عبدالمتین

قرآن کریم اور روحانی امراض

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ رب العزت نے کلام پاک کو انسانیت کے لیے شفاء قرار دیا ہے اور اس میں انسانوں کے جسمانی و روحانی دونوں طرح کی بیماریوں کے علاج کا سامان موجود ہے۔ ہمارے ہاں روحانی بیماریوں کے نام پر ایک الگ ہی سلسلہ چل پڑ اہے لیکن صوفیاء نے روحانی بیماریوں میں بہت سی اخلاقی کمزوریوں کا تفصیلی تذکرہ فرمایا ہے ان بیماریوں کا تعلق بظاہر افراد سے ہے لیکن یہی افراد چونکہ معاشرے کا حصہ بھی ہیں بالآخر ان امراض میں مبتلا لوگ معاشرے کے لیے وبا ثابت ہوتے ہوتے ناسور کا کردار ادا کرتے ہیں، ان مختلف بیماریوں میں ایک عام اود مروجہ مرض “بدگمانی اور تجسس” ہے۔ 

 فرماتے ہیں اللہ رب العزت :

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اجۡتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ ۫ اِنَّ بَعۡضَ الظَّنِّ اِثۡمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوۡا۔ الحجرات ﴿12﴾

اے ایمان والوں! بہت زیادہ گمان قائم کرنے سے بچو یقینا بہت سے گمان گناہ کا ذریعہ بنتے ہیں اور جاسوسی مت کرو  ۔

سوچ اور خیال کا گناہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بدگمانی ایک ایساگناہ جس کا تعلق انسان کی زبان،کان یا آنکھ سے نہیں بلکہ خیال اور سوچ سے تعلق رکھتا ہے یعنی ہم ظاہر دیکھ کر اپنی سوچ خیال مین نیکی بدی، گناہ ثواب اور اچھے برے کے فیصلے کرلیتے ہیں ۔

اگرانسان کی سوچ اورذہن پاکیزہ ہے تولوگوں کے ساتھ تعلق خود بخود بہتر ہوجائے گا اور اگر سوچ ہی آلودہ ہے تو عمل میں بھی آلودگی آئے گی جس سے اپنا اوردوسروں کاسکون ختم ہوجائے گا۔

اسی لیے اللہ نے فرمایاکہ اجۡتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ کسی کے بارے میں بہت زیادہ برا گمان اور بری سوچ کی عادت سے بچو ۔

باقی چونکہ انسان ایک ذہین مخلوق ہے اگر تھوڑابہت ذہن میں کوئی خیال بے اختیار آجاتا ہے تو وہ الگ بات ہے لیکن بہت زیادہ اپنے ذہن کودوسروں کے پیچھے لگانا گناہ کاعمل ہے۔

انسانی نفسیات کا تقاضہ ہے کہ اگرمیراخیال کسی کے بارے میں اچھاہےتومیرارویہ بھی اس کے ساتھ اچھا ہی ہوگا اور اگرسوچ اور خیال میں گندگی ہے تومیرا رویہ بھی گندا ہوجائے گا پھر یہ گند ذاتی تعلقات،گھر،پڑوس اور بالآخر پورے معاشرے کو گندا کردے گا۔

سوچ فکر کا جھوٹا پن

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسی حوالے سے امت کے محسن سرورکائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان ہے کہ

 “إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ”۔(صحيح البخاري)

ترجمہ: بدگمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے ۔

یعنی ایک تووہ جھوٹ ہے جسے ہم سب جھوٹ سمجھتے ہیں کہ یہ جھوٹی بات ہے، لیکن عام طورپر برے خیال، بری سوچ اور  بدگمانی ایک ایسا جھوٹ ہےجسےجھوٹ نہیں سمجھاجاتا بلکہ ایسی سوچ خیال پر فوری یقین کرلیا جاتا ہے فرمایا کہ یہ عام جھوٹ سے بھی بڑا جھوٹ ہے لہذا اس پر کسی صورت اعتماد کرکے کوئی کاروائی ہرگز نہ کی جائے۔

آیت میں مزید فرمایا کہ “ان بعض الظن اثم “یعنی بعض خیالات ایسے ہیں جو گناہ کاراستہ ہموار کرتے ہیں مثلا ہم کسی کے بارے میں شروع میں بدگمان ہوں گے کہ یہ متکبر ہے پھر اس خیال کو پکائیں گے پھر چلتے چلتے سلام و کلام کا سلسلہ منقطع کرلیں گے۔ ٹھیک اسی طرح بدگمانی کی ایک لچک ہمیں آسانی سے بغض،کینہ،غیبت اور قطع تعلقی کے مراحل سے گزار سکتی ہے جو کہ سب کے سب گناہ کے کام ہیں۔

بدگمانی اور نبی علیہ السلام کا تربیتی انداز

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک غزوے کے موقع پر صحابی رسول ایک کافرپرحملہ آور ہوتے ہیں اور عین حملے کے وقت کافر کلمہ پڑھ لیتا ہے لیکن تلوار چل جاتی ہے اور یہ مقدمہ جب رسول علیہ السلام کی خدمت میں پیش ہوتا ہے تو آپ فرماتے ہیں کہ جب اس نے کلمہ پڑھ ہی لیا تھا تو مارنے کی کیا ضرورت تھی جواب آتا ہے کہ وہ ڈر کے سبب اور جان بچانے کے لیے ایسا کررہا تھا تو آپ فرماتے ہیں کہ “کیا تم نے اس کا سینہ چیر کر یہ حالت معلوم کی تھی کیا؟ “۔

ایک مرتبہ آپﷺ اپنی زوجہ کے ساتھ رات کے وقت جارہے تھے توایک صحابیؓ نے آپ کودیکھ لیاتھا،واپسی پر آپﷺ نےصحابیؓ سے فرمایاکہ وہ عورت میری اہلیہ تھی جس پر اس صحابیؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں آپ سے متعلق کوئی غلط گمان کیسے قائم کرسکتاہوں،آپﷺ تواللہ کے رسول ہیں،جس پرآپ نےفرمایاکہ شیطان انسان کاکھلادشمن ہے کسی بھی موقع پر حملہ کرسکتاہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ 

ایک مرتبہ نبیﷺ نے فرمایاکہ میرے اصحابؓ کے بارے میں کوئی غلط بات مجھ تک مت پہنچاو تاکہ میں آئندہ کبھی تمہاری مجلس میں آؤں یامجلس سے جاؤں تو کسی کے لیے میرے دل میں رنجش نہ رہے۔

سوئے ظن کو حسن ظن میں بدلنا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

” بدگمانی ” جسے عربی میں “سوئےظن” کہا جاتا ہے جس کی ضد “حسن ظن” ہے یعنی اچھا گمان اور اچھی سوچ ۔

اسییے نبیﷺ نے حکم  دیاکہ ہے کہ ظنوا بالمومنین خیرا  اپنے ایمان والے بھائیوں کے لیے اچھی سوچ رکھو مثلا تم رات کے تین بجے کسی کو آنلائن دیکھو تو شیطان یہ سوئے ظن پیدا کرےگا کہ یہ آوارہ ہے لیکن اس سوئے ظن کو یہ سوچ کر حسن ظن میں بدلو کہ شاید تہجد پڑھنے کے لیے بیدار ہوا ہو۔

بدگمانی سراسر ناانصافی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حکماء فرماتے ہین بدگمانی سراسرناانصافی پر مبنی کاروائی ہے مثلا ایک شخص ہمارے سامنے خشوع خضوع کے ساتھ نمازپڑھ رہاہواورہم کہیں کہ یہ ریاکاری کررہاہے،جبکہ اس نمازی کو اس گمان سے متعلق کچھ خبر ہی نہیں اور انجانے میں اس کے بارے میں اتنی خطرناک رائے قائم ہوگئی تو یہ بدگمانی درحقیقت اس ظالم بدگمان کا ظلم ہے جو اس انجانے مظلوم پر تھوپا جارہا ہے۔

بدگمانی اور غلط فہمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارےہاں عام طور پر معمولی وجوہات کو بدگمانی کا ذریعہ بنایا جاتا ہے مثلا فلاں نےمیرافون نہیں اٹھایا، مجھے سلام کا جواب نہیں دیا، مجھے نظرانداز کیا وغیرہ حالانکہ انسان اپنی بشری کمزوریوں کے سبب بھول بھی سکتا ہے،وقت بے وقت بے مصروف بھی ہوسکتا ہے، ذہنی خیالی طور پر پریشانی کے عالم میں بھی ہوسکتا ہے لیکن ان تمام اعذار کو بالائے طاق رکھ کر جھٹ سے بدگمان ہوجانا اور ایک مسلمان پر متکبر،جاہل وغیرہ جیسی خطرناک رائے قائم کرنا بلاشبہ ایک جلدبازی کے سوا کچھ بھی نہیں، جبکہ ایسے تمام خیالات جھوٹ اورسراب کےسوا کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتے۔

بدگمانی کا علاج

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت مولانااشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں تمام مسلمانوں کوحال میں خود سے بہتر اور کافروں کومستقبل میں خود سے بہتر سمجھتاہوں،مقصد میں کسی بھی مسلمان کے بارے میں غلط گمان قائم نہیں کرسکتا کیاپتہ اس مسلمان کاعمل مجھ سے بہترہو اور کیا پتہ وہ کافر کل مسلمان ہوجائے اورہم سے ایمان و عمل میں سبقت لے جائے۔

تجسس اور جاسوسی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسی طرح آیت میں مزید فرمایا کہ “وَّ لَا تَجَسَّسُوۡا”اورکسی کی جاسوسی مت کرو۔

کسی کےمعاملات میں بے جا دخل دینا اور کسی کی ذاتیات کی کھوج میں جستجو کرنا تجسس کہلاتا ہے جس سے اس آیت میں منع کیا گیا ہے۔

کسی کے ساتھ بہت گہرا اور بے تکلفی کا تعلق ہو تو الگ بات ہے لیکن عام طور پر اس بات کو اپنی عادت بنالینا بہت ہی بری بات ہے اور ایسا شخص اپنا شخصی وقار کھودیتا ہے اور عام طور ایسے لوگ طبیعت پر بھاری معلوم ہوتے ہیں۔ مثلا کسی کی تنخواہ،عمر،کپڑے،خوشبو،کاروبار،معاملات،حیثیت،فیملی،کاغذات،خطوط،جائیداد،مصروفیت،حلیہ،آمد و رفت،موبائل وغیرہ یہ کچھ ایسی چیزیں ہیں جن کے بارے میں ہر شخص ایک حق محفوظ رکھتا ہے اور ان کے کھلے عام اظہار  کو ضروری نہیں سمجھتا لیکن کسی کا ان سب چیزوں میں کھود کرید کرنا، اپنی جستجو ان امور پر کھپانا بہت ہی نازیبا حرکت ہے جس سے اس آیت میں منع کیا گیا ہے۔

تجسس کا نقصان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کے علاوہ ہمیں سب کے بارے میں سب کچھ معلوم نہ ہو اس میں ہماری اپنی بھلائی ہے جتنا اوروں سے متعلق معلومات میں اضافہ بڑے گا اتنا ہی غیبت،حسد،بدگمانی کے آثار پیدا ہوتے رہیں گے۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے