماک سے اس تحریک میں حصہ لے رہے تھے ۔ آپ کے دولت خانے پر لیڈروں کے بڑے بڑے اہم مشورے ہوتے تھے مگر آپ حکمتِ عملی کے ساتھ پوشیدہ کام کرتے رہے ، گرفتاری کا موقع نہیں آنے دیا ۔ آپ کے رفقائے کار (حکیم اجمل خاںؒ ، ڈاکٹر ایم اے انصاریؒ ، مولانا محمد علیؒ) ہرگز آپ کی گرفتاری کو پسند نہیں کرتے تھے کیونکہ پس منظر میں بیک وقت خلافت کمیٹی اور جمعیۃ علماء ہند کی روح رواں آپ ہی تھے ۔
جمعیۃ علماء ہند کا سب سے پہلا دفتر مدرسہ امینیہ میں آپ کے ہی کمرہ میں قائم ہوا ۔ کوئی محرر اور چپڑاسی نہیں تھا بلکہ آپ خود اور حضرت مولانا احمد سعید صاحب دھلویؒ ناظم اعلیٰ جمعیۃ علماء ہند اپنے ہاتھوں سے تمام کام کیا کرتے تھے ۔
آپ کو قدرت نے بڑی فیاضی کے ساتھ فضائل و کمالات کا مجموعہ بنایا تھا ۔ وہ علماء جو ہمیشہ جزوی مسائل میں الجھے رہتے تھے آپ کی قیادت میں ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوگئے اور یہ آپ کا ہی بلند اخلاق اور مضبوط کردار تھا کہ مختلف الخیال علماء میں ایک جگہ جمع ہونے کی صلاحیت پیدا ہوگئی ۔ جمعیۃ علماء ہند کو آپ نے اپنے ہاتھوں سے پرورش کیا اور اپنی محنت و جانفشانی سے پروان چڑھایا ۔ 1920ء سے 1940ء تک تقریباً بیس برس آپ جمعیۃ علماء ہند کے صدر رہے مگر اس طویل عرصہ میں کبھی سالانہ کانفرنس کی صدارت نہیں فرمائی ۔ قومی کاموں میں حتی الامکان اپنی جیب سے رقمیں خرچ کرتے تھے ۔ سفر خرچ وغیرہ بھی بہت کم لیتے تھے ۔ آپ کے عہد صدارت میں جمعیۃ علماء ہند نے آزادئ ہند کے لیے جو عظیم خدمات انجام دی ہیں وہ وہ ناقابلِ فراموش ہیں ۔
آپ کی عمر مبارک کے 60؍ سال دینی و مذہبی اور سیاسی و ملی خدمات کے لیے وقف رہے ۔ ایک طرف مدرسہ امینیہ کے ساتھ آپ کا یہ شغف تھا کہ بیماری کی حالت میں بھی درس و افتاء کا شغل رہتا تھا ۔ مدرسہ سے رخصت نہیں لیتے تھے ، کبھی ناغہ نہیں کرتے تھے ، دوسری طرف قومی و ملی فرائض سے بھی غافل نہ تھے ۔ 1930ء کی تحریک سول نافرنانی میں آپ نے بے انتہا باغیانہ اور خطرناک تقریریں کرنے کے جرم میں 11؍ اکتوبر 1930ء مطابق 17؍ جمادی الاولیٰ 1349ھ کو اپنے دولت خانہ واقع کوچہ چیلان سے رات کے چار بجے گرفتار کیے گئے تھے اور چھ ماہ گجرات کی جیل میں رہے ۔ دوسری مرتبہ جمعیۃ علماء ہند کے ڈکٹیٹر کے طور پر 31؍ مارچ 1932ء کو ایک لاکھ افراد کے جلوس کی قیادت کرتے ہوئے گرفتار ہوئے اور اٹھارہ ماہ ملتان کی جیل میں رہے ۔
آپ کی عظیم الشان تقریروں کی گونج آج بھی فضائے آسمانی میں باقی ہے ۔ اپنی پیرانہ سالی اور کمزوری صحت کے باوجود دو دو تین تین گھنٹے اسٹیج پر شیر کی طرح گرجتے تھے ۔ شروع میں آواز ہلکی ہوتی تھی مگر تھوڑی ہی دیر کے بعد تیز ، بلند اور قوی تر ہوتی جاتی تھی ۔ اس زمانہ میں لاؤداسپیکر (آلہ مکبر الصوت) کا رواج نہ تھا مگر بڑے بڑے عظیم الشان مجمعوں پر آپ کی آواز حاوی ہوتی تھی ۔ آپ کی تقریر عالمانہ ہوتی تھی ، مگر عوام کے لئے بھی اس قدر دلچسپ ہوتی تھی کہ کبھی آپ کی تقریر میں سے کسی کو اٹھ کر جاتے ہوئے نہیں دیکھا گیا ۔ غرضیکہ آپ خلوت میں اعلیٰ درجہ کے مفکر و مدبر اور جلوت میں اعلیٰ درجہ کے مقرر و خطیب تھے ۔ (اگرچہ عادی مقرر نہ تھے) ہر میدان میں آپ کا ارشاد قول فیصل تھا ۔
الغرض آپ جمعیۃ علماء ھند اور کانگریس کی تحریکوں میں ہمیشہ پیش پیش رھے ۔ تحریک ترک موالات کا فتویٰ آپ نے ہی مرتب کیا تھا ۔ سیاسی سرگرمیوں کے سلسلہ میں آپ کو قید و بند سے بھی دوچار ہونا پڑا ۔ شدھی اور سنگھٹن کے خطرناک فتنہ سے لیکر ھندوستان کی آزادی تک آپ کی زندگی بے انتہاء سرفروشیوں ، جاں سپاریوں اور قربانیوں سے بھری پڑی ھے ۔
چنانچہ مولانا ظہور علی (بھوپال) آپ کی سیاسی سرگرمیوں کے بارے میں لکھتے ہیں :
1919ء سے 1952ء (اپنی وفات) تک کوئی سیاسی اور مذہبی تحریک ایسی نہیں ہے ، جس میں حضرت مفتی صاحب کی رہبری پوری صداقت وصفائی کے ساتھ نظر نہ آئے ۔ (مفتی اعظم کی یاد : 174)
آل سعود نے حجاز پر قبضہ کے بعد دنیائے اسلام کے علماء کو حجاز میں نظام حکومت پر غور کرنے کے لئے جو کانفرنس بلائی تھی ، اس کانفرنس میں آپ چند علماء کے ساتھ ھندوستان کی طرف سے بطور رئیس الوفد شریک ہوئے تھے اور متعدد اہم امور میں علماء حجاز اور شاہ ملک بن عبد العزیزؒ سے تبادلہ خیال کیا تھا ۔ اسی طرح قاہرہ و مصر میں جب فلسطین کانفرنس بین الاقوامی پیمانے پر منعقد ہوئی تو ھندوستانی مسلمانوں کی طرف سے آپ نے ہی نمائندگی کا فریضہ انجام دیا ۔
آپ کی شانِ تفقہ ، علمی خدمات وکارنامے :
آپ ایک عظیم مفتی اور فقیہ تھے ۔ مختلف علوم وفنون کے ساتھ فقہ وفتاویٰ میں آپ کو خاص امتیاز حاصل تھا اور مختلف دینی و ملی سرگرمیوں کے ساتھ خدمت افتاء آپ کا خاص مشغلہ رہا ؛ حتیٰ کہ سیاسیات میں بھی آپ نے فقہ و فتاویٰ کی لائن سے بڑی خدمات انجام دیں ؛ چنانچہ آپ کے فتاویٰ کے مجموعے میں ” سیاسیات” کا ایک مستقل باب موجود ہے ۔ آپ کے ہم عصر اور اکابر علماء کو بھی آپ کی شانِ تفقہ کا اعتراف اور آپ کے فتاویٰ پر اعتماد تھا ؛ چنانچہ جب "ترک موالات” کا فتویٰ لکھنا تھا تو حضرت شیخ الہندؒ نے اپنے جن دو تلامذہ پر اعتماد کیا تھا ، ان میں پہلا نام آپ ہی کا تھا اور آپ نے "ترک موالات ” پر مفصل فتویٰ تحریر کیا ، اسی طرح علی گڑھ کے طلبہ کی طرف سے جب استفتاء آیا تھا تو حضرت شیخ الہندؒ نے اس کا جواب آپ ہی سے لکھوایا تھا ، جس پر حضرت شیخ الہندؒ نے صرف نظر ثانی فرمائی تھی اور دستخط کرکے بھیج دیا تھا ۔ (مفتی اعظم : 21)
آپ کے فتاویٰ کی ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ بہت مختصر فتاویٰ لکھتے تھے اور ان کی زبان بہت صاف اور واضح ہوتی تھی ۔ آپ کے فتاویٰ کی مقبولیت نہ صرف ہندوستان میں تھی ؛ بلکہ جاوا ، سماترا ، برما ، ملایا ، چین ، بخارا ، سمرقند ، بلخ ، بدخشاں ، ختن ، تاشقند ، ترکستان ، افغانستان ، ایران ، افریقہ ، امریکہ اور انگلستان وغیرہ سے بھی آپ کے پاس سوالات آتے تھے اور آپ کے جوابات لوگوں کے لیے سرمۂ چشم اور سنگ میل ثابت ہوتے تھے ۔
آپ کے فتاویٰ کی تعداد بہت زیادہ ھے ۔ کفایت المفتی (9 جلدیں) آپ کا سب سے بڑا قلمی سرمایہ آپ کے گہربار قلم سے لکھے گئے آپ کے فتاویٰ کا مجموعہ ہے جس کو آپ کے فرزند اکبر حضرت مولانا حفیظ الرحمن صاحب واصف دھلویؒ نے مرتب کیا ہے ، اس کی کل 9؍ جلدیں ہیں ، لیکن چونکہ ہمیشہ آپ کے فتاویٰ کی نقل محفوظ نہیں کی جاسکی ؛ اس لیے آپ کے تمام فتاویٰ اس مجموعہ میں نہیں آسکے ، یہاں تک کہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ آپ کے فتاویٰ نویسی کی پچپن سالہ زندگی میں سے زیادہ سے زیادہ پچیس سال کے فتاویٰ ہی کو جمع کیا جاسکا ہے ، ورنہ 9؍ جلدوں کی جگہ 19؍ جلدیں ہوسکتی تھیں ، چنانچہ خود مرتب فتاویٰ لکھتے ہیں :
1316ھ مطابق 1898ء سے فتاویٰ لکھنا شروع کیا اور 1321ھ مطابق 1903ء میں دھلی تشریف لائے ، لیکن مدرسہ امینیہ میں نقول فتاویٰ کا سب سے پہلا رجسٹر ربیع الاول 1352ھ مطابق 1903ء سے شروع ہوتا ہے ، یعنی چھتیس (36) برس فتویٰ لکھنے کے بعد نقول فتاویٰ کا انتظام ہوا ، مگر یہ انتظام بھی ناکافی و ناقص تھا ۔۔۔۔۔۔ مدرسہ کے رجسٹر میں آخری فتویٰ 1944ء کا ہے ، اس کے بعد آپ کی وفات تک آٹھ برس کے زمانہ میں صرف پچیس فتویٰ درج ہوئے ۔۔۔۔۔۔ اندراج فتاویٰ کے لیے کوئی مستقل محرر کبھی نہیں رکھا گیا ۔۔۔۔۔۔ آپ مدرسہ کے ساتھ جمعیۃ علماء کے دارالافتاء کے بھی صدر مفتی تھے اور سہ روزہ "الجمعیۃ ” میں "حوادث واحکام” کے عنوان سے آپ کے فتاویٰ شائع ہوتے تھے ؛ مگر الجمعیۃ کا ریکارڈ بھی مفتی اعظم کے تمام فقھی ذخیرہ کا حامل نہیں بن سکا ۔ (دیباچہ کفایۃ المفتی)
آپ کی دوسری مشھور تصنیف ” تعلیم الاسلام ” ھے جو سوال و جواب کے طرز پر اسلامی مدارس کے بچوں کے لئے نہایت سلیس چار حصوں میں لکھی گئی ھے ۔ اور ہند وپاک کے بیشتر مدارس میں اور بنگلہ دیش وافریقہ کے بعض مدارس میں داخل نصاب ھے ۔ یہ کتاب لوگوں میں بھی بہت مقبول ہوئی ہے اور اتنی مقبول ہوئی کہ انگریزی ، ھندی اور دنیا کے بہت سی زبانوں میں اس کے ترجمے ہوچکے ہیں ۔ اس کتاب کے بارے میں ڈاکٹر ابوسلمان شہاجہاں پوری لکھتے ہیں :
عام طور پر کتابیں مصنف کی نسبت سے شہرت پاتی ہیں ؛ لیکن یہ ایسی کتاب ہے جس کی نسبت سے اس کے مؤلف نے شہرت پائی ، اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ دلی کے گلی کوچوں میں "تعلیم الاسلام والے مفتی صاحب ” سے مشہور ہوئے ، یہ کتاب اور اس کے مؤلف کی عنداللہ مقبولیت کا اشارہ بھی ہے ۔ (مفتی اعظم ہند : 80) ان کے علاوہ آپ نے بہت سے فقھی اور غیر فقھی رسالے بھی لکھے ۔ آپ عربی کے قادر الکلام شاعر بھی تھے ، آپ کی عربی شاعری کا ایک مختصر رسالہ ” روض الریاحین” بھی شائع ہوا ۔
آپ کے ھزاروں شاگرد ہندوستان ، پاکستان ، برما ، ملایا ، جاوا ، سماترا ، عراق ، حجاز ، شام ، افغانستان ، ایران ، بخارا ، ختن ، تبت ، چین اور افریقہ تک پھیلے ہوئے ہیں ۔ ہندوستان کے مشاہیر علماء میں سے شیخ الادب حضرت مولانا حافظ اعزاز علی صاحب امروہویؒ (استاذ الفقہ والادب دارالعلوم دیوبند) حضرت مولانا مفتی سید مہدی حسن صاحبؒ (صدر مفتی دارالعلوم دیوبند) اور حضرت مولانا حافظ احمد سعید صاحب دھلویؒ (ناظم اول جمعیۃ علماء ہند) آپ کے محبوب اور خاص تلامذہ میں سے تھے ۔
وفات :
یکم اکتوبر 1952ء مطابق 9؍ محرم الحرام 1372ء کو طبیعت گِرنی شروع ہوگئی ، مرض نے طول پکڑا ، ڈاکٹروں اور طبیبوں نے پوری توجہ اور پوری عقیدت مندی کے ساتھ علاج کیا مگر جو مقدر تھا پیش آیا اور تین ماہ کی سخت علالت کے بعد 13 ربیع الثانی 1372ء مطابق 31؍ دسمبر 1952ء چہار شنبہ شب کو دس بجکر پچیس منٹ پر یہ علم و عمل کا چراغ گل ہوگیا ۔ اِنّا للہِ وَاِنّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنْ ۔
دیوبند سے شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین صاحب احمد مدنیؒ ، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب قاسمیؒ ، شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی صاحب امروہویؒ ، حضرت علامہ مولانا محمد ابراھیم صاحب بلیاویؒ نماز جنازہ میں شرکت کے لئے روانہ ہوئے لیکن راستہ میں ایسی رکاوٹ پیش آئی کہ جب دہلی پہنچے تو نماز جنازہ ختم ہوچکی تھی ۔ اسی وقت سہارنپور سے حضرت مولانا عبد اللطیف صاحبؒ ناظم مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور ، حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحبؒ اور ان کے رفقاء بھی تشریف لے آئے ۔
یہ طے کیا گیا تھا کہ حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد صاحب مدنیؒ نماز جنازہ پڑھائیں گے مگر حضرت مدنیؒ وقت پر دہلی نہیں پہنچ سکے ۔ شب گزشتہ کو دہلی کی مشھور درگاہ صابریہ کے سجادہ نشین شیخ طریقت پیر جی کرار حسینؒ کی بھی وفات ہوگئی تھی ۔ ان کا جنازہ بھی یہیں پہنچ چکا تھا ۔ اور حضرت مفتی اعظمؒ کے جنازہ کے برابر میں ہی رکھا ہوا تھا ۔ ایک سالک طریقت کا اور ایک عالم شریعت کا دونوں جنازوں کی ایک نماز ہوئی جو سحبان الھند حضرت مولانا احمد سعید صاحب دہلویؒ نے پڑھائی ۔
