عبيد الله شميم قاسمى
دسمبر كا مہينہ ختم ہوتے ہى ہمارى زندگى كا ايک بيش قيمتى سال بهى ختم ہوگيا، زندگى الله رب العزت كا ايک بيش قيمتى عطيہ ہے، پروردگار نے ہميں زندگى عطا فرمائى اور صحت جيسى نعمت بخشا، اس نعمت كا ہم جتنا بهى شكر كريں كم ہے اور ہميں فراغت عطا فرمائى، اس كى قدر كرنى چاہيے، مشہور مقولہ ہے "قدر نعمت بعد زوال است” جب ہم دنياوى زندگى ميں مشغول ہوجاتے ہيں اور صحت جيسى نعمت سے محروم ہوجاتے ہيں اس وقت ہميں اس كا احساس ہوتا ہے، اسى وجہ سے حديث شريف ميں فرمايا گيا كہ دو نعمتيں ايسى ہيں جس سے لوگ بكثرت غافل ہيں اور دهوكہ ميں پڑے ہوئے ہيں، بخارى شريف كى روايت ہے، حضرت عبد الله بن عباس رضى الله عنہما راوى ہيں:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ: الصِّحَّةُ وَالفَرَاغُ ” صحيح البخاري (8/ 88)
حضرت عبد الله بن عباس رضى الله عنہما فرماتے ہيں كہ رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے ارشاد فرمايا كہ دو نعمتيں ايسى ہيں جس ميں بہت سے لوگ دهوكے ميں ہيں (1) صحت اور نمبر (2) فراغت۔
انسانى جسم كى صحت الله رب العز ت كی بيش بہا نعمت اور قيمتى عطيہ ہے، ذہن ودماغ كى صحت اسى وقت برقرار رہتى ہے جب جسم صحت كى نعمت سے مالا مال ہو اور وقت كى رفتار سے بھر پور فائده زندگى كى صحت مند ہونے ہى كى صورت ميں ممكن ہے۔
صحت انسان كى زندگى كو خوش گوار بناديتى ہے، ايک صحت مند شخص جب كسى كام كو كرنے كى ٹھان ليتا ہے گو كہ وه مشكل ہو مگر اس كے حوصلے كے سامنے وه مشكل مرحلہ بھى آسان ہوتا ہے، اسى طرح انسان كى زندگى ميں فراغت كا ہونا يہ بھى الله رب العزت كى طرف سے ايک نعمت ہے۔
صحت اور خاص طور پر جوانى كى عبادت الله رب العزت كو بہت پسند ہے، بخارى شريف كى مشہور روايت ہے جس ميں قيامت كے دن كى ہولناكى سے جن خوش نصيب كو الله رب العزت كے عرش كا سايہ نصيب ہوگا، ان ميں ايک نوجوان بھى ہوگا كہ الله كى عبادت ميں اس كى جوانى پروان چڑھى ہوگى: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللَّهُ تَعَالَى فِي ظِلِّهِ يَوْمَ لاَ ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ: إِمَامٌ عَدْلٌ، وَشَابٌّ نَشَأَ فِي عِبَادَةِ اللَّهِ، وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِي المَسَاجِدِ، وَرَجُلاَنِ تَحَابَّا فِي اللَّهِ، اجْتَمَعَا عَلَيْهِ وَتَفَرَّقَا عَلَيْهِ، وَرَجُلٌ دَعَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ فَقَالَ: إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ، وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ فَأَخْفَاهَا حَتَّى لاَ تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ يَمِينُهُ، وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللَّهَ خَالِيًا، فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ”. صحيح البخاري (1423).
قيامت كے دن ہر شخص سے اس كى زندگى كے بارے ميں سوال ہوگا تو جہاں اس كى عمر كے بارے ميں سوال ہوگا كہ كہاں صرف ہوئى: "عن عمره فيما أفناه” وہيں جوانى كے بارے ميں خاص طور پر سوال ہوگا "وعن شبابه فيما أبلاه”.
