13؍ دِسمبر ۔۔۔۔ 1949ء ۔۔۔۔ 73 واں ۔۔۔۔ یومِ وفات
تحریر وترتیب : محمد طاھر قاسمی ابنِ حضرت مولانا قاری دین محمد صاحب قاسمی میواتی ثم الدّھلوی رحمۃ اللہ علیہ
جامع مسجد حوض رانی نئی دھلی انڈیا
تعارف :
آپ آسمانِ شریعت اسلامیہ کے درخشندہ آفتاب ، دنیائے عالم اسلام کے جلیل القدر عالِم ، نادرۂ کار شخصیت ، اپنے دور کے مُفسر اعظم ، مُحدثِ پاکباز ، فقیہ بے بدل ، سَحرالبیان مُتکلّم ، تحریر و تقریر کے میدان کے شہسوار ، علوم معقول و منقول کے جامع ، شریعت و سیاست کے مردِ میدان ، عالی قدر مصنف و انشاء پرداز ، دیوبند کے عثمانی خاندان کے چشم و چراغ ، حضرت شیخ الھندؒ کے معتمد علیہ تلمیذ اور دارالعلوم دیوبند کے مایہ ناز فضلاء میں سے تھے ۔
آپ نے ایک عرصہ تک دارالعلوم دیوبند میں تدریسی خدمات انجام دیں اور کچھ برسوں تک صدر مھتمم بھی رھے ، آپ غیر معمولی ذھانت و ذکاوت کے حامل تھے ۔ علم بڑا مستحضر اور منقح تھا ۔ علومِ عقلیہ سے خاص ذوق تھا ، منطق و فلسفہ اور علمِ کلام میں غیر معمولی دسترس تھی ۔ آپ حکمتِ قاسمیہ کے بہترین شارح تھے ۔ علومِ قرآنی اور حدیث میں بھی ید طولیٰ حاصل تھا ۔ حضرت شیخ الھندؒ کے ترجمہ قرآن پر آپ کے تفسیری حواشی اور صحیح مسلم کی مشھور عربی شرح فتح الملھم آپ کے علمی کمالات کی آئینہ دار ھے ۔ آپ کی شخصیت اپنے کمالات اور خصوصیات میں ایک عجیب امتیازی شان اور عظمت کی حامل تھی ۔ علم و فضل ، فہم و فراست ، تدبر و اصابت رائے کے لحاظ سے آپ کا شمار ہندوستان کے چند مخصوص علماء میں ہوتا تھا ۔
قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کی سب سے زیادہ نمایاں شخصیات میں آپ کا شمار ہوتا تھا اور شیخ الاسلام کے لقب سے جانے جاتے تھے ۔ آپ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے رکن اور شرعی دستور ساز کمیٹی کے صدر بھی تھے ۔
ولادت :
آپ کی ولادت باسعادت 10؍ محرم الحرام 1305ھ مطابق 1887ء میں بمقام ” بجنور ” یوپی میں ہوئی ۔ جہاں آپ کے والد محترم ان دنوں ڈپٹی انسپیکٹر تعلیمات کے عہدے پر سرفراز تھے ۔
آپ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب عثمانی دیوبندیؒ کے فرزند رشید تھے ۔ حضرت مولانا حبیب الرحمٰن صاحب عثمانیؒ مھتمم دارالعلوم دیوبند اور حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمٰن صاحب عثمانی دیوبندیؒ مفتیٔ اعظم دارالعلوم دیوبند کے برادرِ خورد تھے ۔
آپ کے والد محترم نے پہلے آپ کا نام فضل اللہ رکھا ، لیکن بعد میں شبیر احمد رکھا جو مشہور ہوا ۔ آپ کا شجرۂ نسب سیّدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جاملتا ہے ۔
تعلیم و تربیت :
سات سال کی عمر میں حافظ محمد عظیم صاحب دیوبندیؒ کے سامنے بسم اللہ ہوئی اور قرآن مجید حافظ نامدار صاحبؒ سے پڑھا ۔ 10؍ ربیع الثانی 1319ھ مطابق 27؍ جولائی 1901ء میں دارالعلوم دیوبند میں عربی تعلیم کے لئے داخل ہوئے ۔ فارسی کی ابتداء منشی منظور صاحبؒ سے کی بعد ازاں اردو اور فارسی کی اعلیٰ کتابیں حضرت مولانا محمد یٰسین صاحب دیوبندیؒ سے پڑھیں ۔
1325ھ مطابق 1907ء میں دارالعلوم دیوبند سے سند فراغت حاصل کی ۔
آپ کے عربی کے اساتذہ میں شیخ الھند حضرت مولانا محمود حسن صاحب دیوبندیؒ ، حضرت مولانا غلام رسول صاحب ہزارویؒ ، حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمٰن صاحب عثمانیؒ ، حضرت مولانا حافظ محمد احمد صاحبؒ ، حضرت مولانا حکیم محمد حسن صاحب دیوبندیؒ ، حضرت مولانا محمد یٰسین صاحبؒ شیرکوٹیؒ ، حضرت مولانا سید مرتضیٰ حسن صاحب چاند پوریؒ وغیرہ جیسے علم و فضل یگانۂ روزگار شامل تھے ۔
درس و تدریس :
جب آپ 1325ھ مطابق 1907ء میں فارغ التحصیل ہوئے اور طالب علمی کے زمانے میں آپ کی علمی قابلیت کا سکہ دارالعلوم پر بیٹھ گیا تو اس حقیقت میں کوئی شبہ باقی نہیں رہا تھا کہ آپ دارالعلوم دیوبند میں درس دینے کے لئے نہایت موزوں ثابت ہوسکتے ہیں ۔ جنانچہ 1326ھ مطابق 1908ء کے شوّال سے آپ کو دارالعلوم دیوبند میں منصب تدریس پر مقرر کردیا گیا اور پڑھانے کے لئے درسیات کی اعلیٰ کتابیں دے دی گئیں ۔ دارالعلوم دیوبند کا یہ پہلا زبردست فارغ التحصیل عالم ہے جو فارغ ہوتے ھی نو عمری میں سینئر پروفیسروں اور اساتذہ کی صف میں جگہ لیتا ہے ۔
جب آپ دارالعلوم دیوبند میں 1326ھ ۔ 1909ء میں تعلیم دے رھے تھے تو مدرسہ عالیہ عربیہ فتحپوری دھلی کی صدر مدرسی کے لئے مولوی عبد الاحد صاحبؒ مالک مطبع مجتبائی دھلی نے حضرت مولانا حبیب الرحمٰن صاحب عثمانیؒ مھتمم دارالعلوم دیوبند سے کسی قابل مدرس کے لئے درخواست کی ۔ مھتمم صاحبؒ جو جو آپ کے برادر بزرگ بھی تھے ، انہوں نے وہاں کی صدارت کے شایانِ شان علماء پر نظر ڈالی اور آپ کو اس عہدے کے لئے موزوں تصور کرتے ہوئے آپ کو دہلی بھیج دیا ، چنانچہ آپ نے ابھی دارالعلوم دیوبند میں کچھ ماہ تعلیم دی تھی کہ وہاں (مدرسہ عالیہ عربیہ فتحپوری) تشریف لے گئے ، یہ مدرسہ اپنی نوعیت کا دہلی میں سب سے بڑا مدرسہ تصور کیا جاتا تھا اور اب بھی اس کو بڑی وقعت سے دیکھا جاتا ہے وہاں آپ نے شعبان 1328ھ مطابق 1911ء تک دورۂ حدیث اور دوسری اعلیٰ درجہ کی کتابیں پڑھائیں ۔ دھلی کو ہندوستان کی مرکزیت حیثیت سے یوں بھی بڑا مقام حاصل رہا ہے اس لئے مرکز میں آپ کی تقریروں اور صدارت تدریس کی وجہ سے آپ کو خوب شہرت حاصل ہوئی ، دھلی کے قیام نے آپ کی زبان اور بیان پر سونے پر سہاگے کا کام دیا ۔ اول تو تقریر سے عہد طفلی ہی سے خداداد دلچسپی تھی لیکن دھلی کی زبان نے آپ کی اردو کو اور شستہ بنادیا ، وہاں کے لب و لہجہ ، وہاں کے اندازِ تکلم ، محاوروں اور روز مروں سے پورا پورا فائدہ اٹھایا ۔
اکابر دیوبند کی نظر میں آپ کی علمی لیاقت اور تحریر و تقریر کے اوصاف کھلے جارہے تھے اور سب چھوٹے بڑے آپ کے فہم و فراست سے متأثر ہوچکے تھے اس لئے آپ کے متعلق سب کی خواہش یہی تھی کہ آپ کو دارالعلوم دیوبند ہی میں واپس بلایا جائے چنانچہ دو سال بعد آپ کو واپس دیوبند بلالیا گیا ۔
مدرسہ عالیہ فتحپوری دہلی سے واپسی پر دارالعلوم دیوبند میں آپ کو اکابر مدرسین میں جگہ دی گئی اور اعلیٰ درجے کی کتابیں پڑھانے کی پیشکش کی گئی ۔ اس سلسلے میں حضرت مولانا حافظ محمد احمد صاحبؒ اور حضرت مولانا حبیب الرحمٰن صاحب عثمانیؒ کی حسب ذیل تحریری دستاویز پیش نظر رکھئے ۔ لکھتے ہیں کہ :
” 1326ھ میں مولانا شبیر احمد عثمانی مدرسہ فتحپوری دہلی کے مدرس اول مقرر ہوکر گئے 1328ھ تک وہاں رہے ۔ ممبران مدرسہ کو یہ امر پسند نہ تھا کہ ایسے لائق اور کار آمد شخص کو دارالعلوم سے جدا رکھا جائے اس لئے شوال 1328ھ میں دارالعلوم دیوبند بلالیے گئے جب حضرت شیخ الہندؒ حج کے لئے تشریف لے جانے لگے تو دورہ حدیث کے اسباق اس طرح تقسیم کردئے گئے کہ مولانا محمد انور شاہ صاحبؒ کو ترمذی شریف کا سبق دیا گیا اور قائم مقام صدر مدرس بنائے گئے ، مسلم شریف کا سبق مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کو دیا گیا ، مولانا محمد انور شاہ صاحبؒ اور مولانا شبیر احمد صاحبؒ بموجود حضرت شیخ الہندؒ کے یہاں مسلم شریف اور ابوداؤد میں سے ایک کتاب مولانا انور شاہ صاحبؒ کے یہاں اور ایک کتاب مولانا شبیر احمد صاحبؒ کے یہاں ہوتی تھی "۔ (روئداد دارالعلوم 1333ھ نمبر 20)
مذکورہ بالا عبارت سے کئی تاریخی واقعات مل گئے جن سے علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کی دیوبند واپسی پر آپ کی تعلیمی سرگرمی اور اکابر اساتذہ میں شمولیت کا حال معلوم ہوا ۔ یعنی حضرت شیخ الہندؒ کی موجودگی میں دو ہستیاں جن کو بخاری شریف اور ترمذی شریف کے علاوہ مسلم شریف اور ابوداؤد شریف جیسی حدیث کی جلیل القدر کتابیں پڑھانے کے فرائض سپرد کئے گئے وہ علامہ محمد انور شاہ کشمیریؒ اور علامہ شبیر احمد عثمانیؒ تھے ، گویا حضرت شیخ الہندؒ کے بعد یہی دو ہستیاں تھیں جن کو بلند مقامی حاصل تھی ۔ اس عبارت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مدرسہ فتحپوری دہلی سے واپسی پر علامہ عثمانیؒ آغازِ ملازمت ہی سے ابوداؤد شریف اور مسلم شریف پڑھاتے رہے ہیں ، ان کے علاوہ آپ نے چھوٹی بڑی ہر فن کی کتابیں پڑھائی ہیں مثلاً : اصول الشاشی ، تلخیص المفتاح ، ملّا حسن ، بیضاوی ، مشکوٰۃ ، حمد اللہ اور صدرا وغیرہ کتب کا دارالعلوم دیوبند میں درس دیا ہے ۔
الحاصل آپ نے دارالعلوم دیوبند کی مسند تدریس پر بیٹھ کر اپنی عالمانہ شان کو چمکایا اور بلا تنخواہ حدیث رسول ﷺ کی خدمت انجام دیتے رہے ، دوسری طرف عام دینی جلسوں میں اپنے عالمانہ مقالوں اور تقریروں سے ہندو پاکستان کے اہل علم و فضل میں اپنا وقار اور مقام پیدا کیا مزید برآں اپنے مضامین سے دارالعلوم دیوبند کے ماہنامہ ” القاسم” کو شرف بخش کر علماء و فضلاء عوام و خواص میں نام پیدا کیا اور بقول حضرت مولانا حبیب الرحمٰن عثمانیؒ ” بہت سے مقامات پر اپنے مواعظ حسنہ سے لوگوں میں اپنی عظمت کا سکّہ بٹھایا "۔ ( حیات عثمانیؒ نمبر 180 )
1328ھ ۔ 1910ء میں دارالعلوم دیوبند میں تدریس کے لئے آپ کا تقرر ہوا ۔ یہاں آپ نے 1343ھ ۔ 1924ء تک درجہ علیا کی مختلف کتابیں پڑھائیں ۔ آپ کے درس صحیح مسلم کو بڑی مقبولیت و شھرت حاصل تھی ۔
اٹھارہ سال تک دارالعلوم دیوبند میں درسِ حدیث اور درسِ قرآن کی بے لوث خدمت سر انجام دیتے رہے چونکہ آپ نے اسی درسگاہ سے فیض حاصل کیا تھا اس لئے آپ اس کو ایک احسانِ عظیم تصور کرکے یہاں بے لوث تدریسی خدمات انجام دیتے تھے بعد میں اکابر و اساتذہ کے حکم پر برائے نام تنخواہ شروع کی تھی جس کے بارے میں فرماتے تھے کہ :
” میں اللہ سے ڈرتا ہوں اگر میں اُن دنوں کی تنخواہ لے لوں جن دنوں دارالعلوم سے غیر حاضر رہتا ہوں ، پوری توجہ و انہماک سے ایک یا زیادہ دفعہ اپنے فرائض مکمل طور پر ادا نہ کرسکوں تو کہیں قیامت کو مجھ سے مواخذہ نہ ہوجائے "۔ ( حیاتِ شیخ الاسلام نمبر 24 )
آپ دارالعلوم دیوبند میں اعلیٰ درجے کے اساتذہ میں شمار کئے جاتے تھے اور دارالعلوم میں متوسط کتابوں سے لے کر مسلم شریف اور بخاری شریف تک کی تعلیم دی ۔ تمام علوم معقولہ و منقولہ ، منطق و فلسفہ ، فقہ و حدیث اور تفسیر میں مکمل مہارت رکھتے تھے ، آپ جہاں بہترین عالم فاضل تھے وہاں اعلیٰ درجے کے خطیب و مقرر ہونے کے علاوہ بہترین مدرس و مفسر بھی تھے ، میدان درس و تدریس ایک جدا میدان ہے جس میں ہر عالم کامیاب نہیں ہوسکتا ، آپ کا درس بیشمار خصوصیت کا حامل ہوتا تھا ، سبق پڑھاتے وقت پورے ذوق و شوق کو عمل میں لاتے تھے ، طلباء بے حد متأثر ہوتے تھے اس طرح تقریر فرماتے کہ مشکل مسئلہ مشکل نہ رہتا بلکہ آسان ہوکر آنکھوں کے سامنے آجاتا ، آپ کے طرز بیان میں تمثیل کا رنگ اتنا اچھوتا ہوتا کہ تقدیر استواء علی العرش اور شریعت کے دوسرے مشکل مسائل آسان ہوجاتے تھے طلباء کی اکثریت ایسے دشوار مسائل کے حل کے لئے آپ کی طرف رجوع کرتی ، آپ کے سبق میں دلچسپیوں اور روحانیت کی فراوانی کا عالَم نہ پوچھیے ، قرآنِ کریم کی تفسیر فرماتے وقت یوں معلوم ہوتا کہ مطالب کا کشف ہورہا ہے اور آسمان سے وحی نازل ہورہی ہے اسی طرح درسِ حدیث کے وقت آپ پر قرنِ اولیٰ کے محدث کا گمان ہوتا اور دلوں پر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ مجلس میں تشریف فرماہیں اور قال الرسول ﷺ کا بازار گرم ہے ۔ آپ کی تدریسی و علمی خدمات کی مدت 37؍ سال ہے ۔ 1908ء سے 1945ء تک کا عرصہ آپ کا درسِ حدیث و تفسیر ، فقہ و منطق و فلسفہ اور علم الکلام میں گزرا ۔ ( بیس بڑے مسلمان : ص 550 )
دارالعلوم دیوبند میں ایک عرصہ تک تعلیمی خدمات انجام دینے کے بعد 1346ھ ۔ 1928 میں دارالعلوم دیوبند کی انتظامیہ سے بعض وجوہ کی بناء پر اختلاف ہونے کے بعد حضرت علامہ سید محمد انور شاہ صاحب کشمیریؒ اور حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب عثمانیؒ وغیرہ حضرات کے ساتھ جامعہ اسلامیہ ڈابھیل ( سورت ، گجرات ) تشریف لے گئے ۔ جہاں حضرت علامہ انور شاہ صاحب کشمیریؒ بخاری شریف اور ترمذی شریف پڑھایا کرتے تھے اور حضرت علامہ شبیر احم صاحب عثمانیؒ مسلم شریف اور بیضاوی تفسیر و حدیث کی کتب بحیثیت شیخ التفسیر جامعہ اسلامیہ میں پڑھانا شروع کیا ، علامہ عثمانیؒ کی جامعہ اسلامیہ ڈابھیل میں کوئی تنخواہ مقرر نہ تھی صرف گزارے کے طور پر سو روپیہ ماہوار ملتے تھے بعد ازاں دو سو ملتے رہے ۔ دارالعلوم دیوبند میں خدمت حدیث و تفسیر کے بعد ڈابھیل میں قیام قدرت کو یہاں بھی علوم و فنون کے چشمے بہانے تھے اس لیے ان حضرات نے اس سرزمین پر علم و فضل کی بارشیں برسانا شروع کیں ۔ 1346ھ 1928 سے تک 1354ھ 1935ء تک علامہ عثمانیؒ ڈابھیل میں قیام پذیر رہے ۔ سب سے بڑی حکمت ڈابھیل پہنچنے میں یہ نکلی کہ یہاں قرآن کریم کی تفسیر لکھنے مسلم شریف کی شرح تحریر فرمانے کا موقع مل گیا ، اگر آپ یہ تفسیر اور شرح مسلم شریف تحریر نہ فرماتے تو وہ خصوصیات جو قدرت نے آپ کو عطا کی تھیں فنا ہوکر رہ جاتیں اور دنیا فائدہ حاصل کرنے سے محروم رہ جاتی ۔
1352ھ ۔ 1933ء میں جب حضرت علامہ سید محمد انور شاہ صاحب کشمیریؒ کا انتقال ہوگیا تو آپ جامعہ اسلامیہ ڈابھیل کے شیخ الحدیث مقرر ہوئے ۔ حضرت شاہ صاحبؓ کی جگہ کام کرنے پر آپ کو بطور مصارف تین سو پچاس روپے ملتے تھے ۔
1354ھ ۔ 1935ء میں حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ اور بعض دیگر اکابر حضرات کے ارشاد پر دارالعلوم دیوبند تشریف لائے اور 1362ھ ۔ 1944ء تک بحیثیت صدر مھتمم خدمات انجام دیتے رھے ۔ اس دوران جامعہ اسلامیہ ڈابھیل سے بھی تعلق برابر قائم رہا ۔
راہِ سلوک :
آپ حضرت شیخ الہندؒ کے ارشد تلامذہ میں سے تھے اور انہیں سے بیعت بھی تھے ۔
اوصاف و کمالات :
علم و فضل ، فھم و فراست اور تدبر و اصابت رائے کے لحاظ سے حضرت علامہ شبیر احمد صاحب عثمانیؒ کا شمار ھندوستان کے چند مخصوص علماء میں ہوتا تھا ۔ عجز و انکساری اور بزرگوں کا ادب و احترام آپ کی نمایاں خصوصیت تھی ۔ اھل علم کے قدردان اور خلوص کا مجسمہ تھے ، اور نہایت صاف شفاف قلب کے مالک تھے ، غرباء و مساکین سے نہایت شفقت و محبت اور اخلاق کریمانہ کا برتاو فرماتے تھے ، آپ کے ظاھر و باطن میں یکسانیت تھی ، اپنے قلبی جذبات کے چھپانے یا ان کے بر خلاف اظھار پر قدرت نہ رکھتے تھے ۔ اگر کسی سے خوش ہوتے تو ظاھر و باطن سے خوش ہوتے اور اگر کسی سے ناراض ہوتے تو علانیہ اس کا اظھار ان کے چھرہ سے ہوجاتا تھا ۔
آپ حالات حاضرہ پر بڑی گہری نظر رکھتے تھے ۔ اسی لئے آپ کی تحریر و تقریر عوام و خواص دونوں میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھی ۔ عظیم الشان جلسوں میں آپ کی فصیح و بلیغ تقریریں اہل ذوق کے لئے باعث کشش ہوا کرتی تھیں ۔
آپ کے مزاج میں زھد و قناعت کا غلبہ تھا ۔ آپ کو حیدرآباد دکن کی ریاست نے اپنی عربی درس گاہ مدرسہ نظامیہ کی صدر مدرسی کے لئے پانچ سو روپے ماہوار پر بلایا لیکن آپ نے وہاں جانا قبول نہیں کیا ۔ کراچی میں بھی کوئی سرکاری مراعات حاصل نہیں کی ۔ آپ نے پاکستان میں مستقل ہجرت کے باوجود نہ تواپنا کوئی خاص گھر بنایا اور نہ ہی کسی ذاتی کوٹھی پر قبضہ کیا ، بلکہ بعض عقیدت مند اہل ثروت کے مکان میں رھے اور اسی مسافرت میں اپنی زندگی بسر کی ۔
سیاسی خدمات :
حضرت علامہ عثمانیؒ حضرت شیخ الھندؒ کے ارشد تلامذہ میں سے تھے اور انہیں سے بیعت بھی تھے ۔ آپ تحریک شیخ الھندؒ میں بھی شریک رھے سیاسیات میں اولاً جمعیۃ علماء ھند کے ساتھ شریک تھے ۔ ہندو مسلم مشترکہ جلسوں ، خلافت کے پلیٹ فارموں اور جمعیۃ علماء ہند کی کانفرنسوں میں آپ کی تقریریں اور خدمات ناقابل فراموش ہیں خود جمعیۃ علماء ہند دہلی کا اخبار الجمعیۃ لکھتا ہے :
"علامہ عثمانیؒ 1945ء تک جمعیۃ العلماء کی ورکنگ کمیٹی کے ممبر رہے اور قومی تحریکات میں ہمیشہ آگے آگے رہے تحریک خلافت سے لے کر 1945ء تک جمعیۃ العلماء کو آپ کے تعاون کا فخر حاصل رہا ۔ بہت سی کمیٹیوں میں صدارت کے فرائض انجام دئے "۔ ( الجمعیۃ ۱۸؍ دسمبر ۱۹۴۹ء )
آپ سالہا سال تک جمعیۃ علماء ھند کی مجلس عاملہ کے رکن بھی رھے ۔ جمعیۃ علماء ھند کے صف اول کے رہنماؤں میں آپ کا شمار ہوتا تھا ۔ اس سے قبل آپ خلافت کمیٹی کے اہم رکن رہ چکے تھے ۔
1333ھ ۔ 1914ء میں جنگ بلقان کے زمانے میں آپ نے ترکوں کے لئے چندہ جمع کرنے میں بڑی سرگرمی سے حصہ لیا تھا ۔
1945ء میں متحدہ قومیت کے مسئلہ پر جمعیۃ علماء ھند سے اختلاف پیش آیا اور آپ مسلم لیگ میں شامل ہوگئے ۔
نومبر 1945ء مطابق 1365ھ میں ملک کے مقتدر علماء کرام نے کلکتہ میں جمع ہوکر علامہ شبیر احمد عثمانیؒ ، مولانا ظفر احمد عثمانیؒ ، مولانا مفتی محمد حسن امرتسریؒ ، مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندیؒ ، مولانا قاری محمد طیب قاسمیؒ ، مولانا سید سلمان ندویؒ ، مولانا محمد طاھر قاسمیؒ ، مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹیؒ ، مولانا اطہر علیؒ ، مولانا آزاد سبحانیؒ ، مولانا راغب احسنؒ ، مولانا ابوالبرکاتؒ اور مولانا غلام مرشد وغیرہ نے ایک عظیم الشان علماء کانفرنس منعقد کی اور جمعیۃ علماء اسلام کا سنگِ بنیاد رکھا گیا جس کے پہلے صدر علامہ شبیر احمد عثمانیؒ اور نانب صدر مولانا ظفر احمد عثمانیؒ منتخب کئے گئے ۔
6 اگست 1947ء مطابق رمضان المبارک 1366ھ کو تقسیم ملک سے قبل دیوبند سے دستور ساز اسمبلی کے جلسوں اور افتتاحِ پاکستان کی تقریب میں حصہ لینے کے لئے دیوبند سے کراچی روانہ ہوئے ۔
14 اگست 1947ء مطابق 27؍ رمضان المبارک 1366ھ بروز جمعۃ المبارک کو کراچی میں جشن آزادی پاکستان منایا جانے لگا بانئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح گورنر جنرل نے علماء ربانی کی تاریخی خدمات کے اعتراف کے طور پر پاکستان کی پرچم کشائی کا اعزاز شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ اور مولانا ظفر احمد عثمانیؒ کو بخشا ، کراچی میں علامہ شبیر احمد عثمانیؒ نے اور ڈھاکہ میں مولانا ظفر احمد عثمانیؒ نے تلاوت قرآن مجید اور مختصر تقریر کے بعد اپنے متبرک ہاتھوں سے آزاد پاکستان کا پرچم آزاد فضاء میں لہرا کر دنیا کی اس سب سے بڑی اسلامی مملکت کو اسلامی ممالک کی برادری میں شامل کرنے کی رسم کا افتتاح کیا ۔ اور اس کے بعد آپ وہیں مقیم ہوگئے ۔
پاکستان میں دستور ساز اسمبلی کی رکنیت کے ساتھ آپ شرعی دستور ساز کمیٹی کے صدر مقرر ہوئے ۔ آپ پاکستان میں اس جماعت کے روح رواں تھے جو آئین کو اسلامی قالب میں ڈھالنا چاھتی تھی ۔ اس راہ میں آپ کی ابتدائی کوششوں کی کامیابی کا وہ نتیجہ تھا جس کو پاکستان کی آئینی اصطلاح میں "قرار داد مقاصد ” کہا جاتا ھے ۔
پاکستان کی اقتدار اعلیٰ پر آپ کی علمی و سیاسی خدمات کا خاص اثر تھا ، خصوصاً عالمانہ اور مفکرانہ حیثیت سے خاص عظمت حاصل تھی ۔ آپ کی دینی رہنمائی کے ساتھ سیاسی رہنمائی بھی مسلم سمجھی جاتی تھی ۔ حکومت کے نزدیک مذھبی معاملات میں آپ کی حیثیت مشیر خاص کی تھی ؛ اس لئے زبان خلق نے آپ کو ” شیخ الاسلام” کہہ کر پکارا جو اسلامی سلطنتوں میں عموماً قاضی القضاہ کا لقب رہا ھے ۔
علمی خدمات :
حضرت علامہ عثمانیؒ کی شخصیت کثیر الجہات تھی ، آپ کا علم گہرا اور نظر وسیع تھی ، زبان و قلم کے یکساں شہ سوار تھے ۔ اردو زبان کے بلند پایہ ادیب اور بڑی سحر انگیز خطابت کے مالک تھے ۔ فصاحت و بلاغت ، عام فھم دلائل ، پراثر تشبیہات و انداز بیان اور نکتہ آفرینی کے لحاظ سے آپ کی تحریر و تقریر کا انداز یگانہ و منفرد تھا ۔ اپنی تقریر و تحریر میں قاسمی علوم کو بکثرت بیان فرماتے تھے ۔ حضرت شیخ الھندؒ نے اپنی حیات کے آخری دنوں میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی تاسیس کے وقت جو خطبہ دیا تھا اس کے لکھنے اور جلسہ میں پیش کرنے کا شرف آپ کو ہی حاصل ہوا تھا ۔
آپ کے علمی کارناموں میں مقالات ، خطبات اور مضامین کے علاوہ دو ایسے علمی کارنامے ہیں جو کبھی فراموش نہیں کئے جاسکتے ۔ ایک تو حضرت شیخ الھندؒ کے ترجمہ قرآن پاک پر آپ کے تفسیری حواشی کو بڑی شھرت حاصل ھے ۔ یہ حواشی آپ کی قرآن فھمی ، تفسیروں پر عبور اور دلنشیں انداز بیان پر قدرت کے غماز ہیں ۔ ان حواشی کی افادیت ہی ھے کہ 1904ء میں حکومت افغانستان نے اپنے سرکاری مطبع سے قرآنی متن اور ترجمہ شیخ الھندؒ کے ساتھ ان تفسیری حواشی کا فارسی ترجمہ افغانی مسلمانوں کے لئے شائع کیا ۔ خود سعودی عرب کی حکومت نے مجمع الملک فہد مدینہ منورہ سے ہزار ہا ہزار کی تعداد میں شائع کر اسے تقسیم کیا ۔ ترجمہ شیخ الھند اور تفسیر عثمانی کا پشتو ، بنگلہ ، ھندی اور دیگر زبانوں میں بھی ترجمہ ہوچکا ھے ۔ حضرت علامہ عثمانیؒ کے اسی تفسیر حواشی کے بارے میں حضرت علامہ سید محمد انور شاہ صاحب کشمیریؒ نے فرمایا تھا : مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے تفسیر قرآن لکھ کر دنیاء اسلام پر بڑا احسان کیا ھے ۔
اور دوسرا کارنامہ یہ ھے کہ آپ نے علم حدیث کی گراں قدر تصنیف فتح الملھم حنفی نقطہ نظر سے صحیح مسلم کی پہلی شرح ھے ۔ صحیح مسلم کی شرح لکھنے کا خیال آپ کو جوانی ہی سے تھا ۔ حافظ بدرالدین العینیؒ نے صحیح بخاری کی شرح لکھ کر احناف کی طرف سے حق ادا کردیا تھا ، مگر صحیح مسلم کی کوئی شرح حنفی نقطہ نظر سے اب تک نہیں لکھی گئی تھی ۔ آخر آپ نے اس سلسلہ میں اپنے دست و بازو کو آزمایا اور فتح الملھم لکھنا شروع کردیا جس کا سلسلہ تمام عمر جاری رہا ۔ فتح المھلم آپ کا ایسا زندہ جاوید کارنامہ ھے کہ جس نے آپ کے علم و فضل کو تمام عالم اسلام میں روشناس کرایا ھے ۔ جس کے بارے میں حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب قاسمیؒ نے دیوبند میں ایک تعزیتی تقریر میں فرمایا تھا :
” مسلم شریف کی عربی شرح یادگار زمانہ رہے گی جو پوری دنیاء اسلام میں نہایت پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھی گئی ھے ۔”
آپ کی معرکۃ الآراء تصانیف یہ ہیں ۔ ( 1 ) تفسیر عثمانی ) ( 2 ) فتح الملھم شرح مسلم ( 3 ) شرح اردو بخاری شریف ( 4 ) اعجاز القرآن ( 5 ) الشھاب ( 6 ) حجاب شرعی ( 7 ) الدارالآخرۃ ( 8 ) الکلام ( 9 ) العقل والنقل ( 10 ) الاسلام ( 11 ) اور الشھاب لرجم الخاطب المرتاب وغیرہ آپ کی معرکتہ الآراء تصانیف ہیں ۔ آپ کے متعدد رسائل کا مجموعہ ” مقالات عثمانی ” کے نام سے بھی شائع ہوچکا ھے ۔
آپ کی کوئی صلبی اولاد نہیں تھی ، لیکن آپ نے لائق و فائق تلامذہ کی ایک کھیپ چھوڑی جن میں زیادہ تر دیوبند اور بعض ڈابھیل میں آپ کے شرف تلمذ سے مشرف ہوئے ؛ ان میں یہ نام بہت نمایاں ہیں : حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب قاسمیؒ ، حضرت مولانا سید بدر عالم صاحب میرٹھیؒ ، حضرت مولانا سید مناظر احسن صاحب گیلانیؒ ، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب عثمانی دیوبندیؒ ، ابوالمآثر حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمیؒ ، حضرت مولانا محمد ادریس صاحب کاندھلویؒ ، حضرت مولانا سید محمد یوسف صاحب بنوریؒ ، حضرت علامہ مولانا شمس الحق صاحب افغانیؒ حضرت مولانا حفظ الرحمٰن صاحب سیوہارویؒ ، حضرت مولانا عبد الرحمٰن صاحب کاملپوریؒ ، حضرت مولانا مفتی عتیق الرحمٰن صاحب عثمانیؒ ، حضرت مولانا محمد منظور صاحب نعمانی ، حضرت مولانا احتشام الحق صاحب تھانویؒ ، حضرت مولانا نیاز محمد صاحب میواتیؒ ، حضرت مولانا غلام اللہ خان صاحبؒ ، حضرت مولانا محمد مالک صاحب کاندھلویؒ وغیرہ جیسے علم و فضل کے آفتاب و ماہتاب شامل ہیں ۔
وفات :
کراچی میں قیام کے دوران آپ پر 4؍ اگست 1949ء کو فالج کا حملہ ہوا تھا جس سے بایاں ہاتھ اور بائیں جانب زبان متأثر ہوئی جس کا علاج اور افاقہ ہوا ۔ اسی مرض فالج کے قدرے افاقے کے بعد علامہ عثمانیؒ نے مولانا احتشام الحق تھانویؒ سے فرمایا کہ ” قدرت نے مجھے تحریر و تقریر کا عطیہ فرمایا تھا لیکن اب دونوں نعمتیں چھین لی گئی ہیں ” ۔ جس پر مولانا احتشام الحق تھانویؒ نے جواب دیا کہ حضرت ان شاءاللہ آپ کو شفا حاصل ہوجائے گی اور آپ کو یہ دونوں نعمتیں پھر مل جائیں گی ۔ ( انوار عثمانی ص : 229 )
حضرت علامہ عثمانیؒ سید حسن محمود گیلانی وزیر تعلیم بہاولپور کی خصوصی دعوت پر جو جامعہ عباسیہ کی تعمیر جدید کا سنگِ بنیاد رکھنے ، اصلاح و ترقی اور نصاب وغیرہ کے سلسلے میں صلاح مشورہ کے لئے دی تھی ۔ 8؍ دسمبر 1949ء کو بہاولپور کے لئے روانہ ہوئے اور 9؍ دسمبر کو بہاولپور پہنچے ۔ 12؍ دسمبر کو رات بالکل اچھے تھے ، 13؍ دسمبر کی شب میں بخار ہوا اور سینے میں تکلیف رہی صبح کو طبیعت ٹھیک ہوگئی تھی ، 9 بجے پھر سینہ میں تکلیف محسوس ہوئی اس دوران آپ کی عیادت کے لئے مولانا فاروق احمد صاحب شیخ التفسیر جامعہ عباسیہ اور رئیس الاطباء حکیم عبد الرشید صاحب بھی تشریف لے گئے مولانا فاروق احمد صاحب کی استدعا پر آپ نے حکیم صاحب کو نبض دکھائی اور علالت کی پوری ہسٹری بیان فرمائی ، حکیم صاحب سے اس قدر باتیں کرنے کے سے آپ کو کوفت محسوس ہونے لگی سانس میں رکاوٹ اور گھٹن محسوس ہوئی تو آپ چار پائی پر رضائی اوڑھ کر لیٹ گئے علاج اور تدبیر بے سود رہی ۔ اور تھوڑی دیر کے بعد گیارہ بجکر چالیس منٹ پر 21؍ صفرالمظفر 1369ھ مطابق 13؍ دسمبر 1949ء کو بہاول پور ( بغداد الجدید ) میں چند گھنٹوں کی مختصر علالت کے بعد 64 سال 1 ماہ 12 یوم کی عمر پاکر انتقال فرماگئے ۔
انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
آپ کی وفات وزیر تعلیم بہاولپور اسٹیٹ کی کوٹھی پر واقع ہوئی ۔ آپ کے شاگرد عزیز حضرت مولانا سید بدر عالم صاحب میرٹھی مہاجر مدنیؒ نے جو اس وقت بہاولپور میں مقیم تھے ، آپ کو غسل دیا پھر آپ کی میت کو لکڑی کے تابوت میں بند کرکے کراچی لایا گیا ۔ حکومت پاکستان نے بروز بدھ 14؍ دسمبر 1949ء کو پورے ملک میں یومِ غم منانے کے لئے تعطیل کا اعلان کیا ۔ پورے ملک میں اس واقعہ کے احترام میں سرکاری دفاتر بند کردئے گئے اور کراچی میں علامہ عثمانیؒ کی رحلت کے باعث قریشی بس سروس مسلمانوں کی سہولت کے لئے مفت چلائی گئی ۔ ریڈیو پاکستان شیخ الاسلام علامہ عثمانیؒ کے ماتم میں برابر شریک رہا اور بار بار آپ کے جنازے کا اعلان کرتا رہا ۔ وزیر اعظم پاکستان نے آپ کی رحلت کو ملک و ملت کے لئے عظیم نقصان قرار دیا اور پوری دنیائے اسلام میں شیخ الاسلام علامہ عثمانیؒ کی رحلت پر صفِ ماتم بچھ گئی اور علمی و دینی حلقوں میں آپ کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا گیا ۔
الغرض پورے ملک سے عقیدت مند شیخ الاسلام علامہ عثمانیؒ کی نمازِ جنازہ میں شرکت کے لئے کراچی پہنچ رہے تھے ۔ اور خاص طور پر کراچی شہر تو آپ کے سوگ میں ماتم کدہ بن گیا تھا بچے ، نوجوان ، بوڑھے ، مرد اور عورتیں اس عظیم قومی صدمہ کی تاب نہ لاکر زار و قطار رو رہے تھے اور لوگ ہزاروں کی تعداد میں ہر طرف سے آپ کے جنازہ میں شرکت کے لئے جمع ہورہے تھے ۔ جنازہ کا ایک لمبا جلوس تھا جو شیخ الاسلام علامہ عثمانیؒ کو آخری آرام گاہ تک لے گیا نمازِ جنازہ میں دیگر لاکھوں فرزندانِ اسلام کی شرکت کے علاوہ حکومتِ پاکستان اور حکومتِ سندھ کے وزراء اور اعلیٰ حکام اور غیر ملکی نمائندے شامل تھے ۔ جمخانہ گراؤنڈ میں نمازِ جنازہ کے لئے شرکت کرنے والوں کی تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ تِل دھرنے کو جگہ باقی نہ رہی ۔ کراچی میں دو لاکھ سے زائد مسلمانوں نے شیخ الاسلام علامہ عثمانیؒ کی نمازِ جنازہ پڑھی اور مفتئ اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ نے نمازِ جنازہ پڑھائی ۔
روزنامہ امروز کراچی کی رپورٹ کے مطابق نمازِ جنازہ میں دو لاکھ سے زائد مسلمانوں نے شرکت کی ، ان میں اربابِ حکومت ، گورنر جنرل ، وزیر اعظم ، اعلیٰ حکام ، وزراء ، امراء ، علماء ، صلحاء ، طلباء اور ہر مکتب فکر کے عوام و خواص شامل تھے ۔ ( روزنامہ امروز کراچی ۱۵ دسمبر ۱۹۴۹ء )
اور آپ کا جسدِ خاکی اسلامیہ کالج جمشید روڈ کراچی میں ساڑھے چار بجے سپرد خاک کردیا گیا ۔
حجازِ مقدس سے اطلاع موصول ہوئی کہ مکہ مکرمہ حرم پاک اور مدینہ منورہ مسجد نبوی ﷺ میں شیخ الاسلام علامہ عثمانیؒ کی غائبانہ نمازِ جنازہ 16؍ دسمبر بروز جمعۃ المبارک نمازِ جمعہ کے بعد پڑھی گئی اور سعودی سفارتخانہ کو اس مضمون کی بحری تار کے ذریعے اطلاع موصول ہوئی کہ جلالۃ الملک عبد العزیز ابن سعود نے ایک خاص فرمان صادر فرمایا ہے کہ دونوں مساجد میں نمازِ جمعہ کے بعد غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھی جائے ۔ اس پیغام میں بتایا گیا کہ کہ حکومتِ سعودی عربیہ میں عوام و حکام کو اس المناک خبر سے سخت صدمہ پہنچا ہے ۔ اس کے علاوہ دوسرے اسلامی ممالک میں اور خصوصاً ہندوستان و پاکستان کے تمام بڑے شہروں اور قصبوں میں شیخ الاسلام علامہ عثمانیؒ کی نمازِ جنازہ غائبانہ طور پر ادا کی گئی اور ایصالِ ثواب کے لئے ملک بھر کے دینی مدارس اور تنظیموں نے قرآن خوانی کا اہتمام کیا اور تعزیتی جلسوں میں زبردست خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ۔
حضرت مولانا سید حسین احمد صاحب مدنیؒ نے دارالعلوم دیوبند میں حضرت علامہ عثمانیؒ کی یاد میں تعزیتی جلسہ سے خطاب فرماتے ہوئے علامہ عثمانیؒ کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا کہ :
"شیخ الاسلام حضرت علامہ عثمانی مرحوم کی شخصیت بے مثال تھی ، علم و فضل میں آپ کا پایہ بلند تھا اور ہندوستان کے چیدہ علماء میں سے تھے ۔ ہم میں سیاسی اختلافات ضرور پیدا ہوئے مگر وہ اپنی جگہ ہیں ، علامہ مرحوم کے منتخب علم و فضل اور بلند پایہ شخصیت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا ۔ یقیناً ان کی یہ دائمی مفارقت ہم سب کے لئے باعثِ رنج و ملال ہے علامہ عثمانی مرحوم نے دارالعلوم میں تعلیم پائی حضرت شیخ الہندؒ اور بہت سے اکابر دارالعلوم سے انہیں نسبتی تعلق تھا اور علمی طور پر ان کی شخصیت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا ۔ تقریر و تحریر کا خداداد ملکہ علامہ مولانا مرحوم کا حصہ تھا اور بہت سی خوبیوں کے حامل تھے” ۔
حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب دہلویؒ نے مدرسہ امینیہ کے تعزیتی جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا :
"مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کی وفات حسرت آیات ایک سانحہ عظمیٰ اور واہیہ کبریٰ ہے مولانا مرحوم وقت کے بڑے عالم ، پاکباز محدث ، مفسر اور خوش بیان مقرر تھے "۔
حضرت علامہ سید سلیمان صاحب ندویؒ نے فرمایا :
"شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ ایسے نادرہ روزگار صاحب کمال صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں ان کے علمی کارنامے دنیا میں حیاتِ جاوداں رہیں گے ۔ زبانِ خلق نے ان کو شیخ الاسلام کہہ کر پکارا جو اسلامی سلطنت میں قاضی القضاۃ کا لقب رہا ہے ان کے علمی کمال کا اندازہ تفسیر عثمانی اور فتح الملھم سے لگایا جاسکتا ہے ۔ دیوبند کے حلقے میں مولانا شبیر احمد عثمانی کو حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒ کے علوم و معارف کا شارح اور ترجمان کہا جاتا ہے وہ ایک بڑے خطیب ، محدث ، مفسر ، متکلم اور بلند پایہ سیاستداں تھے ان کی وفات پورے عالم اسلام کے لئے عظیم سانحہ ہے "۔
حضرت مولانا عبد الماجد صاحب دریابادیؒ نے علامہ عثمانیؒ کی وفات پر اپنے اخبار "صدق ” میں تحریر فرمایا :
"استاذ العلماء شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ شارح صحیح مسلم و مفسر قرآن کا غم آج سارے عالم اسلامی کا غم ہے حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے بعد شیخ الاسلام علامہ عثمانیؒ کی ذات اب اپنے رنگ میں فرد رہ گئی تھی ۔ اپنے وقت کے زبردست متکلم ، نہایت خوش تقریر واعظ ، محدث ، مفسر ، متکلم سب ہی کچھ تھے "۔
حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب قاسمیؒ نے دارالعلوم دیوبند کے تعزیتی جلسہ میں مفصل تقریر فرمائی اور شیخ الاسلام علامہ عثمانیؒ کے علمی کمالات و فضائل بیان فرمائے ۔ مختصراً ملاحظہ فرمائیے :
"جماعت علماء میں شیخ الاسلام علامہ عثمانی مرحوم نہ صرف ایک بہترین عالم و فاضل ہی تھے بلکہ ایک صاحب الرائے مفکر بھی تھے آپ کا فہم و فراست اور فقہ نفس بے نظیر تھا ۔ آپ اُس علمی ذوق کے امین تھے جو اکابر دارالعلوم سے بطور وراثت آپ کو ملا تھا ۔ حضرت قاسم العلوم والخیرات کے مخصوص علوم پر آپ کی گہری نظر تھی اور درسوں میں ان کے علوم کی بہترین تفہیم کے ساتھ تقریر فرماتے تھے علوم میں نظر نہایت گہری اور عمیق تھی علمی لائنوں میں آپ کا درس و تدریس اور مختلف مدارس عربیہ ، مدرسہ فتحپوری دہلی ، دارالعلوم دیوبند ، جامعہ اسلامیہ ڈابھیل کے ہزار ہا طلباء کو یکے بعد دیگرے افادہ ایک امتیازی شان رکھتا تھا ، تصنیفی لائنوں میں آپ کی متعدد تصانیف اور قرآن حکیم کی تفسیر بصورتِ فوائد اور مسلم شریف کی عربی شرح یادگار زمانہ رہیں گی جو پوری دنیائے اسلام میں نہایت پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھی گئی ہے ۔ سیاسی لائن میں آپ نے تقسیمِ ملک سے پہلے اپنی مدبرانہ سیاسی قابلیت سے ریاستِ حیدرآباد کو ایسے وقت میں بعض مہلک مذہبی فتنوں سے بچانے کی سعی جمیل فرمائی جبکہ اس کے معاملات بہت زیادہ خطرے میں تھے ۔ آزادی ملک کی جدوجہد میں آپ نے کافی حصہ لیا اور آپ کی فصیح و بلیغ تقریروں سے لاکھوں باشندگان وطن آزادی وطن کی حقیقت سے آگاہ ہوئے ۔ تقسیم ملک کے بعد آپ نے پاکستان کو اپنا مستقل وطن بنالیا اور کراچی میں مقیم رہ کر پاکستان کی بہت سی دینی و علمی خدمات انجام دیں ۔ پاکستان کے اربابِ حکومت پر آپ کی علمی اور سیاسی خدمات کا خاص اثر تھا اور وہاں کی گورنمنٹ کے ہائی کمانڈ میں آپ کو عالمانہ اور حکیمانہ حیثیت سے خاص عظمت حاصل تھی ۔ آپ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے رکن اور مذہبی قانون کمیٹی کے صدر تھے بلاشبہ وہاں کی حکومت نے آپ کے ساتھ حیات اور ممات کا معاملہ کیا جو ایک قدر شناس حکومت کو اپنے ایک مخلص خیر خواہ اور ملک کے ایک ممتاز عالم دین کے ساتھ کرنا چاھئیے ۔ علامہ اولاً دارالعلوم کے ایک مایہ ناز فرزند تھے پھر اس کے قابل مدرس بنے اور آخر کار ادارہ کے صدر مہتمم ہوئے ۔ اس لئے ان کے حقوق ہم پر عائد ہوتے ہیں کہ ہم ان کے لئے دعائے مغفرت اور ایصالِ ثواب کریں ان کی وفات نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام کا ایک شدید حادثہ ہے میں خود اور تمام دارالعلوم دیوبند اس غم میں برابر شریک ہیں ۔ دارالعلوم کو تعطیل دی گئی اور ختم قرآن کرایا گیا ۔ کلمہ طیبہ کا وِرد کیا گیا اور ایک تعزیتی جلسہ بھی دارالعلوم میں کیا گیا جس میں تمام اساتذہ ، طلباء اور کارکنانِ دارالعلوم شریک ہوئے "۔( رسالہ دارالعلوم دیوبند بحوالہ انوارِ عثمانی )
(حوالہ جات : تاریخ دارالعلوم دیوبند ، جلد دوم ص : 239 تا 244 ، دارالعلوم دیوبند کی پچاس مثالی شخصیات ص : 136 ، دارالعلوم دیوبند کی صد سالہ زندگی ص : 111 ، حیاتِ عثمانیؒ ص : 55 ، تذکرہ شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ ص : 42 تا 190 ، مشاھیر علماء ھند ص : 209 تا 214 ، دارالعلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ ص : 502 تا 506 ، تذکرہ مشاھیر ھند کاروان رفتہ ص : 119 ، لالۂ وگل ص 83 ، تاریخ جامعہ اسلامیہ ڈابھیل ص : 296 ، تذکرہ محدثین ص : 269 ، ہندوستان میں عربی علوم و فنون کے ممتاز علماء ص : 121 تا 129 ، دارالعلوم دیوبند اور علم حدیث ص : 113 ، تذکرہ اکابر ص : 150 تا 152 ، علماء دیوبند کے آخری لمحات ص : 66 ٬ سو بڑے علماء ص 40 تا 53)