بیٹی کا مقام و مرتبہ

مولانا محمد الیاس گھمن

بیٹی دورِ قدیم و جدید کی جہالتوں کی زد میں:
دورِ قدیم کے جہلاء بچیوں کو زمیں میں زندہ دفن کر دیتے تھے اور دور حاضر کے جہلاء اس کو ماں کے پیٹ میں ہی اس کو ختم کرادیتے ہیں، بیٹیوں کی وجہ سے اسقاطِ حمل کے جرم میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے، بچی کی ولادت پر اسے اور اس کی ماں کو زندہ جلا دیتا ہے، بیٹی جیسے معصوم رشتے کی پیدائش پر اس کی ماں کو طلاق دے دیتا ہے کبھی یکے بعد دیگرے بیٹیوں کی پیدائش عورت کا جرم قرار دیتاہے۔افسوس صد افسوس! مسلم معاشرے میں مشرکانہ اور جاہلانہ ذہنیت رواج پانے لگی ہے کہ بچیوں کو اپنے لیے باعث عار سمجھا جانے لگا ہے۔
بیٹی کے بارے اہم اسلامی احکامات:
بیٹی اللہ کا انمول تحفہ ہے، اسلام ہمیں یہ حکم دیتا ہے کہ بچی کی پیدائش کو منحوس نہ سمجھا جائے بلکہ اس پر شکر ادا کرتے خوش ہونا چاہیے،اس کا اچھا اسلامی نام رکھا جائے، اس کی تربیت میں کوئی کسر نہ چھوڑی جائے، عمدہ تعلیم سے آراستہ کیا جائے، گھریلو کام کاج کا خوگر بنایا جائے، نسبت اچھی قائم کی جائے، نکاح جلدی کیا جائے، عزت و احترام اور پیار و محبت کا رشتہ ہمیشہ قائم رکھا جائیاس کی ضرورتوں کو جہاں تک ممکن ہو پورا کیا جائے۔
بیٹی اللہ کی عطا ہے:
مفہوم آیت: صرف اللہ ہی زمینوں اور آسمانوں کا مالک ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے،جس کو چاہتاہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بیٹے۔ وہ چاہے تو جڑواں جڑواں بیٹے اور بیٹیاں دے دے اور چاہے تو کچھ بھی نہ دے۔بے شک وہ ذات علم والی، قدرت والی ہے۔(سورة الشوریٰ، رقم الآیات:50،49)
بیٹی کو منحوس سمجھنا سراسر جہالت ہے:
اولاد کے تذکرے میں رب تعالیٰ نے بیٹیوں کا ذکر پہلے فرمایا۔ کیوں؟ اس لیے کہ اس وقت کے جہلاء بیٹی کو منحوس سمجھتے تھے۔ مفہوم آیت:جب ان کو بیٹی خوشخبری دی جاتی ہے تو ان کا چہرہ سیاہ پڑجاتا ہے اور ان کا دل غم سے بھر جاتا ہے۔اسے اپنے لیے برا(باعث شرمندگی)سمجھ کر لوگوں سے چھپتاپھرتا ہے اور دل ہی دل میں یہ سوچتا ہے کہ اس کو ذلت برداشت کر کے اپنے پاس رہنے دوں یا اسے زمین میں گاڑھ دوں۔ ان لوگوں نے کتنی بری باتیں از خود ہی بنا رکھی ہیں۔(سورة النحل، رقم الآیات: ،59،58)
جہلائے عرب کا رواج:
عرب کے بدو، گنواراور اجڈ جو بیٹیوں کے پیدا ہوتے ہی ان کو زمین کی تاریکیوں کے حوالے کر دیتے تھے۔ جہلائے عرب کی فرسودہ سوچ کی منظر کشی کرتے ہوئے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: جب عورت کے ہاں زچگی کا وقت قریب آتا تو زمین میں گڑھا کھودکر اسے وہاں بیٹھا دیا جاتا پھراگر لڑکی پیدا ہوتی تو اسے اس گڑھے میں پھینک دیا جاتا اور اس پر مٹی ڈال دی جاتی اور اگر لڑکا ہوتا تو اسے زندہ چھوڑ دیا جاتا۔(تفسیر القرطبی،تحت سورة التکویر)
بیٹی کو دفن کرنے کا درد ناک واقعہ:
دربار نبوت لگاہے،عرب کا ایک دیہاتی زار وقطار آنسؤوں کی برسات میں بھیگ چکا ہے، روتے روتے ہچکی بندھی ہوئی ہے:جب سے اسلام لایا ہوں اسلام کی مٹھاس کو محسوس نہیں کر پا رہا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زمانہ جاہلیت میں میرے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی میں گھر سے کہیں دور سفر پر تھا جب گھر واپس لوٹا تو وہاں وہ چھوٹے چھوٹے قدموں سے چل رہی تھی اس کی توتلی زبان اور معصومانہ شرارتیں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے گھر والی کو کہا کہ اس کو تیار کر! اس نے اسے خوبصورت لباس پہنایا میں اس کو ساتھ لے کر دور ایک جنگل میں چلا گیا۔گرمی اور لُو… وادی عرب کے تپتے صحرا نے ہمارے قدموں تک کو جھلسا کر رکھ دیا جب میں پسینے میں شرابور ہوجاتا تو میری بیٹی ننھے منے ہاتھوں سے اپنے چھوٹے سے دوپٹے سے میرا پسینہ پونچھتی۔یارسول اللہ! یا رسول اللہ!میں نے ایک جگہ گڑھا کھودا،کھدائی کرتے وقت وہ بار بار اس گڑھے کی طرف دیکھتی اور میری طرف بھی۔ وہ مجھ سے سوال کرتی تھی: ابو! یہ کس لیے گڑھا کھود رہے ہو؟یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب میں نے اس کے لیے گڑھا کھود کر تیار کر لیا اور اس کو اٹھا کر اس میں ڈالنے لگا تو وہ چلائی اس نے مجھے دُہائی دی وہ ابو ابو کرتی رہی۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کہتی رہی کہ ابو!مجھے مت دفن کرو ابو!مجھے معاف کردو۔ ابو!مجھے چھوڑ دو۔ ابو! مجھے ڈر لگتا ہے۔ ابو ابو!میں آپ کے گھر نہیں آؤں گی۔ ابو! کبھی بھی واپس نہیں لوٹوں گی۔ ابو!میں آپ پر بوجھ بن کرنہیں رہوں گی۔ ابو! میں اکیلی بالکل اکیلی رہ لوں گی۔ابو ابو ابو یہاں تک کہ میں نے اس کے سر پر بھی مٹی ڈال دی۔ آخر وقت تک وہ چلاتی رہی اپنی زندگی کی بھیک مانگتی رہی لیکن یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا پتھر دل موم نہ ہوا اور میں اس کو وہیں جنگل میں پیوند خاک کر کے گھر لوٹ آیا۔
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے الفاظ میری کانوں کی سماعتوں سے ٹکرا رہے ہیں اس کی معصوم بھولی صورت اور دلربا ادائیں میرے دل پر نقش ہوگئی ہیں۔جب کبھی اس کی باتیں یاد کرتا ہوں تو غم کی وجہ سے مجھے کوئی چیز اچھی نہیں لگتی۔ یا رسول اللہ میرا کیا بنے گا؟ادھر عرب کا دیہاتی رو رہا تھا اور ادھر فخر دو عالم رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک آنکھوں میں آنسو کے امڈ آئے موتیوں کی اس لڑی میں محبت وشفقت کے انمول خزینے چھلکنیلگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:آپ نے جو گناہ زمانہ جاہلیت میں کیے قبول اسلام نے ان کو ہمیشہ کے لیے مٹاڈالا۔
بیٹی کی پیدائش پر ایک خاتون کے اشعار:
ام حمزہ عرب کی ایک سمجھ دار اور شاعرانہ مزاج کے حامل عورت تھی، اس کو بھی یکے بعد دیگرے بیٹیاں پیدا ہوئیں تو اس کے خاوند ابو حمزہ نے اس وجہ سے گھر آنا چھوڑ دیا اس پر اس نے برجستہ اشعار کہے:
مَا لِأَبِی حَمْزَةَ لَا یَأتِیْنَا غَضْبَانَ أَلَّا نَلِدَ البَنِیْنَا
تَاللہِ مَا ذٰلِکَ فِی أَیْدِیْنَا
فَنَحْنُ کَالأَرْضِ لِغَارِسِیْنَا
نُعْطِی لَہُمْ مِثْلَ الَّذِیْ أُعْطِیْنَا
(تفسیر الشعراوی)
ترجمہ:ابو حمزہ کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ہمارے پاس نہیں آتا وہ اس لیے ناراض ہے کہ ہم بیٹوں کو جنم نہیں دیتیں اللہ کی قسم یہ ہمارے اختیار میں نہیں ہماری مثال توکاشت کار کے لیے زمین جیسی ہے سو جو بویا جائے گا وہی کاٹا جائے گا۔
بیٹی جہنم سے بچانے کے لیے ڈھال:
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو بیٹیوں کے ذریعے آزمائش میں ڈالا گیا اس نے اس پر صبر کیا تو وہ بیٹیاں قیامت کے دن جہنم سے ڈھال بن جائیں گی۔(جامع الترمذی، رقم الحدیث: 1913)
بیٹی سے محبت پر جنت:
ام المومنین عفیفہ کائنات سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مسکین عورت اپنی دو بیٹیاں اٹھائے ہوئے میرے پاس آئی تو میں نے تین کھجوریں اسے کھانے کیلئے دیں اس نے ان دونوں کو ایک ایک کھجور دے دی اور باقی ایک کھجور اپنے منہ کی طرف اٹھائی تاکہ اسے کھائے لیکن وہ بھی اس کی دونوں بیٹیوں نے کھانے کیے لیے مانگ لی۔تو اس نے اس کھجور کے، جسے وہ کھانا چاہتی تھی، دو ٹکڑے کیے اور ان دونوں بیٹوں کو دے دیے۔ مجھے اس کی یہ بات بہت اچھی لگی، پس اس نے جو کیا تھا میں نے اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ نے فرمایا:یقیناً اللہ تعالیٰ نے اس کے اس عمل کی وجہ سے اس کے لیے جنت واجب کردی یا (فرمایا) اسے جہنم کی آگ سے آزاد فرما دیا ہے۔(صحیح مسلم، رقم الحدیث:6787)
بیٹی سے حسن سلوک پر جنت:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کی بچی پیدا ہو وہ نہ تو اسے زندہ دفن نہ کرے اور نہ ہی اس کے ساتھ برا سلوک کرے اور نہ اس پر اپنے لڑکے کو ترجیح دے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا۔(سنن ابی داؤد،رقم الحدیث:5148)
تین بیٹیوں کی اچھی پرورش پر جنت:
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے تین بیٹیوں کی پرورش کی، انہیں اخلاقی و معاشرتی ادب سکھلایا،ان کی اچھی جگہ شادی کی اوربعد میں ان کے ساتھ حسنِ سلوک کیا تو اس کے لیے جنت ہے۔(سنن ابی داؤد، رقم الحدیث: 5147)
دو بیٹیوں کی اچھی پرورش پر جنت:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہوگئیں پھر ان کا اچھے گھرانیمیں نکاح کردیا …تو وہ قیامت کے دن میرے ساتھ ایسے ہوگا جیسے یہ انگلیاں۔ پھر آپ نے دونوں ہاتھو ں کی انگلیوں کو آپس میں ملا لیا۔(صحیح مسلم، رقم الحدیث:6788)
ایک بیٹی کی اچھی پرورش پر جنت:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کی تین بیٹیاں ہوں وہ ان کی پرورش کرے،انہیں رہنے کی جگہ دی، ان کی ضروریات کو پورا کیا تو اس کے لیے جنت واجب ہوجاتی ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو بیٹیوں کے متعلق سوال کیا کہ ان کی وجہ سے بھی جنت ملے گی تو آپ نے فرمایا کہ ہاں دو بیٹیوں کی وجہ سے بھی جنت واجب ہو جاتی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بیٹی کے متعلق سوال کیا کہ اس کی وجہ سے بھی جنت ملے گی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں ایک بیٹی کی وجہ سے بھی جنت واجب ہو جاتی ہے۔(المعجم الاوسط للطبرانی، رقم الحدیث:6199)
اللہ تعالیٰ ہمیں بیٹیوں سے پیار و محبت عطا فرما کر ان سے حسن سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الرحمة علی البنات والبنین۔صلی اللہ علیہ وسلم

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے