ابن مالک ایوبی، بنارس
ملت اسلامیہ کے نامور علماء و مشائخ کی سیرت و سوانح لکھنے اور ان کی زندگیاں محفوظ کرنے کا عمل دورِ سلف سے جاری ہے، نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی زندگیوں پر لکھی گئی بے شمار کتابیں اس سلسلے کی ابتدائی کڑیاں تھیں، جس میں مزید کڑیاں جڑتی گئیں اور ہر دور کے مفید و موثر اشخاص کی ذاتی افادیت کو اگلی نسل تک منتقل کرنے کے لیے، ان حضرات کی سیرت و سوانح لکھی جانے لگیں۔
ان ہی سوانحی کتابوں میں سے تازہ تصنیف "حضرت فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہی اور ان کے خلفائے عالی مقام” ہمارے سامنے ہے، دو جلدوں پر مشتمل اس ضخیم کتاب کے مرتب و مؤلف "مفتی ریاست صاحب قاسمی رامپوری (استاذِ حدیث و فقہ جامع مسجد امروہہ)” ہیں، جنہوں نے بڑی عرق ریزی اور جستجوئے پیہم کے بعد حضرت مفتی اعظم مفتی محمود صاحب گنگوہی اور ان کے خلفاء کے حالات قلمبند کیے ہیں، مولانا عاقل صاحب سہارنپوری (شیخ الحدیث مظاہر علوم سہارنپور) کے مطابق (جیسا کہ انہوں نے مذکورہ کتاب کی تقریظ میں لکھا ہے) مفتی صاحب کے کُل خلفاء کی تعداد تو 133 ہے، لیکن کتاب میں 76 خلفاء کا تذکرہ ہے۔
کتاب پر اساطینِ علم و فضل کی تقریظات، کتاب کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں، چنانچہ حضرت مولانا رابع حسنی ندوی (ناظم ندوہ العلماء لکھنؤ)، حضرت مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی (مہتمم و شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند)، حضرت مولانا سید عاقل صاحب سہارنپوری (شیخ الحدیث مظاہر علوم) مفتی احمد خانپوری (صدر مفتی ڈابھیل) اور حکیم کلیم اللہ صاحب علی گڑھ (خلیفہ حضرت ہردوئی) نے کتاب پر وقیع تقریظات رقم فرمائی ہیں۔
مصنف محترم نے کتاب کا آغاز فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی کے حالات سے کیا ہے، تقریباً 100 صفحات پر محیط حضرت کا مفصل تذکرہ کتاب کی اہمیت کو دوبالا کر رہا ہے، اس کے بعد مفتی ابراہیم صاحب افریقی اور مفتی ابو القاسم صاحب نعمانی جیسے سرکردہ خلفاء کو یکے بعد دیگرے موضوعِ کتاب بنایا گیا ہے۔
پہلی جلد میں 32 خلفاء کا ذکر ہے اور دوسری جلد میں بقیہ 44 خلفاء کے حالات درج ہیں، ان تمام خلفاء و مشائخ کی سوانح جمع کرنے میں جو دشواریاں پیش آئی ہوں گی، اس کا اندازہ مصنف کو ہی ہوسکتا ہے، کیوں کہ حضرت مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی کے بقول، اکثر خلفاء اپنے حالات بتانے کو تیار نہ تھے، مصنف نے مسلسل اصرار اور پیہم یاد دہانیوں کے بعد ان کی سوانح حاصل کی ہیں، اس کے بعد بھی تمام 76 خلفاء کے حالات میسر نہ آ سکے، تو ذاتی کوششوں سے ان کے حالات جمع کیے اور کتاب کا حصہ بنایا۔
ان تمام مساعی کے لیے حضرت مصنف ہم سب کی جانب سے شکریے و مبارک باد کے مستحق ہیں، کیوں کہ ان میں سے بیشتر خلفا سے، تصوف سے منسلک حضرات بھی بخوبی واقف نہیں ہیں اور جن شخصیات کے نام جانتے ہیں، ان کے حالاتِ زندگی کا انہیں کچھ علم نہیں۔
نیز ذاتی طور پر بھی میں مصنف صاحب کا ازحد ممنون ہوں کہ انہوں نے نہ صرف اتنی اعلیٰ کتاب تالیف کی، بلکہ ہم جیسے اصاغر کو (مادر علمی کی نسبت سے) کتاب ہدیۃً عنایت کی، جس کے مطالعے سے فقیہ الامت اور آپ کے مجازینِ بیعت کے موضوع پر ایک بند باب وا ہو رہا ہے، مثال کے طور پر اسی کتاب کی بدولت مجھے معلوم ہوا کہ ہمارے شہر بنارس میں حضرت فقیہ الامت کے ایک نہیں، تین خلفاء ہیں، جن میں سے ایک کا انتقال ہو چکا ہے۔
حضرت فقیہ الامت کی باکمال اور ہردلعزیز شخصیت کے شیدا مختلف علاقوں میں رہے ہیں، اس لیے ان کے خلفاء میں ہندوستان کے بعد، بنگلہ دیش اور افریقہ سے تعلق رکھنے والے افراد سب سے زیادہ ہیں، ان ممالک کے علاوہ سعودی عرب، انگلینڈ، فرانس اور ویسٹ انڈیز میں موجود علماء نے بھی حضرت سے اجازت حاصل کی ہے۔ (اگرچہ ان غیر ملکی خلفاء میں اکثر حضرات غیر مقیم ہندوستانی ہیں)
خلفاء عالی مقام کی اکثریت دارالعلوم دیوبند اور مظاہر علوم سہارنپور کی فیض یافتہ ہے، نیز گجرات کے مشہور مدارس (ڈابھیل، ترکیسر وغیرہ) یوپی کے مشہور مدارس (دارالعلوم ندوہ، اشرف العلوم گنگوہ وغیرہ) کے فضلاء نے بھی حضرت فقیہ الامت کی صحبت اٹھائی ہے اور اجازت و خلافت کا شرف حاصل کیا ہے۔
کتاب کی ظاہری ہیئت کی بات کی جائے، تو سرورق اور کاغذ وغیرہ کے لحاظ سے انتہائی عمدہ کتاب ہے، ٹائپنگ صاف اور نسبتاً باریک ہے، دونوں جلدوں کے مجموعی صفحات 1070 ہیں، جن کے مشمولات مواد سے بھرپور اور غیر متعلقہ گفتگو سے یکسر خالی ہیں، جو کہ ایک کامیاب مصنف کی پہلی اور سب سے بڑی کامیابی ہوتی ہے۔
کتاب کی جمع و ترتیب اور اس کی اشاعت بجا طور پر اہل تصوف اور اہل علم دونوں طبقوں کے لیے بیش قیمت سوغات ہے، اس لیے متعلقہ طبقات کو اس سے ضرور استفادہ کرنا چاہیے۔
اللّٰہ سے دعا ہے کہ اس کتاب کو ظاہری و باطنی قبولیت سے نوازے اور حضرت مصنف صاحب دامت برکاتہم کو اجر جزیل عطا فرمائے۔ آمین