مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم
تعویذ دینے کو’’روحانی علاج‘‘ کا نام دینا دھوکادہی ہے، تعویذ دینا تقوی کی علامت نہیں اور نہ ان کاموں میں زیادہ منہمک ہونا چاہئے، تعویذ کرنا نہ عبادت نہ ثواب، تعویذ کو اپنا مشغلہ بنانا خلاف سنت ہے
تعویذ دینا عالم ہونے اور متقی ہونے کی علامت نہیں
دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ بس سارا دین ان تعویذ گنڈوں کے اندر منحصرہے اور جوشخص تعویذ گنڈا کرتا ہے وہ بہت بڑا عالم ہے وہ بہت بڑا نیک آدمی ہے ،متقی پرہیز گار ہے ، اسی کی تقلید کرنی چاہئے ،اس کا معتقد ہونا چاہئے ، اور جوشخص تعویذ گنڈا نہیں کرتا یا جس کو تعویذ گنڈا کرنا نہیں آتا اس کے بارے میں سمجھتے ہیں کہ اس کو دین کا علم ہی نہیں ۔بہت لوگ میری طرف رجوع کرتے ہیں کہ فلاں مقصد کیلئے تعویذدے دیجئے میں جب ان سے کہتا ہوں کہ مجھے تو تعویذ کرنا نہیں آتا تو وہ لوگ بہت حیران ہوتے ہیں ،وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ جو اتنا بڑا دارالعلوم بناہوا ہے اس میں تعویذ گنڈے ہی سکھائے جاتے ہیں اور اس میں جو درس ہوتے ہیں وہ سب تعویذ اور جھاڑ پھونک کے ہوتے ہیں لہذا جس کو جھاڑ پھونک اور تعویذ گنڈا نہیں آتا وہ یہاں اپنا وقت ضائع کررہے ہیں اس لئے جو اصل کام یہاں پر سیکھنے کا تھا وہ تو اس نے سیکھا ہی نہیں ۔
تعویذ گنڈے میں انہماک مناسب نہیں
ان لوگوں نے سارا دین تعویذ گنڈے میں سمجھ لیا ہے اور ان لوگوں کا خیال یہ ہے کہ دنیا کی کوئی غرض ایسی نہ ہو جس کا علاج کوئی تعویذ نہ ہو ،چنانچہ ان کو ہر کام کیلئے تعویذ چاہئے فلاں کام نہیں ہورہا اس کیلئے کیا وظیفہ پڑھوں ؟فلاں کام کیلئے ایک تعویذ دے دیں ،لیکن ہمارے اکابر نے اعتدال کو ملحوظ رکھا ہے کہ جس حد تک حضور اقدس نے عمل کیا ،اس حد تک ان پر عمل کریں ،یہ نہیں کہ دن رات آدمی یہی کام کرتا رہے، اور دین و دنیا کا ہر کام تعویذ گنڈے کے ذریعہ کرے ، یہ بات غلط ہے ۔اگر یہ عمل ہوتا تو پھر سرکار دو عالم کو جہاد کرنے کی کیا ضرورت تھی ،بس کافروں پر کوئی ایسی جھاڑ پھونک کرتے کہ وہ سب حضور کے قدموں میں آکر ڈھیر ہوجاتے آپ نے اس جھاڑ پھونک پر کبھی کبھی عمل بھی کیا لیکن اتنا غلو اور انہماک بھی نہیں کیا کہ ہر کام کیلئے تعویذ گنڈے استعمال کرے ۔
تعویذ کرنا نہ عبادت نہ ثواب
۔۔یاد رکھئے جھاڑ پھونک کے ذریعہ علاج جائز ہے مگر یہ عبادت نہیں ،قرآن کریم کی آیات کو اور قرآن کریم کی سورتوں کو اور اللہ تعالی کے ناموں کو اپنے کسی دنیوی مقصد کیلئے استعمال کرنا زیادہ سے زیادہ جائز ہے لیکن یہ کام عبادت نہیں اس میں ثواب نہیں جیسے آپ کو بخار آیا اور آپ نے دوا پی لی تو یہ دوا پینا جائز ہے لیکن دوا پینا عبادت نہیں بلکہ ایک مباح کام ہے ۔۔۔
تعویذ کرنے کو اپنا مشغلہ بنا لینا
لہذا اگر کسی شخص کو ساری عمر جھاڑ پھونک کا طریقہ نہ آئے ،تعویذ لکھنے کا طریقہ نہ آئے لیکن وہ براہ راست اللہ سے دعا کرے تو یقینا اس کا یہ عمل تعویذ اور جھاڑ پھونک سے بدرجہا افضل اور بہتر ہے ، لہذا ہرو قت تعویذ گنڈے میں لگے رہنا یہ عمل سنت کے مطابق نہیں ۔۔۔لیکن ہر وقت اس میں انہماک اور غلو کرنا اور اس کو اپنا مشغلہ بنالینا کسی طرح بھی درست نہیں ۔
روحانی علاج کیا ہے
اب لوگوں نے یہ تعویذ گنڈے ،یہ عملیات یہ وظیفے اور جھاڑ پھونک ان کا نام رکھ لیا ہے ’’روحانی علاج ‘‘ حالانکہ یہ بڑے مغالطے اور دھوکے میں ڈالنے والانام ہے اس لئے کہ روحانی علاج تو دراصل انسان کے اخلاق کی اصلاح کا نام تھا اس کے ظاہری اعمال کی اصلاح اور اس کے باطن کے اعمال کی اصلاح کا نام تھا ۔یہ اصل میں ’’روحانی علاج ‘‘ تھا مثلاایک شخص کے اندر تکبر ہے اب یہ تکبر کیسے زائل ؟ یا مثلا حسد پیدا ہوگیا ،یہ کیسے زائل ہو،یامثلا بغض پیدا ہوگیا وہ کیسے زائل ہو؟ حقیقت میں اس کا نام روحانی علاج ہے لیکن آج اس تعویذ گنڈے کے علاج کا نام روحانی علاج رکھ دیا ہے جو بڑے مغالطے والاعمل ہے۔
صرف تعویذ دینے سے پیر بن جانا
اور اگر کسی شخص کا تعویذ گنڈا جھاڑ پھونک اللہ تعالی کے فضل و کرم سے کامیاب ہوگیا تو اس شخص کے متقی اور پرہیز گار ہونے کی دلیل نہیں ،اور نہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ شخص دینی اعتبارسے مقتدی بن گیا ہے وہ تو اللہ تعالی نے الفاط میں تاثیر رکھ دی ہے جو شخص بھی اس کو پڑھے گا تاثیر حاصل ہوجائے گی یہ بات اس لئے بتادی کہ بعض اوقات لوگ یہ دیکھ کر کہ اس کے تعویذ بڑے کارگر ہوتے ہیں اس کی جھاڑ پھونک بڑی کامیاب ہوتی ہے اس کو ’’پیر صاحب ‘‘ بنالیتے ہیں اور اس کو اپنا مقتدی قراردیتے ہیں چاہے اس شخص کی زندگی شریعت کے احکام کے خلاف ہو چاہے اس کی زندگی سنت کے مطابق نہ ہو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی اتباع کرنے والابھی خلاف شرع امور کا ارتکاب کرتے ہیں۔
(انتخاب ازاصلاحی خطبات)