نماز جنازہ ایک لاکھ آدمیوں نے پڑھی ۔ اس کے بعد جس وقت جنازہ چلا تو دھلی دروازہ تک ڈیڑھ لاکھ آدمی شریک تھے ۔ جنازہ کا فقید المثال منظر قابل دید تھا ۔ ہر شخص اس عظیم ہستی کی عظیم الشان موت پر رشک کررہا تھا جس کی عقیدت میں لوگ جوق در جوق دہلی اور بیرون دھلی سے چلے آرہے تھے ۔ پریڈ گراونڈ سے دہلی دروازہ تک کی وسیع سڑکیں انسانوں کا ایک سمندر معلوم ہورہی تھیں ۔ سڑکوں کے دونوں طرف ھندو مسلمان سکھ عورتیں اور بچے کھڑے تھے اور دہلی کی جامع مسجد کی سیڑھیوں اور مشرقی دروازہ اور دو طرفہ دالانوں میں ہزاروں مسلم خواتین اپنے مرحوم پیشوا کے جنازے کے آخری دیدار کے لئے بھری ہوئی تھیں ۔ اتنے عظیم الشان ہجوم کا کنٹرول قدرت ہی کررہی تھی ۔ نہ فوج کی ضرورت پیش آئی نہ پولیس کی ۔
دہلی دروازہ کے باہر پہنچ کر جنازہ ایک بڑی سی ایمبولنس کار میں رکھا گیا ، اور مہرولی نئی دہلی کی طرف چلا ، حکومت کی طرف سے کوئی سواری کا انتظام نہیں تھا ، عقیدت مند لوگ اپنے پیسے خرچ کرکے بسوں کاروں اور تانگوں کے ذریعہ مہرولی جارہے تھے ۔ ( دہلی دروازہ سے مہرولی کا فاصلہ گیارہ میل ھے ) شام ساڑھے چار بجے جنازہ مہرولی پہنچا اور ظفر محل کے پاس جاکر رکا ۔ اور بعد نماز عصر میت کو حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کے مزار کے جنوبی دروازہ کے چبوترہ پر تیار قبر میں اتارا گیا ۔ قبر میں اتارنے سے پہلے نماز عصر کے بعد حضرت مولانا حسین احمد صاحب مدنیؒ ، حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب قاسمیؒ ، حضرت مولانا اعزاز علی صاحب امروہویؒ ، حضرت مولانا ابراھیم صاحب بلیاویؒ جو دیوبند سے دہلی پہنچ چکے تھے آخری دیدار کے لئے تشریف لائے ۔ اس کے بعد حضرت مولانا احمد سعید صاحب دہلویؒ اور حضرت مفتی صاحبؒ کے صاحبزادے حضرت مولانا حفیظ الرحمن صاحب واصف دہلویؒ نے قبر میں اترکر میت کو لحد میں رکھا ۔ تقریبا مغرب کے وقت ہزاروں انسان اپنی اس جلیل القدر اور گراں مایہ دولت کو سپرد خاک کرکے واپس ہوئے ۔
اخبارات سے معلوم ہوا کہ ھندوستان اور پاکستان کے بہت سے شہروں میں حضرت مفتی صاحبؒ کی غائبانہ نماز جنازہ بھی ادا کی گئی ۔
( حوالہ جات : تاریخ دارالعلوم دیوبند : 79/2 ۔81 ، کاروان رفتہ ، مولانا اسیر ادروی ص : 217 ، مفتی اعظم ھند ، ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہاں پوری ، تاریخ شاھی ص : 532 ، تحریک آزادی اور مسلمان ص : 258 ، تذکرہ اکابر ص : 117 ، دارالعلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ ص : 596 ، مفتی اعظم کی یاد ص : 147 ۔ 231 ، تحریک آزادئ ہند میں مسلم علماء اور عوام کا کردار ص : 203 تا 204 ، فضلائے دیوبند کی فقہی خدمات ص 249 تا 260) ، تذکرہ مشاہیر ہند (کاروانِ رفتہ) ص : 217 ، بڑوں کا بچپن ص : 71 ، علماء دیوبند کے آخری لمحات ص : 74 ، ملت اسلام کی محسن شخصیات : ص 213 )