فیصلہ دل و دماغ سے کیا جاتا ہے تو پھر پیشانی کو جھوٹی و خطاء کار کیوں کہا گیا؟

اللہ رب العزت نے سورہ علق میں ارشاد فرمایا

كَلَّا لَئِن لَّمْ يَنتَهِ لَنَسْفَعًا بِالنَّاصِيَةِ (15) نَاصِيَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ

ہاں ہاں اگر باز نہ آیا تو ضرور ہم پیشانی کے بال پکڑ کر کھینچیں گے. کیسی پیشانی جھوٹی پیشانی!

سوال بنتا ھے کہ

پیشانی کو جھوٹی اور خطاء کار کیوں کہا گیا ھے!

حالانکہ فیصلہ دل و دماغ سے کیا جاتا ھے.

جب سائنسدانوں نے اس پر تحقیق کی تو حیران ہو کر رہ گئے

کہ جو معمہ اس ترقی یافتہ دور میں حل ہوا

قرآن کریم نے اس کی طرف اشارہ چودہ سو سال پہلے کر دیا تھا!

دماغ کا اگلا حصہ جو پیشانی کی جانب واقع ہے وہاں سے فیصلے صادر ہوتے ہیں!

پیشانی کے اس حصے سے جذبات ظاہر ہوتے ہیں!

پیشانی کا یہی اگلا حصہ شخصیت کی صفات بناتا ھے!

محققین کہتے ہیں کہ پیشانی کا یہ حصہ کاٹ دیا جائے تو انسان فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو جائے گا

اور کچھ کرنے یا نہ کرنے کی صلاحیت کھو دے گا!

اس حصے کی ان خصوصیات کی بناء پر قرآن کریم میں فرمایا کہ اسی پیشانی کے بال کھینچے جائیں گے کیونکہ یہی ارادہ کرنے فیصلہ کرنے کی جگہ ہے!

محققین نے مزید تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ جانوروں میں دماغ کا یہ حصہ چھوٹا اور کمزور ہے

اسی لیئے جانور درست فیصلہ نہیں کر سکتے اور قیادت کے اھل نہیں ہیں!

اسی طرف قرآن کریم میں یوں اشارہ ہے

ما من دابة إلا هو آخذ بناصيتها

کوئی جاندار نہیں مگر اس کی پیشانی رب العزت کی قدرت میں نہ ہو!

اور حدیث پاک میں یوں دعاء ھے

ناصيتي بيدك

اے رب میری پیشانی تیرے قبضہ قدرت میں ہے!

یعنی اکمل و اتم طور پر میں خود کو تیرے حوالے کرتا ہوں تیری مرضی کے آگے میری مرضی کچھ نہیں ہے!

اور یہی نماز میں سجدہ کرنے کی حکمت ہے کہ پیشانی کا وہ خود مختار حصہ زمین پر رکھ کر رب العالمین کی بارگاہ میں اپنے ہونے کی نفی اپنی مرضی کی نفی کر دی جاتی ہے!

کہ یاربی تو نے جو میرے اندر مختار حصہ رکھا ہے جو حصہ فیصلہ کرتا ہے میں اسی حصے کو تیری چوکھٹ پر رکھ رہا ہوں!

تیری رضا پر میں راضی ہوں!

جب انسان سجدہ کرتا ہے تو دل سے خون دماغ میں جمع ہوتا ہے

وہ سارے جذبات جو دل میں ہوں وہ اس وقت اس حصے میں جمع ہوتے ہیں!

غصہ,نفرت,بغض,جرم و عصیاں یہ سب خیال کی صورت وہاں جمع ہوتے ہیں

مگر انسان جیسے ہی وہ خیالوں,گناہوں کی آماجگاہ کو زمین پر رکھ کر خود کو رب العالمین کے سپرد کرتا ھے تو رحمت کی تجلی پڑتی ہے!

حدیث پاک میں بندہ سجدے کی حالت میں سب سے زیادہ رب کی رحمت کے قریب ہوتا ھے

اور اسی وجہ سے بندے میں تبدیلیاں رو نما ہوتی ہیں

پرسکون ہوجاتا ھے

منقول از فیسبک

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے