مولانا محمد الیاس گھمن
حضرت ابو جُرَی جابر بن سُلیم تمیمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ(جب میں مدینہ منورہ آیا تو )میں نے دیکھا کہ ایک شخص کے احکام و آراء پر تمام لوگ عمل ہیں وہ جو کچھ فرماتے ہیں سب لوگ اس کی تعمیل کرتے ہیں۔ میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ میں نے دو مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان الفاظ میں سلام کیا: علیک السلام یا رسول اللہ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ علیک السلام نہ کہو! کیونکہ یہ الفاظ(زمانہ جاہلیت میں)مردوں سے سلام کے وقت کہے جاتے تھے۔ بلکہ السلام علیک کہو!میں نے عرض کی کہ کیا آپ اللہ کے رسول ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ(یہ تو طے شدہ بات ہے کہ)میں اللہ کا رسول ہوں(آپ یہ پوچھیں کہ مجھے کس مقصد کے لیے مبعوث کیا گیا )اگر آپ کو تکلیف پہنچے تو آپ اللہ سے(میرے وسیلے سے)دعا کریں تو وہ آپ سے اس تکلیف کو دور کر دے گا۔ اگر آپ قحط سالی کا شکار ہوں تو آپ اللہ سے(میرے وسیلے سے)دعا کریں تو وہ آپ کے لیے( قحط سالی کو دور کر کے)ہریالی اگا دے گا۔ اگر آپ بے آب و گیاہ جنگل میں ہوں اور سواری گم ہو جائے آپ اللہ سے(میرے وسیلے سے)دعا کریں تو وہ آپ تک سواری پہنچا دے گا۔روای حضرت جابر بن سُلیم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی: مجھے کچھ نصیحتیں فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی کو گالی نہ دینا۔ راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے کسی آزاد، غلام یہاں تک کہ اونٹ اوربکری تک کو گالی نہیں دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی نیکی کو معمولی اور حقیر سمجھ کر مت چھوڑنا۔بھلے وہ اپنے مسلمان بھائی سے خندہ پیشانی سے پیش آنا ہی ہو، یہ بھی نیکی ہے۔ اپنی تہبند( شلوار )کو آدھی پنڈلی کے برابر اونچا رکھو۔ اگر ایسا کرنے میں دشواری ہو تو بہرحال ٹخنوں سے اوپر رکھو اور ٹخنوں سے نیچے لٹکانے سے بچو کیونکہ یہ تکبر کی علامت ہے اور اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والے کو پسند نہیں فرماتے۔ اگر کوئی شخص آپ کو نامناسب بات کہے یا آپ میں پائے جانے والے کسی عیب کی وجہ سے آپ کو عار دلائے تو اس کے بدلے میں آپ اس کو ایسے عیب کی وجہ سے عار نہ دلائیں جو اس میں پایا بھی جاتا ہو کیونکہ اس کے اس عمل کا وبال اسی پر ہوگا۔
)سنن ابی داود، رقم الحدیث:(4086
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر مختلف ارشادات سے امت کی رہنمائی فرمائی ہے۔ اس میں عقیدہ، عمل اور اخلاق سب شامل ہیں۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی درج بالا حدیث مبارک بھی ہے۔
تشبہ بالجہال سے ممانعت:
پہلی بات یہ سمجھائی کہ جہلاء کے ساتھ تشبہ نہ کرو۔ جیسے زمانہ جاہلیت میں لوگ مردوں کو سلام علیک کہتے تھے۔ زندوں اور مردوں میں فرق کرنے کے لیے السلام علیک کو مقرر فرمایا۔ بلکہ مردوں کو بھی السلام علیکم یا اھل القبور کے الفاظ سے سلام کرنے کا حکم دیا۔
نقصان کے وقت رجوع الی اللہ:
دوسری بات یہ سمجھائی کہ اگر نقصان پہنچ جائے تو اللہ سے دعا مانگی جائیکیونکہ نقصان سے نجات دلانے والی ذات اللہ ہی کی ہے۔معلوم ہوا جیسے نقصان ہونے سے پہلے اس سے بچنے کی دعا کرنے چاہیے اسی طرح ہونے کے بعد اس سے نجات کی دعا بھی مانگنی چاہیے۔
فائدہ: اس کا تعلق مال تجارت سے معلوم ہوتا ہے۔
قحط سالی کے وقت رجوع الی اللہ:
تیسری بات یہ سمجھائی کہ اگر قحط سالی کا شکار ہوجائیں تو اللہ سے دعا مانگیں وہ ذات قحط سالی کی جگہ ہریالی سے حالات کو بدل دے گی۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قحط سالی ہمارے اعمال بد کا نتیجہ ہوتی ہے اور اس موقع پر اللہ سے دعا مانگنا ایک طرح کی توبہ ہے جس سے گناہ معاف اور قحط سالی ٹل جاتی ہے۔
فائدہ: اس کا تعلق زراعت سے معلوم ہوتا ہے۔
سفری پریشانی کے وقت رجوع الی اللہ:
چوتھی بات یہ سمجھائی کہ اگر سفر میں سواری کے حوالے سے پریشانی پیش آجائے تو اس وقت بھی اللہ کی طرف رجوع کریں۔دعا مانگیں۔ اللہ اس پریشانی کو ختم فرما دیں گے۔
فائدہ: سابقہ باتوں کا تعلق مقیم سے جبکہ اس کا تعلق مسافر سے ہے۔
گالم گلوچ نہ کریں:
پانچویں بات یہ سمجھائی کہ معاشرے میں لڑائی جھگڑے کی بنیاد بننے والی چیزوں سے بچیں خصوصاً گالم گلوچ سے۔ اس پر تو ہمارا مستحکم اعتقاد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن چیزوں سے منع فرمایا ہے اس کی وجہ سمجھ آئے یا نہ آئے بہرحال اس سے دور رہنا چاہیے کیونکہ اتباع میں اعتقاد کو دخل ہوتا ہے مشاہدے کو نہیں۔ لیکن اس کے باوجود بھی مشاہدہ بھی یہی کہتا ہے کہ گالم گلوچ باہمی جھگڑے اور فساد کا باعث ہے۔
نیکی کو حقیر نہ سمجھیں:
چھٹی بات یہ سمجھائی کہ کسی نیک عمل کو معمولی اور حقیر سمجھ کر نہ چھوڑو۔ آج ہم بہت ساری نیکیوں سے محض اس لیے محروم رہ جاتے ہیں کہ ہم انہیں معمولی سمجھ لیتے ہیں۔کم رقم صدقہ کرنے کو معمولی سمجھتے ہیں یہ سوچتے ہیں یہ بھلا معمولی رقم بھی صدقہ ہوتی ہے، صدقہ ہوتو زیادہ رقم کا ہو۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کم رقم صدقہ کرنے سے بھی رہ جاتے ہیں۔ یہی حال ہے تمام نیک اعمال کا۔ حالانکہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ و اہل بیت کرام رضی اللہ عنہم کی مبارک زندگیوں میں غور کیا جائے تو وہ بڑی نیکیوں کے ساتھ ساتھ چھوٹی نیکیوں کو بھی کیا کرتے تھے انہیں چھوڑا نہیں کرتے تھے۔ جن میں ایک نیکی مسکرا کر ملنے والی بھی ہے۔ جسے عام طور پر نیکی ہی نہیں سمجھا جاتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ یہ بھی نیکی ہے اس سے بھی اللہ راضی ہوتے ہیں۔
تکبر سے بچیں:
ساتویں بات یہ سمجھائی کہ اپنی تہبند/ شلوار کو نصف پنڈلی تک رکھیں اگر ایسا کرنے میں کسی طرح کی کوئی دشواری ہوتو کم از کم درجہ یہ ہے کہ ٹخنوں سے اوپر ہی رکھوکیونکہ ٹخنوں سے نیچا رکھنا تکبر کی علامت اور متکبرین کی نشانی ہے۔ دوسرے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کبیرہ گناہ قرار دیا ہے آج ہمارے بہت سارے بھائی اس کبیرہ گناہ میں مبتلا ہیں۔ صرف نماز کے وقت پائجامے اونچے کرتے ہیں۔ یاد رکھیں! عام حالات میں بھی مردوں کے لیے ٹخنے ننگے رکھنے کا حکم ہے۔ عورتوں کے لیے نہیں۔
عیب گوئی سے بچیں:
آٹھویں بات یہ سمجھائی کہ کسی کے عیب پر مطلع ہونے کے باوجود اسے عار نہ دلاؤ!حتی کہ اگر نوبت یہاں تک بھی پہنچ جائے کہ دوسرا شخص آپ کے واقعی عیب پر آپ کو عار دلا رہا ہو تب بھی اس معاملے کو درگزر کرو۔ جبکہ ہمارے ہاں تو کسی میں عیب نہ بھی ہو تب بھی اس طرف سے کسی عیب کو منسوب کرتے ہیں اور پھر اس کو اچھالتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر دوسرے سے ایسا کیا تو اس کا وبال اسی پر ہوگا۔