كسى وقت كے گزرنے يا آمد پر خوشى كا اظہار كرنا شريعت اسلاميہ ميں اس كى كوئى نظير نہيں ہے، وقت يكساں ہوتا ہے، انسان اپنے اعمال اور كردار سے اور اس كے صحيح استعمال سے اس كو نافع وضار بنا سكتا ہے، اگر اس وقت كو صحيح مصرف ميں لايا گيا تو آپ كے ليے وه بيش قيمت ہوگا، ليكن اس كو اگر يونہى ضائع كرديا تو سوائے افسوس وپچھتاوے كے كچھ بھى حاصل نہيں ہوگا۔
بے سبب لوگ ديتے ہيں کيوں مبارک باديں غالبا بھول گئے وقت کی کڑوى ياديں
نئے سال كى آمد پر لوگ ايک دوسرے كو مباركباد دينا شروع كرديتے ہيں، حالانكہ يہ مبارک بادى كا موقع نہيں ہے، انسان كى عمر عزيز كا ايک سال كم ہوگيا اور انسان موت سے اور قريب ہوگيا، ايسے وقت ميں ہميں اپنے حالات كا جائزه لينا ہوگا كہ ہمارى زندگى كا بيش قيمت سال كس كس جگہ صرف ہوا، آيا ہم نے پورے سال اپنے اوقات كو لايعنى مشاغل سے محفوظ ركھ كر صحيح جگہ استعمال كيا ہے، يا يونہى بے ربط يہ پورا سال گزر گيا۔
2022ء گزر گيا، اسى طرح ہمارى زندگى كے بہت سے ما ه وسال گزر چكے ہيں، اب كتنى زندگى باقى ہے، اس كا صحيح علم تو الله رب العزت ہى كو ہے، اس ليے زندگى كے باقى لمعات كى قدر كرنى چاہيے اور اسے غنيمت سمجھتے ہوئے لا يعنى مشاغل كو ترک كرنے كا عزم مصمم كرنا چاہيے۔
امام ترمذى نے حضرت عمرو بن ميمون سے روايت نقل كى ہے كہ رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے ارشاد فرمايا: پانچ چيزوں كو پانچ چيزوں سے پہلے غنيمت سمجھو، (1) جوانى كو بڑھاپے سے پہلے، (2) اپنى صحت كو اپنى بيمارى سے پہلے، (3) اپنى مالدارى كو اپنے فقر سے پہلے، (4) اپنى فراغت كو مشغولى سے پہلے، (5) اپنى زندگى كو موت سے پہلے۔
وَعَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ الأَوْدِيِّ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى اللَّه عليه وسلم- لِرَجُلٍ وَهُوَ يَعِظُهُ: "اغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ: شَبَابَكَ قَبْلَ هَرَمِكَ، وَصِحَّتَكَ قَبْلَ سَقَمِكَ، وَغِنَاكَ قَبْلَ فَقْرِكَ، وَفَرَاغَكَ قَبْلَ شُغْلِكَ، وَحَيَاتَكَ قَبْلَ مَوْتكَ”. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ مُرْسلًا.
ہمارے اكابر اپنے اوقات كى كتنى حفاظت فرماتے تھے اور لايعنى اور غير ضرورى مشاغل سے اپنے آپ كو كتنا دور ركھتے تھے، اس كا اندازه شيخ عبد الفتاح ابو غده رحمہ الله كى كتاب ’’قيمة الزمن عند العلماء‘‘ اور مولانا ابن الحسن عباسى مرحوم كى كتاب’’ متاع وقت اور كاروان علم ‘‘كا مطالعہ كركے لگايا جاسكتا ہے۔
حضرت شيخ الحديث مولانا محمد زكريا صاحب رحمة الله عليہ كے والد ماجد مولانا محمد يحيى صاحب كاندھلوى جنہوں نے زندگى كے آخرى باره سال حضرت گنگوہى رحمہ الله كى خدمت ميں گزارے، حضرت گنگوہى انہيں بڑھاپے كى لاٹھى اور نابينا كى آنكھيں فرمايا كرتے تھے، انہيں مطالعہ اور يكسوئى كا كتنا شوق تھا كہ ايك مرتبہ نظام الدين دہلى ميں پانچ ماه ايک حجرے ميں اس طرح گزار ديے كہ وہاں رہنے والوں كو بھى اس كى خبر نہيں ہوئى۔ اس دوران مختلف كتب كا مطالعہ كرتے رہے، چنانچہ مولانا ابن الحسن عباسى صاحب تحرير فرماتے ہيں: فرمايا كرتے تھے كہ پانچ ماه ميں نے نظام الدين كے أيک حجرے ميں اس طرح گزارے ہيں كہ خود مسجد ميں رہنے والوں كو معلوم نہ تھا كہ ميں كہاں ہوں، چنانچہ اسى دوران كاندھلہ سے نكاح طلبى كا تار آيا ، لوگوں نے يہ كہہ كر واپس كرديا كہ مكتوب اليہ عرصہ سے يہاں نہيں ہے، اس عرصہ ميں بخارى شريف، سيرت ابن ہشام، طحاوى شريف، ہدايہ اور فتح القدير ميں نے بالاستيعاب اس اہتمام سے ديكھيں كہ مجھے خود حيرت ہے۔(متاع وقت اور كاروان علم صفحہ238)۔
نئے سال كى آمد پر ہميں اپنى زندگى كا احتساب اور آئنده كے ليے بلند ہمتى اور پر عزم ہوكر ايک بامقصد زندگى جس ميں ہم الله اور اس كے رسول كے بتلائے ہوئے احكامات كے مطابق زندگى گزار سكيں اور اس زندگى ميں ہمارے ذمہ جو حقوق ہيں ان حقوق كى ادائيگى كى فكر كرتے ہوئے زندگى كے بچے ہوئے لمحات گزر جائيں اس كى ہمہ وقت ہميں فكر دامن گير ہونى چاہيے۔