رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پانچ قیمتی نصیحتیں

متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس ذات نے ہمیں انسان بنانے کے بعد ایمان جیسی نعمت عطا فرمائی۔ اہل ایمان کی پہچان یہی ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مان کر ان کے احکامات کو مانتے اور عمل کرتے ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر موقع پر ایسی باتیں سکھلائی ہیں جن پر عمل کرنا دونوں جہانوں کی کامیابیوں کا باعث ہے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی درج ذیل حدیث مبارک ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کامیاب ہونے کی پانچ قیمتی نصیحتیں ارشاد فرمائی ہیں ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کون ہے جو مجھ سے چند نصیحتیں سیکھے تاکہ خود ان پر عمل کرے اور دوسروں تک بھی پہنچائے اور وہ بھی ان پر عمل کر سکیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!میں اس کام کے لیے تیار ہوں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور یہ پانچ نصیحتیں شمار کرائیں:
1: شریعت کی حرام کردہ چیزوں سے خود کو بچاؤ تو سب سے زیادہ عبادت گزار بندے بن جاؤ گے۔
2: اللہ کی تقسیم پر دل وجان سے راضی ہو جاؤ تو سب سے زیادہ غنا حاصل ہوجائے گا یعنی اللہ تمہیں(لوگوں کے مال و منصب سے)بے نیازی کی دولت نصیب فرمائیں گے ۔
3: اپنے ہمسائیوں کے ساتھ اچھے برتاؤ کا معاملہ کرو تو(کامل صفات والے اچھے اور سچے)مومن بن جاؤ گے۔
4: صحیح معنوں میں مسلمان تبھی کہلاؤ گے جب دوسرے مسلمان کے لیے وہی چیز پسند کرو جو اپنے لیے کرتے ہو۔
5: زیادہ(فضول باتوں پر)کھل کھلا کر ہنسنے سے بچو کیونکہ( بے فکری کی وجہ سے) زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کر دیتا ہے۔ (جامع الترمذی، رقم الحدیث:2305)
محرمات سے بچنا:
شریعت اسلامیہ میں جن کاموں سے روکا گیا ہے انہیں ”منہیات“ اور جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے انہیں ”مامورات“ کہا جاتا ہے۔ منہیات کو کرنا اور مامورات کو چھوڑنا حرام ہے۔ حدیث مبارک میں اسی حرام سے بچنے والے کو سب سے بڑا عبادت گزار قرار دیا گیا ہے۔ اس لیے عقائد اسلامیہ کو اپنانے کے بعدفرائض وواجبات کو ادا کرنا سب سے بڑی عبادت ہے۔ اور یہ اس وقت تک کامل عبادت نہیں بن سکتی جب تک گناہوں کو چھوڑ نہ دیا جائَے اور جو گناہ ہو چکے ہیں ان سے سچے دل سے توبہ نہ کر لی جائے۔ محرمات سے بچنے والے کو سب سے بڑا عبادت گزار اس لیے قرار دیا گیا ہے کہ بعض محرمات کا ارتکاب نیکیوں کے اجر وثواب کو ختم کر دیتا ہے۔ اس لیے بڑا عبادت گزار وہی ہوگا جس کی عبادات محفوظ رہیں اور عبادات اسی کی محفوظ رہیں گی جو گناہوں سے خود کو بچائے گا۔
عوام الناس کی بنیادی غلطی یہ ہوتی ہے کہ وہ فرائض و واجبات کو ادا نہیں کرتے اور نفلی عبادات میں مشغول رہتے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جو شخص فرض نماز کو چھوڑ کر نوافل میں مشغول ہو جائے، زکوٰة، عشر صدقہ الفطر اور قربانی کو چھوڑ کر رفاہی کاموں میں اپنے پیسے کو خرچ کرے، فرض روزوں کو چھوڑ کر نفلی روزوں کا اہتمام کرے، فرض حج کو چھوڑ کر نفلی عمرے ادا کرتا رہے۔ نفلی عبادات کا ثواب اپنی جگہ لیکن فرائض و واجبات کو چھوڑنے کا گناہ اپنی جگہ۔
چند حرام کام:
کفر، شرک، اسلام قبول کرنے کے بعد اسلام کو چھوڑ دینایعنی ارتداد، دین میں کمی یا بیشی کرنا یعنی الحاد و بدعت، قرآن و حدیث کی غلط اور من مانی تشریح کرنا، جھوٹ، ناحق تہمت، سود، رشوت، حسد، غیبت، چغل خوری، کسی کا ناحق مال کھانا، فحاشی و عریانی کو عام کرنا، تکبر، غرور، ریاکاری، فخر و مباہات، والدین کی نافرمانی، جھوٹی گواہی، زنا، لواطت، بدنظری، ظلم، گالیاں بکنا، کسی پر تشدد کرنا، مُردوں کو گالی دینا، احسان جتلانا، بدگمانی، بدزبانی بالخصوص اسلام کی مقتدر شخصیات کو برا بھلا کہنا، قطع رحمی کرنا، بول چال چھوڑنا، بلاوجہ جاسوسی کرنا، دھوکہ بازی، خیانت، چوری، ڈکیتی، غیر محرم مرد یا عورت سے بلاوجہ گفتگو کرنا، مرد و خواتین کا ایک دوسرے کی مشابہت اختیار کرنا، عورت کا اپنے شوہر کی نافرمان اور ناشکری ہونا، مرد کا اپنی بیوی کے مالی، جسمانی، معاشی اور معاشرتی حقوق ادا نہ کرنا، اسراف یعنی فضول خرچی، شادی بیاہ اور طرز معاشرت میں غیر اسلامی روایات اپنانا، فرائض و واجبات کو چھوڑنا بالخصوص نماز، زکوٰة،روزہ، حج، کاہن( جسے آج کی زبان میں دست شناس یا نجومی کہا جاتا ہے) کے پاس اپنی قسمت جاننے یا سنوارنے کے لیے جانا، جادو، اللہ کے علاوہ کسی اور کی قسم کھانا، جھوٹی بات پر قسم کھانا، ملاوٹ کرنا، ناپ تول میں کمی کرنا، بد عہدی کرنا، میت پر نوحہ کرنا، بین کرنا، گریبان چاک کرنا، رخسار پیٹنا، قبروں کی پامالی کرنا، بائیں ہاتھ سے کھانا پینا، بلاوجہ کھڑے ہو کر کھانا پینا، مسلمان پر اسلحہ اٹھانا، غیر مسلموں کو بلاوجہ قتل کرنا، شراب پینا، چرس پینا، افیون پینا، بھنگ پینا،کسی کو نشہ پلانا، گانا، عشقیہ غزلیں، موسیقی، فلمیں، ڈرامے دیکھنا اور سننا، مرد کا سونا استعمال کرنا، خواتین کا بے پردہ ہونا، شعائر دین کا مذاق اڑانا۔ وغیرہ
اللہ کی تقسیم پرراضی رہنا:
اللہ رب العزت نے جتنا رزق مقدر میں لکھ دیا ہے وہ ضرور مل کر رہے گا۔ اس کے لیے جائز اسباب کو اختیار کرنے کا حکم شریعت خود دیتی ہے۔ جو مل جائے اس پر شکر ادا کیا جائے کیونکہ جو چیز ملی ہے وہ محض اللہ کے فضل سے ملی ہے اور اسباب کی توفیق کا مل جانا بھی اللہ کا فضل ہے۔ مومن کی پہچان یہ ہے نعمتوں پرشکر بجا لاتاہے اورتکالیف و آزمائشوں پر صبر سے کام لیتا ہے۔ وہ کسی دوسرے سے حسد نہیں رکھتا،طمع، لالچ، حرص و ہوس سے خود کو بچاتا ہے۔ہر حال میں اللہ سے راضی رہتا ہے۔ کوئی نعمت مل جائے تو شکر اور کوئی مصیبت آجائے تو صبر کرتا ہے۔
بندہ شاکر و صابر کب بنتا ہے؟
حضرت عمرو بن شعیب اپنے دادا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: دو خصلتیں ایسی ہیں جس میں وہ پیدا ہو جائیں اللہ کریم اس کو صابر و شاکر لکھ دیتا ہے پہلی خوبی دین داری کے معاملے میں اپنے سے فائق انسان کی طرف دیکھے اور پھر اس کی اقتداء میں لگ جائے خود بھی نیکی اختیا ر کرے اور اس جیسی نیکیوں کو انجام دینے کی بھر پور کو شش کرے۔دوسری خوبی اس میں یہ ہو کہ دنیا وی امو ر میں اپنے سے کم تر انسان کو دیکھے پھر اللہ کی طر ف سے ملنے والی زیادہ نعمت کو دیکھے اس پر اللہ کا شکر اداکرے تو ایسے شخص کواللہ پاک صابر وشاکر لکھ دیں گے۔(جامع الترمذی، رقم الحدیث: 2512)
ہمسایوں کے حقوق کی پاسداری:
ادیان عالم میں اسلام وہ واحد دین ہے جس میں پڑوسیوں کے حقوق کو ادا کرنے کی سب سے زیادہ ترغیب دی گئی ہے۔ اور اسے کامل ایمان والے مومن کی صفت قرار دیا گیا ہے۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پڑوسیوں کے(حقوق) کے بارے میں میرے پاس جبریل امین اتنی بارتشریف لائے کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ ایک پڑوسی کو دوسرے پڑوسی کی میراث میں وارث(حقدار)قرار دیا جائے گا۔(صحیح البخاری،رقم الحدیث: 6014)
پڑوسیوں کے بنیادی حقوق:
حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ والد کے واسطے سے اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں پڑوسیوں کے حقوق کا پتہ ہے؟ پھر خود ہی ارشاد فرمایا: جب وہ آپ سے جانی یا مالی مدد مانگیں تو اپنی استطاعت اور اس کی ضرورت دونوں کو ملحوظ رکھ کر ان کی مدد کریں۔ اگر ضرورت کے پیش نظر وہ قرض مانگیں تو انہیں قرض دیا جائے۔جب فقر اور محتاجی کی حالت کو پہنچ جائے پھر وہ مدد نہ بھی مانگے اور قرض نہ بھی مانگے تب بھی اپنی حیثیت کے پیش نظر اس کے فقر و تنگدستی کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ اگر وہ بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت اور بیمارپرسی کی جائے۔ جب ان کے ہاں کوئی خوشی کا موقع آئے تو ان کو مبارک باد دینا۔ جب ان کے ہاں کوئی غمی کا موقع آئے تو ان کے ساتھ اظہار ہمدردی کرنا۔ جب ان کے ہاں فوتگی ہو جائے تو(بشرطِ صحتِ عقائد ) اس کے جنازے میں شرکت کی جائے۔اپنے گھر کی دیوار اس کی اجازت کے بغیر اتنی اونچی نہ کی جائے کہ اس کے گھر کی ہوا رک جائے۔ گھر میں کھانا تیار کرتے وقت پڑوسی کو تکلیف نہ دی جائے۔ اپنے لیے پھل وغیرہ خریدیں تو ان میں سے کچھ پڑوسیوں کو بھی ہدیے کے طور پر بھیج دیں۔ (شعب الایمان للبیہقی، رقم الحدیث: 9113)
مسلمان بھائیوں کا خیال:
حدیث مبارک میں صحیح معنوں میں مسلمان ہونے کے لیے اس چیز کو ضروری قرار دیا جا رہا ہے کہ بندہ جو چیز اپنے لیے پسند کرتاہے اسیچاہیے کہ اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے لیے بھی وہی چیز پسند کرے۔ چنانچہ اسی مضمون کی ایک دوسری حدیث ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک(کامل)مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہی چیز پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ (صحیح البخاری، رقم الحدیث:13)
اسلام کی تعلیمات کا مقابلہ دنیا کا کوئی دین نہیں کر سکتا۔ بات کو اتنے خوبصورت پیرائے میں بیان کر دیا ہے کہ ہر انسان کو بآسانی سمجھ میں آجائے۔ جو تمہیں پسند ہے اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرو۔ بندے کی تمام پسندیدہ چیزوں کا خلاصہ دو چیزیں ہیں:عزت اور راحت۔بعض ایسے اسباب ہیں جو انسان معاشرے میں عزت کے حصول کے لیے اختیار کرتا ہے اور بعض ایسے اسباب ہیں جو انسان راحت کے حصول کے لیے اختیار کرتا ہے۔ حدیث مبارک میں جزئی جزئی کو الگ الگ ذکر کرنے کے بجائے ایک کلی کو ذکر کر دیا گیا ہے اور معاملہ بندے کے سپرد کر دیا گیا ہے کہ بس اپنی زندگی کے ہر ہر موڑ پر دیکھتے جاؤ کہ جو تمہیں پسند ہے وہ اپنے بھائی کے لیے بھی پسند کرو۔ اگر آج کا معاشرہ اس اصول پر آجائے فساد کی جڑیں ہی اکھڑ جائیں۔
زیادہ ہنسنے سے دل مردہ:
حدیث مبارک میں بے فکری اور غفلت کی وجہ سے کھل کھلا کر ہنسنے سے منع کیا گیا ہے اور اسے مردہ دلی کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ خوش ہونے کی بات پر خوش ہونا الگ بات ہے لیکن آخرت سے غافل ہو کر، انجام سے بے فکر ہو کر قہقہے لگا کر زور زور سے ہنسنا الگ بات ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے شمائل واوصاف میں ہنسنے کا تذکرہ ان الفاظ میں ملتا ہے۔ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی اتنے زور سے(قہقہہ لگا کر)ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حلق مبارک نظر آئے۔ (صحیح البخاری،رقم الحدیث: 6092)
ایک حدیث مبارک میں مردہ دلی کے ساتھ ساتھ اس بات کا اضافہ بھی ملتا ہے زیادہ قہقہے لگانے سے چہرے کا نور چھن جاتا ہے۔ انسان کی بات بے وزن ہوجاتی ہے، لوگوں کے دلوں میں عزت ختم یا کم از کم؛ کم ہوجاتی ہے، سنجیدگی اور متانت سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ باوقار شخصیت کا نقش مٹ جاتا ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان کی معاشرے میں حیثیت کم ہو جاتی ہے۔ ہاں یہ ٹھیک ہے کہ ہنسنے کے موقع پر ہنسنا چاہیے لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ راتوں کو تنہائیوں میں بندہ اللہ کے حضور رونا بھول جائے۔اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے